ملکی ترقی میں بڑی رکاوٹ کرپٹ سیاستدان ہی ہیں!

چند صدیاں قبل یورپ، امریکا سمیت دنیا کا کوئی بھی ملک ترقی یافتہ نہیں تھا، انہیں ترقی یافتہ وہاں کے لیڈرز نے بنایا، جیسے نیلسن منڈیلا نے افریقی عوام کے لیے تحفظ کیلئے کام کیا۔ ونسٹن چرچل نے برطانوی عوام کی تقدیر بدلی، ابراہام لنکن نے جدید امریکا کی بنیاد رکھی، نپولین بونا پاٹ نے فرانس میں انقلاب برپا کیا، جرمنی کو بحرانوں سے نکال کر دنیا کی تیسری بڑی قوت بنانے میں انجیلا مرکل نے اہم کردار ادا کیاجبکہ جدید ترکی کی بنیاد اتا ترک نے رکھی اور اُسے بحرانوں سے نکالنے کے لیے طیب اردگان نے اہم کردار ادا کیا(حالانکہ ترکی میں بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ ہمارے جتنی ہی مضبوط تھی، اگر سیاستدان بہترہوں تو معاملات ٹھیک کرلیتے ہیں)، پھر ملایشیا کے مہاتیر محمد کو کون بھول سکتا ہے کہ اُنہوں نے اپنے ملک کو دنیا کا سب سے تیزی سے ترقی یافتہ بننے والا ملک بنا ڈالا، پھر انڈونیشیا کے صدر ’جوکوویدودو ‘ کو دیکھ لیں جنہوں نے جدید انڈونیشیا کی بنیاد ڈال دی ہے۔ مگر ان سب کے برعکس افسوسناک امر یہ ہے کہ گزشتہ 75سالوں میں یہاں ایسا کوئی لیڈر پیدا نہیں ہوا جس کے بارے میں کہا جاسکے کہ اُس نے ملک کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کیا۔ یہاں جو بھی آیا اُس نے ملک کی تقدیر بدلنا تو دور کی بات اپنی ”تقدیر“ بدلنے میں عافیت جانی۔ یہاں جو سیاستدان اقتدار میں آنے سے پہلے لکھ پتی تھا وہ اقتدار میں آنے کے بعد ارب پتی بن گیا۔ جس کی ایک فیکٹری تھی اقتدار میں آنے کے بعد اُس کی دنیا کے پانچ براعظموں میں جائیداد پھیل گئی۔ جو چھوٹا جاگیر دار تھا، اقتدار میں آنے کے بعد اُس نے شہر کے شہر اپنے نام کر والیے۔ الغرض سنتا جا شرماتا جا۔۔۔ کے مترادف کوئی ایسا سیاستدان نہیں آیاجس نے ملک کی تقدیر بدلنے کے لیے کام کیا ہو۔ ہاں ذوالفقار علی بھٹو ایسے سیاستدان تھے جنہوں نے پاکستان کی ترقی کے لیے کام کیا مگر وہ بھی جلد عالمی طاقتوں اور طاقتور حلقوں کی بھینٹ چڑھ گئے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا لیڈرز کیسے کام کرتے ہیں؟ اور یہ ہمارے لیے مشعل راہ کیسے ہو سکتے ہیں؟ تو اس کا جواب کے لیے آپ تمام لیڈرز کی زندگی کو پڑھ لیں، یقینا اس سے استفادہ ہی ہوگا۔ مگر یہاں انڈونیشیا کے صدر کا نام جوکوویدودو کا ذکر مناسب سمجھوں گا۔ جن کے بارے میں دنیا خاص طور پر ہمارے قائدین اور عوام کم ہی جانتے ہیں ۔ جوکو ویدودو 2014ءمیں انڈونیشیا کے صدر بنے ، انہوں نے عام آدمی کی طرح زندگی گزاری، بہت سی مشکلات سے گزرے جن کا ذکر بعد میں کروں گا ۔ اُن کی دوسری ٹرم ہے جوکہ 2024ءمیں ختم ہوگی۔ میں یہ پڑھ کر حیران ہو گیا کہ ان آٹھ سالوں میں صدر ویدودو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک مرتبہ بھی شریک نہیں ہوئے۔ اپنے وزیرِخارجہ کو بھیجتے رہے ہیں اور وہ اس بنا پر کہ میں نے وہاں جاکر کیا کرنا ہے؟ مجھے حاصل کیا ہوگا؟ اس کے برعکس ہمارے لیڈر دیکھ لیں، سمجھتے ہیں کہ دنیا اُن کی بے معنی باتوں کو سننے کیلئے بے تاب ہے۔ نواز شریف ہوں، شہباز شریف ہوں، زرداری ہوں یا عمران خان سبھی بھاگے چلے جاتے ہیں ۔ اور جب بے معنی سی تقریر وہاں ادا ہوتی ہے تو زور زور سے کہا جاتا ہے کہ اس دفعہ کشمیر کا کیس بہت عمدہ طریقے سے عالمی برادری کے سامنے پیش کیا گیا۔ مطلب ہم وہ قوم ہیں جو اپنے گھر کے حالات سے صحیح طرح نبرد آزما نہیں ہے۔ لیکن دنیا کو وعظ و نصیحت میں سب کو پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ یقین مانیں صدر ویدودو کے بارے میں یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے دورِ اقتدار میں اُنہوں نے دو ہی ترجیحات پر زیادہ زور دیا: انویسٹمنٹ اور ٹور ازم۔ یعنی باہر کے ممالک زیادہ سے زیادہ انڈونیشیا میں انویسٹ کریں اور دنیا کے زیادہ سے زیادہ سیاح انڈونیشیا کی سیر کو آئیں۔ انڈونیشیا نے ابھی جی 20سمٹ کی میزبانی کی ہے جس میں دیگر لیڈران کے علاوہ صدر جوبائیڈن اور چینی لیڈر شی جن پنگ نے بھی شرکت کی۔ ایک لمبے وقفے کے بعد امریکی اور چینی لیڈران ایک دوسرے سے ملے اوراُن کے مصافحے کی تصاویر ہم میڈیا میں دیکھ چکے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ترقی کے لحاظ سے انڈونیشیا صفِ اول کے ممالک میں آن پہنچا ہے لیکن اتنا تو پتا چلتا ہے کہ انڈونیشیا ایک چلتا پھرتا ملک ہے جسے دوسرے ممالک سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ اب اچھا نہیں لگتا اپنے آپ کو کوسنا لیکن اپنی حقیقت ہم جانتے ہیں۔ اپنے حالات کا ہم نے ستیاناس کردیا ہے۔ ہمارا امیج یہ بن چکا ہے کہ یہ ٹھیک چلنے والا ملک نہیں اور اس کا پہلا اور آخری کام ہاتھ پھیلانا ہے۔ ہمیں کسی اتاترک یا صلاح الدین ایوبی کی ضرورت نہیں۔ بس کوئی نارمل لیڈر مل جائے جس کی ترجیح بس اتنی ہو کہ وہ نارمل کام کرے۔ بڑھکوں سے زیادہ اس بات پر زور دے کہ پاکستان میں انویسٹمنٹ آئے اور ٹورازم کو فروغ ملے۔ مانا کہ ہمارے معاشی حالات خراب ہیں لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں ہونا چاہیے کہ بس کشکول اٹھا کے کبھی یہاں بھاگیں کبھی اُس کے در پر جائیں۔ اگلے بھی ہمارا رویہ دیکھ کر تنگ آچکے ہیں۔