” ڈسکوالیفائی عمران خان“ سے ملک میں استحکام آجائے گا؟

تاریخ اور سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کو اس بات کا علم ہے کہ پاکستان کے جیسے حالات آج ہیں، ایسے تاریخ میں صرف ایک بار ہی دیکھنے کو ملے جب پاکستان کو دو لخت کر دیا گیا۔ اُس وقت بھی اقتدار کی ہوس حکمران طبقے کی دل و دماغ میں رچ بس گئی تھی جبکہ آج بھی حالات ایسے ہی ہیں۔ ثبوت کے طور پر آپ الطاف حسین قریشی کی کتاب ”جنگل کا قانون“ کا مطالعہ کرلیں وہ ایک جگہ پر لکھتے ہیں کہ ”ہمارے مسائل جنگل کی آگ کی طرح پھیلتے جا رہے ہیں جنگل کا قانون آگ میں نہ جلا، منگل بھی جنگل بن گیا۔جنگل میں چند بھیڑیئے ہیں بھیڑیوں نے خود کو زبردست ڈپلومیٹ بنا لیا ہے۔یوں آتے ہیں جیسے کوئی مہربان آیا ہو، یوں جاتے ہیں جیسے کوئی غم خوار جا رہا ہو لیکن انکی نظریں ہوس ناکیوں سے پر ہیں۔اب وہ چیرتے پھاڑتے نہیں سائنٹفک طریقوں سے خون پی جاتے ہیں،افکار کا رس چوس جاتے ہیں، سنا ہے بھیڑیوں کے سردار سے جنگل کے بادشاہ کا سمجھوتہ ہو گیا ہے۔جنگل میں سانپ بھی ہیں، بستیوں میں بھی سانپ ہیں اور بعض آستینوں میں بھی سانپ ہیں۔ سانپ کو مارا بھی نہیں جا سکتا کیونکہ سانپ کو مارنا جنگل کے قانون میں ایک سنگین جرم ہے۔ہم نے خیالات کے جنگل میں ہوائی قلعے تعمیرکر لئے ہیں اور وہاں سے ہوائیاں اڑا رہے ہیں۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارے چہروں پر بھی ہوائیاں اڑ رہی ہیں مگر چہرے کو خوش نظر رکھنے کیلئے ہم نے پلاسٹک کے چہرے حاصل کرلئے ہیں۔اب پلاسٹک کی زبان سے پلاسٹک کی باتیں ہوا کریںگی اور ہمارے وعدے بھی پلاسٹک کے ہونگے انہی وعدوں کے سہارے ہماری زندگی کو استحکام اور دوام حاصل ہو گا“۔ مذکورہ بالا الفاظ 1970ءکے پاکستان کے بارے میں لکھے گئے تھے جو ابھی دولخت نہیں ہوا تھا لیکن افسوس کہ یہ الفاظ 2023ءکے پاکستان پر بھی صادق آ رہے ہیں، یعنی حکمران طبقہ 1970ءمیں بھی بے حس تھا اور 2023ءمیں بھی وہی بے حسی دکھا رہا ہے۔ آج ملک کے مقبول لیڈر کو بالکل اُسی طرح سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے جس طرح 70کی دہائی میں شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ کیا گیا تھااور 1977ءمیں بھٹو کے خلاف۔اور اس بار میرے باوثوق ذرائع خبر دے رہے ہیں کہ عمران خان فارن فنڈنگ کیس، توشہ خانہ کیس یا دیگر کسی بھی کیس کے ذریعے ڈسکوالیفائی کر دیے جائیںگے، اور ساتھ 5، 7سال کی سزا بھی دے دی جائے گی، جبکہ اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کیسز جیسے توہین عدالت وغیرہ پر بھی سزائیں دی جائیں گی ۔ اگر توشہ خانہ کیس کی بات کریں تو عمران خان کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے 21 اکتوبر 2022 کو توشہ خانہ ریفرنس میں نااہل قرار دیا تھا،جبکہ اُس سے اگلے ہی دن خان صاحب نے اس فیصلے کو اسلام آبادہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ اُس وقت سے لیکر آج تک عدالت حکومت سے توشہ خانہ کیس کی مکمل تفصیل مانگ رہی ہے کہ کس کس دور میں کس کس نے کتنے کتنے تحائف حاصل کیے ، مگر مجال ہے کہ حکومت اس سے ٹس سے مس بھی ہو رہی ہو۔ بلکہ حکومت اس حوالے سے دباﺅ ڈال رہی ہے کہ اسی کیس میں عمران خان کو نااہل کر دیا جائے۔ اگر آپ ممنوعہ فنڈنگ کیس کی بات کریں تو 22 اگست 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ایک متفقہ فیصلے میں اعلان کیا کہ پی ٹی آئی کو ممنوعہ فنڈنگ ملی۔ اس کیس کو پہلے “فارن فنڈنگ” کیس کے طور پر بھیجا گیا تھا، لیکن بعد میں الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کی اس درخواست کو قبول کر لیا کہ اسے “ممنوعہ فنڈنگ” کیس کہا جائے۔ ای سی پی کے فیصلے میں کہا گیا کہ پی ٹی آئی کو 34 افراد اور کمپنیوں سمیت 351 کاروباری اداروں سے فنڈز ملے۔یہ فیصلہ بھی ابھی اپیل پر ہے۔ پھر عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹرئین کو کاغذات نامزدگی میں چھپانے کے کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہورہی ہے۔پھر اسی طرح چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن کے خلاف نازیبا ریمارکس کیس اور عمران خان کو پارٹی چیئرمین شپ سے ہٹانے کے کیس کی سماعت بھی جاری ہے۔اور پھر خان صاحب کا بھی کہنا ہے کہ انہیں ملک میں عام انتخابات سے قبل نااہل قرار دینے کی پوری کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کے لیے پرانے مقدمے ایک طرف مگر ساتھ نئے مقدمات بھی درج کیے جا رہے ہیں۔ یعنی بادی النظر میں لگ یہی رہا ہے کہ ضیاءالحق کا دور واپس آگیا ہے، جب پیپلزپارٹی کا دور تھا، جب بھٹو کے خلاف مارشل لاءلگایا گیا تو اُس وقت بھٹو بھی عمران خان کی طرح غیر مقبول ہو رہے تھے، اُس وقت پیپلزپارٹی کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور پھر مسلم لیگ بنائی گئی۔ فیصلہ کرنے والی قوتیں لگتا ہے یہ غلطی دوبارہ کرنے جا رہی ہیں۔ لہٰذامیرے خیال میں اگر یہ عمران خان کو ڈیڑھ سال مکمل کرنے دیتے، تو ملک کی آج یہ صورتحال نہیں ہونی تھی کیوں کہ عمران خان کے خلاف جب عدم اعتماد کی تحریک لائی گئی تو اُس وقت بھی عمران خان کا گراف 70فیصد سے گرتا ہوا 40فیصد پر آگیا تھا۔ لیکن بغیر سوچے سمجھے اور تیاری کے پی ڈی ایم کو بنایا گیا، جھوٹے سچے ٹرین مارچ نکلوائے گئے۔ حکومت کو بظاہر کمزور کیا گیا۔ اور پھر پی ڈی ایم بھی بغیر تیاری کے اقتدار میں آئی ، تو ملک کا یہ حال کر دیا۔ حالانکہ جس طرح اُس وقت تحریک انصاف کا گراف گر رہا تھا، اگر یہ اپنا دور مکمل کر لیتی تو سبھی یہی اُمید کر رہے تھے کہ اگلا الیکشن پی ڈی ایم جیت جاتی ۔ لیکن جلدی میں ملک کا ستیاناس کر دیا گیا۔ اور انہیں موقع میسر آگیا کہ یہ اپنے مقدمات جلد ازجلد ختم کروالیں۔ نہیں یقین تو آپ خود دیکھ لیں کہ آصف علی زرداری کے خلاف پارک لین ریفرنس بھی متعلقہ عدالت نے نیب کو واپس کردیا اور اب وہ اس کیس میں بھی سرکاری کاغذوں میں مبینہ کرپشن سے پاک ہوگئے ہیں۔ جبکہ چند دن قبل وزیراعظم شہباز شریف کے بیٹے سلیمان شہباز کو منی لانڈرنگ کیس میں ایف آئی اے نے بے گناہ قرار دے دیا اور اب کسی بھی وقت سلیمان شہباز کے خلاف کیس ختم کر دیا جائے گا اور وہ بھی سرکاری طور پر کیس سے بری اور صاف ستھرے ہو کر جلد سب کے سامنے ہوں گے۔ آپ اسحاق ڈار کو دیکھ لیں، جو نعرہ لگا رہے تھے کہ ڈالر اور آئی ایم ایف کو مجھ پر چھوڑدیں، آج ڈالر 265سے بھی اوپر چلا گیا ہے، بلکہ افغانستان کی کرنسی بھی ہم سے تگڑی ہوگئی ہے، کے پاکستان لوٹنے کے ساتھ ہی اُن کے خلاف بھی نیب کا مقدمہ ختم ہو گیا۔بقول شاعر بازیچہ اطفال ہے دنیا مرے آگے ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے بہرکیف آپ جتنی مرضی گرفتاریاں کر لیں، لیکن یہ مکافات عمل ہے آج کسی کی باری تو کل کسی اور کی باری ہوتی ہے۔ اور پھر فواد چوہدری کو گرفتار تو کر لیا گیا، مگر اُس کی تذلیل کیوں ضروری ہے؟جس طرح اُسے ہتھکڑیاں لگا کر اور منہ پر کپڑا ڈال کر پیش کیا گیا ، کیا یہ مہذب معاشرے کی نشانی ہے؟خیر یہ باتیں تو بندہ اُس سے کرے جسے ان چیزوں کا پاس ہو۔ لیکن اس کے برعکس فی الوقت شہباز شریف حکومت کا سب سے اہم کام یا کسی شعبہ میں تیز ترین کارکردگی دکھائی ہے تو وہ اپنی اعلیٰ قیادت کے خلاف کیسوں کے خاتمے کی ہے۔ یہ وہ عمل ہے جس نے تحریک انصاف کے اس بیانیے کو بہت قوت بخشی ہے کہ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کا مقصد ہی اپنے خلاف کرپشن کے کیسز ختم کروانا تھا۔ بلکہ میری معلومات کے مطابق ختم کئے جانے والے کیسوں میں ایسے کیس بھی شامل ہیں جن میں شواہد بہت مضبوط تھے لیکن افسوس کہ بڑی ڈھٹائی سے کرپشن اور ٹیکس چوری کے تمام مقدمات کو ختم کیا جا رہا ہے۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ شہباز شریف حکومت نے وہ حکمتِ عملی اپنائی جو ناقص اور غیر مناسب ہے، جس کا مقصد یہی نظر آتا ہے کہ اُن کے اپنے خاندان کے ساتھ ساتھ حکمران اتحاد سے تعلق رکھنے والے تمام سیاستدانوں کے خلاف ماضی میں جو مقدمات بنائے گئے اُن سب کو ختم کر دیا جائے اور موجودہ حکومت یہ کام بڑے فعال انداز سے کر رہی ہے۔ اور بدلے میں حکمران طبقہ عمران خان جیسے مقبول لیڈر کو ڈس کوالیفائی کرنے کے لیے تمام اثر ورسوخ کو استعمال کر رہا ہے، لہٰذامقتدر قوتوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ 70یا 80کی دہائی نہیں اور نہ ہی ضیاءالحق جیسا مارشل لاءہے ۔ یہ سوشل میڈیا کا دور ہے، 100سے زیادہ نیوز چینل کا دور ہے، 300سے زائد قومی اخبارات کا دور ہے۔ جبکہ اس کے برعکس اُس دور میں محض گنتی کے 4اخبارات اور ایک سرکاری ٹی وی تھا۔ اس لیے فیصلہ کرنے والی قوتیں خدا کے لیے اس ملک کا سوچیں، ذاتی لڑائی کو ختم کرتے ہوئے ملک کا سوچیں ، اور کوئی ایسا غیر مقبول اقدام نہ کریں جس سے مزید افراتفری کا ماحول پیدا ہو۔ عوام جو پہلے ہی غصے میں بھرے ہوئے ہیں، وہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں، مہنگائی نے اُنہیں انقلابی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے جو کسی بھی ”دھماکے“ کی صورت میں سڑکوں پر آجائیں گے۔ اور پھر ایسی صورتحال میں ن لیگ والے ہر گز یہ نہ سمجھیں کہ نواز شریف فی الوقت ملک میں واپس آجائیں گے، بلکہ اُنہیں بھی کبھی ملک میں آنے نہیں دیا جائے گا۔ کیوں کہ کچھ لوگ ابھی تک ”ووٹ کو عزت دو“ والی کمپین کو نہیں بھولے۔ اور ہمارے بڑے تو کبھی بھی اُس بندے کو کبھی برداشت نہیں کرتے ۔ جو اپنے فیصلے خود کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں غلط اقدامات، گرفتاریوں اور دیگر غیر اعلانیہ اقدامات کی پرزور مذمت کریں آپس میں اتحاد پیدا کریں، مسائل افہام و تفہیم سے حل کریں، اس کے لیے کسی تیسری قوت کو درمیان میں نہ آنے دیں۔ اور تمام سیاسی جماعتیں خالصتاََ آپس میں فیصلہ کریں کہ اگر واقعی عمران خان کو نااہل قرار دے کر ملک کے حالات ٹھیک ہو جائیں گے تو اس کے لیے پہلے دلائل پیش کریں، عوام کو اعتماد میں لیں اور پھر بے شک ایسا کر لیں جس کے امکانات بظاہر نظر نہیں آرہے مگر ملک کی کشتی کو سنبھال لیں، جو ہچکولے کھا رہی ہے۔