ان سے ”مائنس عمران خان“ نہیں ہوگا!

فرانسیسی کہاوت ہے کہ ”اگر ملک کے لیے کام کرنا ہے تو ’تصادمی سیاست‘ سے گریز اتنا ہی ضروری ہے جتنا ملک کی بقا کے لیے لڑنا“ کیوں کہ یہ وہ سیاسی طرزِ عمل ہے جس میں جماعتیں یا لیڈر بات چیت اور مفاہمت کے بجائے جھگڑے، محاذ آرائی، الزام تراشی اور سخت مو¿قف کو ترجیح دیتے ہیں۔اس میں قومی مفادات، پارلیمانی عمل اور اداروں کے ساتھ تعاون کی بجائے ایک دوسرے کو کمزور کرنا بنیادی مقصد بن جاتا ہے۔وطن عزیز کی سیاست بھی گزشتہ ایک عرصے سے تصادم کی طرف جا رہی ہے،،،بادی النظر میں اس تصادم کے تین فریق ہیں،،، حکومت ، تحریک انصاف اور مقتدرہ ۔ مجال ہے کوئی فریق بھی اس وقت مفاہمت کی بات کر رہا ہو،،، ایک فریق ایک سیاسی جماعت کو ختم کرنا چاہتا ہے،،، دوسرا فریق کہتا ہے کہ یہ سب فارم 47کی پیداوار ہیں،،، اس لیے اُس کی کوشش ہے کہ یہ آسانی سے حکومت نہ کریں۔۔۔ جب کہ تیسرا فریق ایم کیو ایم کی طرز پر تحریک انصاف کو ”مائنس ون“ فارمولے کے تحت کئی ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہ رہا ہے۔ لیکن ”تیسرا فریق“ اس کوشش میں کبھی کامیاب نہیں ہوا ،،،ہاں! اُس نے بارہا کوشش بھی کی جیسے لیاقت علی خان کو سائیڈ لائن کرنا،،، بھٹو کو پھانسی دینا ،،، یا محترمہ بے نظیر بھٹو سے جان چھڑا نا،،، لیکن وہ کرداروں کو تو ختم کر سکا مگر وہ کبھی اپنے مقصد میں اُس طرح سے کامیاب نہیں ہوا جس طرح سے چاہتا تھا۔۔۔ بلکہ اُس نے ایک مرتبہ تو کوشش کی سیاست کو ہی ختم کر دیا جائے،،، جس کے لیے اُس نے 1985کے غیر جماعتی انتخابات کروا کر سیاست میں ایسے ایسے نمونے پیدا کیے کہ جن سے آج تک جان نہیں چھوٹ رہی،،، لیکن سیاست آﺅٹ نہیں ہوئی، بلکہ سیاست کو آﺅٹ کرنے والا تین سال بعد اس دنیا سے چلا گیا۔ بلکہ پیپلزپارٹی کو ”مائنس بھٹو“ کرنے کے بعد مائنس 2یعنی بے نظیر کو آﺅٹ کرنے کی کوشش کی گئی،،، اُسے جلا وطن کیا گیا،،، لیکن غیر سیاسی انتخابات کے ایک سال بعد 1986ءمیں اُن کا فقیدالمثال استقبال کیا گیا۔ جسے دیکھ کر دنیا دھنگ رہ گئی۔۔۔ حالانکہ اسی بے نظیر کو ہمارے ادارے سکیورٹی رسک قرار دیتے رہے،،، لیکن شرمندگی اُس وقت بنی جب ISI کے سابق سربراہ جنرل حمید گل مرحوم نے ایک انٹرویو میں یہ اعتراف کیا کہ، ”بے نظیر کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ اور سیکورٹی رسک سمجھنا ریاست کی غلطی تھی میں نے ان کو ایک محب وطن پایا۔“ پھر آپ نواز شریف کو دیکھ لیں،،، اُن سے لاکھ سیاسی اختلاف سہی مگر کیا خود میاں نواز شریف کو ’مائنس‘ کرنے کی باتیں نہیں ہوئیں؟ پہلے انہیں بھٹو کی سیاست کو مائنس کرنے کیلئے لایا گیا،،، پھر خود انہیں مائنس کرنے کیلئے عمران خان کو لایا گیا اور آج خان کو ’مائنس‘ کرنے کیلئے انہیں ہی استعمال کیا جا رہا ہے۔ کیا 2002میں دونوں، نواز شریف اور بے نظیر کو سیاست سے باہر کرنے کی پالیسی کامیاب ہوئی اور پھر اسی جنرل پرویز مشرف نے بے نظیر کو پلس کر کے نواز شریف کو مائنس کرنے کا تجربہ کیا اور پھر جب دونوں تجربات ناکام ہو گئے اور دونوں نے ’میثاق جمہوریت‘ کر لیا تو تیسرے آپشن کیلئے اسی عمران کا انتخاب کیا جس کو جنرل مشرف نے 2002میں گجرات کے چوہدریوں کے مقابلے میں ترجیح نہیں دی تھی اور خان نے مایوسی اور غصے میں اس کا ساتھ چھوڑ دیاتھا۔