بقول شاعر پھرنظام عدل ہوا ہم سے انتساب پھر یوں ہوا کہ ہم ہی ختم کر دیے گئے اور پھر یہ جو ہمارے حالیہ مسیحا اسحق ڈار ہیں، ان کو دیکھ لیجئے۔ آپ مشکل صورتحال میں وزارتِ خزانہ کا قلم دان سنبھالنے آ رہے تھے۔ تھوڑا آہستہ سے آتے اور اپنا کام شروع کرتے۔ لیکن پہنچے نہیں تھے اور بڑھکیں پہلے شروع ہو گئیں کہ میں جانتا ہوں آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کیسے طے کرنے چاہئیں۔ ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے‘ فلاں سمت سے پیسے آئیں گے۔ ایک سال میں حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور پھر سیاسی حالات بھی درست ہو جائیں گے۔ باتیں اس انداز کی، کام دھیلے کا نہیں اور اب خیال آتا ہے کہ تلاشِ گمشدہ کا اشتہار دینا پڑے گا کہ اسحق ڈار صاحب گم کہاں ہیں۔ اور یہ صرف ان کے بارے میں نہیں ہے، یہ ہمارا قومی مرض لگتا ہے کہ سب گفتار کے غازی اور کام جو ہے ٹھنڈا ٹھنڈا۔ آپ عمران خان صاحب کو دیکھ لیں، میں بذات خود عمران خان صاحب کا گرویدہ ہوں کہ اُنہوں نے ہمیں اُمید دلائی ہے، اُنہوں نے ہمیں حقیقی آزادی کی اُمید دلائی ہے، اور انہی سے عوام نے بھی اُمید لگا رکھی ہے کہ وہ پاکستان کو بحرانوں سے نکالیں گے ۔ لیکن کبھی کبھار اُن کے بارے میں یہ فکر لاحق ہوتی ہے کہ ملک کے سب سے پاپولر لیڈر تو ہو گئے ہیں اور مجھے یہ بھی یقین ہے کہ کوئی بھی اُن کی راہ روکے، ایک بار پھر اقتدار میں اُنہوں نے آنا ہے لیکن جب ایسا ہوا تو کیا جن بھاری چیلنجوں کا پاکستان کو سامنا ہے اُن کو وہ مل پائیں گے؟ اُن کے اردگرد آدمی وہی ہیں، وہی ٹیم ہے، کیا ضمانت ہے کہ ایک بار پھر اقتدار میں آئے تو کارکردگی مختلف یا بہتر ہوگی؟ کرپشن کا ورد ہم بہت سن چکے۔ جوکچھ اُنہوں نے لیڈروں کی چوری چکاری کے بارے میں کہا اچھا کہا اور درست کہا۔ قوم کی تربیت ہو گئی ہے‘ قوم جان گئی ہے کہ ماضی کے لیڈران کے کرتب کیا رہے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ نکلا ہے کہ نون لیگ کی سیاسی پوزیشن بری طرح متاثر ہوئی ہے اور پنجاب میں ا±س کی وہ ساکھ نہیں رہی جو کچھ عرصہ پہلے سمجھی جاتی تھی۔ لیکن کتنا عرصہ یہ کرپشن کی داستان چلائی جا سکتی ہے؟ کچھ آگے بھی تو کہنا چاہیے۔ کچھ اپنی تیاری ہونی چاہیے کہ پھر موقع ملا تو ہماری ٹیم کون سی ہوگی اور ہم نے کیا کرنا ہے۔ بہرکیف میں آپ کو یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ انڈونیشیا کے صدر کیسے اس عہدے تک پہنچے اور اب وہ کیوں اتنی فکر میں ہیں کہ انڈونیشیا ایک بڑا ملک بن جائے۔ انڈونیشن صدر جوکو کے والد‘ نوتو مہردیجو معمولی ترکھان تھے۔ انہیں فرنیچر بنا کر بہ مشکل اتنی آمدنی ہوتی کہ روز مرہ اخراجات پورے ہو سکیں۔ خاندان کرائے کے گھر میں مقیم تھا۔جو کو کی پیدائش کے چند سال بعد نوتو مقروض ہو گیا۔ حتیٰ کہ کرایہ ادا کرنے کو رقم نہ رہی۔ جوکو کی والدہ، سدجیامتی نے شوہر کو وہ قیمتی برتن دیئے جو انہیں اپنے باپ سے پہلے بیٹے کی پیدائش پر تحفتہً ملے تھے۔ مدعا یہ تھا کہ شوہر انہیں بیچ کر کچھ رقم حاصل کر لیں۔ یہ ایک خاتون خانہ کی طرف سے بڑی قربانی تھی۔نوتو مہر دیجو برتن لیے سائیکل میں انہیں بیچنے نکلے۔ افسوس کہ راستے میں برتن گرے اور چکنا چور ہو گئے۔ اس نقصان پر قدرتاً اہل خانہ کو بڑا افسوس ہوا۔ نوتو کے والد کی ایک گھڑی بیٹے کے پاس محفوظ تھی۔ وہ باپ بیٹے کی محبت کی انمول نشانی تھی۔ اب نوتو نے دل پر پتھر رکھ کر وہ جان سے زیادہ پیاری گھڑی گروی رکھ دی۔لیکن گھڑی کے بدلے جو رقم ملی‘ وہ ناکافی تھی۔ چنانچہ کرایہ ادا نہ ہونے پر انہیں گھر چھوڑنا پڑا۔ وہ پھر وسط شہر میں بہتے دریائے سولو کے کنارے بنی کچی آبادی میں رہنے لگے۔ انہوں نے درخت کاٹ کر وہاں ایک جھونپڑی بنائی اور یوں سرچھپانے کا ٹھکانا میّسر آ گیا۔اس بے سروسامانی کے عالم میں بھی نوتو کی خواہش تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو تعلیم دلوائیں۔ وہ سمجھتے تھے کہ ترقی کے لیے تعلیم ضروری ہے۔ ان کے ایک رشتے د ار فرنیچر بنانے کا چھوٹا سا کارخانہ چلاتے تھے۔ نوتو کو وہاں ملازمت مل گئی۔وہ محنتی انسان تھے۔ انہوں نے دان رات محنت کر کے اتنی رقم جمع کر لی کہ اپنی دکان کھول سکیں۔ وہیں بارہ سالہ جو کو بھی باپ سے ترکھان کا کام سیکھنے لگا۔ وہ صبح سکول جاتا‘ سہ پہر کو باپ کا ہاتھ بٹاتا۔ اللہ تعالیٰ نے کام میں برکت دی اور وہ چل پڑا۔ جلد ہی جمع پونجی کے ذریعے نوتو نے ذاتی گھر تعمیر کر لیا۔اور بڑی مشکل سے تعلیم مکمل کروانے کے لیے اُس کے باپ نے پیسے اکٹھے کیے جوکوجکارتہ چلے آئے اور وہاں گاجا مادا یونیورسٹی کے شعبہ جنگلات میں تعلیم پانے لگے۔محنت اور دیانت داری کے باعث اللہ تعالیٰ نے پھل بھی میٹھا دیا اور کاروبار مستحکم ہوگیا۔پھر سیاست میں حصہ لینا شروع کیا اور 2005ءمیں وہ شہر کے میئر منتخب ہو ئے۔ انہوں نے حکمران جماعت کے نمائندے کو شکست دے کر سبھی کو حیران کر دیا۔اور پھر اُن کی ترقی کو کوئی نہیں روک سکا۔کیا ہمارے ہاں ہے کوئی ایسا سیاستدان؟ نہیں ناں! شاید اسی لیے نہیں ہے کہ ہم خود بھی آگے نہیں بڑھنا چاہتے ورنہ اس ملک میں نہ تو قیادت کی کمی ہے ، نہ ٹیلنٹ کی اور نہ ہی ایسے اوصاف کی کہ ہم پیچھے رہ جائیں!