مارشل لا کی آہٹ سنائی دے رہی ہے!

قارئین! کیا آپ کو یاد ہے ؟ کہ ضیاءالحق کے مارشل لا میں بھٹو کو پھانسی ہوئی، سیاستدانوں اور سیاسی کارکنوں کو کوڑے پڑتے تھے، شاہی قلعہ کاٹنا پڑتا تھا، پھر مشرف کے مارشل لاءمیں نواز شریف اپنی مقبولیت کے بلندیوں پر تھے، وہ بھی مارے جاتے اگر انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ مداخلت نہ کرتی ۔ مشرف دور میں ان سیاستدانوں کی سیاست پر پابندیاں لگیں، یہ چھپتے پھرتے تھے۔ ابھی تو یہ سیاستدان ایک دوسرے کو برداشت نہیں کر رہے لیکن لیکن مارشل لاءلگنے کے بعد میجر، کرنل یا بریگیڈیر کے سامنے یہ لوگ گھٹنے ٹیک رہے ہوتے ہیں۔ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ سیاستدان ہاتھ باندھ کر ان کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں ۔ لہٰذاتمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے کہ ابھی بھی مارشل لا ءجیسے حالات بنائے جارہے ہیں جس سے میرے خیال میں بچنا ہی چاہیے۔ جیسے رواں ہفتے بدھ کو تحریک انصاف نے ”عدلیہ بچاﺅ“ ریلی نکالنے کا اعلان کیا، اور عین اُسی دن پنجاب حکومت نے صوبے بھر میں دفعہ 144کا نفاذ کرکے ریلی کے لیے جمع ہونے والے پاکستان تحریک انصاف کے ورکرز پر لاٹھی چارج کیا، واٹر کینن کے ذریعے پانی پھینکا اور ورکرز کو جیلوں میں ڈالا۔ ان کارکنوں پر لاہور میں ہونے والا پولیس تشدد دیکھ کر دل کے اندر سے ایک عجیب سی اداسی اُبھری۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے، عوام کو ملک اور اپنے اپنے پسندیدہ حکمرانوں اور لیڈروں کے رومانس میں اسی طرح پولیس کی مار کھاتے اور مرتے ہی دیکھا ہے۔خیر یہ تو الگ بحث ہے مگر اس دوران نگران حکومت نے جو رنگ دکھایا ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔ یہ تاریخ کی سب سے معتصب اور Biasedحکومت لگ رہی ہے۔ جبکہ دوسری بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ بلکہ ”ڈھنڈورچی“ منادی کر رہا ہے کہ حالات جان بوجھ کر خراب کیے جا رہے ہیں، تاکہ اس ملک میں فوجی حکومت آ جائے ،جو سب کچھ ملیا میٹ کر جائے۔ ورنہ جب صوبے میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہوتو ایسے میں ضرورت نہیں تھی کہ کسی انتخابی ریلی کو روکا جائے۔ ان کن انکھیوں نے تاریخ میں 2بڑے مارشل لاﺅں کے حالات و واقعات کو دیکھا جب کہ 2مارشل لاﺅں پر خاصی تحقیق کی ہے۔ لہٰذاآج کے حالات کسی طرح سے بھی مختلف نظر نہیں آرہے۔ تاریخ میں مارشل لاءلگانے سے پہلے حالات اسی طرح خراب کیے جاتے رہے کہ لوگ خود ہی مارشل لاءکا خیر مقدم کرتے ہوئے دکھائی دیں اور کہیں کہ ہاں! واقعی مارشل لاءوقت کی اہم ضرورت ہے۔ حالانکہ ہمیں یہ بالکل نہیں بھولنا چاہیے کہ خالص جمہوریت کا ایک دن مارشل لاءکے ہزار دنوں سے بہتر ہوتا ہے۔ نہیں یقین تو آپ ڈکٹیٹر شپ کے دنوں کے فیصلے ملاحظہ فرمالیں کہ جن سے پاکستان آج بھی نبرد آزما ہے۔ مثلاََ مشرف نے بغیر مشاورت امریکا کو ہوائی اڈے دیے، سینکڑوں پاکستانیوں کو امریکا کے حوالے کیا اور بدلے میں ڈالر لیے،2002میں زبردست انتخابی دھاندلی کی اور نیب کا سب سے پہلے سیاسی استعمال کیا۔ قبائل علاقوں میں طاقت کا بے جا استعمال کیا۔ امریکا و اتحادیوں کو پاکستان میں ڈرون حملے کر نے کی اجازت دی۔ اکبر بگٹی کو قتل کروایا، اُس وقت کے چیف جسٹس اور دیگر معزز جج صاحب کی تذلیل کروائی۔ن لیگ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو مکمل این آر او دیا۔ لال مسجد میں طاقت کا استعمال کیا جس کا ری ایکشن پورے ملک میں دیکھا گیا، بے نظیر مشرف دور میں قتل ہوئی جس سے ملک کو ایک بڑے قومی سانحہ سے گزرنا پڑا۔ اور پھر یہی نہیں بلکہ آپ جنرل ضیاءکے دور کو دیکھ لیں، جنرل ضیاءنے امریکی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے امریکا ہی کے کہنے پر افغان روس جنگ میں اپنے جہادی بھیجے، تاکہ روس کو شکست ہو۔ پھر سب نے دیکھا کہ روس کو شکست ہوئی اور پھر جب وہی جہادی پاکستان واپس آئے تو یہاں مختلف طرح کی پرتشدد تنظیمیں بنائیں جس سے فرقہ بازی نے جنم لیا۔ پھر ضیاءکی ڈکٹیٹر شپ نے ہی غیر جماعتی الیکشن کروا کر سب سے پہلے پیسے والے لوگوں کو سیاست میں لا کر سیاست کو ایک ”کاروبار“ بنا دیا۔ پھر انہوں نے پاکستان میں ”اسلامائزیشن“ کا مکسچر متعارف کروایا جس کا نقصان یہ ہو اکہ ہم مغرب ہم سے مزید دور ہوتا گیا۔ اور ملک انتہا پسندی کی طرف چلا گیا۔ لہٰذابادی النظر میں ایک بار پھر حالات ویسے ہی ہیں، اگر ہمارے سیاستدانوں نے آپسی لڑائیاں ختم نہ کیں تو وہ دن دور نہیں جب انہیں دوبارہ اُٹھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ کیوں کہ 1977ءکے مارشل لاءسے پہلے سیاستدان آپسی لڑائیوں کے بعد بالآخر کسی نتیجے پر پہنچ چکے تھے لیکن بعد میںاسٹیبلشمنٹ نے اُنہیں موقع ہی نہ دیا۔اور مارشل لاءلگا دیا۔ یہاں بھی ایسا ہی دکھائی دے رہا ہے، کہ نگران حکومت جو کام پنجاب میں کر رہی ہے، اُس سے یہی لگتا ہے کہ پی ٹی آئی اور نگران حکومت کے درمیان محاذ آرائی ہوگی۔ ورنہ ایک ریلی کو داتا دربار جانے کی اجازت دینے میں مسئلہ کیا تھا، اور ایسے میں جب الیکشن کی تاریخ کا اعلان بھی کیا جا چکا ہے۔ یعنی ایک طرف الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور دوسری طرف شہر بھی میں دفعہ 144لگائی جا رہی ہے۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟ میں پھر کہتا ہوں کہ میں 1988ءسے نگران حکومت دیکھ رہا ہوں، میرے خیال میں یہ پہلی نگران حکومت ہے جو اتنی زیادہ معتصب یعنی Biasedہے۔ اس وقت اتنے زیادہ تبادلے ہو رہے ہیں، کہ تمام ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں، یعنی ہر پولیس اسٹیشن پرہر ڈپٹی کمیشنر آفس میں مسلم لیگ ن کے رہنما نظر آرہے ہیں ۔ اُن کے کہنے پر تبادلے ہو رہے ہیں، اُن کے کہنے پر مخالفین کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہیں، اُن کے کہنے پر تمام لین دین ہو رہے ہیں۔ یعنی حالیہ چند ماہ میں ایک اندازے کے مطابق پنجاب کی سطح پر 10ہزار سے زائد تبادلے ہو چکے ہیں۔ لہٰذااب آتے ہیں اس بات پر کہ مقتدر قوتیں ، پی ڈی ایم اور نگران حکومت کیوں نہیں چاہتی کہ الیکشن وقت پر ہوں، ایسا میرے خیال میں اس لیے ہے کہ سب کو نظر آرہا ہے، کہ اگر ان حالات میں الیکشن کروائے گئے تو عمران خان کے جیتنے کے روشن امکانات ہیں۔ اس لیے اس سے بچنے کے لیے یا تو الیکشن کی تاریخ آگے بڑھائی جائے گی، جس کی عدلیہ قطعاََ اجازت نہیں دے رہی تو ایسی صورت میں آخری حل مارشل لاءہی رہ جاتا ہے۔ اور رہی بات انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی تو ہو سکتا ہے،وہ بھی مارشل لاءلگانے کی بھی اجازت دے دے۔ کیوں کہ یہ تو پہلے ہی اقتدار میں ایسا بندہ چاہتے ہیں جو ان کے لیے کٹھ پتلی ہو۔ نہیں یقین تو آپ سیاستدان مشاہد حسین سید کا بیان پڑھ لیں کہ ”امریکا کے پاکستانی سفارت خانے کو امریکا منتقل کر دیں تو یہ سفارت خانہ امریکا میں بھی مار شل لا لگوا دے گا“ اس کا صاف مطلب ہے کہ ہمارے ملک میں امریکا ہی مارشل لا لگواتا رہا ہے۔ ظاہر ہے امریکا ہمارے ملک میں خود تو نہیں آتا بلکہ وہ کچھ ہمارے ہی لوگوں کو غلط راستے پر ڈال کر اقتدار پر قبضہ کا راستہ بتاتاہے۔ اس کا مشاہدہ مجھے (ر) لیفٹنیٹ جنرل شاہد عزیز کی کتاب ”یہ خاموشی کب تک“ کا مطالعہ کرتے ہوئے بھی ہوا۔ وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ امریکا میں فوجی ٹرنینگ کے دوران مجھ پر امریکی خفیہ کے ایجنٹوں نے کام کیا اور کہا کہ آپ اور آپ کے بچوں کا خیال رکھا جائے گا آپ امریکی مفادات کے لیے کام کرنے کا وعدہ کریں۔ فری میسن یہودی تنظیم کے کچھ ایجنٹوں نے بھی یہی کوشش کی مگر اللہ کا شکر ہے کہ میں ان دونوں کے جھانسے میں نہیں آیا۔ ایسا ہی مسلم لیگ کے مرکزی رہنما(ر) جنرل مجید ملک کی کتاب میں بھی ذکر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ امریکی سفیر نے مجھے کہا کہ آپ امریکی مفادات کے لیے کام کریں مگر میں نے کہا کہ میری وفاداری پاکستان کے ساتھ ہے۔مگر اللہ نے مجھے محفوظ رکھا۔ نہ جانے اور کتنی کتابیں کتنی داستانیں ہونگی۔ اور ویسے بھی یہ لوگ بظاہر تو ڈکٹیٹر شپ پر تنقید کرتے ہیں۔ لیکن اندرون خانہ ڈکٹیٹر شپ کے ہوتے ہوئے آپ کی معاشی حالت کو بہتر بنا دیتے ہیں، لیکن اس کے بدلے میں وہ آپ سے ایسے ایسے فیصلے کروالےتے ہیں کہ جس سے اگلی سات نسلیں بھی متاثرہوئے بغیر نہیں رہتیں۔ اور ہماری ناقص اطلاعات کے مطابق اس وقت ہماری اور انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کے آپس میں روابط بھی ہو چکے ہیں جو کسی نتیجہ پر پہنچنے کے لیے بے چین نظر آرہے ہیں۔ لہٰذاسیاستدانوں کے لیے یہ بڑا موقع ہے کہ وہ اس سے بچ جائیں۔ ن لیگ اور پیپلزپارٹی یہ سوچ لیں کہ اگر مارشل لاءآگیا تو اگلے دس سال کے لیے ملک ایک بار پھر مفلوج ہو جائے گا۔ اور پھر مارشل لاءکو Justifyکرنے کے لیے بہت سے سیاستدانوں کی گرفتاریاں ہوتی ہیں، اُنہیں زدو کوب کیا جاتا ہے اور پھر ملک بدر کر دیا جاتا ہے۔ آپ 1977ءکے مارشل لا کو دیکھ لیں، 1999کے مارشل لاءکو دیکھ لیں کہ کیسے سیاستدانوں کو جیلوں میں ڈالا گیا۔ ابھی تو سیاستدان عدالتوں یا نیب سے ڈرتے ہیں، مگر جب مارشل لاءلگا تو ان سب کے اوسان خطا ہو جائیں گے۔ لیکن ان سب میں دو نقصان ہوں گے، ایک عوام کا اور دوسرا ملک کا۔ لہٰذافیصلہ ان سیاستدانوں کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اسی ڈگر پر چلتے ہیں یا باہمی کوئی فیصلہ کرتے ہیں جس سے ملک میں استحکام آجائے۔ اور مارشل لاءکا خطرہ ٹل جائے۔ اور رہی بات عوام کی تو یقین مانیں مجھے دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ کیا مرنے کے لیے ہم عوام ہی رہ گئے ہیں؟ جو اچھے دنوں کی امید میں عوام ہر کسی کے پیچھے لگ جاتے ہیں۔ وہ اپنے لیڈروں کوتخت پر بٹھا کر‘ دیوتا کا درجہ دے کر انہیں پوجنا شروع کر دیتے ہیں۔ اپنے دیوتا کے خلاف وہ کوئی بات نہیں سنتے۔ انسانی پسند‘ ناپسند بڑی خوفناک چیز ہے۔ جو بندہ آپ کو پسند ہو‘ آپ اس کے بارے میں ایک بھی برا لفظ نہیں سن سکتے۔لیکن عوام کو ملتا کیا ہے؟ ایک منظم ملک ، جو آنے والی نسلوں کی بہتر ہو۔ سکندر کی دنیا فتح کرنے کی خواہشات کے لیے قربانی عام یونانیوں نے دی جنہیں آج کوئی نہیں جانتا۔ فرانس کے نپولین کی عظمت کے نام پر لاکھوں فرانسیسی فوجی مارے گئے۔ کسی کو ایک بھی فوجی کا نام یاد ہے؟ مگر انہوں نے مضبوط فرانس کے لیے قربانی دی۔ بھٹو صاحب کے جوشیلے نعرے سنیں تو آج بھی آپ کا دل جوش سے بھر جائے گا کہ گھاس کھا لیں گے‘ ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔ بھارت سے ہزار سال جنگ لڑیں گے۔ بھٹو کی پھانسی پر لوگوں نے خود کو آگ لگا کر جلا لیا تھا۔مگر بھٹو کو قسمت نے موقع ہی نہ دیا کہ وہ مضبوط قوم بنا سکیں! لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ ڈکٹیٹر شپ سے جتنا بچا جاسکتا ہے، بچا جائے۔ سیاستدان ایک خالص معاہدہ کریں جو صرف سیاستدانوں کے درمیان ہو۔ درمیان میں کسی قوت کو شامل نہ کریں۔ بزرگ سیاستدان اس اہم کام کے لیے آگے بڑھیں، سبھی اُن کی بات بھی سنیں گے اور اُن کی بات کو اہمیت بھی دیں گے، ورنہ مارشل لاءکسی کو نہیں چھوڑے گا۔ نہ سیاستدانوں کو، نہ عوام کو اور نہ ہی آنے والی نسلوں کو!