کیا ہم مارشل لا کی طرف جا رہے ہیں؟

کل 3 نومبرتھا۔یہ وہ دن تھا جب جنرل پرویز مشرف کے اقتدار کا سورج پوری آب وتاب کے ساتھ کئی سال سے چمک رہا تھا۔ مشرف کے زیر سایہ پہلی اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے جارہی تھی اور اس کے بعد دوبارہ انتخابات کے دن قریب آرہے تھے۔ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ دوسرے عام انتخابات میں اُن سیاسی جماعتوں کو کامیابی ہوگی جن کو پرویز مشرف کی آشیر باد حاصل ہوگی۔ حالات بظاہر نارمل انداز میں چل رہے تھے عدالتیں آزاد ہوچکی تھیں اور کافی فعال کردار ادا کررہی تھیں۔ ان دنوں جنرل مشرف کے دو عہدوں سے متعلق ایک آئینی درخواست عدلیہ میں زیر سماعت تھی۔ سماعت کے دوران عدلیہ کے رحجان کا اندازہ ہورہا تھا کہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف زیادہ دیر تک بطور صدر فرائض سرانجام نہیں دے سکیں گے اور ان کا صدارت کے منصب پر رہنا ایک غیرآئینی اقدام ہوگا۔ عدالتی کارروائی کو مدنظر رکھتے ہوئے مشرف کے وکیلوں شریف الدین پیرزادہ اور قیوم ملک نے جنرل مشرف کو ایمرجنسی نافذ کرنے کا مشورہ دیا۔ مشرف اس ایمرجنسی کے نفاذسے متعلق مشاورت کررہے تھے کہ امریکی وزیرخارجہ کونڈو لیزارائس کو پاکستان میں متعین امریکی سفیر این پیٹرسن نے اطلاع دی کہ جنرل مشرف ایمرجنسی لگانے جارہے ہیں تو کونڈولیزارائس اپنی کتاب No Higher Honour میں لکھتی ہیں کہ میں نے رات کے دو بجے صدر جنرل پرویز مشرف سے بات کی اور کہا ”مسٹر پریذیڈنٹ پتہ چلا ہے کہ آپ کوئی بہت مشکل فیصلہ کرنے والے ہیں“ صدر پاکستان نے کہا ایک“ ایمرجنسی ”کا نافذ کرنا ناگزیر ہو گیا ہے لیکن میں انتخابات بروقت ہی کرادوں گا۔ ایمرجنسی ملک کو محفوظ کرنے کے لئے عارضی طور پرلگانا پڑ رہی ہے۔ وغیرہ۔ میں نے پرویز مشرف کی تمام گفتگو سننے کے بعد ان سے صاف کہہ دیا کہ” صدر صاحب آپ اپنا اعتماد اور اعتبار مکمل کھوجائیں گے۔اور شاید آپ دوبارہ صدر کا انتخاب بھی نہ لڑسکیں غرض یہ کہ جو دلیل بھی اس قدم کو روکنے کے لیے ممکن تھی وہ میں نے ان کو دے ڈالی “۔ تاہم صدر پرویز مشرف نے 3 نومبر کو ایمرجنسی پلس نافذ کردی۔ ستم یہ کہ اسوقت کی قومی اسمبلی نے چار دن بعد 7 نومبر 2007 کو ایک قرارداد منظور کرکے ایمرجنسی کے نفاذ کی توثیق کردی۔ اب اس ایمرجنسی سے متعلق ایک آئینی سقم تھا اور وہ یہ کہ آئینی طورپر ایمرجنسی کا نفاذ صدر مملکت کرتے ہیں اور اس سے آئین معطل نہیں ہوتا اور ایمرجنسی آئین کے تحت تابع رہتی ہے مگر یہ ایمرجنسی چیف آف آرمی سٹاف نے لگائی تھی اور ایمرجنسی اٹھانے کا اختیار صدر مملکت کو سونپ دیا جبکہ صدر مملکت بھی وہ خود تھے۔ اس ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد آئین معطل ہوگیا جس کی بنا پرچیف جسٹس افتخار چوہدری ، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے تمام ججز صاحبان کو گھروں میں نظربند کردیا۔ ججز صاحبان کو مجبور کیا گیا کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اٹھائیں اور متعدد ججز نے پی سی او کے تحت حلف اٹھانے سے انکار کرتے ہوئے اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے۔ بعد ازاں اس مسئلے پر چیف جسٹس افتخار چوہدری کی بحالی کی وکلا تحریک شروع ہوئی۔ یہ تھا جنرل پرویز مشرف کی نافذکردہ ایمرجنسی کا پس منظر اور مختصر واقعات تاکہ قارئین کو معلوم ہوسکے کہ ایمرجنسی لگانے کی وجوہات کیا تھیں۔ اگر دیکھا جائے تو آج بھی حالات 2007ءسے مختلف نہیں ہیں، اُس وقت بھی تمام سیاسی جماعتیں آپس میں گتھم گتھا تھیں اور آج بھی یہی صورتحال ہے، اُس وقت بھی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کا کلیدی کردار تھا، آج بھی عوام اس حوالے سے شاکی ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت مکمل ڈکٹیٹر شپ تھی، مگر آج ”جمہوریت“ نما کچھ’ اور‘ ہی ہے۔لیکن حالات اتنے سادہ نہیں ہیں جتنے فرنٹ اینڈ پر سمجھے جا رہے ہیں۔ نہیں یقین تو خود دیکھ لیں کہ جس ڈی جی آئی ایس آئی کی تصویر شائع کرنے کی ممانعت تھی، وہ ڈی جی خود پریس کانفرنس کرنے آگئے، بدلے میں عمران خان بھی مکے دکھا رہے ہیں، جبکہ دوسری طرف حکومت عمران خان کو مچھ جیل میں بھیجنے کی باتیں کر رہی ہے اور بدلے میں عمران خان ”خونی انقلاب“ کی باتیں کر رہے ہیں۔ یعنی عمران خان اپنے تازہ ٹویٹ میں لکھتے ہیں کہ وہ ایک انقلاب کا مشاہدہ کر رہے ہیں ، سوال صرف یہ ہے کہ آ یا یہ بیلٹ باکس کے ذریعے نرم ہو گا یا خون ریزی کے ذریعے تباہ کن؟ ان خیالات کی جو مرضی تشریح کر لی جائے امر واقع یہ ہے کہ ایک مقبول ترین سیاست دان کو یہ لہجہ زیب نہیں دیتا۔ اس معاشرے نے بہت سا خون دیکھ لیا ہے۔ اب اس سماج کا ہیرو وہ نہیںہو گا جو اسے کسی نئی مہم جوئی کی بھینٹ چڑھا دے بلکہ ہیرو وہ ہو گا جو اسے امن کی دولت سے مالال مال کرے گا۔ وہ وقت بیت گیا جب یہاں سیاسی قیادتوں نے لہو کو رومانوی رنگ دیا تھا۔ تعلیمی اداروں میں بھی نغمے گونجا کرتے تھے ’ لہو کے قطرے لہو کے قطرے‘، یہ لہو کا کھیل ہم نے بہت کھیل لیا۔ بقول شاعر لہو لہو سا دل داغدار لے کے چلے چمن سے تحفہ فصل بہار لے کے چلے بلکہ مجھے یاد ہے کہ جب میں گورنمنٹ کالج میں پڑھا کرتا تھا، تو ہر دوسرے روز طلبا یونینز کے آپس میں سیاسی جھگڑے ہوا کرتے تھے، ہم بھی انہی جھگڑوں کا حصہ تھے، لیکن اُن کا حاصل کچھ نہیں ہوا تھا، بلکہ بسا اوقات ہماری طلبا تنظیمیں سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں استعمال ہو جایا کرتی تھیں۔ اور ایسے میں مقتدر حلقوں کو شب خون مارنے کا موقع مل جاتا تھا۔ بلکہ یوں کہیں کہ امریکا تک کو ہمارا سسٹم بہتر بنانے کا جب موقع میسر آتا تو وہ سب سے پہلے ہمارے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کرتا، نہیں یقین تو تاریخ کے پنوں کو اُٹھا کر خود دیکھ لیں کہ 1977ء(جنرل ضیاءکا مارشل لا) کا آیا ہوا امریکا یہاں سے واپس کب گیا ہے؟ بہرحال واپس آتے ہیں مشرف کی ایمرجنسی پر تو 15 سال قبل2007 میں پہلی بار اعلیٰ عدلیہ کے چیف جسٹس نے ’انکار‘ کیا تو ایک ایسی تحریک نے جنم لیا جس میں نہ صرف وکیل، صحافی، سول سوسائٹی بلکہ خود حاضر ججز بھی شریک تھے۔ 9 اپریل،2007 کو شروع ہونے والی اس غیر معمولی تحریک کو روکنے کیلئے اس وقت کے فوجی آمر اور سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے 03 نومبر کو ایک بار پھر ماورائے آئین اقدام اٹھا کر اپنی ہی ایک اصطلاح ’ایمرجنسی پلس‘ نافذ کرکے نہ صرف ججز کو نظربند کردیا بلکہ میڈیا پر بھی پابندی لگا دی۔ 1983کی تحریک بحالی جمہوریت کے بعد آزاد عدلیہ کی تحریک چلی۔ 1983 کی تحریک اس لئے منفرد تھی کہ اس میں اس وقت کے آمر جنرل ضیا الحق کے خلاف پہلی بار آمریت سے لڑائی شہروں میں نہیں دیہاتوں میں لڑی گئی۔ سندھ میں کئی سو لوگ مارے گئے۔ فوجی آمریت کے خلاف یہ بھر پور احتجاج تھا جس نے وقت کے آمر کو پہلے اپنے لئے جعلی ریفرنڈم اور پھر غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات پر مجبور کیا۔ اس سے پہلے جنرل ایوب اور پھر سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف چلنے والی تحریکوں کا انجام مارشل لا کی صورت میں سامنے آیا۔ اگر ایم آر ڈی قائم رہتی اور 1988کے انتخابات میںایک پلیٹ فارم سے جنرل (ر) حمید گل کے بنائے ہوئے اسلامی جمہوری اتحاد سے مقابلہ کرتی تو آج شاید صورتحال بہت مختلف ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد نہ صرف سیاست میں مداخلت میں اضافہ ہوا اور سیاست دان باہم دست و گریباں رہے بلکہ ہوس اقتدار کی خاطر طاقتور حلقوں کے آلہ کار بھی بنتے چلے گئے۔ کوئی کہتا میرا تو براہ راست تعلق GHQ سے ہے تو کوئی گیٹ نمبر4 کے گن گاتا۔ نتیجے میں مداخلت کرنے والے ہی مذاکرات کرواتے رہے۔ ایک کو گرانے کیلئے دوسرے کو استعمال کرتے، شاید یہی وجہ ہے کہ نہ صرف سیاست میں مداخلت بڑھی بلکہ خود سویلین حکمرانوں نے انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت کر کے نہ صرف خراب گورننس کی افسوسناک مثالیں قائم کیںبلکہ پولیس، انتظامیہ یہاں تک کہ عدلیہ کو بھی سیاست زدہ کر کے تباہ کر دیا اور یوں ’کرپشن‘ خوب پروان چڑھی، نظریات اور سیاست کہیں پیچھے رہ گئے۔ لہٰذااگر ایک بار پھر ایسے ہی حالات کو دعوت دینا مقصود ہے تو ٹھیک ہے، لڑ لیتے ہیں، بلکہ لڑتے رہتے ہیں، اور تماشا لگواتے رہتے ہیں۔ عمران خان نے بھی کہہ دیا ہے کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم ٹل جائیں گے، بلکہ یہ تحریک (لانگ مارچ) دس دن کا نہیں بلکہ 10مہینے بھی کرنا پڑے تو کریں گے، بظاہر خان صاحب کی لڑائی بھی مقتدر حلقوں سے ہی ہے، بہرکیف ڈر ہے کہ یہ لڑائی کہیں ہمیں مارشل لا کی طرف نہ لے جائے،اس کے لیے آنے والے چند دن بہت اہم ہیں۔ اوراگر خاکم بدہن ایسا ہوا اور ہم نے آپسی لڑائی نہ چھوڑی تو پھر اس کے قصور وار مقتدار حلقے نہیں بلکہ ہم خود ہوں گے۔ آخر میں پاکستان کے انہی حالات کو دیکھتے ہوئے امریکی مصنف ڈینئل ایس مارکی نے پاکستان کے بارے میں لکھاہے کہ ”پاکستان ٹوٹے گا نہ ڈیفالٹ کرے گا۔نہ اس کا نقشہ تبدیل ہوگا نہ تباہ ہوگا۔نہ یہ کبھی ترقی کرے گا نہ کبھی خود مختار بنے گا، بس ذلیل ہوتا رہے گا۔ غیر مستحکم رہے گا۔ افراتفری جاری رہے گی۔ سیاسی عدم استحکام چلتا رہے گا۔ یہ ہر وقت اگلے مہینے کی فکر میں رہے گا۔ اس کی چھت لیک رہے گی۔ ایک دیوار بنائے گا تو دوسری گر جائے گی۔ یہ بیمار ٹھمار ہی رہے گا۔ نزلہ زکام ٹھیک ہوگا تو پیچس لگ جائیں گے۔ پیچس ٹھیک ہونگے تو ”چک“ پڑ جائے گی۔ یہی عالمی دنیا کے مفاد میں ہے۔ مضبوط اور خوشحال پاکستان اور ٹوٹا ہوا پاکستان زیادہ خطرناک ہے۔ لولا لنگڑا پاکستان عالمی طاقتوں کے مفاد میں ہے۔“ باقی آگے آپ فیصلہ خود کر لیں!