پرویز الہٰی کی آڈیو ٹیپ نظام عدل پر سوالیہ نشان ہے: احسن اقبال

مسلم لیگ ن کے رہنما اور وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا ہے کہ عمران خان کے پاس کون سی سلیمانی ٹوپی ہے کہ وہ عدالتی فیصلوں کے پرخچے اڑائیں اور انہیں کوئی نہ پوچھے، جس طرح میچ فکسنگ ہوتی ہے، کیس فکسنگ کی بھی باتیں آ رہی ہیں، پرویز الٰہی کی آڈیو ٹیپ معمولی نہیں نظام عدل پر سوالیہ نشان ہے۔سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی کی مبینہ آڈیو لیکس کے حوالے سے اسلام آباد میں سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا کہ پرویز الہٰی کی مبینہ ٹیپ آئی جس میں وہ اعلیٰ عدلیہ کے جج کے ساتھ میچ فکسنگ کی کوشش کر رہے ہیں، یہ ٹیپ عدلیہ کے کردار پر ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آئی ہے، پاکستان بار کونسل کی طرح مطالبہ کروں گا کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اگر ٹیپ جھوٹی ہے تو عدلیہ کو نقصان پہنچانے والوں کو سزا ملنی چاہیے، اگر ٹیپ سچی ہے تو یہ عدالتِ عالیہ کے اوپر ایک بڑا دھبہ ہو گا، اس آڈیو لیک پر ذمے داروں کو سزا ملنی چاہیے، یہ سارا بندوبست عمران خان ہی کر کے گئے ہیں، آڈیو لیکس کی شفاف تحقیقات ہونی چاہئیں۔ن لیگی رہنما کا کہنا تھا کہ موجودہ معاشی عدم استحکام کی ذمے دار گزشتہ حکومت ہے، قانون کی پاسداری کے بغیر ملک جنگل بن جاتا ہے، ملک جن بحرانوں میں گھرا ہے، ہم مزید عدالتی تنازعات کے متحمل نہیں ہو سکتے، سب کو ذمے داری کے ساتھ اپنا کردار ادا کرنا ہے، سی پیک پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہم منصوبہ ہے، ن لیگ کے گزشتہ دور میں دنیا سرمایہ کاری کرنے پاکستان آ رہی تھی، عمران خان عدالتوں کی بے توقیری کر رہے ہیں۔احسن اقبال نے کہا کہ چین میں ایک بڑے کاروباری گروپ کے سربراہ سے ملا، جن سے پوچھا کہ آپ چند ماہ پہلے پاکستان میں بڑی فیکٹری لگانے آئے تھے، جس کے لیے آپ زمین کا انتخاب کرچکے تھے، آپ کے پروجیکٹ کا کیا بنا؟ بزنس مین نے جواب دیا کہ آپ چٹکی بجاتے ہی وزیر اعظم کو فارغ کر دیتے ہیں، میں سرمایہ کار ہوں، مجھے اپنے 2 ارب ڈالرز کا سوچنا ہو گا۔وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ رول آف لاء معاشرے کی ترقی اور تسلسل کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، جس معاشرے میں رول آف لاء نہ ہو وہ جنگل بن جاتا ہے، آزاد عدلیہ کسی ملک کے اندر قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے لیے اہم ہوتی ہے۔مسلم لیگ ن کے رہنما کا یہ بھی کہنا ہے کہ نواز شریف کو بے بنیاد فرضی کہانی پر سزا دی گئی، دنیا میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی مقدمے میں کسی دوسرے کیس کی سزا دے دی جائے۔