ن لیگ کیلئے زرداری اپنی سیاست کیوں برباد کرے؟

26مارچ کا لانگ مارچ ملتوی ہوگیا اورارباب اختیار نے 26تاریخ ہی کو مریم نواز کو بھی کسی پرانے کیس میں طلب کر لیا ہے، سیاست اسی کھیل ہی کو تو کہتے ہیں کہ سامان سو برس کاہے پل کی خبر نہیں 16مارچ تک کسے علم تھا کہ پی ڈی ایم کا آخری راﺅنڈ کب اور کس کے حق میں ہوگا، لیکن لگتا ہے کہ پی ڈی ایم کا سانحہ ارتحال وقت سے پہلے ہی ہوگیا، مولانا فضل الرحمن نے زبانِ حال سے پی ڈی ایم کے خاتمے کااعلان کردیا۔ خیال یہ بھی تھاکہ پی ڈی ایم لڑتے ہوئے جان دے دے گی۔ ہار ہوگی تو ’شہادت‘ کا تمغہ سینے پر سجے گا۔ جاتے جاتے ”شکستِ فاتحانہ“ جیسی کوئی اصطلاح چھوڑ جائے گی یا شعری روایت کو ”مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا“ جیسا کوئی مصرع ہی دے جائے گی کہ اہلِ فکر پڑھتے اور سر دھنتے رہیں۔لیکن ایسا کچھ نہ ہوا! اور راقم نے تو ویسے ہی بار ہا مرتبہ یہ کہا تھا کہ ن لیگ زرداری کی سیاست کو نہیں پہنچ سکتی۔ کیوں کہ خود زرداری کو بھی علم نہیں ہوتا کہ اُن کے ذہن میں کیا چل رہا ہے اور آنے والے دنوںمیں وہ کس قسم کا پتہ کھیل سکتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ ضرور علم ہوتا ہے کہ وہ کب اور کس کو اُس کی اوقات دکھا کر اپنے مطلب کی سیاست میں داخل کر لیں گے! خیر ابھی گزشتہ روز بھی یہی ہوا جب پی ڈیم ایم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکا گیا۔ سابق صدر آصف علی زرداری نے اپنی تقریر کے دوران استعفے دینے کے ایشو کو نواز شریف کی وطن واپسی سے مشروط کر دیا تو اجلاس میں سناٹا چھا گیا اور انہوں نے نواز شریف کو مخاطب کر کے کہا ”میاں صاحب پلیز واپس آ جائیں“ اگر اس تحریک کو کامیاب کروانا ہے تو ہم سب کو جیل جانا پڑے گا۔ میں نے پہلے بھی 14 سال تک جیل کاٹی، میں اسٹیبلشمنٹ سے نہیں ڈرتا؛ تاہم اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جدوجہد ذاتی عناد کے بجائے جمہوری اداروں کے استحکام کے لیے ہونا چاہئے، اگر جنگ کے لیے تیار ہیں تو لانگ مارچ ہو یا عدم اعتماد کا معاملہ آپ کو وطن واپس آنا ہو گا“۔ آصف علی زرداری نے مزید کہا ”میاں صاحب آپ پنجاب کی نمائندگی کرتے ہیں، میں جنگ کے لیے تیار ہوں مگر میرا ڈومیسائل مختلف ہے، میں نے 18ویں آئینی ترمیم اور این ایف سی ایوارڈ منظور کیا، جس کی مجھے اور میری پارٹی کو سزا دی گئی، ہم اپنی آخری سانس تک جدوجہد کے لیے تیار ہیں، آپ اسحاق ڈار کو لے کر وطن واپس آئیں، ہم آپ کے پاس اپنے استعفے جمع کروا دیں گے، اسحاق ڈار تو سینیٹ کا ووٹ ڈالنے بھی نہیں آئے۔ اسمبلیوں کو چھوڑنا عمران خان کو مضبوط کرنے کے مترادف ہے، ایسے فیصلے نہ کیے جائیں جس سے ہمارے را ستے جدا ہو جائیں“۔ آصف رزداری کی اس دھواں دھار تقریر کے بعد مریم نواز نے مائیک سنبھالا اور کہا©©”آصف زرداری صاحب! میرے والد محترم کی جان کو خطرہ ہے، وہ وطن واپس کیسے آئیں؟ آپ گارنٹی دیں میرے والد کی جان کو پاکستان میں خطرہ نہیں ہو گا، میں اپنی مرضی سے یہاں ہوں، جیسے آپ ویڈیو لنک پر موجود ہیں ویسے ہی میاں صاحب بھی ویڈیو لنک پر موجود ہیں، نیب کی تحویل میں میاں صاحب کی زندگی کو خطرہ ہے، میرے والد کو جیل میں 2 ہارٹ اٹیک ہوئے“۔