آزاد کشمیر الیکشن,کیا کھویا کیا پایا

25 جولائی کو آزاد کشمیر میں ایک تاریخی سیاسی میدان سجا۔اس دن لاکھوں کشمیریوں کے دلوں کی دھڑکنیں معمول سے زیادہ تھیں۔اور اپنے اپنے کینڈیڈیٹ کی فتح کے لیے ھر کشمیری نے سوشل میڈیا,گلی محلے,بازاروں میں اپنی فکروفہم کے ساتھ اسکے جیتنے کا سامان کیا۔ھمارے ھاں ایک عام رواج ھے بحثیت قوم کہ اپنی ھر غلطی کا ذمہدار کسی دوسرے کو ٹھہرایا جاتا ھے ۔اکثر ملکی معاملات کی خرابی کا شکوہ امریکہ جب کہ ذاتی معاملات کی خرابی کا ذمہدار تقدیر کو ٹھہرایا جاتا ھے ۔اہل فکر و دانش نے جو کہا تھا جو بو گے وہی کاٹو گے جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔اور قرآنی اصول بھی یہی ھے ھر انسان کو وہی ملتا ھے جسکی وہ کوشش کرتا ھے ۔ آزاد کشمیر کے اس الیکشن میں پاکستان کی حکمران جماعت کو جہاں بھاری اکثریت سے کامیابی ملی ھے وھاں انکو کشمیر میں ایک نیا ریکارڈ بھی دیکھنے کو ملا دارالحکومت آزاد کشمیر مظفرآباد میں پی ٹی آئی کی قیادت نے جب ٹکٹوں کی تقسیم کی اسی وقت ایک بڑی غلطی کی گئی کہ ٹکٹس جماعت کے پرانے ورکرز کو نہیں دئیے گئے ۔حلقہ 2 لچھراٹ مظفرآباد میں پی ٹی آئی کا ٹکٹ سب سے پرانے اور بانی قائد جواد گیلانی صاحب کو نہیں دیا گیا جب کے مختلف حلقوں میں اس غیر منصفانہ تقسیم پر احتجاج بھی کیا گیا مگر قیادت نے ٹکٹ ایک دن پہلے نون لیگ سے مستعفی سابق وزیر حکومت شہزاد صاحب کو دے دیا جس کا نتیجہ ایک بڑے اپ سیٹ کی صورت میں دیکھنے کو ملا۔اس طرح مظفرآباد حلقہ ایک کوٹلہ کا ٹکٹ پرانے بانی کارکن سردار تبارک کے بجائے مسلم کانفرنس چھوڑ کر آنے والے میر عتیق الرحمٰن کو دیا وھاں پر بھی اس غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف عوام علاقہ نے بھرپور احتجاج کیا جسکی شنوائی نہ ھوئی نتیجتاً وہ سیٹ بھی پی پی پی نے بھاری اکثریت سے جیت لی۔کشمیر کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مظفرآباد میں ایسا ھوا کہ وفاق کی گورنمنٹ کے بر خلاف مظفرآبادیوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔اسکی کچھ وجوہات ھیں۔نمبر ایک تو یہ وجہ تھی کہ وزیراعظم پاکستان عمران خان حسب وعدہ مظفرآباد میں اپنے آخری جلسہ میں موسمی خرابی کے باعث تشریف نہ لائے جسکی وجہ سے مظفرآباد کی عوام اور وھاں کے نامزد امیدواروں میں ایک مایوسی کی لہر دوڑ گئی اور مخالف جماعتوں کی جانب سے سخت تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔اور مظفرآباد کے تین حلقوں کی فضا یکسر تبدیل ھوئی۔اور جلتی پہ تیل کا کام کرتے رھے وزیر امور کشمیر گنڈا پور صاحب کبھی سخت زبان استعمال کی۔کبھی دھمکیاں دیں۔کبھی عورت کو سخت الفاظ سے پچھاڑنے کی کوشش کرتے رھے ۔اور کہیں پر انکی اسی انداز تقریر کے سبب مظفرآباد میں انکو انڈے پتھروں اور سخت عوامی نفرت کا سامنا کرنآ پڑا۔اس کے بر عکس پیپلزپارٹی کے مرکزی قائدین نے مظفرآباد میں اپنے ڈیرے ڈالے کبھی آصفہ بھٹو صآحبہ اپنے نامزد امیدوار کا نام لے کر لوگوں سے ووٹ کی اپیل کرتیں دکھائی دیں اور کبھی سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی ۔اور بلاول بھٹو کی سیاست کو یہ کریڈٹ جاتا ھے۔کہ انھوں نے اپنے نامزد امیدوار بازل نقوی صاحب کا نام لے لر کہا یہ میرا بھائی ھے میری بہن آصفہ اور میں بھی ان کے لیے ووٹ مانگنے آپ کے پاس آئے ھیں ۔تحصیل پٹہکہ میں انکا جلسہ ایک تاریخی کراوڈ تھا ۔لہذا جیسی کرنی ویسی بھرنی کے اصول کے تحت مظفرآباد کے حلقہ ایک اور دو میں پی ٹی آئی کو میرٹ کی پامالی کی سزا ملی۔پورے کشمیر میں پی ٹی آئی کو مجموعی طور پر اچھی کامیابی ملی ھے مگر لاکھوں ورکرز کی محنت اور کوشش رائگاں گئی۔اب اس الیکشن کو نتیجتاً دیکھیں تو دو لاشیں کوٹلی میں اور ڈنڈا سوٹا کا مقابلہ باغ میں دیکھا گیا۔باغ کا ایک سکول گراونڈ تو ایسے لگ رھآ تھآ جیسے الیکشن نہیں کشمیری گتکہ کا اجتماعی مقابلہ ھے نہ کوئی ریفری ھے نہ ھی کؤئی ہار جیت کا فیصلہ کرنے والا۔کشمیر کی آزادی کی بات کی جائے تو یہ الیکشن ایک بڑی رکاوٹ بنا آزادیٔ کشمیر کی تحریک کے لیے ۔نہ کشمیر آزاد ھوا نہ کشمیر کے وسائل و مسائل پر کسی نے بات کی نہ مظفرآباد کے لوگوں کے تحفظات پر بات ھوئی بہر حال ایک چیز واضح ھوئی ھے کہ کشمیر میں پیپلزپارٹی اور نون لیگ اپوزیشن میں ھوں گے مگر شاید ماضی کی اپوزیشن کی طرح یہ اپوزیشن فرینڈلی نہ ھو۔سابق وزرائے اعظم آزاد کشمیر سارے کامیاب ھوئے۔جس میں موجودہ وزیراعظم راجہ فاروق حیدر صآحب پیپلزپارٹی کے سردار یعقوب خان صاحب مسلم کانفرنس کے سردار عتیق کے علاوہ پرانے سیاستدانوں میں شاہ غلام قادر نون لیگ سے اور میاں عبدالوحید پیپلزپارٹی سے کامیاب ھوئے۔میرا یہ کالم بطور سند بھی ھے ان احبابِ اختیارات کے لئے جو مستقبل قریب میں کچھ ھونے والی غلطیوں کا سبب بنیں گے اور نتیجتاً ایک بار پھر بڑا اپ سیٹ دیکھنے کو ملے گا کشمیر کی اسمبلی کے اندر۔وہ یہ ھو گا کہ پی ٹی آئی کے اندر نظریاتی پرانے لوگوں اور پیسہ اور اثرورسوخ سے شمولیت کرنے والے نئے لوگوں کے دو گروپ حکومت بننے سے پہلے موجود ھیں جسکی وجہ سے پی ٹی آئی جیتی سیٹیں بھی ھاری ھے اب گیم آف پاور کا آغازھوا چاھتا ھے کہ کون بنے گا پی ٹی کا کپتان آزاد کشمیر میں ۔اس حوالے سے دو بڑے نام ایک بیرسٹر سلطان محمود چوھدری اینڈ کو اور سردآر تنویر الیاس اینڈ کو موجود ھیں ۔انکے درمیان ایک کھینچا تانی جاری ھے ان میں سے کؤئی ایک بھی وزیراعظم آزاد کشمیر بنا تو دوسرا اپوزیشن کے سآتھ مل کر تحریک عدمِ اعتماد لا سکتا ھے اور ممکنہ صورت میں پی ٹی آئی کا تختہ ایک بار پھر گر سکتا ھے۔اس کے امکانآت سردآر تنویر الیاس کو وزیراعظم بنانے کی صورت میں زیادہ ھوں گے اسکی وجہ یہ بھی ھے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب کے سیکریٹری کے طور پر کام کر رھے ھیں انکا وہ عہدہ اور کشمیر کا وزیراعظم دو الگ تشخص ھیں جنکا آپس میں کؤئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔کیونکہ کشمیری وزیراعظم جس بھی جماعت سے آج تک بنا ھے وہ کسی پاکستانی سیآستدان کا سیکرٹری یا ملازم نہیں تھا اگر یہ ھو جاتا ھے تو کشمیری تشخص کو بھی ایک بڑا نقصان ھونے کے ساتھ ساتھ تحریکِ عدم اعتماد کی تلوار سے گورنمنٹ کی قربانی بھی ممکن ھے ۔لہذا ھر کشمیری ایک بات کا جواب تلاش کرے کہ کوٹلی کے دو مقتول شہید ھیں یا کسی اور موت مرے ؟ اور قاتل غازی ٹھہریں گے یا مجاھدین ؟اگر کؤئی مفتی یا عالم ایسا فتویٰ صادر نہیں کرنا چاھتا تو پھر قاتل و مقتول اپنے خون کو اسلامی نام کیا دیں گے؟ اور کیا یہ کشمیریوں کی اپنی لڑائی تھی جس میں یہ سب ھوا یا کسی اور کے مفاد کا میلہ تھا جس میں یہ سب رونما ھوا؟ میری قوم کے جوان اس بآت پر بھی غور کریں کہ اتنے بڑے الیکشن معرکے کے نتیجہ میں کیا کچھ کشمیر کو ملے گا آزادی؟ یا کچھ اور ؟ ھمیں بحثیت قوم یہ بھی دیکھنا ھے ھماری آزادی کی جنگ کو کتنا فائدہ ھوا اور اس سفر کے بعد ھم آزادی کے سفر میں کہاں تک پہنچے ھیں ۔اور بحثیت قوم یہ بھی دیکھنا ھے کہ ھمارے وسائل و مسائل کیا ھیں ۔ھمارے وسائل کا استعمال کب کیسے کون کر رھا ھے ؟ قومی سوچ,سفر آزادی,قومی مفادات,اور شہدائے کشمیر کے خون کا اگر سودا کیا تو یاد رکھنا بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ بننے کی سزا اس دنیا میں نسلوں کی غلامی کی صورت اور قیامت میں انسانیت کے ساتھ کھلواڑ اور ظالم کا سآتھ دینے کے جرم میں عذاب کی صورت میں دیکھنا نصیب ھو گا ۔میرا مشورہ تمام کشمیریوں کو یہ ھے سب سے پہلے کشمیر باقی سب بعد میں سوچا جائے۔لہذا ایک مثبت قومی سوچ اور رویہ اختیار کیا جائے تاکہ تاریخ کشمیریوں کے بارے میں یہ نہ لکھے نہ ہی خدا ملا نہ وصالِ صنم نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے