توشہ خانہ : اہم مسئلے سے توجہ ہٹانے کی بے تکی کوشش !

ہماری بدقسمتی ملاحظہ فرمائیں کہ پہاڑ جتنے بڑے ایشوز چھوڑ کر اس وقت پورا ملک گھڑی اور توشہ خانہ کیسز پر لگا ہوا ہے، یعنی اب یہی سمجھا جائے کہ خوب چھان بین کے بعد تحریک انصاف یا عمران خان کے خلاف جب کوئی بڑا کیس نہیں پکڑا گیا تو ایک گھڑی اور چند مزید تحفے نکال لو کہ ایسا کرنے سے شاید عوام کی عام مسائل سے توجہ ہٹ جائے۔ آپ حرف عام میں اس کیس کو زیادہ سے زیادہ کیا کہیں گے؟ کہ یہ ایک غیر اخلاقی حرکت ہے؟ اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتے ہیں؟ ویسے بادی النظر میں اگر توجہ دلانی ہوتو اس سے بھی بڑا کیس آج کل لندن میں چل رہا ہے، جس میں وزیر اعظم شہباز شریف پر 2005ءکے زلزلہ زدگان کے فنڈز کھانے کا الزام ثابت کیا جا رہا ہے۔ حالانکہ اُنہیں وزیر اعظم بننے کے بعد نیب اور ایف آئی اے کی مشکلات میں تو کچھ ریلیف ملا ہے ، لیکن برطانیہ میں ڈیلی میل کے خلاف ہتک عزت کے کیس نے انہیں پھر مشکل میں ڈال دیا ہے، برطانیہ کی عدالت نے کیس میں مزید التوا دینے سے انکار کر دیا ہے ، 13 دسمبر تک جواب الجواب جمع کرانے کا حکم دیا ہے ، برطانیہ میں اس کیس کی ٹائمنگ بہت اہم ہے ، ملک میں جاری سیاسی مسائل کی گونج لندن میں سنی جا رہی ہے ، اگر اس کا فیصلہ شہباز شریف کے خلاف آتا ہے تو انہیں عدالتی اخراجات کی مد میں بھاری رقم ادا کرنا ہو گی ، انہیں 13 دسمبر تک ہر حال میں اپنے اور اپنے داماد کے خلاف کیس میں جواب جمع کروانا ہے ۔ اور ابھی تک کی کارروائی کے مطابق لندن کی کورٹ نے 30 ہزار پاﺅنڈ عدالتی اخراجات شہباز شریف پر ڈالے ہیں ، وہ انہیں 23 نومبر سے قبل ادا کرنے ہوں گے ، ان کے داماد پر 27 ہزار پاﺅنڈ ڈالے گئے ہیں ۔مطلب اس سے زیادہ سبکی کیا ہو سکتی ہے کہ ایک وزیر اعظم پر اس قسم کی کرپشن بیرون ملک ثابت ہو جائے!تو پھر ملک کا اللہ ہی حافظ ہوگا۔ خیر یہ ہمارا موضوع نہیں ! لیکن اس سے بھی بڑھ کر مسائل ہمارے سامنے ہیں ، مجال ہے کہ کوئی اس پر توجہ دینا چاہتا ہو۔ جیسے معیشت ایک بار پھر ہچکولے کھا رہی ہے، حکومت جو مرضی کہہ لے مگر عالمی ایجنسیاں دنیا کی معیشت پر کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں جیسے پاکستان کے حوالے سے عالمی ریٹنگ ایجنسی ”فچ“ (Fitch) نے ریٹنگ بی مائنس سے کم کر کے ٹرپل سی پلس کردی۔فچ کا کہنا ہے کہ وہ عام طور پر CCC پلس یا اس سے نیچے کی ریٹنگ پر آﺅٹ لک جاری نہیں کرتے۔ پاکستان کا سی ڈی ایس (کریڈٹ ڈیفالٹ) رسک 15نومبر کو 75 فیصد پر پہنچ گیا ہے، جو مارچ 2022ئ(عمران خان کی حکومت کے وقت) میں صرف 5 فیصد تھا۔ پاکستانی بانڈز کی قیمت 60 سے 65فیصد کم ہوگئی ہے اور عالمی سرمایہ کاروں میں بانڈز کی وقت پر ادائیگی پر سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ اسحاق ڈار صاحب سرمایہ کاروں کو بروقت ادائیگی کا یقین دلا رہے ہیں مگر اس ادائیگی کا خود کئی حکومتی اراکین کو بھی یقین نہیں ہے۔ ملکی ایکسپورٹس ریکارڈ پست سطح پر پہنچ چکی ہیں، گیس کی عدم دستیابی سے کئی پیداواری اور صنعتی یونٹس بند ہو گئے ہیں۔ بجلی کی کھپت انتہائی کم ہونے کے باوجود لوڈشیڈنگ جاری ہے، مہنگائی کی شرح 28.6فیصد پر پہنچ چکی ہے جو بجٹ میں حکومت کے لگائے گئے تخمینے سے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔ عام آدمی کے لیے زندگی بسر کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا جا رہا ہے مگر حکومت کی جانب سے بہتری کا کوئی اقدام ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ عالمی مارکیٹ میں پٹرول کی قیمتیں کم ہونے کے باوجود عوام ان ثمرات سے محروم ہیں جبکہ حکومت قیمتیں کم کرنے کے بجائے ٹیکسز کی شرح میں اضافہ کرتی جا رہی ہے۔ ان تمام مسائل پر جو ملک و قوم کو درپیش حقیقی مسائل ہیں اور جن پر سب سے زیادہ بات کی جانی چاہیے، پوری حکومت، سبھی وزرا اور سارے مشیران اور ترجمان توشہ خانہ، توشہ خانہ کی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ڈیفالٹ کا خطرہ اب سامنے نظر آنے لگ گیا ہے مگر کیا وزیراطلاعات اور کیا وزیر خارجہ، کیا وزیر ماحولیات اور کیا وزیر داخلہ، کیا وزیر دفاع اور کیا وزیر ریلوے حتیٰ کہ خود وزیراعظم صاحب اور لندن میں مقیم بڑے میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی کی زبان پر بھی ایک ہی لفظ ہے: توشہ خانہ۔ محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ توشہ خانہ ہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ توشہ خانہ کا پہلا تحفہ یا پہلی گھڑی تھی جو عمران خان کو بطور وزیراعظم پاکستان ملی؟کیا یہ پہلا تحفہ تھا جو عمران خان نے بطور وزیراعظم قیمت ادا کر کے توشہ خانہ سے خریدا؟ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر رٹ پٹیشن عنقریب سب کچھ بتا دے گی کہ اب تک کتنے اور کس قدر مالیت کے قیمتی تحائف، جو غیر ملکی سربراہان کی جانب سے دیے گئے تھے، توشہ خانہ سے خریدے گئے۔ وہ تمام تحائف جو توشہ خانہ میں جمع تھے، کون لے گیااور کس نے نایاب اور قیمتی اشیا کی من مانی قیمتیں مقرر کرا کر ان کی ادائیگیاں کیں اور پھر ان کو ایسے اپنے گھروں میں لے گئے کہ نہ کسی کو خبر دی گئی اور نہ ہی ان سے متعلق ابھی تک کیبنٹ ڈویژن عوام کو کچھ بتا رہا ہے۔ حکومت سے جب بھی ”فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ“ کے تحت توشہ خانہ کی تفصیلات طلب کی جائیں تو اسے ”سٹیٹ سیکرٹ“ قرار دے دیا جاتا ہے۔ یہاں سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان کو ملنے والے تحائف کی معلومات افشا کرنے پر کارروائی نہیں ہونی چاہیے؟ اوپر سے نیچے تک پوری کابینہ سیکرٹ قرار دی گئی معلومات کی مدد سے یہ ثابت کرنے پر لگی ہوئی ہے کہ عمران خان نے جو چند تحائف توشہ خانہ سے قیمتاً لیے، وہ عمل نہ صرف غیر قانونی بلکہ غداری جتنا سنگین جرم ہے۔ جبکہ اس سے پہلے حکومتیں جو تحائف ساتھ لے گئیں وہ جائز تھے۔ جیسے پیپلز پارٹی کے یوسف رضا گیلانی نے اپنے دور میں قوانین میں نرمی کرکے سابق صدر آصف زرداری اور سابق وزیر اعظم نواز شریف کو توشہ خانہ سے گاڑیاں خریدنے کی اجازت دی تھی۔اس حوالے سے اسلام آباد کی احتساب عدالت نے حکومتی توشہ خانہ سے تحفے میں ملنے والی گاڑیوں کی غیر قانونی طریقے سے خریداری کے مقدمے میں سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کر رکھے ہیںاسی طرح آصف زرداری نے بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو توشہ خانہ سے خریدی ہیں۔ آپ ماضی میں چلے جائیں، 1997ءمیں نواز شریف ترکمانستانی حکومت کا دیا ہوا قالین صرف 50 روپے دے کر اپنے گھر لے گئے تھے اور اپنے ڈرائنگ روم کی زینت بنا لیا تھا۔ اس کے بعد جناب قطر کے ولی عہد کا دیا ہوا بریف کیس صرف 875 روپے دے کر اپنے گھر لے گئے یعنی اپنے استعمال میں لاتے رہے۔ پھر 1999ءمیں سعودی عرب سے ملنے والی 45لاکھ کی مر سڈیز میاں صاحب 6 لاکھ میں لے گئے تھے۔اس کے بعد سعودی حکومت کی دی رائفل جو 1لاکھ سے زائد کی تھی، میاں صاحب 14ہزار میں گھر لے گئے۔ابو ظہبی کے حکمران کی طرف سے نواز شریف، مریم نواز بیگم کلثوم نوازمرحومہ کو 3 گھڑیاں تحفے میں دی گئیں 2 گھڑیاں توشہ خانہ میں جمع کرا دیں۔ ایک گھڑی مریم نواز نے 45 ہزار میں نکلوا لی اس گھڑی کی قیمت 1999ءمیں 10 لاکھ سے زائدتھی۔اس کے بعد شوکت عزیز (وہی شوکت عزیز جسے امپورٹ کرکے وزیراعظم لگایا گیا تھا ) 26 کروڑ کے تحفوں کی قیمت 7 کروڑ لگوا کر ڈھائی کروڑمیں گھر لے گئے ۔ ان کے ساتھ ساتھ پرویز مشرف 4کروڑ کے تحفے 55لاکھ میں گھر لے گئے۔ ان تحائف میں 2 پسٹل بھی تھے جو امریکی وزیر دفاع رمز فیلڈنے مشرف کو گفٹ کیے تھے۔ مشرف صاحب وہ پسٹل 19ہزار میں لے اڑے۔اور پھر ترکی کی خاتونِ اول سے ملنے والے ہار کا قصہ قوم کی نظروں سے اوجھل ہے جو سیلاب زدگان کے لیے عطیہ کیا گیا تھا، مگر وہ یوسف رضا گیلانی کی بیوی سے برآمد کروایا گیا، اور وہ بھی کورٹ کے ذریعے لیا گیا۔ یہ سب چیزیں ایک طرف مگر... عمران خان کی حکومت سے تیس، چالیس برس قبل تک پاکستان کو دنیا بھر سے ملنے والے توشہ خانہ کے نوادرات اور جواہرات سمیت کھربوں روپے مالیت کی اشیا اس وقت کہاں اور کس کے پاس ہیں، کیا اس پر انکوائری نہیں ہونی چاہیے؟ الغرض عمران خان کا قصور صرف یہ ہے کہ انہوں نے 20 فیصد کی شرح کو بڑھا کر 50 فیصد کر دیا اور اسی قصور کی انہیں سزا دی جا رہی ہے۔ ان کا واحد جرم یہ ہے کہ جو چیز پہلے اونے پونے داموں خرید لی جاتی تھی، اب اس کی کم از کم نصف قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ توشہ خانہ تو ایک کھلا کھانچہ تھا جس سے بڑے بڑوں کی دیہاڑیاں لگی ہوئی تھیں مگر عمران خان نے سارے عمل کو قانونی بنایا۔ اور پھر کیسے کیسے جھوٹ بولے جا رہے ہیں قوم کے ساتھ کہ اُن کے خیال میں پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ ہی اس وقت توشہ خانہ کیس چل رہا ہے ۔ اس پر تو ایک شعر بھی بنتا ہے کہ آنکھیں جھوٹ نظارہ جھوٹ جوبھی ہے وہ سارا جھوٹ ساگر جھوٹ کنارہ جھوٹ دریا کا ہر دھارا جھوٹ بہرحال ہو اب یہ رہا ہے کہ تمام میڈیا سیل مل کر اس ایشو کو اُٹھا رہے ہیں، جس میں بڑی حد تک سبھی ناکام بھی ہوچکے ہیں،اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس کیس کا قوم سے کوئی لینا دینا بھی نہیں ہے۔ حالانکہ میں بھی خان صاحب کے بارے میں یہی سوچ رکھتا ہوں کہ اُنہیں گھڑی وغیرہ نہیں بیچنی چاہیے تھی، مگر اسے ہم صرف غیر اخلاقی حرکت ہی کہہ سکتے ہیں، اس کے علاوہ اور کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اس لیے اصل مسائل کی طرف آئیں ورنہ آنے والے دنوں میں ہم منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے!