فواد چوہدری گرفتار: طوفانِ نوح میں بازاری سیاست!

سابق وزیر اطلاعات اور وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری کو گزشتہ رات دیر گئے لاہور سے گرفتار کر لیا گیا، جنہیں عدالت میں بھی پیش کر دیا گیا ہے، گرفتاری پر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ میری پیشی پر پولیس ایسے لگائی ہے کہ جیسے میں کوئی جیمز بانڈ ہوں، جس طرح گرفتار کیا گیا وہ مناسب نہیں تھا، مجھے یہ فون کرتے میں خود ہی آجاتا۔اُن پر الزام ہے کہ انہوں نے چیف الیکشن کمشنر اور اداروں پر الزامات لگائے کہ اُنہوں نے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب لگانے کے لیے اداروں نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا۔ مزید خبریں یہ بھی سن رہا ہوں کہ حکومت پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین سابق وزیراعظم عمران خان یا پھر عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کو گرفتار بھی کر سکتی ہے۔پاکستان میں سیاسی گرفتاریاں کوئی نئی بات نہیں کوئی بھی سیاسی جماعت حکومت کر رہی ہو ہر دور میں مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ سیاسی مخالفین کو قابو کرنے یا دبانے کے لیے کمزور مقدمات کا سہارا لیا جاتا ہے، ریاستی اداروں کو استعمال کیا جاتا ہے، حکمران اپنے مخالفین کو جکڑنے کے لیے طاقت اور اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہیں۔ حکومت میں آنے سے پہلے سب اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ نہیں بنایا جائے گا لیکن طاقتور ہونے کے بعد سب اپنے بیانات، وعدوں اور نعروں کو بھول جاتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی ایک مرتبہ پھر سیاسی مخالفین کو ”اندر“ کر کے مطلوبہ نتائج حاصل کرنا چاہتی ہے۔ یقینی طور پر وزیراعظم میاں شہباز شریف کے اردگرد ایسے لوگ موجود ہیں جو انہیں سیاسی گرفتاریوں کے لیے اکسا رہے ہیں کچھ ایسے بھی ہیں جو یہ مشورے دے رہے کہ حکومت کو ایسے کاموں سے دور رہتے ہوئے عوامی مسائل حل کرنے، معیشت سنبھالنے اور بین الاقوامی سطح پر ساکھ بہتر بنانے پر توجہ دینی چاہیے۔ حالانکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کے ساتھ مسئلہ رہا ہے کہ وہ ووٹ تو جمہوریت کے نام پر لیتے ہیں لیکن وزیراعظم بنتے ہی وہ جنرل ضیا اور مشرف بننے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ اپنے مخالفوں کو عدالتوں یا اداروں کے رحم و کرم پر چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔ وہ ایسا نظام پسند نہیں کرتے جس میں ایف آئی اے یا ایف بی آر اگر ان کے سیاسی مخالفوں کو گرفتار کرے تو کوئی انگلی حکومتِ وقت پر نہ اٹھائے کہ یہ انتقامی کارروائی ہے بلکہ سب کہیں کہ یہ اس ادارے کا اپنا انفرادی عمل ہے جس سے ان کا کوئی تعلق نہیں اور یہ ادارہ حکومتی اثر و رسوخ سے بالاتر ہے۔ درحقیقت فواد چوہدری ہوں، عمران ریاض خان ہوں، شہباز گل ہوں یا اعظم سواتی سمیت دیگر تحریک انصاف کے رہنما۔ یہ گرفتاریاں یقینا ان کا قد بڑا کرنے کے لیے ہیں ، آنے والے دنوں میں جب انہی کی دوبارہ حکومت بنے گی تو یہ بھی اسی طرز کی سیاست کریں گے۔ شاید پاکستان کے مقدر میں ہی اس قسم کی سیاست لکھ دی گئی ہے۔ اور پھر شاید میں نے گزشتہ کالم میں بھی لکھا تھا کہ یہ ملک ”بنانا ری پبلک“ بن چکا ہے۔اور آج اس حوالے سے عمران خان نے بھی کہہ دیا ہے کہ فواد کی گرفتاری کے بعد کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک بنانا ریپبلک بن چکا ہے، جہاں قانون کی حکمرانی نہیں۔ہمیں اپنے بنیادی حقوق کےلئے کھڑا ہونا ہوگا، اب پاکستان کو ایسے راستے پر جانے سے روکنا ہوگا، جہاں سے واپسی ممکن نہ ہو۔ بنانا ری پبلک کے ”اوصاف“ کیا ہوتے ہیں، اسے جاننے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ ہمیں وسطی امریکا جانا پڑے۔ جہاں کے ایک رپورٹر اور مصنف ولیم سڈنی پورٹرجو اوہینری کے قلمی نام سے مشہور ہوئے۔ ان کے افسانے اور ناول بیسویں صدی میں بہت مقبول ہوا کرتے تھے۔اوہینری ایک زمانے میں مالی مشکلات کا شکار ہوگئے اور بینک ڈیفالٹر ہونے کے بعد امریکہ سے ہنڈراس فرار ہو گئے۔ ہنڈراس میں قیام کے دوران وہاں کے حالات دیکھ کر انہوں نے ایک ناول لکھا جس کا عنوان تھا ”کنگز اینڈ کیبیجز“۔ یہ ناول بھی بہت مشہور ہوا۔ اس ناول کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں پہلی بار ہنڈراس کے لئے ”بنانا ری پبلک“ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ سفارتکاری کی دنیا میں اس اصطلاح کو بہت پسند کیا گیا اور وہ ممالک جہاں قانون کی عملداری نہ ہونے کے برابر تھی انہیں ”بنانا ری پبلک“ کہا جانے لگا۔ دراصل ہنڈراس اور گوئٹے مالا کیلے کی پیداوار کے اعتبار سے سرفہرست ہیں اور چونکہ یہ دونوں ملک ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہمسائے ہیں اس لئے امریکہ ہی اس پھل کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ وسطی امریکہ کے ملک ہنڈراس نے 1838ءمیں اسپین سے آزادی حاصل کی تو کیلے کی کاشت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکی بحری جہاز کا کپتان بیکر وہ پہلا شخص تھا جس نے جمیکا سے کیلے خرید کر بوسٹن میں متعارف کروائے۔ امریکہ میں یہ پھل اس قدر مقبول ہوا کہ بہت سے امریکی تاجر ہنڈراس اور گوئٹے مالا سے اسے خرید کر امریکہ کے مختلف شہروں میں بیچنے لگے۔ کیلے کی امریکہ میں مقبولیت کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ یہ دیگر پھلوں کے مقابلے میں بہت سستا تھا۔ امریکی تاجر کئی گنا منافع کمانے لگے اور رفتہ رفتہ کیلے کی تجارت نے باقاعدہ ایک شعبے کی شکل اختیار کرلی۔امریکی سرمایہ کاروں نے اس تجارت سے فائدہ ا±ٹھانے کے لئے ہنڈراس میں یونائیٹڈ فروٹ کمپنی بنا لی۔ اس کمپنی نے مقامی کسانوں کو اپنے چنگل میں پھنسا لیا۔ کاشتکاری کے لئے استعمال ہونے والی زمینیں خرید لی گئیں، کسانوں کو محنت مزدوری کے عوض معمولی مشاہرہ دیا جاتا جبکہ منافع کا بیشتر حصہ اس کمپنی کے شراکت داروں کی جیب میں جاتا۔یونائیٹڈ فروٹ کمپنی کی اجارہ داری ختم کرنے کے لئے جلد ہی اسٹینڈرڈ فروٹ کمپنی میدان میں آگئی۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد Cuyamelفروٹ کمپنی کے نام سے تیسری قوت وجود میں آگئی۔ تینوں امریکی کمپنیوں کے درمیان مسابقت کی فضا پیدا ہوئی تو مقامی لوگوں کی وفاداریاں خریدنے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ امریکی کمپنیاں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں پولیس، فوج، عدلیہ سمیت حکومتی مشینری کے تمام کل پرزوں کو خریدنے لگیں۔ہنڈراس کی حکومت کے وزرا ان امریکی کمپنیوں کے لئے کام کرنے لگے۔ ان کمپنیوں نے بدمعاشوں کے گینگ بنائے اور پھر باقاعدہ ملیشیا بنا لی۔ ان کمپنیوں کا اثر و رسوخ اس قدر بڑھ گیا کہ ان کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلتا تھا، حکومتیں ان کی مرضی سے تشکیل پاتیں، عدالتی فیصلے ان کی ڈکٹیشن سے ہوتے اور پولیس افسروں کی تعیناتیاں اور تبادلے ان کے ایما پر کئے جاتے۔ یہ سلسلہ یہیں ختم نہ ہوا بلکہ ان امریکی کمپنیوں نے امریکی حکومتوں کی پالیسیوں پر اثر انداز ہونا شروع کر دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک فروٹ کمپنی نے یہ پروپیگنڈا کیا کہ ہنڈراس کی حکومت روس نواز ہے یوں مبینہ طور پر امریکی حکومت کی مداخلت سے ہنڈراس میں قائم حکومت کا تختہ ا±لٹ دیا گیا۔اور یوں پورے ملک میں انارکی اور طوائف الملوکی پھیل گئی۔ ملک بھر میں حکومتی رِٹ نام کی کوئی چیز باقی نہ رہی۔ہنڈراس کی معیشت کا انحصار آج بھی کیلوں کی برآمد پر ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018ءمیں امریکہ نے ہنڈراس سے 522.7ملین ڈالر کے کیلے خریدے۔ اگر آپ سمجھ رہے ہیں کہ ہنڈراس پر بنانا ری پبلک کی پھبتی ماضی کا قصہ ہے تو ایسا ہرگز نہیں ہے۔ ہنڈراس کو اب بھی بنانا ری پبلک سمجھا جاتا ہے کیونکہ وہاں قانون کی عملداری نہیں ہے اور پورے نظام کو بااثر امریکی کمپنیوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ یہ ملک ہمیشہ سے سیاسی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ 28جون 2009ءکو فوج نے سپریم کورٹ کے احکامات پر صدر مینﺅل زیلیا کا تختہ ا±لٹ کر عنانِ اقتدار سنبھال لی تھی اور صدرمینﺅل کو جلا وطن کر دیا گیا تھا۔ مینﺅل زیلیا جلد ہی وطن واپس لوٹ آئے اور 2013ءمیں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لیا مگر ان کی جماعت انتخابات میں اکثریت حاصل نہیں کر سکی اور ان کے حریف جان اورلینڈو ہرنینڈز صدر بننے میں کامیاب ہوگئے۔مینﺅل زیلیا نے دعویٰ کیا کہ دھاندلی کے ذریعے ان کے امیدواروں کو ہرایا گیا ہے۔ ہنڈراس میں لاقانونیت کا یہ عالم ہے کہ فروری 2012ءمیں ایک گینگ نے جیل میں قید مخالفین کو مارنے کے لئے پوری جیل کو آگ لگا دی جس سے وہاں موجود 359قیدی جل کر خاک ہو گئے۔قصہ مختصر کہ لاقانونیت اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ہنڈراس کی 60فیصد آبادی آج بھی غربت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ عالمی ماہرین کا خیال ہے کہ صرف وہی ملک ”بنانا ری پبلک“ نہیں ہوتے جہاں کیلے بکثرت پیدا ہوتے ہیں بلکہ ہر وہ ملک ”بنانا ری پبلک“ ہے جہاں قانون کی عملداری نہیں۔اور پاکستان اس فہرست میں نمبر ون ہے۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ حکومتوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے لیکن کون ہے جس نے قومی سلامتی کو مقدم رکھا ہے، کون ہے جس نے بین الاقوامی سطح پر ملک کی ساکھ کو نقصان پہنچانے والے کام نہیں کیے، کون ہے جس نے حکومت ختم ہونے کے بعد اداروں کو نشانہ نہیں بنایا۔ ان دنوں بھی کردار بدلے ہیں، الفاظ بدلے ہیں، بیانیہ تو وہی ہے۔ کسی کا دامن صاف نہیں، حکومت ختم ہونے کے بعد سب ایک ہی راستے پر چلتے ہیں۔لہٰذاسوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی سیاستدان اس نہج پر کیوں پہنچتا ہے کہ وہ قومی سلامتی کے اداروں کو نشانہ بنائے۔یقینا یہ حکومت کے اوچھے ہتھکنڈے ہیں جنہیں استعمال کرکے وہ اگلا الیکشن جیتنا چاہتی ہے، جس کی وجہ سے ہمارے ملک میں بازاری سیاست کیوں شروع ہو چکی ہے، جس کا طوفان تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ اور فواد چوہدری جیسا بندہ جس پر الزام ہی یہی لگتا ہے کہ وہ اداروں کا بندہ ہے ، اگر وہ اداروں سے متنفر ہو چکے ہیں تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے۔ بہرکیف فواد چوہدری کی گرفتاری کی جتنی بھی مذمت کی جائے اتنی کم ہے ۔اور پھر پورے ملک کی ایک بار اوورہالنگ کی ضرورت ہے، ورنہ یہ گرفتاریاں ملک کو مزید پیچھے دھکیل رہی ہیں اور عام آدمی میں سخت نفرت کا بیج بویا جا رہا ہے۔