پرویز مشرف تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے!

پاکستان کے سابق آرمی چیف، سابق چیف ایڈمنسٹریٹر مارشل لاءاور سابق صدر جنرل پرویز مشرف اتوار کے روز طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ یہی وہی مشرف تھے کہ جن کے بارے میں مشہور تھا کہ پاکستان میں اُن کی اجازت کے بغیر پتا بھی نہیں ہل سکتا۔ یہ دور 2001ءکے بعد کا دور تھا،وہ ہر روز شہ سرخیوں میں جگہ بناتے۔ پاکستان، انڈیا ، دنیائے اسلام اور عالمی دنیا کے میڈیا پر ہر وقت چھائے رہتے۔ مخالفین بھی اُن کی دہشت سے ڈرا کرتے تھے۔ وہ حادثاتی طور پر چیف مارشل لاءبنے یا پہلے سے اُن کے ذہن میں اس حوالے سے کوئی آئیڈیا تھا، اس حوالے سے راز وہ اپنے ساتھ ہی لے کر چلے گئے۔مگر یہ ”حادثہ“ اُن کے لیے اچھا اور بہترین ثابت ہوا، ہوا کچھ یوں تھا کہ پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999ءکے روز کٹھمنڈو سے پاکستان کا سفر اختیار کیا۔ اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے جنرل مشرف کا ہوائی جہاز فضا میں معلق کر دیا۔ اپنے ہی آرمی چیف کو پاکستان میں لینڈ کرنے کی اجازت نہ دی۔ طیارے کے پائلٹ کو کہا گیا کہ وہ طیارہ کسی خلیجی ملک میں اُتارلے مگر جہاز کا ایندھن اتنی لمبی اُڑان کے لیے ناکافی تھا۔ یہ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا مارشل لاءلگنے کا دن تھاجب مارشل لاءایڈ منسٹریٹر پاکستان کی فضاﺅں میں ایک طیارے کا بے بس قیدی تھاکہ زمین پر اُس کا راج قائم ہوگیا۔جنرل مشرف کے کور کمانڈروں نے کراچی ایئرپورٹ، پی ٹی وی ہیڈ کوارٹراسلام آباد اور پرائم منسٹر ہاﺅس پر قبضہ کر کے پورے ملک میں انفارمیشن کا بلیک آﺅٹ کردیا۔ آدھی رات کے بعد جنرل مشرف نے نواز شریف کے نئے نامز دآرمی چیف جنرل ضیاالدین بٹ کو حراست میں لینے اور ملک کی زمامِ اقتدارچیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے سنبھالنے کا اعلان کیا۔ اُس کے بعد پاکستان ایک بار پھر مارشل لاءکی گود میں چلا گیا اور وہ 9سال تک برسر اقتدار رہے۔ اور ملک کے تمام سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ اور اپنی حکومت کے خاتمے تک کئی تنازعات کی زد میں رہے، جن میں بزورِ بندوق نواز شریف کی حکومت کا خاتمہ، آئین کی معطلی، سپریم کورٹ کے ججز کو قید میں رکھنا، کراچی میں 12 مئی کا سانحہ، لال مسجد آپریشن، دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن سمیت کئی دیگر واقعات شامل ہیں۔لیکن پرویز مشرف کے حامی ان کے کئی اقدامات کی وجہ سے اُنھیں پسند بھی کرتے ہیں جن میں پاکستان میں پرائیوٹ الیکٹرانک میڈیا کا فروغ، انڈیا کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی جانب قدم بڑھانا، اور فوجی ڈکٹیٹر ہونے کے باوجود اکثر و بیشتر کانفرنسز میں طلبہ کے سخت سوالات پرغصہ کیے بغیر جواب دینا شامل ہیں۔الغرض جہاں کئی لوگ پرویز مشرف کو آئین توڑنے والے ڈکٹیٹر کے طور پر یاد رکھتے ہیں تو کئی لوگ ان کے وہ اقدامات بھی گنوا رہے ہیں جو ان کے نزدیک مشرف سے پہلے ناپید تھے۔ لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جس طرح جنرل ضیا کی طرح امریکی آشیر باد حاصل ہوئی بالکل اُسی طرح اُنہیں بھی امریکی سپورٹ حاصل ہو گئی ۔ مثلاََ جنرل ضیاءالحق کو تحفے میں افغان جنگ ملی، اور امریکا کو اُن کی ضرورت آن پڑی ۔ بالکل اسی طرح مشرف کے دور میں 9/11کا واقعہ ہوگیا اور امریکا کو مشرف کی شکل میں اتحادی مل گیا جس نے بغیر چون و چراہ اور بغیر کسی قومی مفاد کے سب کچھ امریکا کو دے دیا۔ بادی النظر میں مارشل لاءمیں کئی ایک قباحتیں ہوتی ہیں لیکن سرفہرست یہ ہے کہ ڈکٹیٹر شپ میں فیصلے عوام نہیں ہوتے بلکہ یک طرفہ ہوتے ہیں۔ جس سے ملک و قوم کو ہمیشہ نقصان ہوتا ہے۔ اور جنرل پرویز مشرف نے بھی امریکا کا ساتھ دے کر افغانیوں کو اپنے خلاف کیا اور پاکستانی طالبان پیدا کیے۔ جنہوں نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔ اور 2002سے 2013تک کے عرصے میں شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا تھا کہ جب پاکستان میں کوئی دھماکا یا دہشت گرد کارروائی نہیں ہوتی تھی۔ لاہور، کراچی ، اسلام آباد ، کوئٹہ جیسے بڑے شہر بھی دہشت گردی کی لپیٹ میں رہے۔ لاہور جیسے شہر کو گہنا کر رکھ دیا گیا۔ اس دہشت گردی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ بیرونی انویسٹر نے پاکستان کا رُخ کرنے کے بجائے بنگلہ دیش، بھارت اور سری لنکا کی جانب رُخ موڑ دیا۔ پاکستان کو اس نقصان کے بدلے کیری لوگر بل کے تحت ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ ملتے تھے مگر اس دوران پاکستان نے کم و بیش 100ارب ڈالر کا نقصان اور 75ہزار جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ یہ سب مشرف کے غیر مقبول اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے غلط فیصلوں کی بدولت تھا۔ امریکا ہر دم پاکستان کو ”ڈو مور“ ”ڈو مور“ کہتا رہا۔ پاکستان کو امریکی اخبارات میں معذرت کے ساتھ وفادار کتے سے تشبیہ دی جاتی رہی۔ اور پھر بجائے اس کے کہ مشرف امریکا سے اپنے قرضے ختم کروانے کی بات کرتے پرویز مشرف پر امریکا کی جانب سے ”ڈبل گیم“ کا الزام لگتا رہتا۔ پاکستانی صدر کی حالت کو رسی پر چلنے سے تشبیہ دی جاتی تھی کیونکہ وہ پاکستان میں شدت پسندوں کے خلاف حملوں کے لیے امریکی دباو¿ اور ملک میں امریکہ مخالف اسلامی آوازوں میں توازن بنانے کی کوشش میں لگے رہتے۔پرویز مشرف پر نیٹو اور افغان حکومت کی جانب سے مسلسل الزام عائد کیا جاتا رہا کہ وہ القاعدہ اور طالبان کے ہمدرد جنگجوو¿ں کی فاٹا کے راستے افغانستان میں نقل و حمل کو روکنے کی کافی کوشش نہیں کر رہے۔اُن کے ریکارڈ کے بارے میں کئی سوالات اس وقت سر اٹھانے لگے جب 2011 میں اسامہ بن لادن پاکستان میں پائے گئے جہاں وہ پاکستان ملٹری اکیڈمی کے قریبی علاقے میں برسوں سے رہائش پذیر تھے اور مشرف برسوں سے انکار کرتے رہے تھے کہ انھیں اس کے بارے میں علم تھا۔ جنرل مشرف کا دور اقتدار عدلیہ کے ساتھ اُن کی کھینچا تانی سے بھی بھرپور رہا جس میں اُن کے فوجی سربراہ رہتے ہوئے صدر کے عہدے پر قائم رہنے کی خواہش کا تنازع بھی شامل تھا۔ 2007 میں انھوں نے اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو معزول کر دیا جس کی وجہ سے ملک بھر میں مظاہرے پھوٹ پڑے۔چند مہینوں بعد انھوں نے اسلام آباد میں لال مسجد اور اس سے ملحق مدرسے کے خونی محاصرے کا حکم دے ڈالا جس کے نتیجے میں 100 سے زائد افراد مارے گئے۔ جب 2007 میں نواز شریف جلا وطنی ختم کر کے واپس پاکستان لوٹے تو یہ مشرف دور کے خاتمے کا آغاز تھا۔سابق فوجی جنرل نے اپنا دور اقتدار بڑھانے کے لیے ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی لیکن فروری 2008 میں ان کی حمایت یافتہ جماعت پارلیمانی انتخابات ہار گئی۔ چھ ماہ بعد انھوں نے مواخذے سے بچنے کے لیے استعفیٰ دے دیا اور ملک چھوڑ کر چلے گئے۔اپنے دور اقتدار میں پرویز مشرف نے انڈیا کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی بھی کوشش کی اور اسی سلسلے میں لائن آف کنٹرول پر فائربندی کا معاہدہ بھی طے پایا اور ایک وقت ایسا تھا جب مسئلہ کشمیر بھی حل ہونے کے قریب پہنچ چکا تھا تاہم اس وقت تک مشرف ملک میں سیاسی طور پر غیرمستحکم ہو چکے تھے۔ بہرکیف پرویز مشرف تقریباً نو سال (1999-2008) تک آرمی چیف رہے، وہ 2001 میں پاکستان کے 10ویں صدر بنے اور 2008 کے اوائل تک اس عہدے پر فائز رہے۔ 1999 میں فوجی بغاوت کے بعد اقتدار میں آنے والے پرویز مشرف 2016 میں علاج کی غرض سے ضمانت حاصل کرنے کے بعد سے متحدہ عرب امارات میں مقیم تھے۔گذشتہ برس جون کے مہینے میں پرویز مشرف کے اہلخانہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پرویز مشرف ’خرابی صحت کے اس مرحلے میں ہیں جہاں صحت یابی ممکن نہیں اور ان کے اعضا کام کرنا چھوڑ رہے ہیں۔‘پرویز مشرف کے گھر والوں کی جانب سے جاری بیان میں ان کی زندگی میں آسانی کے لیے دعا کی اپیل بھی کی گئی تھی۔اہلخانہ کے مطابق سابق فوجی صدر ایمیلوئیڈوسس نامی بیماری میں مبتلا تھے۔ اس بیماری میں جسم میں پروٹین کے مالیکیول ناکارہ ہو جاتے ہیں اور مریض کے اعضائے رئیسہ متاثر ہوتے ہیں۔اکثر افراد میں اس بیماری کے بعد ایمیلوئیڈ پروٹین گردے میں بننا شروع ہوجاتے ہیں جس سے کڈنی فیلیئر کا خطرہ ہوتا ہے۔ ایمیلوئیڈ پروٹین اگر دل میں بننا شروع ہوجائیں تو اس سے پٹھے سخت ہوسکتے ہیں اور جسم میں خون کی گردش متاثر ہوتی ہے۔ایمیلوئیڈوسس کا کوئی علاج نہیں اور ان پروٹینز کو براہ راست نکالا نہیں جا سکتا مگر ایسے طبی طریقے موجود ہیں جن میں علامات کا علاج کیا جاتا ہے یا ان پروٹینز کو جسم میں بڑھنے سے روکا جاتا ہے۔ بہرکیف آج وہ ہم میں نہیں، بہت سارے لوگ جنرل مشرف کے Beneficiary ہیں جنہوں نے اچھا وقت اُن کے ساتھ گزارا اور برے وقت میں اُن سے ایسے بھاگے جیسے جلے ہوئے گاﺅں سے جوگی بھاگتا ہے۔ اُن کے دور میں لوگوں پر مظالم بھی ہوئے اور مہربانیاں بھی۔رومی کشمیر میاں محمد بخش موت کی ابدی حقیقت پریوں کہہ گئے دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے‘ سجنا ںوی مر جانڑاں دیگر تے دن ہویا محمد اُوڑک نوں ڈُب جانڑاں اب ایسا نہیں کہ وہ پاکستان کے لیے اچھے ثابت نہیں ہوئے ، پرائی جنگ اور داخلی مسائل میں الجھنے کے باوجود ان کے دور میں معاشی سرگرمیوں میں غیر معمولی حرکت بھی دیکھنے میں آئی‘ بالخصوص ریئل اسٹیٹ اور صنعتی شعبے میں جو گراں قدر ترقی ہوئی اس سے نئے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے‘جس کا کریڈٹ بھی پرویز مشرف ہی کو جاتا ہے۔ان کے دورِ حکومت میں روپے کی قدر مستحکم رہی اور ڈالر 60روپے کی سطح پر برقرار رہاجبکہ اس پورے دور میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں استحکام رہا جو آج کے حکمرانوں کے لیے ایک مثال ہے۔ اگرتعلیم کے حوالے سے بات کریں تو ہائر ایجوکیشن کمیشن کا قیام مشرف دور کی ایک اہم پیش رفت تھی جس کا مقصد ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر اعلیٰ تعلیم میں تبدیلیاں لے کر آناتھا۔ہائر ایجو کیشن کمیشن نے طالب علموں کو بڑے پیمانے پر دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں پڑھنے کے لیے وظائف دیے‘ جبکہ نجی اور سرکاری سیکٹر میں نئی یونیورسٹیوں کا قیام بھی اُس دور کی ایک بڑی پیش رفت تھی۔ اس طرح نجی شعبے میں سینکڑوں یونیورسٹیاں قائم ہوئیں جن سے نہ صرف حصول تعلیم کے مواقع میں اضافہ ہوا بلکہ ایک بڑی تعدادمیں لوگوں کا روزگار بھی ملا۔ اسی لیے کہا جا تا ہے کہ اُنہیں مثبت اور منفی دونوں انداز میں ہمیشہ پاکستان کی تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔ اللہ اُن کی اگلی منزلیں آسان کرے (آمین)