ترکیہ پر آفت : اول خویش بعد درویش !

ترکی اور شام کو تاریخ کی سب سے بڑی قدرتی آفت زلزلے نے آن گھیرا ہے، جس کی ریکٹر سکیل پر شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی ہے۔ابھی تک کے اعداد و شمار کے مطابق دونوں مسلم ممالک میں اب تک 9000افراد جاں بحق ،لاکھوں افراد زخمی ، 2کروڑ افراد متاثر اور 10ہزار سے زائد عمارتوں کو نقصان پہنچا ہے۔ ابھی بھی ہزاروں لوگ تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں اور ابھی آفٹر شاکس کا سلسلہ جاری ہے جس سے اندیشہ ہے کہ ایک اندا زے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد کم سے کم 8گنا ہوسکتی ہے جبکہ امریکی جیالوجیکل سروے نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ تعداد ایک لاکھ تک پہنچ سکتی ہے۔ ملبے سے لوگوں کو نکالنے کے لئے بڑے پیمانے پر امداد ی سرگرمیاں جاری ہیں مگر شدید سردی اور بارش کی وجہ سے ان میں رکاوٹ پڑ رہی ہے زلزلے سے ترکی کے دس شہر بری طرح متاثر ہوئے ہیں صدر اردوان نے ہنگامی حالت نافذ کردی ہے اور ایک ہفتے کے سرکاری سوگ کا اعلان کیا ہے جبکہ قومی پرچم سرنگوں کردیا ہے۔ زلزلے کا مرکز جنوبی ترکی سے 23کلومیٹر دور اور گہرائی 17.9 کلومیٹر بتائی گئی ہے ترکی اور شام کے علاوہ قبرص ، یونان، اردن، لبنان، جارجیا، آرمینیا اور اسرائیل میں بھی زلزلے کے جھٹکے محسوس کئے گئے مگر جانی نقصان کی کوئی اطلاع نہیں ملی بتایا گیا ہے کہ 1939ءکے بعد یہ سب سے بڑی قدرتی آفت ہے جس کا ترکیہ کو سامنا کرنا پڑا کئی علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے ہیں متاثرہ علاقوں میں زلزلے کی فالٹ لائن نسبتاًخاموش ہے جس کی وجہ سے یہاں عمارتوں کے ڈھانچوں پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ بیشتر عمارتیں کمزور ہیں زلزلے سے بڑی تباہی کا ایک سبب یہ بھی ہے۔ تباہ شدہ علاقوں میںیا اللہ ، یا اللہ کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں، زلزلے ایسی قدرتی آفت ہیں جن کی پیش گوئی نہیں کی جاسکتی اس لئے ان کے سد باب کا بھی کوئی طریقہ دریافت نہیں ہوا۔ دنیا بھر کے 60سے زائد ممالک کی ٹیمیں ترکی میں مدد کے لیے پہنچ چکی ہیں، حالانکہ ترکی نے اس کے لیے کسی پلیٹ فارم کو بھی استعمال نہیں کیا، مگر پاکستان پر دنیا اتنا ”اعتبار“ کرتی ہے، کہ بار بار Request کرنے کے باوجود یہاں کوئی نہیں آرہا۔ اور جن ممالک نے امداد کے وعدے کیے ہیں وہ بھی بہانے تلاش کرنے لگے ہیں۔ وہ شاید جانتے ہیں کہ ان لوگوں نے متاثرین تک امداد نہیں پہنچانی۔ خیربتایا گیا ہے کہ نیدر لینڈ کے ایک ماہر طبقات الارض نے تین روز پہلے سوشل میڈیا پر پیش گوئی کی تھی کہ اس علاقے میں جلد یا بدیر 7.5شدت کا زلزلہ آئیگا جو صحیح ثابت ہوئی اس پر دھیان دیا جاتا اور لوگوں کو خبردار کردیا جاتا تو شاید اتنی بڑی تباہی نہ پھیلتی۔ شام میں ترکی سے بھی زیادہ تباہی آئی ہے مگر اس کی تفصیلات ہنوز نہیں بتائی جاسکیں۔ اللہ خیر کرے اور مصیبت زدہ لوگوں کی مدد کرے مگر سوال یہ ہے کہ ہمارے حکمران بھی ترکیہ جانے کو بے تاب نظر آرہے ہیں، اور گزشتہ 2، 3دن سے بیان جاری کر رہے تھے کہ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو ترکیہ جائیں گے، جس پر خاصی تنقید کی گئی کہ ایسے موقع پر ترکیہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ مہمان نوازی کر سکیں۔ لہٰذا گزشتہ رات گئے بغیر وجہ بتائے یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا ہے، اب یہ بھی کوئی نہیں بتا رہا کہ دورہ کس کی جانب سے منسوخ کیا گیا ہے، ترکیہ کی جانب سے یا ہمارے حکمرانوں کو اس بات کا خیال آگیا کہ وہاں وزرائے اعظم کے بجائے امدادی ٹیموں، راشن اور دیگر اشیا کی ضرورت ہے۔ اور پھر معروف کہاوت ہے: دریا میں کشتی ڈوب جائے تو سب سے پہلے اپنی جان کی فکر کرنی چاہیے اس کے بعد دوسروں کی مدد کا سوچنا چاہیے۔ انسانی فطرت بھی یہی ہے کہ اگر سیلاب، زلزلہ یا کوئی بھی ناگہانی آفت آ جائے تو پہلے اپنا اور اپنے خاندان کا تحفظ یقینی بنایا جاتا ہے، اس کے بعد ہی دیگر افراد کو بچانے کی سعی کی جاتی ہے۔ انفرادی سطح پر یہی بہترین طریق البتہ اجتماعیت کے تقاضے مختلف ہوتے ہیں۔ جب آپ ایک چھت تلے بیٹھے ہوں تو صرف اپنی فکر نہیں کی جا سکتی۔ چھت گرنے کی صورت میں نقصان سب کا یکساں ہوتا ہے۔ شومی قسمت دیکھئے! پانچ ماہ قبل پاکستان کا 70فیصد حصہ ڈوب چکا تھا، اور ابھی تک ہم ان کی بحالی نہیں کر سکے۔ اور نہ ہی امداد پہنچا سکے ہیں، بلکہ ترکیہ میں ہم نے امداد اور امدادی کارکن بھیج دیے ہیں۔ مگر یہاں کسی کی دکان اگر سیلاب میں بہہ گئی تھی تو اُسے ابھی تک ہم دوبارہ تعمیر نہیں کرسکے۔ کسی کی فصل بہہ گئی تھی تو اُس کی مدد تو دور کی بات ابھی تک اُس کی زمینوں سے پانی ہی نہیں نکال سکے اورنہ ہی دوبارہ قابل کاشت بنا سکے ہیں۔ بلکہ خبریں یہ آرہی ہیں کہ اب تو غیر سرکاری تنظیمیں ان لوگوں سے زمینوں کے کاغذات لے کر بھاری سود کے عوض قرضے دے رہی ہیں، اس مذکورہ سیلاب میں 17 سو سے زائد افراد کی جانیں گئیں اور 80 لاکھ لوگ بے گھر ہوئے۔اس سیلاب سے ملک میں تقریباً 10 لاکھ گھر اور کاروبار تباہ ہوئے۔تقریباً 50 لاکھ افراد، جن میں زیادہ تر کا تعلق سندھ اور بلوچستان میں سے ہے، مون سون کی بارشوں اور پگھلتے گلیشیئروں کی تباہی کے کئی مہینوں بعد بھی سیلاب کے پانی کی زد میں ہیں۔اس صورت حال میں بین الاقوامی ڈونرز نے گذشتہ ماہ جنیوا میں ہونے والی کانفرنس میں زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا کرنے والے ملک میں بحالی اور تعمیر نو میں مدد کے لیے نو ارب ڈالر سے زیادہ رقم فراہم کا وعدہ کیا تھا۔شدید تر ہوتے معاشی بحران میں پھنسے پاکستان نے ڈونر گروپس سے 16.3 ارب ڈالر مالیت سے بحالی کے منصوبوں کے نصف حصے کو پورا کرنے کے لیے فنڈز مانگے تھے۔لیکن ابھی تک زمینی حقائق یہ ہیں کہ اس امداد کا 5فیصد بھی ان غریب اور متاثرہ لوگوں تک نہیں پہنچ سکا۔ نہیں یقین تو آپ خود وہاں جا کر وزٹ کر لیں، میں بذات خود اپنے تئیں دوست احباب کی مدد سے 15لاکھ روپے کا سامان لے کر جنوبی پنجاب پہنچانے گیا تو وہاں لوگوں کو دیکھ کر یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کا اللہ کے سوا کوئی پرسان حال نہ ہوگا۔ ابھی گزشتہ روز ہی وہاں سے مجھے ایک کال موصول ہوئی ، کال کرنے والے نے بتایا کہ دادو ضلع کے ایک چھوٹے سے گاو¿ں میں رہنے والی چھ بچوں کی ماں 25 سالہ عزیزہ جیسے لوگوں کو فوری امداد کی سخت ضرورت ہے۔ سیلابی پانی نے ان کے گھر کو تباہ کر دیا جسے ان کے خاندان نے اپنی بھینسیں فروخت کرنے کے بعد تعمیر کیا تھا۔اب اس پورے خاندان کے پاس پناہ کے لیے ایک کمرے کی جھونپڑی ہے جو ٹھہرے ہوئے پانی سے گھرے ایک جزیرے پر واقع ہے۔ یہاں بیت الخلا بھی نہیں ہے اور عزیزہ اور ان کے شوہر بمشکل اتنا ہی کما پاتے ہیں جس سے وہ کھانا خرید سکیں، تعمیراتی سامان تو دور کی بات ہے۔ سیلاب کے وقت ان کے پڑوسی اللہ ودھایا کی بیوی جب بچے کو جنم دینے والی تھی تو انہیں اپنے گاو¿ں سے جوہی شہر تک پہنچنے کے لیے 20 کلومیٹر کا سفر کشتہ میں طے کرنا پڑا۔اینٹوں کے بھٹے میں کام کرنے والے ودھایا نے کہا کہ سڑکیں اب زیر آب نہیں ہیں لیکن زندگی معمول پر آنے سے بہت کوسوں دور ہے۔انہوں نے کہاہمارے لیے ابھی زیادہ روزگار نہیں ہے کیونکہ دیہاتوں اور کھیتوں میں اب بھی سیلابی پانی کھڑا ہے۔ ہمیں جو امدادی پیک ملتے ہیں وہ کافی نہیں ہیں اور میرے پاس جو تھوڑا بہت سونا تھا وہ بیچ کر گزارا کر رہے ہیں۔کال کرنے والے کی یہ باتیں سن کر آنکھیں نم ہوگئیں۔ کیوں کہ وہاں کی کیفیت وہی جان سکتا ہے جو وہاں پر رہائش پذیر ہو یا وہاں آنکھوں سے سب کچھ دیکھ کر آیاہو۔ خیر مختصر بات یہ ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف کو چاہیے کہ ترکیہ بہت زندہ دل قوم ہے، پوری قوم متاثرین کی بحالی کا کام کررہی ہے، وہاں دنیا بھر کی امدادی ٹیمیں پہنچ چکی ہیں، بلکہ پاکستان سے بھی نجی تنظیمیں پہنچ چکی ہیں، لہٰذا نمبر ٹانگنے کے بجائے اپنے لوگوں پر توجہ دیں۔ اس پر توجہ نہ دیں کہ کوئی مشیر بننے کے لیے رہ تو نہیں گیا!یعنی انہوں نے آخری خبریں تک جہازی سائز کی کابینہ بنا ڈالی ہے اوروفاقی کابینہ میں ایک ساتھ 5 معاونین خصوصی کا مزید اضافہ کرکے اسے 83رکنی کابینہ تک پہنچا دیا ہے۔ان میں وزیر اعظم کے 38 معاونین خصوصی، 34 وفاقی وزرائ، 7 وزراءمملکت اور 4 مشیر شامل ہیں۔تمام 5 نئے معاونین خصوصی کا عہدہ وزیر مملکت کے برابر ہوگا، نئے معاونین خصوصی کو کوئی قلمدان نہیں دیا گیا۔ حد تو یہ ہے کہ معیشت ڈوب رہی ہے اور کوئی سیاسی جماعت اس کو بچانے کے لیے ہاتھ پاﺅں نہیں مار رہی۔ سب اپنی اپنی سیاست کا راگ الاپ رہے ہیں۔ اجتماعیت کل بھی زوال پذیر تھی اور آج بھی زوال پذیر ہے۔ انہیں اندازہ ہی نہیں کہ ملک کی معیشت پیندے سے جا لگے تو زیاں سب کے حصے میں برابر تقسیم ہوتا ہے۔ بیروزگاری کا ناگ ڈسنے لگ جائے تو امیر اور غریب میں تفریق نہیں کرتا۔ مہنگائی کی آندھی چل پڑے تو سارے گھروں کے دیے بجھنے لگتے ہیں۔ پھر میاں نواز شریف، عمران خان، آصف علی زرداری اور عام آدمی کا فرق ختم ہو جاتا ہے۔ کیا کبھی ہماری اشرافیہ نے یہ سوچا ہے؟ احمد فراز یاد آتے ہیں: میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں لہٰذاوزیر اعظم اس طرف توجہ دیں کہ ملک کو ان گھمبیر حالات سے کیسے نکالنا ہے، بلکہ معذرت کے ساتھ میں تو یہی کہوں گا کہ اگر آپ اپنے ملک میں تین مرتبہ اے پی سی کی تاریخ دینے کے بعد اُسے منعقد نہیں کروا سکے ، مسائل کا تعین نہیں کر سکے اور تو پھر کیسے ممکن ہیں کہ آپ مسائل حل کرنے کے قابل ہیں۔ اور پھر اگر آپ زلزلہ زدگان کی خدمات کرنا ہی چاہتے ہیں تو پیش گوئیاں ہو رہی ہیں کہ پاکستان میں بھی زلزلے آسکتے ہیں کیوں کہ پاکستان کے کئی علاقے زلزلے کی فالٹ لائن پر واقع ہیں اور وقتاً فوقتاً زلزلے آتے رہتے ہیں۔ ان میں 2005میں آزاد کشمیر اور خیبر پختونخوا میں آنے والا زلزلہ سب سے ہولناک تھا کوشش کی جانی چاہئے کہ سائنسی تحقیق کے ذریعے زلزلوں کی پیش گوئی ممکن بنائی جائے تاکہ لوگوں کو پہلے خبردار کرکے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ اس حوالے سے سائنسی تحقیق کے عالمی اداروں سے تعاون مانگیں اور پیشگی اقدام کریں۔ تاکہ جناب کا نام تاریخ میں لکھا جائے کہ موصوف نے روٹین سے ہٹ کر کام کیا ہے!