جاپان بہترین قوم: ہم ایسی قوم کب بنیں گے؟

قطر اس وقت فیفا ورلڈ کپ 2022ءکی وجہ سے دنیا بھر کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے، بڑے بڑے اپ سیٹ بھی ہو رہے ہیں متوقع و غیر متوقع نتائج بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ جس سے ایک بات ثابت ہو رہی ہے کہ جس ٹیم نے اس ایونٹ کے لیے جتنی محنت کی وہ اتنا ہی اچھا کھیل پیش کر رہی ہے۔ کسی قسم کی بدنظمی بھی دیکھنے کو نہیں مل رہی، بلکہ بعض شائقین ضرورت سے زیادہ سکیورٹی کی وجہ سے پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ اس بڑے ایونٹ کو دیکھنے کے لیے اس وقت 32ملکوں کے شائقین قطر میں موجود ہیں، جو اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، ان ملکوں میں جاپانی شایقین ہیں جو اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں وہ جس جگہ بیٹھتے ، اُٹھتے یا کھاتے پیتے ہیں وہاں مثال قائم کیے جاتے ہیں۔ جیسے گزشتہ ہفتے فٹ بال ورلڈ کپ 2022 کی افتتاحی تقریب سے ایک ویڈیو خوب وائرل ہو رہی ہے، جس میں جاپانی شائقین کو تقریب کے اختتام پر کچرا اُٹھاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔یوں تو اسلامی تعلیمات کے مطابق صفائی نصف ایمان ہے لیکن اس معاملے میں جاپان دنیا بھر میں سب سے آگے ہے۔افتتاحی میچ ایکواڈور اور میزبان ملک قطر کے درمیان کھیلا گیا جس میں ایکواڈور نے قطر کو 0-2 سے شکست دے دی۔میچ کے اختتام پر دیگر تمام شائقین گھروں کو لوٹ گئے لیکن اسٹیڈیم میں موجود جاپانی حاضرین میچ کے بعد وہیں رکے رہے اور اسٹیڈیم خالی ہونے کے بعد صرف ایک یا دو نہیں بلکہ پورے اسٹیڈیم میں پڑا کچرا اٹھایا جس کے مناظر وہاں موجود منتظمین نے کیمرے میں محفوظ کرلیے۔اس پر جاپانی شائقین نے بتایا کہ جاپانی قوم کبھی بھی کچرا چھوڑ کر نہیں جاتے۔ ہم جگہ کا احترام کرتے ہیں۔جاپانی شائقین نے اسٹیڈیم میں پڑا کچرا ہی نہیں اُٹھایا بلکہ جگہ جگہ پڑے ہوئے قطر کے قومی جھنڈے بھی اُٹھائے اور ان کا احترام بھی اپنے قومی پرچم کی طرح ہی کیا، کچھ شائقین قطری پرچم اپنے ساتھ لے گئے جبکہ کچھ نے انہیں زمین سے اُٹھا کر کرسیوں پر رکھ دیا۔ اور یہ پہلا موقع نہیں ہے جب جاپانیوں نے اس قسم کا عمل کیا ہو بلکہ جاپانی فٹ بال ٹیم جب 2014 میں برازیل میں ہونے والے ورلڈ کپ میں حصہ لینے گئی تو انھوں نے صفائی کے بارے میں جاپانی رویے کی عکاسی کی۔ جب ایک میچ کے بعد جاپانی ٹیم کے کھلاڑی سٹیڈیم میں کوڑا اٹھانے کے لیے رکے تو تماشائی حیران رہ گئے۔جاپانی کھلاڑی اپنے ڈریسنگ روم کو بھی اتنا صاف رکھتے تھے کہ فیفا کے جنرل کوارڈنیٹر پریسلا جینسن نے کہا ”دوسری ٹیموں کے لیے کیا بہترین مثال ہے۔“پھر رگبی کے میچوں اور اولمپکس کھیلوں کے دوران یا کسی فیسٹیول کے دوران بھی ایسے کئی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بلکہ اسلام آباد میں ایک دوست رہتے ہیں اُنہوں نے گزشتہ سات سال سے اپنا گھر ایک جاپانی فیملی کو کرائے پر دے رکھا ہے، حالانکہ اُنہیں 4،5گنا زیادہ کرائے کی آفرز بھی ہیں مگر وہ اس لیے اُن سے گھر خالی نہیں کرواتے، کیوں کہ اُن کے بقول جاپانی فیملی نے اُن کا گھر اس قدر صاف و شفاف کر رکھا ہے کہ وہ شاید خود بھی اتنا صاف نا رکھ سکتے۔ سوال یہ ہے کہ جاپانی قوم اتنی صفائی پسند، سلیقہ مند اور تربیت یافتہ کیسے بنی؟ میرے خیال میں ایک تو اُن کے مذہب بدھ مت میں صفائی کو پہلی ترجیح دے رکھی ہے، لیکن صفائی تو ہمارے مذہب اسلام میں بھی نصف ایمان کا درجہ رکھتی ہے، مگر ہم نے تو کبھی اس بات کا پاس نہیں رکھا۔ لہٰذایہ تربیت اُن کے سکول اور گھر سے ہی دی جاتی ہے۔ وہاں ہر سکول میں طالبعلم دن بھر کی پڑھائی کے اختتام پر اپنے بستے ڈیسک پر رکھ کربیٹھے ہیں اور اس انتظار میں ہیں کہ دن بھر کی پڑھائی کے بعد چھٹی ملے گی اور وہ گھر جائیں گے۔تو ایسے میں ٹیچر کا اعلان شروع ہوتا ہے: ’آج کا صفائی کا روسٹر کچھ ایسے ہے۔ پہلی اور دوسری لائن کلاس روم کی صفائی کریں گی، تیسری اور چوتھی لائن راہداری اور سیڑھیوں کی صفائی کریں گی اور پانچویں لائن ٹوائلٹ صاف کرے گی۔پانچویں لائن سے کچھ چوں چراں کی آوازیں آتی ہیں لیکن طالبعلم کلاس روم کی الماری میں سے صفائی کا سامان اٹھا کر ٹوائلٹ کی صفائی کے لیے روانہ ہو جاتے ہیں۔پھر اگلے دن بچوں کی باریاں تبدیل ہو جاتی ہیں اور پھر یہ منظر کسی ایک سکول کا نہیں ہوتا بلکہ پورے ملک کے سکولوں میں ایسا ہی ہوتا ہے۔جب طالبعلم سکول آتے ہیں تو انھیں اپنے جوتے لاکر میں رکھ کر ٹرینر پہننے ہوتے ہیں۔ گھروں میں بھی لوگ گلی میں پہنے جانے والے جوتوں گھر کے سامنے والے حصے میں اتار دیتے ہیں۔حتیٰ کہ گھروں میں جو لوگ کام کے لیے آتے ہیں وہ بھی اپنے جوتے اتار کر جرابوں پر کچھ پہن لیتے ہیں۔ جب سکول کے بچے بڑے ہوتے ہیں ان کا یہ خیال پختہ ہو چکا ہوتا ہے کہ کلاس روم کے علاوہ ان کا پڑوس، ان کا شہر اور ان کا ملک بھی ان کی ذمہ داری ہے۔جو لوگ پہلی مرتبہ جاپان آتے ہیں وہ یہاں صفائی کی صورتحال دیکھ کر بہت حیران ہوتے ہیں۔ ان کے مشاہدے میں آتا ہے کہ گلیوں میں نہ تو کوڑے دان ہیں اور نہ ہی صفائی کرنے وا لے جھاڑو لگا رہے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ پرائمری کلاس سے لے کر ہائی سکول تک 12 برسوں میں طالب علموں کے لیے صفائی روز کا معمول ہے۔ جبکہ اس کے برعکس ہمارے گھروں میں والدین تلقین کرتے ہیں کہ اپنی اشیا اور اپنی جگہوں کو صاف نہ رکھنا بری بات ہے۔لیکن بچے ان باتوں کو سنی ان سنی کر دیتے ہیں۔ اور پھر ہمارے سکولوں میں بھی ایسی کسی قسم کی تربیت کا اہتمام نہیں کیا جاتا، بلکہ ہمارے سکولوں کا دھیان صرف سکول بیگ بڑا کرنے کی حد تک ہے، اور پیسے کمانے کی حد تک ہے، تبھی ہماری اشرافیہ کا بھی یہی حال ہے، وہ بھی موٹروے پر چلتے چلتے راستے میں کوڑا پھینکنے کو ترجیح دیتے ہیں، تبھی ہم یا ہمارے جیسے ترقی پذیر ممالک میں شہری ہمیشہ ریاست کی طرف ہی دیکھتے ہیں کہ وہ سب کچھ درست کرے، معیشت سے لے کر سماجی رویوں تک۔ ترقی یافتہ ملکوں میں صورتحال اس کے برعکس ہے، جہاں ریاست کی جانب سے سب ذمہ داریوں کا ادراک رکھنا ضروری خیال کیا جاتا ہے‘ اسی طرح شہریوں کی جانب سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس کیا جانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ آج کل کے پاکستان کے سب سے بڑے مسئلہ کچرے اور گندگی کے ڈھیر ہیں‘ جو ہمیں شہروں‘ قصبوں اور دیہات میں ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ ان کا گلہ تو سب کو ہے مگر شہریوں میں سے کتنے ہیں جو اس بارے میں عملی طور پر کچھ کرنے کے لئے تیار معلوم ہوتے ہیں۔ بہت کم‘ مگر ایسے مثالی شہری ہر جگہ کچھ نہ کچھ کرنے میں مصروف ہیں۔ آپ بجا طور پر کہہ سکتے ہیں کہ کوڑا کرکٹ جمع کرنا‘ گلیوں اور پارکوں کو صاف ستھرا رکھنا تو شہری حکومت کی ذمہ داری ہے‘ ہمارا اس میں کیا کام؟ لیکن ہم سب جانتے ہیں کہ شہری محکمے اپنی ذمہ داری پوری طرح نبھا نہیں رہے۔ اس حوالے سے کراچی کا ذکر تو تواتر سے آتا ہے مگر در حقیقت دیہات کا تو بہت ہی برا حال ہے‘ اور سب سے بڑھ کر ہمارے مثالی شہر اسلام آباد اور تاریخی شہر اور ثقافت کے مرکز لاہور میں بڑی اور مشہور سڑکوں کو چھوڑ کر کہیں عام اندرونی علاقوں میں جائیں تو گندگی‘ غلاظت اور بدبو کے طوفان سے گزرنا پڑتا ہے۔ ایسا کیوں ہے اور ہماری ذمہ داری بطور شہری کیا ہونی چاہئے؟ یہ وہ نکتہ ہے جس سے تہذیب‘ شائستگی اور سماجی پسماندگی میں فرق معلوم کیا جا سکتا ہے۔ وطن عزیز میں زور اس بات پر ہے کہ حکومت کے اہلکاروں نے صفائی کیوں نہیں کی‘ کچرا وقت پر کیوں نہیں اٹھایا اور ہمارے پارک گندگی کا ڈھیر کیوں بن چکے ہیں؟ اس کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ شہری کیوں کچرے کو جہاں چاہیں پھینک دیتے ہیں اور اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ ہم پلاسٹک کے لفافوں کا استعمال ختم کیوں نہیں کرتے‘ جو نہ صرف ہمارے ملک کے کونے کونے میں بلکہ دنیا بھر کے دریاﺅں اور سمندروں تک پھیل چکے ہیں۔ آپ یقین مانیں کہ ہمارے ہاں ہر جگہ پر گندگی کے ڈھیر ہیں، ہم ایک قوم کیوں نہ بن سکے؟ ہمارے ہاں ہر طرف گندگی کے ڈھیر ہیں۔ یہاں ہماری تربیت نہیں کی جاتی، میں ابھی گزشتہ دنوں آفس ٹور لے کر کھیوڑہ مائنز گیا، تو ہماری اپنی کوسٹر کا یہ عالم تھا کہ ہر کوئی کوسٹر کا شیشہ کھول کر استعمال شدہ اشیاءباہر پھینک رہا تھا۔ کچھ سٹاف ممبرز کوسٹر میں ہی ایک جگہ اکٹھا کرنے پر اکتفا کر رہے تھے۔ بس کھیوڑہ کے ریسٹ ہاﺅس پر رکی، تو وہاں بھی کسی کو بس کی صفائی کا خیا ل نہیں آیا۔ جس کے بعدراقم نے نشاندہی کے بعد صفائی کروائی، لیکن اس وقتی تربیت کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا، جب تک ہماری تربیت سکولنگ سطح پر نہ ہو۔ حالانکہ سعودی عرب ومتحدہ عرب امارات میں اس قسم کی تربیت کا سکولوںمیں اہتمام کیا جا رہا ہے جس کا نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ وہاں بھی کہیں آپ کو کھلے عام کوڑا کرکٹ وغیرہ نظر نہیں آئے گا، اس کا کریڈٹ یقینی طور پر شاہ سلمان اور امیر امارات کو ہی جاتا ہے۔ بہرکیف ہمیں ایک قوم بن کر دنیا میں اپنی پہچان کروانے کے لیے ابھی بہت محنت درکار ہے، تبھی ایک ایک کرکے ہم اپنے اداروں کو بھی ٹھیک کر سکتے ہیں، اور تبھی ہم دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں، یقین مانیں کہ دنیا بھر کے ممالک کی کچھ نہ کچھ انفرادیت ضرور ہے جیسے ترکی کی پولیس میں 500سے زائد پولیس آفیسرز پی ایچ ڈی کی ڈگریاں لیے عوام کی خدمت کر رہے ہیں، تبھی وہاں کی پولیس نے اپنی فوج پر بھی غلبہ پا رکھا ہے۔ آپ دوبارہ جاپان ہی کی بات کر لیں ، جاپانی امیگریشن کے پاس ایک ہزار سال سال کا Activeریکارڈ موجود ہے۔ کوئی بھی شخص جس نے جاپان میں قوائد کی خلاف ورزی کرتے ہوئےOverstayکیا ہوا ہو یا کسی جرم میں سزا پائی ہو وہ دوبارہ جاپان میں داخل نہیں ہو سکتا۔وہاں غذائی اشیاءمیںملاوٹ کرنے کا تصور بھی نہیں۔جاپانی پراڈکٹس کی تیاری کے معیار میں اگر معمولی سا فرق بھی آ جائے تو اسے اندون یا بیرون ملک مارکیٹ نہیں کیا جا سکتا۔جبکہ یہاں مذہب کو بیچ کر چیزوں میں ملاوٹ کی جاتی ہے، اور جھوٹی قسمیں کھا غیر معیاری اشیا ءکو بیچا جاتا ہے۔ اگر یہی صورتحال رہی تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم دنیا کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جائیں گے اور ہمارا نام بھی نہیں لیا جائے گا! اسی لیے ہمیں اپنے سکولوں کا نصاب بدلنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی میٹرک کلاس تک ٹریفک قوانین پڑھانے کی ضرورت ہے تاکہ بچہ مکمل آگاہی حاصل کرکے اچھا پاکستانی بن سکے۔