سیاست میں شائستگی خواب بن گیا!

آج کل سیاست میں ایک بار پھر ہم پیچھے بلکہ بہت پیچھے دھکیل دیے گئے ہیں، اخلاقی لحاظ سے بھی، عددی لحاظ سے بھی اور میرٹ پر بھی ہمارا شمار پرلے درجے کی قوموں میں ہونے لگا ہے۔ ہم ایسی قوم بن چکے ہیں جو اپنی سیاسی گفتگو میں دلائل سے کم اور جہالت و جذبات سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ اسی لیے سیاسی استحکام کے لحاظ سے ہم 194ممالک کی فہرست میں 184ویں نمبر پر منفی 1.85سکور کے ساتھ موجود ہےں۔جبکہ ہم صرف نائیجیریا، فلسطین، مالی، لیبیا، چیک ری پبلک، صومالیہ، عراق، یمن، افغانستان اور شام سے بہتر ملک ہےں۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کی بہت سی وجوہات ہیں مگر اہم وجوہات یہ ہیں کہ یہاں سیاست میں جھوٹ، منافقت، ذاتی حملے اور بے حسی عام ہے۔ یہاں سیاست کی منڈی میں موروثیت اور سرمایہ دارانہ طاقت اور جاگیردارانہ اثر و رسوخ کا چلن عام ہے۔ یہاں سیاست کے میدان میں پیش قدمی اور ہر حال میں انتخابی کامیابی کی خواہش اور کوشش کی وجہ سے قاعدے قانون مٹی میں مل رہے ہیں۔ یہاں دیانت و امانت جیسی اخلاقی خوبیوں کی قدر گھٹ گئی ہے۔ یہاں اصول بے وقعت ہو کر رہ گئے ہیں۔ جب ”گھٹ گئے انسان بڑھ گئے سائے“ کی بات ہے تو کارکن غریب کو کوئی انسان کیوں سمجھے؟ یہ سیاسی کھیت کی کھاد ہے جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ حاصل کی کوشش ہوتی ہے۔ کم ازکم جماعت اسلامی میں ہم نے کبھی نہ دیکھا تھا کہ کارکن کی قدر و اہمیت نہ ہو۔ یہ اس کا سب سے بڑا اثاثہ تصور ہوتا تھا۔ لیکن اب خربوزوں کو دیکھ دیکھ کر مذہبی جماعتیں بھی وہی رنگ پکڑنے لگی ہیں۔ ایک صحت مند اور متحرک اور مضبوط سماج کی ساخت سے زیادہ ان کا ہدف بھی اب بلدیاتی اداروں، قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کی نشستیں حاصل کرنا رہ گیا ہے۔ ہمارے قائدین کے لیے کارکنوں کے کندھے، وہ سیڑھی ہے جس کے ذریعے وہ اقتدار تک پہنچنے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ ہم اپنے کارکنوں کی تربیت یافتہ فوج تیار کرنے کے بجائے ”مسلح فوج“ تیار کر رہے ہیں جو سیاسی میدان میں مرنے مارنے ، نیچا دکھانے اور ایک دوسرے کے ساتھ بدلحاظی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ اسی لیے یہاں یہ کہنا بجا ہو گا کہ قومی لیڈرز خدا کا خوف کھائیں، اور اپنے اپنے ورکرز کی تربیت کریں کہ شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں، اس طرح تو کبھی انڈیا پاکستان کی لفظی جنگ نہیں ہوتی جس طرح پاکستان کے اندر سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور عام عوام کے درمیان ”سرد جنگ“ جاری ہے۔ اورحد تو یہ ہے کہ اس جنگ کی زد میں سیکیورٹی ادارے بھی آرہے ہیں۔ الغرض ایک دوسرے کو گالیاں ، القابات اور نت نئے خطابات دینے کے لیے نا جانے کون کون سی غلیظ زبان استعمال کی جارہی ہے۔ آج مریم نواز کا بیان آتا ہے کہ مجھے اس گند میں نہ گھسیٹیں ۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ جتنی شدت ان کے ادوار میں رہی ہے بے نظیر کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ کبھی انہوں نے ان کی زبان میں ان کو جواب نہیں دیا اور آج کی پیپلز پارٹی کو بھی یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اُس نے کبھی ذاتی حملے نہیں کیے ، اگر کبھی کیے بھی ہیں تو اُن کا تناسب بہت کم ہے۔ اور یہ چوہدری برادران و جماعت اسلامی کو بھی کریڈٹ جاتا ہے کہ اُنہوں نے ہمیشہ ذاتی حملوں سے گریز کیا ہے۔ پھر ایم کیو ایم کا بھی جب آغاز ہوا تو یہ پڑھے لکھے کارکنوں و قائدین پر مشتمل تھی لیکن انہیں سب سے پہلا سبق جو ملا وہ” تعصب “ کا تھا۔ پھر جو کچھ اس جماعت کے ہاتھوں ہوا وہ سب کو علم ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ دنیا جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے ہم اسی رفتار سے پستی کی طرف جا رہے ہیں، آج کی سیاست کو ہی دیکھ لیں ن لیگ، تحریک انصاف کے کارکنان ایک دوسرے کو بڑھ چڑھ کر گالیاں دینے، ذاتیات پر حملے کرنے اور اشتعال انگیزی کی سیاست کو پروان چڑھانے میں پیش پیش ہےں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ کوئی بھی یہ بات سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہے کہ ہم مزید پسماندگی کی طرف جا رہے ہیں۔ اور یہ جو ہم جمہوریت جمہوریت کی گردان کرتے رہتے ہیں دنیا کی نظر میں یہ اپنے آپ میں ڈکٹیٹر شپ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اور یہ سلسلہ آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے ہے۔ اور ہمیں پستی میں جانے میں ایک دو دہائیاں نہیں بلکہ پور 7دہائیاں لگی ہیں۔ جیسے 50کی دہائی میں بھی ہمارے سیاستدان ایسی ہی زبان استعمال کرتے تھے جیسے کراچی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نوابزادہ لیاقت علی خان نے وزیرِاعظم حسین شہید سہروردی کے بارے میں کہا تھا کہ ”بھارت نے یہ ”جانور“ہم پر چھوڑ دیا ہے“۔پھرنواب صاحب ایک اور جلسے سے خطاب کرتے ہیں کہ ”جس نے بھی عوامی لیگ کی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی کوشش کی اس کا سر توڑ دوں گا“۔ پھر جنرل ایوب خان اور یحییٰ خان کے دورِ حکمرانی نے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصانات پہنچائے حتیٰ کہ وطنِ عزیز دولخت ہوگیا، انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے بارے میں جو زبان استعمال کی وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ البتہ پاکستانی سیاست کے سحر انگیز اور مقبول ترین رہنما ذوالفقار علی بھٹو کے طرزِ سیاست اور طرزِ خطابت کی تفصیل میں جاو¿ں تو ایک دفتر مرتب ہوجائے۔ بھٹو صاحب میں ذہانت و فطانت کے ساتھ حسِّ مزاح بھی تھی۔ اس دور میں آج کی طرح اسکرینیں نہیں تھیں مگر جلسے جلوس اور محفلوں میں ان کے جملے ”پر لگا کر“ اڑتے تھے۔اس وقت کے صوبہ سرحد کے سابق وزیرِاعلیٰ خان عبدالقیوم خان کو ایک بار جلسے میں ڈبل بیرل خان کی پھبتی کسی جو ساری زندگی ان کے نام کے ساتھ جڑی رہی۔ دلچسپ بات دیکھیں کہ بعد میں خان صاحب بھٹو صاحب کے اقتدار میں آنے کے بعد ان کے وزیرِاعلیٰ بنے۔بھٹو صاحب اقتدار سے محروم ہوئے تو ایئر مارشل اصغر خان نے ان کے خلاف تحریک چلائی۔ بھٹو صاحب رہا ہوئے اور ایئر مارشل مخالف کیمپ میں گئے تو ایئر مارشل کو آلو خان کے نام سے خطاب کرتے جس سے مجمع لوٹ پوٹ ہوجاتا۔ الغرض ان کے کارکنوں کے جذبات بھٹو کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ کی لہروں کے ساتھ حرکت کرتے تھے۔ آج سے 54برس قبل تعلیم اتنی عام نہیں تھی جیسی آج ہے۔ بھٹو کے شیدائیوں کی کثیر تعداد نیم خواندہ مزدوروں اور کسانوں اور عام آدمیوں پر مشتمل تھی۔ پیپلز پارٹی کی اس دور کی سیاست نے سماجی ڈھانچے میں بڑی خوفناک دراڑیں ڈال دی تھیں۔ مخالفین کی توہین و تذلیل اور تمسخر اور ایذا بھٹو کے مزاج میں شامل تھا اور کارکنوں کو بھی انہوں نے یہی سبق سکھایا تھا۔ نعروں کی دھوم ہوئی۔ مغرب کی اعلیٰ جامعات سے بڑی بڑی ڈگریاں لینے کے باوجود جناب بھٹو کی فکر جمہوری سے زیادہ جاگیردارانہ تھی۔ ان کے عہد میں جمہوری قدروں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔ پھر 90 کی دہائی میں بھٹوز اور شریفوں کے درمیاں سیاسی جنگ میں دونوں جانب سے ایسے ایسے زہریلے جملے آتے تھے کہ آج ضرب المثل ہیں۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کا، زرداری کا ”پیٹ پھاڑ کے پیسے نکلوانا“ ہمارے کپتان کی ہر تقریر میں ٹیپ کا بند ہوتا ہے۔ میاں نواز شریف کی وہ تقریر مجھے آج بھی یاد ہے جب اسلام آباد میں بھارتی وزیرِاعظم راجیو گاندھی سے وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو نے ہاتھ ملایا تو میاں صاحب نے کہا تھا کہ اس ناپاک ہاتھ سے میں کبھی ہاتھ نہیں ملاو¿ں گا۔ حال ہی میں بلاول کے میاں صاحب سے ہاتھ ملاتے ہوئے خیال آیا کہ سیاست کتنی بے رحم اور سفاک ہوتی ہے۔ بلاول کو شاید یہ بھی یاد نہ ہو کہ میاں صاحب نے ان کی والدہ اور نانی کے پوسٹر ہیلی کاپٹر سے شہر لاہور میں گرا کر ایک ایسی روایت قائم کی تھی جس کی مثال نہیں ملتی۔یعنی 1986 سے لے کر 1999تک نفرتوں کی انتہا کی سیاست تھی،اس دوران نواز شریف اور بینظیر کے درمیان ٹھنی رہی، سیاسی اختلافات بد ترین دشمنی کی حد بڑھ گئے اور دونوں نے دودو بار اسی شاخ کو کاٹا جس پراپنا بھی آشیانہ تھا۔آج ایک صاحب پیپلز پارٹی کے اہم لیڈروں میں شمار ہوتے ہیں ان دنوں نواز شریف کی ناک کا بال تھے انہوں نے بینظیر بھٹو کی نہایت غیر مہذب تصاویر جہازوں کے ذریعے بکھیرنے کا سلسلہ شروع کیا،یہ اختراع جس کے بھی ذہن رسا کی پیداوار تھی اجازت ن لیگ کی قیادت ہی نے دی تھی۔ بہرحال ایک دوسرے کی دودو بار حکومت تڑوانے کے بعدہوش کے ناخن لئے اور میثاق جمہوریت پر اتفاق کیا۔ان کے مقابل مشرف اور پھر ق لیگ تھی مگر جب دونوں پھر مد مقابل ہوئے تو پھر ناقابل برداشت رویے سامنے آنے لگے۔اس دوران تحریک انصاف بھی وارد ہوگئی جو سوشل میڈیا ایکسپرٹ جماعت ہے، جسے ٹرینڈ قائم کرنے آتے ہیں، جسے کسی بھی ایشو کو ہائپ دینا آتی ہے، لیکن اس سے نقصان کس کا ہو رہا ہے ؟ اس ملک کا! قصہ مختصر کہ میں صحافت اور سیاست کے ایک طالب علم کی حیثیت سے برسہا برس سے جلسے جلوسوں میں شریک ہوتا رہا ہوں۔ عمران خان سے پہلے پیپلز پارٹی کے بانی بھی گھنٹوں خطاب کرتے تھے، عوام کو ہنسانے، رلانے اور اپنے ساتھ بہا لے جانے کا جو فن بھٹو صاحب میں تھا عمران خان ابھی وہاں تک نہیں پہنچے ہیں۔ہم نے وہ دور بھی دیکھا جب ضیاءکی آمریت تھی اور ہم قلعہ بند تھے۔ پھر ہم نے سیاست میں وہ سیاہ دور بھی دیکھا جب اقتدار کے لیے ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا تھا۔ لہٰذاسوال یہ ہے کہ یہ چیزیں آخر کب تک چلیں گی؟ ہمارے قائدین کو سوچنا چاہیے کہ پاکستان پہلے ہی دنیا سے کوسوں پیچھے ہے۔ اس لیے خاص طور پر ن لیگ اور تحریک انصاف کے قائدین پر ایک بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی سیاست کو گروہی سیاست میں تبدیل نہ کریں۔ سب سے پہلے پاکستان پھر کوئی سیاسی جماعت اور پھر کوئی اور قومی لیڈر ۔ لہٰذاہمیں ان قائدین کی طرف سے پہلا سبق یہی ملنا چاہیے کہ شائستگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے چاہے تلوار آپ کی گردن کے قریب ہی کیوں رکھ دی جائے!