سیاست اور ”ریاست“ سے بیزارہمارے نوجوان !

میرے سامنے اس وقت دو خبریں ہیں، ایک پرانی خبر کا فالو اپ اور ایک نئی خبر۔ نئی اور فکر انگیز خبر یہ ہے کہ سندھ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں نوجوانوں نے عدم دلچسپی دکھائی۔ اور ٹرن آﺅٹ 20فیصد سے بھی کم رہا۔ خاص طور پر کراچی جیسے بڑے شہر کے بلدیاتی انتخابات میں تو ٹرن آﺅٹ اس سے بھی کم رہا، اور نوجوانوں کی دلچسپی نا ہونے کے برابر رہی۔ اس کی بڑی وجہ شاید یہ ہے کہ پچھلے ایک سال سے پاکستان میں جو سیاسی تماشا لگا ہوا ہے اس تماشے سے بہت سے نوجوانوں اور سیاست سمجھنے والے اس شعبہ سے متنفر ہوگئے۔حتیٰ کہ جو نوجوان الیکشن میں دلچسپی نہیں رکھتے ہم نے انہیں بھی بیزار کردیا۔ یعنی سیاسی ہنگامہ آرائیوں اور افراتفری کے باعث پنجاب، خیبر پختونخوا اور اسلام آباد کے تعلیمی اداروں میں امتحانات بار بار ملتوی ہوئے جس کی وجہ سے طلبا و طالبات کا قیمتی وقت بھی ضائع ہوا، اور وہ سیاست کو صحیح معنوں میں امراءکا کھیل گرداننے لگے۔ جبکہ دوسری خبر یہ ہے کہ بیورو آف امیگریشن کے اعداد وشمار کے مطابق 2022ءمیں بہتر مستقبل کے لئے ملک چھوڑ کر جانے والوں کی تعداد میں حیران کن اور افسوسناک حد تک اضافہ ہوا ہے،یعنی گزشتہ سال 7 لاکھ 65 ہزار پڑھے لکھے نوجوانوں نے پاکستان چھوڑ دیا ہے، ان میں ڈاکٹرز، انجینئرز،آئی ٹی ایکسپرٹس اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان شامل ہیں، کچھ بڑے شعبوں کی بات کریں تو اس سال پاکستان 7 ہزار سے زائد انجینئرز، اڑھائی ہزار ڈاکٹروں ، 1600 نرسوں، 2 ہزار آئی ٹی ماہرین، 6500 اکاﺅنٹنٹس، 2600 زرعی ماہرین اور 900 اساتذہ سے محروم ہوگیا۔اور پھر یہی نہیں رواں سال کے ان 15،20دنوں میں بھی یہی صورتحال رہی اور 36ہزار مزید نوجوان ملک چھوڑ کر چلے گئے۔ ٓؓ اب یہاں سوال یہ پید اہوتا ہے کہ دنیا بھر کی ترقی و ترویج میں جہاں نوجوانوں کا کردار ہوتا ہے تو وہیں اس کے برعکس پاکستان میں صورتحال مختلف کیوں ہے؟ دنیا میں نوجوانوںکو Facilitateکیا جاتا ہے، انہیں سہولیات دی جاتی ہیں، انہیں ڈگری مکمل کرنے کے بعد ہر قسم کا مالی و معاشرتی تعاون فراہم کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے ملک کے سود مند شہری بن سکیں۔ جبکہ یہاں ان نوجوانوں کا استحصال کیا جاتا ہے۔ تبھی ہمارے نوجوان یہاں کام کرنے کے بجائے بیرون ملک رہ کر روشن مستقبل کے خوابوں کو پورا کرنے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ بات سمجھنے کے لئے ایک مثال دینا چاہوں گا، سوچیں کہ آپ اپنی حق حلال کی کمائی سے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھانے جاتے ہیں لیکن وہاں اچھی خاصی قیمت ادا کرنے کے بعد بھی ریسٹورنٹ والے کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کچھ دن پرانا باسی اور بدبودار کھانا موجود ہے یا پھر صبح ہی ہم نے مردہ بکرے کا بہترین قورمہ بنایا ہے۔ تو آپ ان دونوں سے کوئی ایک پکوان کھائیں گے؟ میری رائے میں اگر اچھے خاصے پیسے ادا کرنے کے بعد بھی آپکو بہتر کھانا نہیں مل رہا تو آپ وہ کھانا نہیں کھائیں گے اور کوشش کریں گے کہ کیوں نہ خود ہی کچھ پکا کر کھالیا جائے۔