پی ٹی آئی الیکشن کی طرف اور ن لیگ الیکشن سے بھاگ رہی ہے!

دنیا میں تین طرح سے حکومتیں چلائی جاتی ہیں، ایک بہترین ایڈمنسٹریشن سے، دوسرا ہمسایوں کے ساتھ بہترین کاروباری حکمت عملی سے اور تیسرا ایسی پراڈکٹ تیار کرنے سے جو دشمن بھی خریدنے کے بے تاب نظر آئے۔ الحمد اللہ ہمارے پاس تینوں ہی نہیں ہیں۔ چلیں تینوں شعبہ جات میں ہم کمزور ہوں تو ملک No Loss, No Profit پر چلتا رہتا ہے جبکہ ایک بڑا مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس وقت پاکستان کو چار مہلک امراض کا سامنا ہے: ڈوبتی معیشت، سابقہ فاٹا کی خطرناک صورتحال، شورشِ بلوچستان اور ٹھیکیدارانِ ملت کی انتہا کو پہنچی ہوئی کم سمجھی۔ان خطرات کا موجود ہونا اب کوئی راز نہیں رہا، ملک کے طول و عرض میں یہ سوچ پھیل چکی ہے کہ ہمارا ملک انتہائی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔البتہ خطرات کا موازنہ کیا جائے تو کم سمجھی والا پہلو سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ لیکن محاذ کون سا کھلا ہوا ہے ؟ اندرونی۔ سابقہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں باقاعدہ جنگ چھڑی ہوئی ہے لیکن سبق کس کو سکھانا ہے؟ اعظم سواتی اور شہباز گِل جیسوں کو۔ ان کی غلطیاں اپنی جگہ ہوں گی لیکن ان کے ساتھ جو رویہ اپنایا گیا وہ اُن معاشروں میں کہاں ہوتا ہے جو اپنے آپ کو مہذب کہلوائیں۔ سوچ اور ترجیحات کی بات ہے۔ دیکھنا تو یہ چاہئے کہ اصل خطرات کون سے ہیں، لیکن ذہنوں اور اعصاب پر پتا نہیں کس ڈر کا قبضہ ہے کہ سایوں کے پیچھے بھاگے جا رہے ہیں۔نواب اکبرخان بگٹی کے قتل سے لے کر آج تک، گمشدہ اشخاص کی پالیسی پر ہم گامزن رہے۔اس سے کیا فائدہ پہنچا؟کیا بلوچستان میں شورش کی آگ بجھ گئی؟اب تو یوں لگتا ہے کہ سابقہ فاٹا اور بلوچستان میں جو شورش کی راہ پر گامزن ہیں پہلے سے زیادہ منظم اور تربیت یافتہ ہو گئے ہیں۔طالبان سترہ سالہ طویل امریکہ مخالف جنگ سے گزرے ہیں۔ افغانستان کے طالبان اور یہاں کے جو ٹی ٹی پی والے ہیں، دونوں اکائیوں کا نظریہ ایک ہے، شکل و صورت تھوڑی مختلف ہے۔افغان طالبان کی اپنی ترجیحات ہوں گی لیکن ٹی ٹی پی والوں کا واضح ہدف یہ ہے، جس کا وہ اظہار بھی کرتے رہتے ہیں،کہ سابقہ فاٹا اُن کے کنٹرول میں آئے اور افغانستان کی طرح وہاں بھی ایک اسلامی امارت قائم ہو۔اور ہمارے بڑے، ہم اُنہیں بڑے ہی کہیں گے، اور کیا کہیں؟ اس بھول میں مبتلا تھے کہ ان سے مذاکرات ہوںاور ان کے منہ میں کچھ لالی پاپ دیے جائیں تو وہ ہتھیار پھینک دیں گے اور جسے ہم سیدھا راستہ سمجھتے ہیں اُس پر آ جائیں گے۔سادگی کی بھی کوئی حد ہونی چاہئے۔ جنہوں نے بندوقیں اٹھائی ہوں اور طویل جنگی تجربے سے گزرے ہوں وہ اس قسم کی باتوں میں آتے ہیں؟اب جبکہ سابقہ قبائلی علاقوں میں شورش نے زور پکڑا ہے اورتقریبا ًروزانہ کی بنیاد پر حملے ہو رہے ہیں ہمارے بڑوں کو کچھ سمجھ آ رہی ہے کہ وہاں حالات کی نوعیت کیا ہے۔ لیکن ان سارے خطرات کے برعکس اس وقت صورتحال یہ ہے کہ اسلام آباد و راولپنڈی کی ساری قوتیں اس وقت ن لیگ و اتحادی جماعتوں کو بچانے کے لیے تگ و دو کر رہی ہیں۔ ان کے لیے سب سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ ن لیگ کو عوامی دباﺅ سے دور رکھا جائے۔ اور عوامی دباﺅ کا صرف ایک صورت میں پتہ لگ سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ شفاف الیکشن ہو جائیں جس میں پتہ لگ سکے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ مگر کوئی اس طرف آنے کو تیار ہی نہیں ہے۔ بلکہ جو پہلے سے طے شدہ الیکشن تھے اُنہیں بھی بہانے سے ملتوی کروایا جا رہا ہے۔ جبکہ اس سلسلہ میں الیکشن کمیشن مکمل آلہ کار بنا ہو ا ہے۔ جیسے آخری اطلاعات آنے تک وفاقی دارلحکومت اسلام آباد میں 31دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی الیکشن کو ملتوی کر دیا گیا ہے۔ اب حکومتی اتحاد کو 100فیصد یقین تھا کہ اُنہیں اس میں شکست ہوگی، اس لیے وہ الیکشن کوٹالنے میں اپنا پرانا پینترا دکھا رہے ہیں۔ جبکہ الیکشن کمیشن نے یہ فیصلہ حکومت اور تمام سیاسی جماعتوں کا موقف سننے کے بعد یہ فیصلہ سنایا ہے۔ حالانکہ تحریک انصاف اور پی ڈی ایم سے باہر جماعتوں کی آخری حد تک کوشش تھی کہ مذکورہ الیکشن ہوں اور عوام کو پتہ لگ سکے کہ موجودہ حکومت کی مقبولیت کا کیا عالم ہے، مگر بھلا ہو فیصلہ کرنے والوں کا کہ اُنہوں نے یہاں بھی رہنمائی کی ۔ یعنی مذکورہ انتخاب کے انعقاد کے لئے الیکشن کمیشن 31دسمبر کی تاریخ طے کرچکا تھا۔اسلام آباد کے تمام سیکٹرز میں ایسے بینرز کی بھرمار دِکھ رہی تھی جو متوقع انتخاب کے ضمن میں گہماگہمی کا تاثر فراہم کرتی ہے۔امیدواروں کی متاثر کن تعداد مضافات میں کہیں زیادہ متحرک نظر آرہی تھی۔بلدیاتی انتخابات کے لئے طے شدہ تاریخ سے چند ہی دن قبل مگر وفاقی حکومت کے افسر شاہی سے وابستہ نورتنوں کو اچانک دریافت ہوا کہ اسلام آباد کی آبادی تو بہت بڑھ چکی ہے۔101یونین کونسلیں اس شہر میں موثر مقامی حکومت کے قیام کے لئے کافی نہیں۔ان کی تعداد 125ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں جوسمری تیار ہوئی وفاقی کابینہ نے اسے فی الفور منظور کرلیا۔ الیکشن کمیشن مگر ٹس سے مس نہ ہوا۔ طویل اجلاس کے بعد حکومت کو یاد دلانے کو مجبور ہوا کہ 31دسمبر کے دن بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں۔ان سے مفر اب ممکن نہیں رہا۔ دریں اثناءیہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی زیر غور آیا۔ الیکشن کمیشن کو حکم ملا کہ وہ بلدیاتی انتخاب سے متعلق تمام شراکت داروں سے گفت وشنید کے بعد اپنا ذہن بنائے۔ الیکشن کمیشن سے مطلوب مشاورت سے قبل ہی مگر ایک قانون تیار ہوگیا۔قومی اسمبلی میں اسے کورم کے تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بل ڈوز کروادیا گیا۔توقع تھی کہ مذکورہ قانون کو سینٹ سے منظور کروانے میں دشواریوں کا سامنا ہوگا۔ تحریک انصاف ایوان بالا میں عددی اعتبار سے بہت طاقت ور ہے۔اپنی قوت سے وہ قومی اسمبلی سے منظور ہوئے قانون کی تصدیق میں دیر لگانے کو سو ہتھکنڈے استعمال کرسکتی تھی۔تحریک انصاف کی صفوں سے ایوان صدر پہنچے عارف علوی نے غالباََ یہ ہدف نگاہ میں رکھتے ہوئے سینٹ کا اجلاس طلب کرنے کی سمری پر دستخط کرنے میں لیت ولال سے کام لیا۔حکومتی سینیٹروں نے مگر نہایت ہوشیاری سے ایک اور حربہ استعمال کرتے ہوئے سینٹ چیئرمین کو یہ اجلاس طلب کرنے کو مجبور کردیا۔ اس اجلاس کی صدارت یقینی بنانے کے لئے وہ ”ہنگامی“ طورپر اسلام آباد بھی پہنچ گئے۔ بالآخر اجلاس ہوا اور قومی اسمبلی سے منظور ہوئے قانون پر انگوٹھے لگادئے گئے۔آئینی اعتبار سے اب اسلام آباد کے لئے125یونین کونسلوں کا قیام لازمی نظر آرہا ہے۔اس سے زیادہ کاری مگر وہ ترمیم ہے جو اسلام آباد کو پاکستان کا وہ پہلا اور فی الوقت واحد شہر بنادے گی جس کا میئر براہ راست انتخاب کے ذریعے منتخب ہوگا۔براہ راست منتخب ہوئے میئر کے اختیارات میں مزید کیا اضافہ ہوا ہے اس کی بابت پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے ریکارڈ بناتی عجلت کے ساتھ منظور ہوا قانون البتہ خاموش ہے۔ مذکورہ قانون کا اطلاق مگر الیکشن کمیشن کے ہاتھ اب باندھ سکتا ہے۔بلدیاتی انتخاب کو طے شدہ تاریخ کے دن منعقد کروانے میں اسے قانونی رکاوٹوں کا سامنا کرنے پڑے گا۔31دسمبر کے دن طے ہوئے بلدیاتی انتخابات اگر ”آئینی اور قانونی“وجوہات کے نام پر ٹل بھی گئے تو اسلام آباد کے شہریوں کو سیاسی اعتبار سے فقط ایک ہی پیغام ملے گا اور وہ یہ کہ مسلم لیگ (نون) انتخابی میدان میں تحریک انصاف کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہی۔اپنی شکست کے خوف سے راہ فرار ڈھونڈنے کے لئے بھونڈے ہتھکنڈے اختیار کرنے کو مجبور ہوئی۔کمزور ترین سیاسی جماعت بھی اپنے بارے میں انتخابی میدان سے بھاگنے والا تاثر پھیلانے سے ہر صورت گریز کرتی ہے۔مسلم لیگ (نون) مگر اس تاثر کے بارے میں ان دنوں قطعاََ لاتعلق ہوچکی ہے۔وزیر اعظم اور ان کے مسلم لیگ (نون) سے تعلق رکھنے والے وزراءکا رویہ بلکہ انہیں ”ٹینکوکریٹس“ پر مبنی ”عبوری حکومت“ کی صورت اجاگر کررہا ہے۔وہ اس کے بارے میں لیکن ہرگز پریشان نظر نہیں آرہے۔ خالص سیاسی ذہن کے ساتھ سوچیں تو تحریک انصاف اگر 31دسمبر کے دن ہوئے بلدیاتی انتخابات کی بدولت مسلم لیگ (نون) کو پچھاڑتی نظر آتی تو ضرورت سے زیادہ حیرت کا سبب نہ ہوتی۔2018ءکے انتخابات کے دوران اس شہر کے لئے مختص قومی اسمبلی کی تینوں نشستوں سے تحریک انصا ف کے امیدار جیت گئے تھے۔ ہارنیوالوں میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی شامل تھے۔ بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کی فتح بنیادی طورپر یہ پیغام ہی دیتی کہ اقتدار سے فراغت کے باوجودہ یہ جماعت اسلام آباد میں اب بھی مقبول ہے۔اسلام آباد کی مقامی حکومت کو ”منتخب“ ہونے کے باوجود کماحقہ اختیارات میسر نہیں ہیں۔ نواز حکومت کے دوران ہوئے انتخابات کی بدولت اسلام آباد کا منتخب ہوا میئر مسلم لیگ (نون) کا نامزد کردہ تھا۔تحریک انصاف کی حکومت کے دوران مگر کماحقہ فنڈز اور اختیارات نہ ہونے کے سبب وہ کوئی ”جلوہ“ دکھانہیں پایا۔اسلام آباد کے شہری سی ڈی اے کے افسروں کے محتاج ہی رہے۔ مضافات میں بنیادی شہری سہولتوں کا فقدان بلکہ خوفناک حدوں کو چھونا شروع ہوگیا ہے۔”پرانے“ قانون کے تحت 31دسمبر کے دن ہوئے بلدیاتی انتخابا ت کے نتیجے میں قائم ہوئی تحریک انصاف کی ”مقامی حکومت“ بھی نواز لیگ کی سربراہی میں چلائی وفاقی حکومت کی وجہ سے بے اختیار اور فروعی ہی محسوس ہوتی۔ افسر شاہی کے نورتن مگر اس ٹھوس سیاسی حقیقت کا ادراک کرنے میں ناکام رہے۔مسلم لیگ (نون) کو شکست کے خوف میں مبتلا ہوکر انتخابی میدان سے بھاگتے ہوئے دکھادیا ہے۔جو یقینا ن لیگ کے مستقبل کے لیے بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ مگر کیا کریں! اُنہیں معلوم ہے کہ جب تک مقتدر قوتیں ساتھ ہیں، کوئی اُن کا بال بھی بھیگا نہیں کرسکتا۔ نہیں یقین تو آنے والے دنوں میں پتہ چل جائے گا!