”قرار داد لاہور “اور آج کا پاکستان !

22سے24مارچ 1940ءتحریک پاکستان کے وہ خصوصی دن ہیں جب ”پاکستان“ یعنی الگ ریاست کے قیام کی داغ بیل کو عملی جامہ پہنانے کا باقائدہ آغاز کیا گیا، اس ”قرارداد “ کو پیش کرنے کا سہرا جتنا مغربی پاکستان کے بانیوں کے سر جاتا ہے، اُس سے کہیں زیادہ اعزاز کے مستحق مشرقی پاکستان کے لیڈر ہیں، جن کی مربوط کاوشوں اور قائداعظم ؒ کے ساتھ مخلصی کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ مغرب سے زیادہ مشرقی حصے کو الگ وطن کی زیادہ ضرورت تھی، کیوں کہ ایک تو وہ تعداد میں بھی زیادہ تھے دوسرا وہاں کے لیڈرز زیادہ پرجوش نظر آرہے تھے۔ خیر ہمارا آج کا موضوع اس حوالے سے اہم ہے کہ کیا قرار داد لاہور یعنی قرار داد پاکستان کو جن مقاصد کے لیے منظور کروایا گیا، ہم اُس پر پورا اُتر رہے ہیں یا نہیں! اس کے لیے اگر ہم شروع دن سے ہی جائزہ لینے کا آغاز کریں تو قائداعظم کے قریبی ساتھی جنہوں نے قرارداد پیش کی یعنی بنگالی لیڈر اے کے فضل الحق کو قائداعظمؒ کی وفات کے بعد غدار قرار دیدیا گیا۔ پھر یہی نہیں تکلیف دہ مراحل اُس کے بعد شروع ہوئے، جن کا اختتام 16دسمبر1971ءکو مشرقی پاکستان کے کٹ جانے کے بعد بھی نہ ہوسکا۔ اب اس حوالے سے ہم تحقیق کرنے سے بھی کتراتے ہیں کہ یہ سانحہ عظیم کیسے ہوگیا؟ اورچونکہ ہم پاکستانیوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم تحقیق نہیں کرتے اور آدھے سچ کے پیچھے بھاگنا شروع کردیتے ہیں، اس لیے ہم آج تک وہ وجوہات ہی تلاش نہ کر سکے جن کی وجہ سے ہم اس عظیم سانحہ سے گزرے۔ اور حد تو یہ ہے کہ ہم آج بھی وہی غلطیاں دہرا رہے ہیں جو ہم سے ماضی میں سرزد ہوئی تھیں۔ پھر ہم نے کبھی یہ بھی نہیں سوچنے کی زحمت کی کہ ہم نے جس مقصد کے لیے الگ وطن کا مطالبہ کیا؟ کیا ہم اُسے پورا کررہے ہیں؟ مثلاََجو لوگ پاکستان بننے سے پہلے ”نواب“ تھے کیا وہ آج بھی ”نواب“ نہیں ہیں، اور اس کے برعکس جو لوگ پاکستان بننے سے پہلے کسمپرسی کی حالت میں زندگی گزار رہے تھے،کیا وہ آج بھی اسی حالت میںنہیں ہیں، تاریخ گواہ ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے 100سے زائد ریاستی نواب تھے، اور 35، 40کے قریب کاروباری افراد تھے، جو ”بیک سٹیج“ پر ریاست کے امور سنبھالتے تھے۔حد تو یہ ہے کہ آج بھی پاکستان پر 90فیصد حکومت انہی خاندانوں کی ہے، اور جس غریب آدمی کو پہلے کبھی اقتدار نصیب نہیں ہوا تھا، وہ آج بھی ”بدنصیب“ ہی ہے، یعنی جو پاکستان بننے سے پہلے غریب تھا، آج بھی غریب ہے، جو پاکستان بننے سے پہلے بے حال تھا،وہ آج بھی بے حال ہے۔ قصہ مختصر کہ پاکستان بننے سے پہلے بھی دولتانے، ٹوانے، لغاری، مزاری، رئیسانی، جتوئی، گیلانی، بھٹو، پگاڑا، تالپور، پیرزادہ، جونیجو، چانڈیو، زرداری، پراچے، جنجوعے، چٹھے، چوہدری، چیمے، سردار،کھوسے، مخدوم، نوابزادے، نکئی، وٹو، رند، بلور، بزنجو، جمالی، شیرپاﺅ، کنڈی، زئی، رئیسانی، مگسی، مینگل اور نوشیروانی خاندان حکمرانی کر رہے تھے، آج بھی کم و بیش یہی خاندان حکومت کر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب انہی خاندانوں نے حکومت کرنا تھی، اور غریب آدمی کی حالت ہی نہیں بدلنی تھی تو پھر پاکستان بنانے کی بھلا کیا ضرورت پیش آگئی؟ یعنی جنہیں ضرورت تھی، اُن کے لیے کیا کیا گیا۔ یہ لوگ تو مزید غریب ہوگئے، اور پھر ان لوگوں کو تو پہلے بھی کہیں مذہبی آزادی حاصل نہیں تھی، آج بھی نہیں ہے، مجھے بتائیے! کہ کون آج محفوظ ہے؟ کس کو کونسی آزادی حاصل ہے؟ کیا یہاں سب کو مذہبی آزادی حاصل ہے؟ قرار داد پاکستان میں کی چوتھی شق میں ہے کہ ”ان اکائیوں(جو الگ ریاست چاہتی ہیں) میں موجود خطوں کے آئین میں اقلیتوں کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی‘ ثقافتی‘ معاشی‘ سیاسی انتظامی اوردیگر حقوق مفادات کے تحفظ کے مناسب‘ موثر اورلازمی اقدامات یقینی بنائے جائیں اور ہندوستان کے دوسرے حصے جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں‘ آئین میں ان کی مشاورت کے ساتھ ان کے مذہبی‘ ثقاتی‘ معاشی‘ سیاسی‘ انتظامی اور دیگر حقوق اور مفادات کے تحفظ کے مناسب‘ موثر اورلازمی اقدامات عمل میں لائے جائیں گے۔“ لیکن ہم اقلیتوں کے ساتھ کیا کر رہے ہیں؟ کیا ان اقلیتوں کو یہ مذہبی آزادی حاصل ہے کہ اُن کے زبردستی مذاہب تبدیل کروا دیے جاتے ہیں؟ یا انہیں نام نہاد مذہبی آزادی اتنی ہی حاصل ہے کہ وہ 23فیصد سے گھٹ کر 3.5فیصد رہ گئے ہیں۔ خیر مذہب کو چھوڑیں تعلیم کی طرف آجائیں، کیا ہم مرضی کی تعلیم یعنی اچھی تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ نہیں ناں! پھر اگر کہیں اچھی تعلیم دی بھی جاتی ہے تو وہ ہماری پہنچ سے دور کیوں ہے؟ کیوں اس قدر مہنگی تعلیم دی جا تی ہے کہ عام آدمی اُس تعلیم کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ پھر علاج معالجے کی سہولیات کو لے لیں، ہم مرضی کا علاج نہیں کروا سکتے، علاج اتنا مہنگا ہو چکا ہے کہ غریب آدمی مہنگا علاج کروانے کے بجائے موت کو گلے لگانے کو ترجیح دیتا ہے۔ اور پھر رہی بات انصاف کی تو اس کی بات ہی نہ کریں ، 100، 100سال تک مقدمے لڑنا بھی اس خطے کی خاصیت ہے۔ پھر جب ہر شخص کو پتہ ہے کہ یہاں انصاف کا عمل بے محال ہے تو بجائے اسے ٹھیک کرنے کے ہر شخص اپنے تئیں شرمندہ نظر آتا ہے، جج اپنی جگہ شرمندہ ہیں، وکیل اپنی جگہ شرمندہ ہیں، بیوروکریٹ اپنی جگہ شرمندہ ہیں، سیاستدان اپنی جگہ شرمندہ ہیں، مذہبی قائدین اپنی جگہ شرمندہ ہیں ۔ چلیں یہ بھی چھوڑیں، قرارداد پاکستان کے وقت قائداعظم کی تقریر کا لب لباب یہ بھی تھا کہ عام آدمی کو اسمبلیوں میں لایا جائے گا۔ کیا ہم نے اس پر عمل کیا؟کیا ہم مڈل کلاس کو اسمبلیوں میں لاسکے؟ حتیٰ کہ الیکشن سسٹم کو سوچے سمجھے منصوبے کے بغیر اس قدر مہنگا کر دیا گیا ہے، کہ عام آدمی کی دسترس سے ہی نکل چکا ہے۔ الغرض ہمیں کیوں شرم نہیں آتی، میرے خیال میں منتخب کرنے والے بھی اس میں برابر کے شریک ہیں، وہ کیوں کرپٹ افراد کو آگے لے کر آتے ہیں؟ کیوں انہیں بعد میں علم ہوتا ہے کہ یہ بندہ تو پہلے سے کرپٹ تھا ۔ میں نے کالم کے آغاز میں شیر بنگال فضل الحق کا ذکر کیا، جنہیں بعد میں ہم نے غدار قرار دیا گیا، یقین مانیں تاریخ گواہ ہے کہ ہم نے مشرقی پاکستان کو خود سے جدا کرنے کی داغ بیل اُسی وقت ڈال دی تھی جب ہم نے وہاں کے قائدین اور قائداعظم کے قریبی ساتھیوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا تھا ورنہ تو قرارداد 22 مارچ 1940ءکو اس لیے پیش نہ کی جاسکی تھی کیونکہ وزیر اعلیٰ بنگال اے کے فضل الحق اپنی ذاتی مصروفیات کے باعث نہ آسکے تھے، لہٰذا قرارداد کو اگلے دن کے لیے ملتوی کر دیا۔پھر اس قرارداد کی تائید مختلف صوبوں کے تیرہ افراد نے کی جن میں چوہدری خلیق الزماں‘ مولانا ظفر علی خان ‘حاجی عبداللہ ہارون‘ قاضی عیسیٰ‘ مولاناعبدالحامد بدایوانی اور بیگم مولانا محمد علی جوہر بھی شامل تھیں، ان افراد میں بھی بنگالی نمایاں تھے۔اور اس قرارداد کی اجتماعی منظوری ہندوستان کے تمام حصوں سے آئے ہوئے ایک لاکھ سے زائد افراد نے بھی دی۔ یعنی کہنے کا مطلب ہے کہ انہیں اہمیت دی جاتی تھی، اور پھر جب 23 مارچ 1940ءکو وزیر اعلیٰ بنگال اے کے فضل الحق لاہور پہنچ گئے۔ جب فضل الحق اسٹیج پر پہنچے تو پورا پنڈال نعروں سے گونج اٹھا ان کو شیر بنگال کا خطاب دیا گیا۔ پھر اس حوالے سے آج تک کوئی نہیں سوچتا ، نہ کوئی تحقیق کرتا ہے کہ وہ ڈھاکہ جہاں 1906میں آل انڈیا مسلم لیگ نے جنم لیا اور وہ ڈھاکہ جہاں 23مارچ 1940کی قرارداد پیش کرنے والے اے کے فضل الحق دفن ہیں، اس ڈھاکہ میں 16دسمبر 1971کو پاکستانی فوج نے ہندوستانی فوج کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے؟اور کیا بنگالیوں کا ہم سے الگ ہونے کا فیصلہ درست ثابت ہوا؟ کیوں کہ زمینی حقائق تو یہی بتا رہے ہیں کہ آج اُن کی معیشت ہم سے کئی گنا بہتر ہے، آج اُن کے 84ٹکے ایک ڈالر کے برابر جبکہ پاکستان کے 158روپے ایک ڈالر کے برابر ہیں، آج وہاں اوسطاََ فی بنگالی ماہانہ آمدنی 200ڈالر جبکہ فی پاکستانی آمدنی 90ڈالر ہے، آج اُن کے زر مبادلہ کے زخائر 50ارب ڈالر جبکہ ہمارے پاس خالص اپنے زرمبادلہ کے ذخائر 10ارب ڈالر بھی نہیں بنتے۔ جب مشرقی پاکستان الگ ہوا، تو اُس کی آبادی کل آبادی کا 56فیصد جبکہ آج ہم آبادی میں 4کروڑ افراد زیادہ ہیں۔ پھر بنگلہ دیش میں انڈسٹریز کی تعداد اور برآمدات 11فیصد جبکہ پاکستان میں محض 3فیصد رہ گئی ہیں۔ الغرض یہ ثابت ہوگیا ہے کہ الگ ہونے میں وہ ٹھیک تھے اور ہم غلط تھے۔ ان سب کے باوجود افسوس کی بات یہ ہے کہ ابھی بھی ہم کچھ نہیں کر رہے، ہماری کوئی سمت ہی نہیں ہے، ہمارے پاس کو ئی منصوبہ ہی نہیں ہے۔ ہمارا کوئی ٹارگٹ نہیں ہے، ابھی تک تو ہم شتر بے مہار کی طرح ہے،جب سر پر پڑتی ہے تو فوری طور پر ردعمل آجاتا ہے، کہیں ریپ ہو جائے تو خصوصی عدالتیں قائم کر دی جاتی ہیں، مجرموں کو سزائے موت بھی مل جاتی ہے، لیکن جن کیسز میں میڈیا ملوث نہیں ہوتا، اُن ہزاروں کیسز کا کیا ہے؟ یعنی 2020ءمیں 7ہزار ریپ کے کیس رپورٹ ہوئے ، جن میں سے محض 11کیسز کا فیصلہ آسکا۔ باقی سب کیا کریں؟یعنی ہم اُس وقت ردعمل دیتے ہیں جب میڈیا کا دباﺅہوتا ہے،اسی دباﺅ کے پیش نظر ہم اُجلت میں قانون سازیاں بھی کر لیتے ہیں جو جز وقتی فائدہ تو دیتی ہیں مگر ہمیں دیرپا فائدہ نہیں ملتا ۔ یعنی حکومت اسے لاگو کرنے میں ناکام رہتی ہے، اور اگلے ہی لمحے حکمران کسی اور مسئلے میں دھنس جاتے ہیں۔ لہٰذاحکومت کو بولڈ فیصلے کرنا ہوں گے، اگر ملک کو بچانا ہے تو ہمیں اجتماعی مفادات کے لیے فیصلے کرنا ہوں گے۔ 23مارچ کو صرف ایک فوجی پریڈ تک محدود کرنے کے بجائے ہمیں عملی اقدامات اُٹھانا ہوں گے، ورنہ ہم یونہی بے منزل کے مسافر کی طرح راستے میں ہی بھٹکتے رہیں گے اور ہمیں کچھ حاصل نہ ہوگا!