روٹیشن پالیسی،عمل کون کرائے گا؟

ملک کی طاقتور بیوروکریسی ایک بار پھر اپنی ہی بنائی ہوئی اس روٹیشن پالیسی کو روندتی ہوئی نظر آ رہی ہے، جس کے تحت وفاقی افسروں کو مرکز سمیت مختلف صوبوں میں کام کرنا ہے، اس پالیسی پر یکم جنوری دو ہزار اکیس سے عمل درآمد ہو نا تھا،ابھی تک تو خاموشی ہے اور محسوس ہو رہا ہے کہ چہیتے افسران اب بھی اپنی مرضی کا صوبہ ،مرضی کی پوسٹنگ رکھیں گے جبکہ جن کا کوئی وارث نہیں ان پر یہ پالیسی لاگوہو جائے گی ۔اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب میں اس پالیسی کو لاگو کرنے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے ،وفاقی افسر عام طور پر پنجاب سے باہر ڈیوٹی دینا نہیں چاہتے اس صورتحال میں زیادہ تر ہاتھ سیاسی حکمرانوں کا بھی ہے ،یہ اپنے تابع دار اور زبانی حکم کو قواعد پر ترجیح دینے والے افسروں کو پسند کرتے اور خلاف ضابطہ ان کو پنجاب میں تعینات رکھتے ہیں،جس کی وجہ سے دیگر صوبوں میں وفاقی افسروں کی قلت ہو گئی تھی،سوال یہ ہے کہ اگر وفاقی افسروں کو پنجاب میں ہی ڈیوٹی دینا ہے تو وہ وفاقی سروس چھوڑ کر پنجاب کی صوبائی سروس میں شامل ہو جائیں،دوسرا سوال یہ کہ اگر وفاقی افسر خود پر لاگو قواعد پر عملدرآمد میں تساہل برت رہے ہیں تو ملکی قوانین اور ضابطوں پر کیسے عمل کرائیں گے؟ایک بات طے ہے کہ کسی افسر کی ایک ہی پوسٹ یا صوبہ میں تعیناتی سے اس کی اجارہ داری قائم ہو جاتی ہے جس سے انتظامی خرابی اور مالی بد عنوانی کے دروازے کھلتے ہیں ،جسے اب روکنا ہو گا۔اب تو ویسے بھی بیوروکریسی حکمرانوں کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی بن چکی ہے ،قانون ضابطے کون پوچھتا ہے ،اگر کوئی اچھا کام ہو جائے تو اس پر واہ واہ ہی کی جا سکتی ہے ۔پنجاب کابینہ کے اجلاس تو تواتر سے ہو رہے ہیں مگر اب چیف سیکرٹری نے بھی خاموشی توڑتے ہوئے آٹھ ماہ بعد صوبائی سیکرٹریز کی کانفرنس منعقد کی ہے ،دیر آئید درست آئید ۔ قیام پاکستان کے بعد پہلی دہائی میں جو ترقی ملک کے طول و عرض میں دکھائی دیتی ہے ، اس کی بنیادی وجہ ملک میں بیوروکریسی کا ایک مضبوط،منظم اور مستحکم نظام تھا۔اس وقت حکمران افسروں کوذاتی ملازم سمجھتے تھے نہ بیوروکریسی آئین ،قانون اور قواعد وضوابط پر کوئی سمجھوتہ کرتی تھی، آئے روز حکمرانوں کی تبدیلی،آئین کی زنجیر نہ ہونے،حکمرانوں کے عدم استحکام کے باوجود ملکی بیوروکریسی نے نوزائیدہ ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالا ،سیاسی غیر یقینی اور مارشل لاء کے قیام کے باوجود ترقی کا یہ سفر جاری رہا،انگریز دور کی تربیت یافتہ بیوروکریسی کی وجہ سے ملک نے ریکارڈ ترقی کی،زرعی،صنعتی،تجارتی،محصولات،بجلی کی پیداوار،معدنیات کی تلاش،درآمدات و برآمدات اور امن و امان کے حوالے سے ایسے کارہائے نمایاں انجام دئیے کہ دیگر ممالک بھی نقالی پر مجبور ہو گئے ،جنوبی کوریا اس کا باقاعدہ طور پر اعتراف کرتا رہا ہے۔ ملک میں سیاسی انارکی اور حکمرانوں کی شوریدہ سری کے نتیجے میں رفتہ رفتہ بیوروکریسی کا نہ صرف مورال گرتا چلا گیا بلکہ کار کردگی بھی زوال پزیر ہوتی چلی گئی،تنزلی کا یہ سلسلہ ایوبی آمریت ہی میں جاری ہو گیا تھا مگر تب بھی بیوروکریسی کی کار کردگی کافی بہتر رہی جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں تو انتظامی لٹیا ہی ڈوب گئی۔افسروں کی تعیناتی میں حکمران طبقہ کی پسند نا پسند کا عمل جاری ہو گیا،منتخب نمائندے سرکاری افسروں کو ذاتی ملازم گرداننے لگے،قواعد و ضوابط کی دھجیاں اڑا کر تبادلے اور تعیناتی ہونے لگی،قوانین کیخلاف افسروں سے کام لئے جانے لگے،زبانی احکامات پر سرکاری فرائض انجام دئیے جانے لگے،اسی کا نتیجہ ہے کہ بیوروکریسی کے ارکان بھی منہ زور ہوتے گئے اور انکی طرف سے بھی من مانیاں شروع ہو گیئں۔ صورتحال یہ ہے کہ ملکی نظام کو چلانے کےلئے وفاقی سروس کے ارکان پورے پاکستان میں ملازمت کےلئے منتخب ہوتے ہیں جبکہ تمام صوبوں کے اندر ایک انتظامی سروس بھی ہوتی ہے جسے پروونشل سروس کہا جاتا ہے،اس کے ارکان بھی وفاقی سروس کے ارکان کی طرح مقابلے کا امتحان پاس کر کے تعینات ہوتے ہیں۔وفاقی سروس کے ارکان ایک صوبے سے باہر جانا پسند ہی نہیں کرتے،ویسے تو وفاقی سروس کے تمام گروپوں کو سارے صوبوں میں کام کرنا ہوتا ہے مگر ان گروپوں میں سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس (پی اے ایس) اور پولیس سروس آف پاکستان (پی ایس پی) کے افسران کسی ایک صوبے میں ایسا دل لگاتے ہیں کہ وہ اس صوبے سے باہر اسی وقت جاتے ہیں جب انہیں گریڈ اکیس یا بائیس میں وفاق میں کلیدی حیثیت میں تعینات کیا جاتا ہے ،ہمارے کئی ایک افسر تو ان گریڈوں میں بھی پنجاب سے باہر جانا پسند نہیں کرتے۔ حالانکہ پی ایس پی اور پی اے ایس افسروں کیلئے یہ ضروری تھا کہ وہ تین سال کے بعد دوسرے صوبہ میں خدمات انجام دیں،مگرایسا نہ ہو سکا،وفاقی افسروں کیلئے دو مرتبہ تین تین سال کیلئے پسماندہ اور دور دراز علاقوں میں ڈیوٹی دینا بھی ضروری تھا،مگر اس کے برعکس دہائیوں سے پنجاب سے متعلقہ افسر پنجاب میں ہی تعینات ہیں۔