ایسے ہی جب آپ ہر خریدی جانے والی چیز پر سیلز ٹیکس دیتے ہیں، پٹرولیم پر لیوی ادا کرتے ہیں ، انکم اور پراپرٹی ٹیکس بھی ادا کرتے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی آپ کو ایک بوسیدہ نظام دیا جاتا ہے جس میں کسی بھی سیاسی جماعت کی حکومت آئے وہ اشرافیہ کی حکومت صرف اشرافیہ کے لیے ہو اور آپ کو ہمیشہ یہی کہا جاتا رہے کہ جو ہے یہی ہے، اسی میں سے منتخب کرو، تو عقل و شعور کاتقاضا یہ نہیں کہ آپ ان آپشنز کو دھتکار کر خود ایک ”آپشن“ بنیں؟۔ اگرچہ نوجوانوں کے اندر عمران خان کے لیے کچھ نرم گوشہ پایا جاتا ہے، لیکن وہ بھی پرانی جماعتوں اور لیڈروں کے ردعمل میں انتہائی مشکلات کا شکار دکھائی دیتے ہیں، 50سے زائد مقدمات درج ہونے کے بعد اب وہ فرنٹ فٹ پر کھیلتے نظر آتے ہیں اور اس بات کا اعتراف کررہے ہیں کہ وہ اس گھمبیر صورتحال میں پارٹی کی تنظیم نو اور اندرونی انتخاب پر توجہ دینے سے قاصر رہے۔ اس لیے وہ نوجوانوں پر توجہ دینے سے قاصر ہیں۔ اور بدلے میں ہر نوجوان کو اس ملک میں اپنا مستقبل تاریک ہی دکھائی دے رہا ہے۔ وہ سماج جسکی نوجوان نسل، جو کہ آبادی کا 70 فیصد بھی ہو،مجموعی طور پرمایوسی اور بیگانگی کا شکار ہو، تو اسکی سیاسی اور سماجی گھٹن کس نہج پر ہو گی آپ اندازہ لگا سکتے ہیں۔قصہ مختصر کہ جب ہمارے نوجوانوں کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تو اُن کی کسی بھی قسم کے تخلیقی اظہار پر اس خوف زدہ اور کمزور ریاست نے اتنے تالے لگا دئیے ہیں کہ سماج کا عمومی ایکسپریشن ”لاہور دا پاوا اختر لاوا“ بن کر رہ گیا ہے۔ مقبول شاعروں کی شاعری، فلم نگاروں کی فلمیں، ڈرامے اور وائرل ہونے والی وڈیوز جنسی ہوس کے استعارے کے علاوہ کچھ بھی نہیں۔ جو شخص جتنا احمق، بے ہودہ اور سطحی ہے، وہ اتنا ہی مقبول ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پورے سماج کو ہی عقل سے چڑ ہو گئی ہو۔ رہی بات ہماری سیاست کی تو عمران خان کی سونامی نے ہمارے نوجوانوں کو تھوڑی بہت تحریک دی مگر وہ ہماری اسٹیبلشمنٹ کی بھینٹ چڑھ گئی، اور نوجوانوں کو جب یہ علم ہوا کہ اُن کے ملک کے فیصلے سیاستدان نہیں بلکہ کوئی اور کرتا ہے تو وہ مزید مایوس ہو کر واپس بیرکوں میں چلے گئے۔ اور انقلاب کی آمد آمد کی خوشخبری لیے ریاست منہ تکتی رہ گئی ۔ اور حد تو یہ ہے کہ ابھی بھی صورتحال خاصی ناگفتہ بہ ہے ، آخری خبریں آنے تک سپیکر قومی اسمبلی نے مزید 35اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کر لیے ہیں، یعنی تحریک انصاف کے کل 70اراکین کے استعفے قبول ہونے کے بعد اب ضمنی الیکشن کی طرف جانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ اس مرتبہ حکمراں اتحاد ضمنی الیکشن میں حصہ لینے سے کترا گیا ہے کیوں کہ عمران خان دوبارہ مقابلے پر آگئے تو سبکی کا اندیشہ ہے۔ہمارے سیاسی قائدین نے اسمبلیوں اور ضمنی الیکشن کو بچوں کا کھیل سمجھ رکھا ہے جب چاہا کوئی اسمبلی توڑ دی، جب چاہا کسی کا استعفیٰ قبول کر لیا۔ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ ضمنی الیکشن پر کروڑوں نہیں اربوں روپے خرچ ہو جا ئیں گے۔ عمران خان اور شہباز شریف ایک دوسرے کو سرپرائز دینے کے شوق میں قوم کے اربوں روپے ضائع کر رہے ہیں۔ سیاستدانوں کے ہاتھوں پاکستان کی تباہی کا مشاہدہ کرنا ہے تو موجودہ حالات اس کی بہترین مثال ہیں۔ ان کے رویے دیکھیں، ان کی ترجیحات پر نظر دوڑائیں تو افسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی اشرافیہ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اُن کے لیے نہ توملک اہم ہے نہ ہی عوام۔ اُن کی ساری سیاست اپنے ذاتی وسیاسی مفادات کے اردگرد گھومتی ہے۔پی ڈی ایم نے جب عمران خان کی حکومت کو ختم کیا اور اقتدار سنبھالا تو بار بار یہ کہا کہ وہ پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان سے بچانے کے لیے عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لائے۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور اُن کے وزیر مشیر کہتے رہے اور آج بھی کہتے ہیں کہ ریاست کو بچانے کے لیے اُنہوں نے اپنی سیاست کو قربان کیا۔ یہ سب بھی کہنے کی باتیں ہیں، اگر واقعی ایسا ہے تو پھر معیشت بد سے بدتر کیوں ہو گئی؟آئی ایم ایف سے معاہدہ کیوں نہیں ہو رہا؟ معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے جو مشکل فیصلے کرنے ہیں وہ کیوں نہیں کیے جا رہے؟ عمران خان نے اگرپاکستان کو دیوالیہ ہونے کے راستے پر چڑھا دیا تھا تو شہباز شریف حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے کے کنارے پرپہنچا دیا۔ایسا کرنے سے ہم اپنے نوجوانوں کو کیا سبق دے رہے ہیں؟ یقین مانیں! میرے دونوں بیٹے اس وقت بیرون ملک ایڈجسٹ ہونے کے چکر میں ہیں، ایک امریکا میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد جاب کر رہا ہے اور دوسرا فرانس میں۔ یقین مانیں اُن کا پاکستان کے حالات دیکھ کر یہاں آنے کا جی ہی نہیں چاہتا۔ وہ اس سسٹم سے ہی خاصے مایوس ہو چکے ہیں، وہ مجھ سے مزاحاََ پوچھتے ہیں کہ ن لیگ اور وزیراعظم شہباز شریف جو ماضی میں آصف علی زرداری کی کرپشن پر کیا کچھ نہیں کہتے تھے اور یہ اعلان کرتے تھے کہ جب حکومت ملی تو زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹیں گے اور اُن کا پیٹ چیر کر کرپشن کا پیسہ وصول کریں گے، آج اُنہی شہباز شریف اور ن لیگ کے لیے وہی زرداری نہ صرف اُن کی حکومت کا بہت بڑا سہارا ہیں بلکہ زرداری کو تو لیگی اب اپنا بڑا تسلیم کرتے ہیں۔ لیکن میرے پاس ”ریاست“ کا وکیل بننے کا کوئی جواز نہیں ہوتا ۔ بہرکیف نوجوانوں کا ”آپشن“ بننے کا واحد طریقہ ہے کہ یہ سیاست کے میدان کو استعمال کرتے ہوئے ملک و ملت کارخ بدلنے کی کوشش کریں۔ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے نوجوان فعال کردار ادا کریں۔ اگر آپ سیاست میں سرگرم نہیں ہونا چاہتے تو اس سے لا تعلق بھی نہ رہیں ووٹ کی اہمیت کو جانیں انتخابات میں حق رائے دہی کا سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ سسٹم کو برا کہنے سے سسٹم نہیں بدلے گا بلکہ سسٹم کا حصہ بننے سے یہ بدل سکتا ہے۔ “ نوجوان اس قول پر غور کریں اور سیاست کاحصہ ضرور بنیں لیکن نعرے لگانے اور جھنڈے ا±ٹھانے کی حد تک نہیں بلکہ اپنا وژن بنائیں، مسائل اور حقوق کی بات کریں، ملک میں تبدیلی لانے کے لیے آگے بڑھیں۔ اپنے سامنے ایک واضح خاکہ اور منصوبہ رکھیں۔ ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کریں۔ کوشش کریں کہ ملک میں ایسے سیاسی کلچر کو فروغ دیں، اس کے لیے سیاست کی الف ب کو سمجھنا ضروری ہے۔ آگے بڑھنے کے راستے ہموار ہوں۔ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، الزام تراشیوں، لڑائی جھگڑوں سے لطف اندوز نہ ہوں بلکہ کچھ ایسا کریں کہ نفرتیں، لڑائیاں اور عدم برداشت ختم ہوں۔تاکہ یہ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے!