صدف نعیم ، صحافتی ذمہ داریاں اور بے حسی!

ہم نے سیاحوں کے لیے اس ملک کو جنت کیا بنانا، یہ ملک اپنوں کے لیے ہی جہنم بنتا جا رہا ہے، ارشد شریف کے قتل کے بعد بہت سے صحافی اس ملک کو چھوڑ کر جا رہے ہیں، جن میں سے کچھ چلے بھی گئے ہیں ، کچھ کو دھمکیاں مل رہی ہیں اور کچھ ہٹ لسٹ پر ہیں۔ جبکہ حادثات بھی ان کا ہی مقدر بنتے جا رہے ہیں، جیسے گزشتہ روز تحریک انصاف کے لانگ مارچ کے دوران خاتون رپورٹر صدف نعیم خان صاحب کے کنٹینر کے نیچے کچل کر جاں بحق ہوگئیں!پھر تازہ خبریں آنے تک گوجرانوالہ کی تحصیل کامونکی میں لانگ مارچ کی کوریج کے لیے آنے والے نیوز چینلز کے رپورٹرز اور 2 کیمرہ مین پر پولیس کی جانب سے تشدداہوا ہے، پھر گزشتہ پانچ سالوں میں سو سے زائد صحافیوں کا قتل ہوا ہے لیکن مجال ہے کسی کی رپورٹ منظر عام پر آئی ہو یا قاتلوں کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہو۔ خیر اس بابت یہ چھوڑیں پہلے گزشتہ روز جاں بحق ہونے والی رپورٹر کی ہی داستان سن لیں کہ صدف نعیم شہید گزشتہ روز پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ کی نذر ہوگئی تھیں،یہ واقعہ سادہوکی کے قریب پیش آیا۔اُن کی شہادت سے پہلے مبینہ طور اُنہیں 3ماہ سے تنخواہ نہ ملی تھی،لیکن کیسی بات ہے کہ موت کے بعد اُنہیں ہم نے مالا مال کر دیا! جی ہاں! وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، صحافتی تنظیموں اور مختلف اداروں کی طرف سے ایک کروڑ روپے سے زیادہ کی امداد دینے کا اعلان کیا ہے۔ مطلب !انسان تو سارے ہی اچھے ہیں مگر مرناپڑتا ہے! حد تو یہ ہے کہ آپ کسی بھی صحافی سے اُس کے گھر کے احوال پوچھ لیں ، بمشکل چولہا چل رہا ہوگا۔ سچ جانیں کہ پاکستانی صحافت اور نجی چینلز انتظامیہ جو کئی کئی مہینوں کی تنخواہ نہیں دیتے،یہ حال چھوٹے صحافتی اداروں کا نہیں بلکہ بڑے صحافتی اداروں کا زیادہ ہے، جن کے مالکان کی جیبیں تو بھری پڑی ہیں مگر وہ اپنے ملازمین کا اُس طرح سے خیال نہیں رکھتے جس طرح ایک ورکر کا رکھا جاتا ہے۔ یقین مانیں ! جو صحافی رات دن مزدوروں کی طرح استعمال ہوتے ہیں ، مجال ہے اُنہیں وقت پر تنخواہ مل جائے، کئی ملازمین تو ایک سے زائد نوکریاں کر رہے ہیں کہ شاید اُن کے حالات ٹھیک ہوجائیں۔ حد تو یہ ہے کہ وہ اپنا حال کس کے آگے رکھیں؟ صحافی خاتون صدف نعیم جس چینل میں کام کرتی تھیں وہاں وقت پر تنخواہ تو اور بات ہے تنخواہ مل جانا ہی غنیمت تھی۔ خیر یہ باتیں تو اس وقت بے معنی سے لگتی ہیں ، لیکن اگر صدف نعیم کے بارے میں بات کریں تو صدف نعیم نے 2009 میں نجی ٹی وی میں شمولیت اختیار کی تھیں۔ وہ شادی شدہ تھیں اور انھوں نے پسماندگان میں ایک بیٹا اور ایک بیٹی چھوڑی ہے۔ صدف کے ساتھ کام کرنے والے میڈیا ورکرز کے مطابق وہ ایک انتہائی محنتی اور پروفیشنل صحافی تھیں جو کسی بھی قسم کی مشکل کو اپنے کام کے آڑے نہیں آنے دیتی تھیں۔اپنے چینل کے لیے وہ عموماً سیاسی جماعتوں اور سیاسی معاملات کی کوریج کرتی تھیں اور پنجاب اسمبلی کی کارروائی بھی باقاعدگی سے کور کرتی تھیں۔ جب عمران خان کے انٹرویو کے غرض سے چند رپورٹرز کو کنٹینر پر بلایا گیا تو ایک پی ٹی آئی رہنما نے صدف کا ہاتھ پکڑ کر انھیں بھی کنٹینر پر بلا لیا، اس بات سے قطع نظر کہ ان کا نام رپورٹرز کی اُس لسٹ میں موجود نہیں تھا جنھیں اس روز عمران خان کے انٹرویو کرنے تھے۔بعد ازاں اُس پی ٹی آئی رہنما نے مجھے بتایا کہ صدف چونکہ ایک انتہائی محنتی رپورٹر ہے اس لیے انھیں اچھا نہیں لگا کہ وہ پیدل چلتی رہیں، اسی لیے انھوں نے صدف کو لسٹ میں نام نہ ہونے کے باوجود کنٹینر پر بلا لیا۔وہ عمران خان کا انٹرویو کر کے ”ریٹنگ“ لینا چاہ رہی تھیں، کیوں کہ اُنہیں چینل انتظامیہ کی طرف سے دباﺅ بھی تھا اور وقت کی ضرورت بھی۔ اور رپورٹرز کی خواہش بھی یہی ہوتی ہے کہ وہ بڑے لوگوں کا انٹرویو کرکے جلد سے جلد ٹرینڈ بنائیں اور صدف کی بھی یہی خواہش تھی۔ خیر اُن کے ساتھی رپورٹرز اُن کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ چند دن سے مالی حالات کے حوالے سے خاصی پریشان بھی تھیں۔ اُن کی ایک ساتھی رپورٹر کہتی ہیں کہ جب صدف کے چہرے پریشانی کے آثار دیکھے تو میں نے دریافت کیا کہ ’سب خیر تو ہے؟‘ صدف نے جواب دیا ’ہاں ٹھیک ہوں بس۔‘’ابھی تو لانگ مارچ چل رہا ہے، بس جیسے ہی یہ ختم ہو گا میں بریک پر چلی جاو¿ں گی‘۔ ساتھی رپورٹر نے دوبارہ دریافت کیاتو صدف نے کہا ’میں بہت زیادہ تھک چکی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ کچھ عرصے کے لیے صحافت چھوڑ دوں۔‘ یہ جواب سب کے لیے حیران کن تھا، اُس کی وجہ شاید یہ بھی تھی کہ وہ اس شعبہ سے ہی ”فیڈاپ“ ہو چکی تھی۔ نہ معاشی حالات ٹھیک ہو رہے ہیں اور نہ ہی ذہنی سکون رہا ہے۔ یہ باتیں میرے لیے اتنی حیران کن اس لیے نہیں ہیں، چونکہ میں نے بھی کچھ عرصہ ایک بڑے صحافتی ادارے میں نوکری کی ہے، فیملی بیک گراﺅنڈ کی وجہ سے خدا کا شکر ہے کہ مجھے کبھی معاشی مسائل کا سامنا نہیں رہا۔ لیکن دوست صحافیوں کے حالات کو دیکھتے ہوئے مجھے شروع سے ہی سخت مایوسی رہی ہے۔ میں ایسا بھی نہیں کہتا کہ ہمارے صحافی بھائی ”لفافے“ نہیں لیتے۔ لیکن اُن کی تعداد اتنی زیادہ نہیں ہے جتنی سمجھی جاتی ہے۔ اور ویسے بھی ہمارے ہاں تو یہ بات اب مذاق بن چکی ہے کہ ہم صحافیوں کو ”لفافہ“ کہتے ہوئے نہیں تھکتے! مگر میری نظر میں 95فیصد صحافی لفافے یعنی کرپشن جیسی بیماری کے نزدیک بھی نہیں جاتے ، اس کی دو وجوہات ہیں، ایک تو اصل صحافی بہت حساس ہوتا ہے، اور دوسرا وہ انا پرست بھی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے وہ عمومی طور پر رشوت قبول نہیں کرتا ۔ اور چھوٹے صحافتی اداروں میں تو ویسے ہی ان صحافیوں کی حالت غیر ہوتی ہے، یعنی مالی حالت بگڑی ہی رہتی ہے۔ نہ تنخواہ ملتی ہے اور نہ اُنہیں کہیں سے ”لفافہ“ نصیب ہوتا ہے۔ تبھی تو صدف نعیم جیسی لڑکیاں 15، 20سال بھی صحافت میں گزارنے کے بعد پریشانی کا شکار ہی رہتی ہیں۔ حالانکہ ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ محنت نہیں کرتیں ، آپ صدف کو ہی دیکھ لیتے ، اُن کے ساتھ رپورٹرز کے بقول اُنہیں ہمیشہ فیلڈ رپورٹنگ میں دیکھا گیا، کہ اگر صبح چھ بجے کا کوئی ایونٹ ہے تو صدف تب بھی وہ وہاں کوریج کے لیے موجود ہوتی تھی اور اگر رات 12 بجے کا تو تب بھی۔ اتنی محنت کرنے کے باوجود اُسے ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ اگر وہ چند روز کے لیے چھٹی پر چلی جائیں تو کہیں بریک لینے کے باعث انھیں دوبارہ نوکری حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔بقول شاعر دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے حد تو یہ ہے کہ نجی شعبہ میں الیکٹرانک میڈیا کے قیام کو دو دہائیاں گزرنے کو ہیں اور تاحال ملک میں الیکٹرانک میڈیا کا کوئی سروس سٹرکچر یا قانون نہیں، پرنٹ میڈیا کا قانون موجود ہے مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہورہا، حکومت ویج بورڈ کی بروقت تشکیل کرتی ہے نہ ویج ایوارڈ پر عملدرآمد کے لئے عدالتی ٹربیونل آئی ٹی این ای عمل کراسکا۔ پاکستان میں میڈیا مالکان کو بیک وقت اخبار اور ٹی وی چینلز کی ملکیت کا قانونی حق اور تحفظ دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں پانچ چھ بڑے گروپوں نے مارکیٹ میں گٹھ جوڑ اور اجارہ داری قائم کرکے مصنوعی بحران پیدا کئے رکھے اور کارکنوں کی برطرفیوں، تنخواہوں کی عدم ادائیگی اور کٹوتیوں کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔صحافیوں کے تحفظ سے متعلق قانون ہے نہ صحافتی اداروں میں حفاظتی تربیت کا انتظام ہے۔ بہرکیف اللہ اُن کی اگلی منزلیں آسان فرمائے ۔ اور اس گھمبیر صورت حال میں جب صحافتی برداری مشکلات کا شکار ہے، ارشد شریف جیسے صحافیوں کو مارا جا رہا ہے، کئی صحافی ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں اور جو رہ گئے ہیں وہ کسپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں، ایسے میں حکومت مداخلت کرے اور نشریاتی اداروں کے مسائل سنے اور انہیں حل کرے ۔اس وقت صحافتی اداروں میں اصطرا ب کی کیفیت ہے ،جبکہ ہزاروں طلبہ وطالبات صحافت کو بطور پیشہ اختیار کرنے کیلئے تعلیم حاصل کررہے ہیں صورت حال سے ان کا مستقبل بھی خطرے میں پڑ گیا ہے،اور حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کسی بھی ملک میں جمہوریت کے معیار اور جمہوری آزادیوں کا پیمانہ جہاں سیاسی آزادیاں ، انتخابات، سیاسی جماعتوں کا وجود اور سیاسی اظہار ہوتا ہے وہیں پر اظہار رائے کی آزادی اور آزاد میڈیا کا وجود بھی اہم پیمانہ ہوتا ہے۔ آزاد میڈیا کا وجود پھلتی پھولتی اور صحت مند جمہوریت کے لئے ناگزیر ہوتا ہے۔ میڈیا ریاست کا چوتھا ستون بھی کہلاتا ہے مگر پاکستان میں ریاست کے چوتھے ستون پر دباو¿ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ آزاد فش صحافیوں ، کالم نگاروں اور میڈیا ہاو¿سز کو دبانے کا عمل تسلسل سے آگے بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کو تو پہلے سے ہی صحافت کے حوالے سے دنیا کا خطرناک ترین ملک سمجھا جاتا ہے جہاں پر صحافیوں پر حملے ، مارپیٹ ، تشدد ، مقدمات اور دھمکیاں تو معمول کی بات ہے مگر اب ایسا لگتا ہے کہ یہ شعبہ دنیا بھر میں مسائل کے حوالے سے پاکستان کی ”پہچان“ بن سکتا ہے!