جنت کا ٹکڑا .... آزاد کشمیر ! مگر

آزاد کشمیر کا پورا علاقہ پورے پاکستان میں حسین ترین وادیوں کا منبع ہے، جسے جتنی مرتبہ دیکھا جائے دل نہیں بھرتا، اس بار بھی کہیں سے آواز کانوں میں پڑی کہ ایک ٹور آزاد کشمیر کے لیے ترتیب دیا جا رہا ہے، سو مجھ سے پوچھا گیا تو میں نے بھی جانے کی حامی بھر لی، اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ میں وہاں کے لوگوں کے حالات کو بار بار دیکھنا اور پرکھنا چاہتی ہوں، اور چونکہ میں بذات خود ”انسانیت “کی خدمت کے لیے ایک این جی او چلا رہی ہوں جس کانام ”زہرہ بخاری فاﺅنڈیشن “ ہے۔ یہ فاﺅنڈیشن انسانیت کی فلاح کے لیے کام کرتا ہے، اس لیے میں نے پاکستان فیڈریشن آف کالمسٹس کے ملک سلمان کی دعوت کو فوراََ قبول کرلیا، انہیں بھی وہاں کے ایک فلاحی ادارے سائٹ فاﺅنڈیشن نے مدعو کیا تھا۔ جنت نظیر کشمیر کی یہ خوبصورت وادی اسلام آبادسے تقریبا پانچ گھنٹے سے چھ گھنٹے کی مسافت پرہے۔ آزاد کشمیر کا واحد ضلع جسکی سرحدیں تین بھارتی مقبوضہ کشمیر کے اضلا ع بارہمولہ کپواڑ ہ اور بانڈی پورہ جبکہ دوسری طرف گلگت اور مغرب میں خیبر پختونخواہ سے ملتی ہیں ۔ اٹھ مقام اور شاردہ دو تحصیلیں ہیں، گوجری کشمیری شینا کنڈل شاہی مقامی زبانیں ہیں چونکہ یہ علاقہ کشمیری شینا اور پشتو بولنے والوں کے درمیان ہے اسلئے ہر 10 کلومیٹر کے بعد زبان میں ایک بدلاو¿ آ جاتا ہے تاہم برصغیر کی سب سے میٹھی اور مسلمانوں کی ہر دلعزیز زبان اردو یہاں بولی اور سمجھی جاتی ہے، جو لوگ راولپنڈی لاہور کا سفر کرتے ہیں وہ پنجابی بھی بولتے اور سمجھتے ہیں ۔ بہرحال گزشتہ ہفتے ہم یہاں سے رات 11بجے روانہ ہوئے اور اگلے دن 11بجے ضلع نیلم کی حدود میں داخل ہوئے تو بارش نے ہمارا استقبال کیا، ہماری پہلی رہائش کٹن میں تھی۔لیکن جس چیز نے ہمیں سب سے زیادہ متاثر کیا وہ آزاد کشمیر ہو یا مقبوضہ کشمیر دونوں علاقوں میں کشمیریوں کے گھر، تعلیمی ادارے اور مساجد نہایت پسماندہ حالت میں نظر آئیں، اس کے علاوہ وہاں ایسی ایسی دلخراش کہانیاں سننے کو ملیں کہ انسان کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں، چھوٹی عمر کی بچیوں کو تعلیم کے مسائل ایسے ایسے درپیش ہیں کہ آپ انہیں کالج کیا سکول کی تعلیم دینے کے بارے میں بھی ہزار مرتبہ سوچیں گے۔ مثلاََسکول جاتی چند بچیوں کو روک کر میں نے اُن سے پوچھا کہ آپ کا سکول گھر سے کتنا دور ہے تو انہوں نے بتایا کہ وہ ڈیڑھ گھنٹہ صبح اور ڈیڑھ گھنٹہ دوپہر میں پیدل چل کر سکول پہنچتی ہیں، جس کی وجہ سے کئی بار اُن کے پاﺅں میں چھالے بھی پڑجاتے ہیں۔ اور چونکہ یہاں سارا سال سردی پڑتی ہے تو یخ سردی میں ان کے لیے تعلیم جاری رکھنا خاصا مشکل ہو جاتا ہے، اس لیے کئی علاقوں میں4،5ماہ تک سردیوں کی چھٹیاں پڑ جاتی ہیں، اس کے علاوہ وہاں آجکل ہم نے الیکشن کی سرگرمیاں بھی دیکھیں، اور دیکھا کہ اُمیدوار ریلیوں کی شکل میں ایک جگہ سے دوسری جگہ جا اور آرہے ہیں، میرے خیال میں ایسے الیکشن کا کیا فائدہ جب آپ عوام کو بنیادی سہولیات نہیں دے رہے، اور سب سے بڑھ کر ایل او سی پر فائرنگ کا شکار ہونے والے خاندان تو معذوروں کی آماجگاہ بن چکے ہیں، اور کئی گھروں میں تو کوئی کمانے والا بھی نہیں بچا، جبکہ حکومت تو سروے کرنے میں بھی ناکام ہے کہ کس کس علاقے میں کون کون بھارتی فائرنگ کی زد میں آیا اور کون کون ساری زندگی کے لیے اپاہج بن گیا۔ یقین مانیں آٹھویں جماعت کی ایک بچی کی کہانی سن کر ہم سب کی آنکھیں بھیک گئیں، وہ بچی رونے لگی۔ سب سے پہلے اُس کے چچا ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں مارے گئے ، پھر اُس کے والد ایل او سی کے قریب ایک بارودی سرنگ کا شکار ہوکر وفات پاگئے۔ اب یہ ہشتم کلاس کی بچی خود اپنی دادی اور بہن بھائیوں کی کفالت کرتی ہے۔ ”سائٹ فاﺅنڈیشن“ نے بھی اس حوالے سے کافی کام کیے اور وہاں تعلیم کے فروغ کے لیے یہ تنظیم خاصی سرگرم ہے، انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ مجھے بھی یہاں انسانیت کی فلاح کے لیے اپنی سرگرمیاں بڑھانی پڑیں گی تاکہ یہ سفید پوش لوگ بھی زمانہ شناسی کر سکیں۔ کیوں کہ وہاں ابھی بہت سا کام ہونا باقی رہ گیا ہے، مثلاََ جو سکول ہم نے وزٹ کیے ایک تو وہ بغیر چاردیواری کے تھے، دوسرا اُن کی ٹین کی چھتیں بارش اور برف باری پڑنے پر ٹپکتی رہتی تھیں، پھر ہم نے کنڈل شاہی آبشار کے قریب دو سکول دیکھے، اس کے علاوہ اٹھمقام کے قریب ایک سکول کا دورہ کیا۔ کئی جگہوں پر ہمیں خاصا ڈسپلن نظر آیا اور کئی جگہوں پر خاصی بے ترتیبی دیکھی گئی، لیکن وہاں کی خاص بات جو میں نے خاصی محسوس کی کہ وہاں کے لوگ ہمیں شاید دل سے تسلیم نہیں کرتے، کیوں کہ وہ ہم سے پوچھ رہے تھے، کہ کیا آپ پاکستانی ہیں؟ جبکہ ہم انہیں بھی خندہ پیشانی سے کشمیری نہیں بلکہ پاکستانی ہی سمجھتے ہیں، لیکن یہ فرق کیوں پیدا ہو رہا ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن فی الحال میں دورہ کشمیر کو مختصراََ یہاں Windupکرتی ہوں کہ اس دورے میں ہم نے Gathering کو خاصا انجوائے کیا، خاص طور پر ملک سلمان کے چٹکلوں سے ہم خاصے محظوظ ہوتے رہے۔ اور چونکہ وادی نیلم ہی آزاد کشمیر کا سب سے بڑا ضلع ہے اسکا رقبہ 1398 مربع میل ہے مگر سب سے کم گنجان ہے یعنی آبادی دور دور واقع ہے ، اس لیے ہماری کوشش تھی کہ ہم زیادہ سے زیادہ علاقوں کو دیکھیں، لیکن راستے میں اکا دکا مسائل بھی پیش آئے لیکن ہماری ٹیم نے انہیں اچھے انداز میں ہینڈل کیا اور ہمیں بحفاظت لاہور پہنچایا۔