مسکان اور ہم بھی دوسروں کیلئے مثال بنیں!

اس دنیا میں جو مزاحمت کی علامت بن جائے وہ یا تو مارا جاتا ہے، یا امر ہو جاتا ہے، ”مسکان“ نامی ایک مسلمان لڑکی جو گزشتہ دو دن سے دنیا بھر کے میڈیا، سوشل میڈیا اور اخبارات کی زینت بنی ہوئی ہے، اُسے دو دن قبل تک کوئی نہیں جانتا تھا لیکن آج یہ نوجوان لڑکی پوری امت مسلمہ کے لیے فخر کا باعث بن چکی ہے۔امت کی اس بیٹی کا تعلق نفرت اور ظلم کا نشان بننے والے بھارت کی ریاست کرناٹک سے ہے جہاں حال ہی میں تعلیمی اداروں میں مسلمان طالبات کے لیے حجاب لینے پر پابندی عائد کی گئی۔گزشتہ روز وائرل ہونے والی ایک وڈیو میں مسکان کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی سواری پر باحجاب کالج کے پارکنگ ایریا میں داخل ہوتی ہے تو وہاں درجنوں ہندوتوا کے غنڈے زغفرانی جھنڈے اُٹھائے پہلے ہی حجاب کے خلاف احتجاج کر رہے تھے۔مسکان کو برقع میں آتے دیکھ کر وہ سب نعرے لگاتے اس نہتی مسلمان طالبہ کی طرف دوڑے اور اُس کو ہراساں کرنے لگے لیکن اس بیٹی نے بغیر گھبرائے اور ڈرے کمال جرا¿ت کے ساتھ ان سب غنڈوں کے نعروں کے جواب میں اللہ اکبر، اللہ اکبر کے نعرے ایسے بلند کیے کہ سب دنگ رہ گئے۔ کمال بہادری کے ساتھ نعرہ تکبیر لگاتے ہوئے یہ باپردہ اسلام کی بہادر بیٹی بڑے آرام سے کالج میں داخل ہو گئی۔ اس بچی کی بہادری اور اسلام پسندی نے چند گھنٹوں میں پوری دنیا کو حیران کر دیا اور دنیا بھر کے مسلمان خاص طور پر پاکستان کے مسلمان اس پر بہت خوش اس لیے بھی ہوئے کہ وہاں ہمارے ہی مسلمان ساتھی، بھائی ، بہنیںہم سے زیادہ تعداد میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جن پر مودی جی کی حکومت آنے کے بعد سختیاں مزید بڑھا دی گئی ہیں۔ اور یہ بات بھی دنیا جانتی ہے کہ بھارت اقلیتی حقوق دینے کے حوالے سے آخری دس ملکوں میں شامل ہے ۔ جبکہ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ پاکستان بھی اسی فہرست میں آخری نمبر وں پرہے۔ خیر حیرت اور خوشی اس بات پر بھی ہے کہ 90فیصد بھارتی مسکان کو سپورٹ کر رہے ہیں، وہاں کا میڈیا بھی مسکان کو سپورٹ کر رہا ہے، اگر کوئی سپورٹ نہیں کر رہا تو مٹھی بھر افراد کا طبقہ جسے ہم انتہا پسند کہہ سکتے ہیں وہ سپورٹ نہیں کر رہا۔ اس بات کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ابھی تک وہاں سے جتنی بھی ویڈیوز یا نیوز آرہی ہیں وہ اس دلیر لڑکی کے حق میں ہی آرہی ہیں۔ اور ہر طرف سے پوچھا جا رہا ہے کہ کہاں ہے سیکولر بھارت؟پھر آپ دیکھیں بلکہ آپ ہزار اختلافات کے باوجود یہ دیکھیں کہ وہاں کے میڈیا نے اس حوالے سے بڑا مثبت کردار ادا کیا ہے ، بھارتی میڈیا کا یہ رویہ دیکھ کر خود بھارتی حکمران، انتہا پسند طبقہ اور عام عوام بھی حیران ہے۔ حالانکہ ہمارا میڈیا مشال خان کیس میں مشال خان کے حق میں کھل کر نہیں بولا تھا اور نہ ہی ہمارے میڈیا نے سانحہ ساہیوال کے ملزمان کی بریت پر واویلا مچایا تھا ، اور نہ ہی ہمارا میڈیا یہاں اقلیتوں پرہونے والے مظالم کے خلاف آواز اُٹھاتا ہے۔ لہٰذامسکان کے معاملے پر جس طرح بھارتی میڈیا، عوام اور سول سوسائٹی اُس کے حق میں کھڑی ہے۔ کیا ہمارا اتنا حوصلہ ہے کہ ہم اسی طرح کسی غیر مسلم لڑکی کے ساتھ کھڑے ہوں؟ زیادہ لوگوں کا جواب شاید ناں میں ہو! کیوں کہ ہمارے حالات اس حوالے سے اجازت نہیں دیتے شاید! لہٰذاسب سے پہلے ہمیں اپنے ملک میں اختلاف رائے کا احترام کرنا سیکھنا چاہیے! تبھی ہم دوسرے ملک کی خوشیوں میں شامل ہو سکتے ہیں، تبھی ہم تقاضا کر سکتے ہیں کہ بھارت میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو بند کیا جانا چاہیے۔ کیوں کہ معذرت کے ساتھ اس وقت دنیا ہمیں جس عینک سے دیکھ رہی ہے وہ یہ ہے کہ ہم انتہا پسند بھی ہیں، ہم اپنی اقلیتوں کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہے، ہم کرپٹ بھی ہیں، ہم انصاف کرنے سے بھی گریزاں ہیں، ہم فضول خرچ بھی ہیں، ہمیں جینے کا سلیقہ بھی نہیں آتا اور ہم جھوٹوں میں بھی بہترین رینکنگ رکھتے ہیں۔ حالانکہ بقول شاعر کھلا ہے جھوٹ کا بازار ، آو¿ سچ بولیں نہ ہو بلا سے خریدار ، آو¿ سچ بولیں سکوت چھایا ہے انسانیت کی قدروں پر یہی ہے موقع اظہار ، آو¿ سچ بولیں لہٰذاہمیں غور کرنا چاہیے کہ ہم اپنی اقلیتوں کے ساتھ کیا سلوک کر رہے ہیں، ہم تو آج تک غیرمسلم کپتان نہیں بنا سکے، ہمارے تو آئین میں ہے کہ غیر مسلم کو آپ وزیر اعظم یا صدر نہیں بنا سکتے، یعنی اقلیتیں بھی تو اسی ملک میں پیدا ہوئی ہیںوہ اپنا حق لینے کہاں جائیں؟ اگر ہم اُنہیں برابر کے حقوق دینے کے روادار نہیں ہیں تو پھر ہمیں خوش ہونے کا حق بھی حاصل نہیں ہے۔ لیکن ہمیں بھی مسلم اکثریتی علاقے یا مسلم اکثریتی ممالک میں اقلیتوں کو یہ حقوق دینے چاہییئں کہ وہ بھی اپنی مرضی سے زندگی گزار سکیں، وہ بھی اپنی مرضی سے بغیر خوف و خطر اپنی عبادت گاہوں میں جا سکیں، بغیر خوف و خطر اپنے تہوار منا سکیں بلکہ ہم اُن کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔ الغرض جب ہم اقلیتوں یا اپنے سے کمتر لوگوں کو اُن کے حقوق دینا شروع کردیں گے تو پھر ہمیں اس طرح کے واقعات کے لیے اپنے ملک میں آواز اُٹھانے کا بھی حق ہے اور دور بیٹھ کر خوش ہونے کا بھی حق حاصل ہے ۔ مزہ تو تب آئے گا، جب دنیا کہے یا خاص طور پر بھارت کہے کہ دیکھو! پاکستان اقلیتوں سے کتنا پیار کرتا ہے، یعنی ہم کسی کام میں تو دنیا کے لیے مثال بن جائیں ۔ لیکن فی الووقت تو کبھی ہم امریکا پر اعتراض کر رہے ہوتے ہیں، کبھی اسرائیل پر، کبھی روس پر، کبھی یورپ پر،کبھی سعودی عرب پر تو کبھی بھارت پر۔ لیکن اپنے گھر کو نہیں دیکھتے کہ ہم میں کتنی خامیاں ہیں ، حالانکہ اس کے برعکس ہم تو سب سے بہترین مذہب ”اسلام“ اور سب سے بڑی شخصیت حضرت محمد کے پیروکار ہیں ۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے۔ اس کی تعلیمات کائنات انسانی کے لئے یکسر رحمت ومحبت ہے۔ جس کی اساس و بنیاد ایسے مضبوط و محکم اصولوں پر قائم ہے، جن کی صداقت دن کے اجالوں کی طرح روشن و عیاں ہے۔ اسلام صرف ایک سماجی حیثیت نہیں رکھتا بلکہ اس سے بھی بلند تر عقائد و اعمال پر مبنی ہے۔ یہ ایک ایسا مذہب ہے جو حیات بعد الممات کی بنیادوں پر کائنات انسانی کو رشدوہدایت کی دعوت دیتا ہے۔ اور معاش و معاد دونوں کی فلاح و بہتری کا پیغام سناتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ ریاست مدینہ یا فلاحی ریاست سے ہم کتنا دور ہیں؟ دنیا بھر کی ”کافر“ قومیں ہم سے آگے کیوں ہیں؟ وہ کیوں انصاف، معیشت اور اپنی پالیسیوں میں ہم سے بالاتر ہیں؟ جبکہ اس کے برعکس ہمارے ملک میں تو انصاف کا یہ عالم ہے کہ ہماری آنکھوں کے سامنے ہونے والے اور حالیہ تاریخ میں ہو نے والے سانحات سے ہم نظریں چرا رہے ہیں، ہمارے سامنے سانحہ ماڈل ٹاﺅن، سانحہ بلدیہ ٹاﺅن، سانحہ ساہیوال، سانحہ سیالکوٹ، سانحہ سندر انڈسٹریل سٹیٹ جیسے سینکڑوں واقعات ہیں جن کے متاثرین آج بھی انصاف کے لیے تڑپ رہے ہیں ۔ یعنی یہاں سے یہ بات بھی اخذ کی جا سکتی ہے، کہ ہم تو ”اکثریت“ کو حق نہیں دے پارہے تو یہ اقلیتیں کہاں سے آگئیں، پاکستان میں تو طاقتور اور امیر آدمی جس کو چاہے مار دے، ناظم جوکھیو یا نور مقدم کیس ہم سب کے سامنے ہے۔ جس میں طاقتور جلد ہی چھوٹ جائے گا اور اس میں بھی سابقہ کیسوں کی طرح ریاست پیچھے ہٹ جائے گی اور متاثرین دباﺅ میں آکر ”دیت“ کے تحت صلح کر لیں گے۔ یعنی ہم تو غریب مسلمان کو تحفظ نہیں دے سکتے تو غریب اقلیتوں کو کیسے حقوق دے سکتے ہیں ؟ ہماری عدلیہ امیر آدمی کے لیے رات کو بھی عدالتیں لگا لیتی ہے، مگر غریب آدمی کے لیے 6، 6سال تک بھی ناک کی لکیریں رگڑواتی ہے۔ اب تو ہم نے یہ کہنا ہی چھوڑ دیا ہے کہ قوم ٹھیک ہو یا قوم کو ٹھیک کیا جائے، بلکہ اب تو یہ کہنا چاہیے کہ ہر بندہ انفرادی طور پر ٹھیک ہو گا تو یہ نظام بہتر ہو سکے گا۔ کیوں کہ یہ ہماری لڑائی ہے، ہم نے لڑنی ہے، ہمیں خود فیصلہ کرنا ہے کہ ہم کسی بھی استحصالی طبقے کا حصہ نہیں بنیں گے۔ اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہمیں آج تک بہترین قیادت میسر نہیں آسکی۔ حکومت سے، سیاستدانوں سے، فیصلہ کرنے والی طاقتوں سے، عدلیہ سے بھی فی الوقت کوئی اُمید نہیں ہے، لہٰذافی الوقت ہمیں اُمیدیں آپس میں ایک دوسرے سے لگانی چاہیئں، تاکہ ملک بھی ترقی کرے اور ہم ایک بہترین قوم بن جائیں۔اس لیے ہمیں بھی وہی تحفظ دوسروں کو دینی چاہیے جس کی ہم دوسرے ملکوں سے تمنا کر رہے ہیں! اور رہی بات مسکان کی تو اس جیسی بیٹیاں بھی انفرادی طور پر خود کو ٹھیک کرکے معاشرے کی اصلاح کرنا چاہ رہی ہیں ، اور بتانا چاہ رہی ہیں کہ ہر مذہب کا احترام دوسروں پر واجب ہونا چاہیے۔ ایسا نہ ہو کہ ہر ملک میں انقلاب آئے اور سب اُسکی لپیٹ میں آجائیں! #Muskan issue #Hijab #India #Ali Ahmed Dhillon #Talkhiyan #Pakistan