الغرض پھر پرویز مشرف نے اپنے دور میں ملک کی دونوں بڑی جماعتوں کے سربراہان کو مائنس کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ 2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں اپنے سربراہان کے بغیر ہی میدان میں اتریں۔پیپلز پارٹی کو تو نئے نام یعنی پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرنز کے ساتھ انتخاب لڑنا پڑا۔ اس مائنس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آنے والے ادوار میں یہی جماعتیں برسر اقتدار آئیں۔پھر پرویز مشرف نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو مائنس کرنے کے لیے مخدوم امین فہیم کو کھڑا کیا، لیکن محترمہ نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا، محترمہ نے مائنس ون ہونا قبول نہ کیا اور پھر پیپلز پارٹی پیٹر یاٹ بنائی گئی جس میں زیادہ حصہ جنوبی پنجاب سے تھا، پیٹریاٹس کے ذریعے مسلم لیگ ق کی مخلوط حکومت معرض وجود میں آئی، میر ظفراللہ جمالی وزیراعظم بنے،،، پھر آصف زرداری کو مائنس کرنے کے لیے کوششیں بارآور ثابت نہ ہو سکیں،،، بلکہ اُنہیں مائنس کرنے کے چکر میں وہ عوامی ہمدردیاں سمیٹنے لگے،،، اور اس طرح اُن پر جینئن کیس بھی کمزور پڑ گئے ،،، یہاں تک کہ میمو سکینڈل آیا، لیکن عین وقت پر جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنا ارادہ بدل لیا ،،بعد ازاں سوئس اکاﺅنٹس کیس میں صدر زرداری کو مائنس کرنے کی کوشش کی گئی، مگر نتیجہ ندارد کیونکہ ان کی سیاسی پوزیشن مضبوط تھی‘ خود بچ گئے لیکن سید یوسف رضا گیلانی کو مائنس کردیا۔نواز شریف کو مائنس کرنے کے لیے سیاسی تاریخ کا طویل ترین اور بہت تگڑا، عمران قادری جڑواں دھرنا آیا، لیکن نواز شریف مائنس نہ ہوسکے۔ اور آج یہی کوشش عمران خان کے ساتھ کی جا رہی ہے،،، کہ اُنہیں مائنس کر دیا جائے،،، لیکن ہمیں یہ بات سمجھنے میں نا جانے کیوں دقت آرہی ہے کہ آج بھی عمران پاکستان کا سب سے مقبول لیڈر ہے ، ویسے یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بری،،،لیکن اُسے آج سیاسی عمل سے باہر کرنے کی سرتوڑ کوششیں کی جارہی ہیں۔ لہٰذااداروں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ لہٰذا سیاست میں ’مائنس‘ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ جو آج ’مائنس‘ یعنی ہار جاتا ہے وہ کل پلس یعنی جیت سکتا ہے۔ یقینی طور پر آج سیاست میں تلخی بہت ہے کیونکہ ایک جماعت سمجھ رہی ہے کہ اس کو مکمل طور پر دیوار سے لگایا جا رہا ہے۔ ان سے جماعت کا نام اور انتخابی نشان لے لیا گیا وہ پھر بھی الیکشن جیت گئے ،،، تو میرے خیال میں اگر یہ الیکشن جیت گئے تھے تو انہیں اقتدار دے دیتے ،،، یہ خود ہی مائنس ہو جاتے،،، کیوں کہ جب آپ کسی کو حکومت دیتے ہیںتو جب اُس سے وعدے پورے نہیں ہوتے تو وہ خود اپنی موت آپ مر جاتا ہے،،، جیسے پیپلزپارٹی کو پنجاب میں حکومت کرنے کا موقع ملا،،، وہ کامیاب نہیں ہوئی تو اُس کا پنجاب سے خود ہی صفایا ہوگیا۔ بہرکیف جو بات مائنس ون فارمولا کے مصنفین اور پاکستانی سیاستدانوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے یہ کہ گزشتہ 78سالوں میں اس مائنس فارمولا نے صرف جموری عمل کو نقصان پہنچایا ہے جیسے سیاسی انجیئنرنگ اور الیکشن کو ہائی جیک کرنے کے فارمولا نے پہنچایاہے۔ ہم نہ جانے یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ اس انجینئرنگ نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان ہی پہنچایا ہے،،، جیسے شیخ مجیب الرحمٰن اور ان کی عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں کامیابی حاصل کی جبکہ ذوالفقارعلی بھٹو کی نئی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی۔ لیکن اقتدارمنتقل نہیں ہوا جس کے نتیجے میں بحران پیدا ہوا جس سے مشرقی پاکستان الگ ہوگیااور ایک نیا ملک بنگلہ دیش بن گیا۔لیکن ان سب کے برعکس یہاں ہر دورر میں سیاسی انجینئرنگ کی بنا پر مائنس پلس فارمولے لاگو ہوتے رہے،وطن عزیز میں” مائنس ون“ کی تاریخ بہت پرانی ہے اور قرائن سے لگتا ہے قائد اعظم محمد علی جناح کو بھی شاید ”مائنس“ ہی کیا گیا ہو گا۔ اس کے بعد تو جوتیوں میں دال بٹنے لگی ۔ پنڈت جواہر لال نہرو کو کہنا پڑا کہ ”میں تو اتنی دھوتیاں نہیں بدلتا جتنی جلدی پاکستان میں وزیر اعظم بدل دیے جاتے ہیں“۔ قائد اعظم کے ساتھی لیاقت علی خان کو راولپنڈی میں مائنس کر دیاگیا۔ ان کے بعد شہید ذوالفقار علی بھٹو کو عدالتی قتل کے ذریعے مائنس کیا گیا۔ پھر محمد خان جونیجو اپنے ہی باغبان کے ہاتھوں مائنس کیے گئے۔ اس کے بعد باغبان کی منشا کےخلاف یا اپنے مہروں کی کارکردگی سے مایوس ہو کر دو بار نظیر بھٹو کو مختصر وقت کےلئے موقع دیا گیا لیکن ایک بار اسحاق خان اور پھر فاروق لغاری کے ذریعے انہیں بھی مائنس کر دیا گیا۔آ خر کار وہ اسی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں شہید کر دی گئیں جہاں سندھ سے تعلق رکھنے والے ایک اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کو بھی شہید کیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں بے رحمانہ مائنس کا شکار ذوالفقار علی بھٹو بنے جنہیں پھانسی پر ہی لٹکا دیا گیا،،، اس کے بعد کیا اب ایک اور مائنس ون ہوگا۔ اگر یہ ہوا تو ایک سے زیادہ تین یا چار تک ہوگا، جیسا کہ کچھ ذرائع نے اشارہ دیاہے۔ اب یہ حکومت کا امتحان ہے کہ وہ کسی بھی ایسے ’فارمولا‘ کو رد کریں اور اتفاقِ رائے پرپہنچے کہ تبدیلی الیکشن کے ذریعے ہی آنی چاہیئے یا آئینی طریقے سے بغیر کسی مداخلت کے آنی چاہیئے۔ میرے خیال میں ”مائنس ون“ کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی، جماعتوں کو اپنے منشور پر چلنا چاہیے، ہماری جماعتیں تو حقیقی سیاسی جماعتیں بنی ہی نہیں، ہم نے تو ہمیشہ خاندانی سیاسی جماعتیں بنائی ہیں، اگر ”مائنس ون“ ہوتا بھی ہے تو اس میں کیا حرج ہے، مائنس ون وہیں ہوتا ہے جہاں پائیدار جمہوریت ہوتی ہے، اور مائنس ون سیاسی جماعت کا اندرونی مسئلہ ہونا چاہیے، کسی اور کی کیا جرا¿ت کہ وہ پارٹی کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرے۔ لیکن ہم تو غلامانہ ذہنیت والی قوم ہیں جسے مائنس ون کرنا اتنا ہی سخت ناپسند ہے جتنا ایک وفادار غلام کو آقا سے دور کرنا۔ ہمیشہ ملک اُسی وقت ترقی کرے گا جب وہ خاندانی سیاست سے باہر نکلے گا، پس تاریخ میں انہی لوگوں کو یاد رکھا جاتا ہے جو سسٹم کو بہتر بناتے اور انفرادیت کے بارے میں سوچنے کے بجائے اجتماعیت کے بارے میں سوچتے ہیں ، لہٰذا جب تک اس ملک میں سیاسی جماعتوں کو” شخصیات“ کے خول سے باہر نہیںنکالا جاتا تب تک نہ تو جمہوریت پنپ سکتی ہے اور نہ ہی ملک صحیح معنوں میں ترقی کر سکتا ہے!لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ اگر ان سے ماضی میں کچھ نہیں ہوا تو یہ اب مائنس عمران خان بھی نہیں کر سکیں گے،،، اس کے لیے یہ ایڑھی چوٹی کا زور لگا کر دیکھ لیں،،، ان سے کچھ نہیں ہوگا!