پی ڈی ایم کی 2 بڑی جماعتوں کے رہنماﺅں کی اس گرما گرم گفتگو کے بعد دوسری جماعتوں کے پاس کہنے کو کچھ خاص بچا نہیں تھا۔ اس لیے 26مارچ کے لانگ مارچ کو وہیں ملتوی کر دیا گیا اور تمام جماعتیں اپنے اپنے گھروں کو روانہ ہوگئیں! لہٰذااب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی نے سکرپٹڈ رول ادا کیا یا موقع کی مناسب سے اس نے پینترا بدلتے ہوئے پی ڈی ایم سے مستقل جان چھڑا لی۔ اور پھر دوسرا سوال یہ ہے کہ پیپلزپارٹی ن لیگ یا کسی دوسری جماعت کے لیے کیوں اپنے آپ کو قربان کرتی؟ کیوں وہ ان جماعتوں کے لیے سندھ حکومت کو چھوڑتی جن کے پاس کوئی اقتدار نہیں ہے۔ اور پھر ماضی کی سیاست کو دیکھیں تو کب ن لیگ اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کی خیر خواہ رہی ہیں؟ راقم نے گزشتہ ماہ بھی اسی حوالے سے ایک کالم ”پیپلز پارٹی اور ن لیگ میں کبھی اعتماد کا رشتہ نہ رہا!“ کے عنوان سے لکھا تھا، اُس کالم کے ایک پیراگراف کے مطابق میں نے لکھا تھا کہ ”الغرض پاکستان کی سیاست میں پیپلز پارٹی نے ن لیگ کے ساتھ اور نہ ہی ن لیگ نے پیپلزپارٹی کے ساتھ کبھی وفا کی ہے، دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد ہی نہیں ہے یا دونوں کا دامن ایک دوسرے کے حوالے سے داغدار ہے، مثلاً بینظیر بھٹو 2008میں این آر او کے بعد آئیں، تو انھوں نے اپنے ساتھ نوازشریف کی واپسی کی شرط رکھی، نواز شریف نے اُن کا بھرم توڑا، جب زرداری صدربنے تونواز شریف کالا کوٹ پہن کر زرداری کے خلاف سپریم کورٹ پہنچ گئے، پھر وہ ایک دوسرے پر اعتماد کیسے کریں؟ کیوں رسک لیں کہ ان کے لیے سندھ کا اپنا 12 سالہ اقتدار چھوڑ دیں۔“ پس یہ ثابت ہوا کہ پی ڈی ایم میں ان دونوں جماعتوں کا اتحاد ملکی مفاد کی خاطر نہیں بلکہ ایک دوسرے کو پچھاڑنے کی خاطر تھا، ورنہ تو تاریخ گواہ ہے کہ ن لیگ نے ہمیشہ پیپلزپارٹی کے ساتھ منفی سیاست کی۔ اور اس منفی سیاست کا آغاز اگر ہم محترمہ کی ان تصاویر سے کریں جو ن لیگ نے دانستہ تو پر لاہور میں ہیلی کاپٹر کے ذریعے پھنکوائی تھیں تواس میں کوئی مذائقہ نہیں ہوگا۔ پھر ن لیگ نے محترمہ بینظیر پر مقدمات درج کرائے، بی بی شہید کوغدار اور مختلف القابات سے پکارتے رہے۔زرداری کو مسٹر 10 پرسنٹ کا خطاب نواز شریف نے ہی دیا تھا ،آصف زرداری کو 11 سال جیل میںن لیگ ہی نے ہی رکھا۔ پھر آصف علی زرداری کی جیل میں زبان کاٹنے کے واقعہ سے کون واقف نہیں، یہ آصف علی زرداری کی زندگی کا جیل میں تیسرا دور ہے۔یعنی آصف علی زرداری کو سب سے پہلے 1990 میں ایک برطانوی تاجر مرتضٰی بخاری کی ٹانگ پر بم باندھ کر 8 لاکھ ڈالر لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ اور بعد میں صدر غلام اسحاق کے کہنے پر رہا کر دیا گیا۔ اس دوران آصف علی زرداری 2 سال 3 ماہ اور 6 دن جیل میں رہے۔ 10 اکتوبر 1990 سے لے کر 6 فروری 1993 تک جاری رہنے والی اس قید کے دوران ہی زبان کٹنے کا واقعہ پیش آیا۔ اور ایک تصویر بھی سامنے آئی۔ جب زرداری صاحب جیل میں تھے تو اس وقت نوازشریف صاحب اقتدار میں تھے۔ کرسی کی طاقت میں وہ اپنے سیاسی مخالفین کا حشر نشر کر رہے تھے۔ اس سیاسی انتقام کا نشانہ آصف علی زرداری بھی بن رہے تھے۔ لیکن جیل میں بھی آصف علی زرداری کا سیاسی ذہن بھرپور کام کر رہا تھا۔ یہاں انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو دفاعی پوزیشن پر لانے کے لیے ایک تگڑا داو¿و کھیلا۔ جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئے۔ پھر سیف الرحمن کو کون نہیں جانتا جو اب تاریخ کے اوراق میں گم ہو چکے ہیں لیکن ایک وقت تھا جب پورے ملک میں ان کا طوطی بولتا تھا، میاں نواز شریف کے پرانے دوست اور قطر کے شاہی خاندان کے مشیر تھے، یہ نواز شریف کے پہلے دور میں پاکستان آئے، ریڈکو کے نام سے کمپنی بنائی‘ حکومت سے ٹھیکے لیے اور دنوں مہینوں میں ارب پتی ہو گئے اور یہ میاں نواز شریف کی دوسری حکومت میں سینیٹر بن گئے۔ آصف علی زرداری نے پیپلزپارٹی کے دوسرے دور میں رحمن ملک کے ذریعے میاں نواز شریف کے والد میاں شریف کو ان کے دفتر سے کرسی سمیت اٹھوایا تھا، میاں نواز شریف دوسری بار وزیراعظم بنے تو یہ بھٹو خاندان سے اس ہزیمت کا بدلا لینا چاہتے تھے لیکن ن لیگ کا کوئی لیڈر انتقام کی اس سیاست میں نواز شریف کا ساتھ دینے کے لیے تیار نہیں تھا،یہ ایک نازک مسئلہ تھا اور اس نازک مسئلے میں سیف الرحمن نے اپنی خدمات پیش کر دیں یوں میاں نواز شریف نے سیف الرحمن کو احتساب بیورو کا چیئرمین بنا دیا اور یہ آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کو گرفتار کرنے پر تیار ہو گئے‘ پولیس میں سے یہ سروس رانا مقبول نے پیش کر دی۔ قصہ مختصر سیف الرحمن نے ”کمال“ کر دیا‘ احتساب کے نام پر آصف علی زرداری اور بے نظیر بھٹو کے خلاف ایس جی ایس اور کوٹیکنا ‘ اے آر وائی گولڈ کے مالکان کے ساتھ مل کر سونے کی اسمگلنگ، ارسس ٹریکٹرز کی خریداری میں ڈیڑھ لاکھ روپے فی ٹریکٹر کمیشن اور آمدنی سے زائد اثاثوں کے ریفرنس بھی دائر کر دیے ‘ آپ نے سیف الرحمن کی جسٹس قیوم سے ٹیلی فونک گفتگو سنی ہو گی۔اس میں سیف الرحمن نے جسٹس قیوم کو فون کر کے بے نظیر بھٹو کے خلاف جلد سے جلد فیصلے کا ”حکم“ جاری کیا تھا، کرپشن کے یہ سارے مقدمے چل رہے تھے‘ آصف علی زرداری جیل میں بھی تھے لیکن اس زمانے میں حکومت کے خوفناک دباو¿ کے باوجود کوئی جج بھٹو خاندان کے خلاف فیصلہ کرنے کے لیے تیار نہیں تھا‘ کیوں؟ کیوں کہ پوری عدلیہ جانتی تھی یہ مقدمے سیاسی ہیں اور بھٹو خاندان کبھی نہ کبھی ان مقدموں سے نکل آئے گا چنانچہ عدلیہ میاں نواز شریف کے لیے ملک کی سب سے بڑی پارٹی کو ناراض کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔پھر انسپکٹر نوید سعید گجرکا نام کسے یاد نہیں ہے؟ جب ہر سندھی پولیس افسر نے زرداری پر تشدد کرنے سے ہچکچاہٹ محسوس کی تو ن لیگ نے پنجاب سے نوید سعید گجر کو بلایا ، جس نے آکر زرداری پر فزیکل ٹارچر کیا۔ لہٰذازرداری بھی آخر کا وڈیرہ روایات سے تعلق رکھتے ہیں، اس لیے وہ یہ سب کیسے بھول سکتے ہیں؟ ہاں اگر اس کے علاوہ کوئی ن لیگ کے پیپلزپارٹی پر احسانات ہیں تو وہ ضرور گنوا دیے جائیں کیوں کہ تاریخ اس حوالے سے خاموش ہے، اس لیے میری ناقص رائے میں کوئی تو وجہ درکار ہوگی کہ زرداری ن لیگ کے لیے اپنی سیاست کو قربان کریں یا فی الوقت سندھ حکومت کو ختم کریں اگر ایسا نہیں ہے تو پھر خاموشی سے تحریک انصاف کو اپنی مدت پوری کرنے دیں تاکہ وہ عوامی ریلیف کا کوئی بہتر کام کرسکیںاور عوام کو بہتر ماحول فراہم کرسکیں!