متاثرینِ سیلاب: آنکھوں دیکھا حال !

جن دنوں پاکستان میں سیلاب آیا، اُن دنوں میں امریکا میںتھا، یہاں کے سیلاب مناظر سے سوشل میڈیا تو ویسے ہی بھرا پڑا تھا لیکن وہاں کے مین اسٹریم میڈیا پربھی سیلاب کی دل دہلا دینے والی فوٹیج دکھائی جا رہی تھیں، وہاں موجود پاکستانی کمیونٹی، دوست احباب اور کاروباری شخصیات سبھی سوگوار تھے، ہر طرف دکھ اور درد کی فضاءتھی، سینکڑوں جانیں، مال، مویشی ، کچے پکے مکان، مضبوط عمارتیں، سب کچھ زمین بوس ہو رہا تھا۔ خبریں آرہی تھیں کہ وطن عزیز کا آدھے سے زیادہ حصہ پانی میں ڈوب چکا ہے۔ حکومت کے علاوہ سب لوگ اپنے بھائیوں کی مدد کے لیے نکل رہے تھے! حکومت اپنے بچاﺅ میں اور اپوزیشن حکومت پر چڑھائی میں مصروف تھی۔ جب شہروں کے شہر تباہ ہونے لگے تو ہمارے سیاستدانوں کو بھی عوام کا خیال آیا۔ ایک سیاستدان اشک شوئی میں مصروف ہو گیا تو دوسرا بیرون ملک سے امداد کے لیے پریس کانفرنسیں کرنے لگا تو تیسرا فوٹو شوٹ کے لیے اکا دکا علاقوں کا صرف وزٹ کرنے چلا گیا اور باقی زیر زمین چلے گئے۔ ہاں البتہ کچھ علاقوں سے خبریں آرہی تھی کہ کمشنر، ڈپٹی کمشنر یا اسسٹنٹ کمشنرز نے اپنے علاقوں میں عوام کو ریلیف فراہم کرنے کی مثالیں قائم کی ہیں۔ خیر ایسے مواقع پر جب عوام کا کوئی ساتھ نہیں دیتا تو عوام ہی عوام کا بازو بنتے ہیں۔ لوگ اپنے تئیں جہاں تک ہو سکا ڈوبتے عوام کو بچا رہے تھے، کچھ سماجی تنظیموں نے بھی بہت اچھے کام کیے اور ریلیف مشن کا حصہ رہے۔ دیر است درست است کے مترادف ہمیں بھی احساس ہوا کہ ہم بھی اس ”فلڈ ریلیف مہم“ کا حصہ بنیں۔ اسی دوران ہم نے ایک مربوط اور جامع حکمت عملی کے تحت اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کا فیصلہ کیا۔ لہٰذاراقم نے فیملی، دوست احباب اور جاننے والے سبھی لوگوں سے رابطہ کیا اور معقول رقم کا انتظام کیا۔ پاکستان واپس آیا ، ہمارے چند ساتھی میدانِ عمل میں اترنے کے لیے تیار تھے،ان کی ہمت بڑھانے کے لیے ہمیں بھی گھر سے نکلنا تھا اور یوں میں نے بھی ان کے ہمراہ ان علاقوں میں پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے سوات جانے کا پروگرام بنایا گیا، مگر ڈپٹی کمشنر سوات نے کہا کہ کے پی کے حکومت ان متاثرین کی بحالی کے لیے خاصا کام کر رہی ہے اور ہمارے پاس امداد وافر مقدار میں پہنچ چکی ہے، جبکہ اس کے علاوہ سوات موٹروے بھی زیر تعمیر ہے تو آپ ادھر نہ آئیں۔ اس کے بعد جنوبی پنجاب کے ضلع ڈیرہ غازی خان کا انتخاب ہوا ، وہاں موجود کمشنر ڈیرہ غازی خان لیاقت علی چٹھہ سے بات ہوئی، وہ بڑے آدمی اور دبنگ قسم کے بیوروکریٹ ہیں، پرانے یار بھی ہیں ۔ لہٰذاانہوں نے بہترگائیڈ کیا کہ تونسہ (جہاں زیادہ تباہی ہوئی تھی) جانا مناسب نہیں ہے، کیوں کہ وہاں لاءاینڈ آرڈر کی صورتحال ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا اس لیے آپ ڈیرہ غازی خان اپنا سامان لے کر آجائیں تو یہاں سے آپ کے ساتھ سٹاف روانہ کر دوں گا۔ اب ڈیرہ غازی خان کی سیلابی صورتحال سے آگاہ کرتا چلوں کہ وہاں پر اگست کے وسط تک سیلاب آچکا تھا جبکہ اگست کے آخر تک 5لاکھ سے زائد افراد کھلے مقامات پر بیٹھے تھے۔ درحقیقت ڈیرہ غازی خان سلسلہ کوہ سلیمان کے قریب واقع ہے ۔ اس سلسلے کی عمودی گھاٹیاں اور سرمئی پہاڑ بلوچستان اور پنجاب کے درمیان حد بندی کا کام کرتے ہیں۔ یہ پہاڑ دونوں صوبوں کے لیے ہمسائے کی دیوار کی مانند ہیں اور جس طرح دو ملنسار پڑوسی باہمی تعلق کو بڑھانے کے لیے اپنے گھروں کی درمیانی دیوار میں ایک ’موکھا‘ نکلوا دیتے ہیں تاکہ دکھ سکھ کی خبر رہے، اِسی طرح کوہِ سلیمان کے اِس سلسلے میں بھی ایک موکھا ہے جو بلوچستان اور پنجاب کو آپس میں ملاتا ہے۔ ڈیرہ غازی خان سے نکلنے والی سڑک روہی نالے کے ساتھ ساتھ بتدریج دور نظر آنے والے سرمئی پہاڑوں کی طرف بڑھتی ہے اور بالآخر کوہِ سلیمان کے نشیب و فراز میں داخل ہوجاتی ہے۔ یہ سڑک چکر پر چکر کھاتی برساتی روہی نالے کے آبشاری بہاو¿ کی مخالف سمت میں بڑھتی رہتی ہے۔ لہٰذااسی سلسلے میں شدید بارشوں کے سبب برساتی نالے بپھر کر باہر آگئے اور کوہ سلیمان میں لینڈ سلائیڈنگ سے بستی ڈاہر کے قریب جھیل بن گئی ہے، جنوبی پنجاب میں تونسہ ،ڈی جی خان اورراجن پور کے علاقوں میں دریائے سندھ میں آنیوالے سیلاب اور کوہ سلیمان کے 440 کلومیٹر طویل سلسلے سے آنیوالے بارشی پانی کے ریلوں نے شدید تباہی مچائی ۔ راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے 516 مواضعات کے 5لاکھ لوگ اور دو لاکھ ایکڑ فصلیں متاثر ہوئیں، سیلاب سے 44 ہزار کچے مکانات کو نقصان پہنچا، جبکہ ہزاروں مویشی اور درجنوں انسانی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ خیر ہم امدادی سامان کے ساتھ ڈیرہ غازی خان پہنچے جہاں ہمارا استقبال نہایت نفیس شخصیت کے مالک اسسٹنٹ کمشنر صد ر ڈی جی خان شکیب سرورنے کیا۔ پھر ہماری آﺅ بھگت کمشنر ڈی جی خان لیاقت علی چٹھہ اور ڈی سی انور بریار نے بھی کی ، وہ مہمان نوازی میں ویسے ہی ہمیشہ سب سے آگے رہتے ہیں، لیکن اس بار چونکہ ہم اُن کے شہر میں موجود تھے اس لیے انہوں نے اس بار بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔ ہمارا چونکہ مقصد تھا کہ فوری طور پر امدادی سامان ضرورت مندوں کو پہنچائیں اس لیے ہم نے اُن کی دی ہوئی ٹیم کے ساتھ فوری ڈی جی خان کے نواحی قصبوں کی طرف چل پڑے۔ جیسے جیسے ہم ڈی جی خان شہر سے نکلتے گئے، تباہی کے مناظر ہمارے منتظر تھے، کمشنر صاحب کی ٹیم نے ہمیں بتایا کہ ڈی جی خان کے گردونواح میں 50سے زائد چھوٹی بڑی بستیاں، گاﺅں سب ملیا میٹ ہو چکے ہیں جبکہ جن لوگوں کی حالت ہم نے دیکھی، یقین مانیں ایک دفعہ تو اُنہیں دیکھ کر دل بیٹھ جاتا تھا۔لوگوں امداد ملنے کی خوشی تو ہوہی رہی تھی مگر اصل خوشی انہیں اس وقت ملتی جب ہم ان کو گلے لگاتے ۔ ان کو یہ احساس دیتے کہ وہ مشکل کی اس گھڑی میں اکیلے نہیں بلکہ پورا پاکستان ان کے ساتھ ہے۔ پھر وہاں ہم نے جب بچوں کو دیکھا وہ انتہائی کمزور اور لاغر تھے۔ پہلے سے ہی کم خوراک کی وجہ سے بیماریوں کا شکاراوپر سے سیلاب سے تباہی۔ پھر وہاں کی عورتیں ہم نے دیکھیں ان کی عجیب صورتحال تھی۔ پھٹے کپڑے، ٹوٹے جوتے، کمزور اور بدحال۔ بلکہ اُن کی تو طاقت ہی جواب دے چکی تھی۔ وہاں ہماری لاہور کی ٹیم کے اہم رکن اور سینئر صحافی طاہر انور اورخرم پاشا نے وہاں موجود افراد سے گفتگو بھی کی ۔ ان کے دکھ کو سمجھنے کی کوشش کی اور راشن بھی پیش کیا ۔ اس راشن سے شاید ان کے چند دن گزر جاتے مگر مسئلہ یہ تھا کہ ان کا دیرپا حل نکالنے کے لیے حکومتی اعلیٰ سطح پر جو اقدام اُٹھائے جانے چاہیے تھے وہ ابھی تک نہیں اُٹھائے جاسکے تھے۔ آپ یقین کریں کہ بھوک نے انہیں چند ہی روز میں لاغر کردیا لیکن ان کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ اُن کے مستقل روز گار کا کیا بنے گا؟ کیوں کہ اُن کے پاس نہ تو مویشی تھے، نہ فصلیں تھیں اور نہ ہی گھر کا سامان بچا تھا۔ اور اوپر سے کوہِ سلیمان کی یخ بستہ ہواﺅں کی شدت کا آپ کو شاید اندازہ ہی نہیں۔ ایک شخص تو ہم سے بات کرتا ہوا رو پڑا کہ ”ہمارے پاس تو اب چند روپے بھی نہیں کہ ہم گھروں کی تعمیر کر سکیں۔ ہم اپنی معصوم بچیوں کو لے کر کہاں جائیں گے۔ کس چھت تلے پناہ لیں گے۔ ان کی عزت محفوظ نہیں۔وزیر‘ مشیر‘ افسر‘ بینک‘ ساہو کار‘ سردار‘ وڈیرہ۔ ہمیں تو یہ بھی خبر نہیں وہ کہاں رہتے ہیں“۔ جب انہوں نے یہ کہا تو کلیجہ منہ کو آنے لگا۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کا گھر کتنا بڑا ہے؟ کیسا ہے؟ پکا ہے یا کچا ؟اور اس میں کتنے کمرے ہیں؟ اس گھر کی دوبارہ تعمیر میں کتنے پیسے خرچ ہوں گے؟ انہوں نے بڑی سادگی سے کہا کہ ”ہمارا تو ایک ہی کمرے کا گھر ہوتا ہے جس کی کچی دیواریں ہوتی ہیں۔ شہتیر ہوتا ہے یا ٹی آئرن اور لوہے کے چندگارڈر ہوتے ہیں جن پر ”سر کی“ بچھا کر مٹی کی لپائی کردی جاتی ہے۔ چھوٹا سا صحن اور بغیر چھت کے چولہا۔کھلے آسمان تلے کھاناپکتاہے۔ یہ ہے ہمارا گھر۔ پختہ اینٹیں بھی کم کم استعمال ہوتی ہیں اور سیمنٹ کے بجائے زیادہ تر گارے سے چنائی ہوتی ہے۔ یہ کوئی بڑے بڑے عالی شان گھر یا محل نہیں۔ ان متاثرین اور پاکستان کے نچلے ترین درجے کے شہریوں کی باتیں سن کر یقین مانیں مجھے اسلام آباد کے محل، لاڑکانہ، یا رائے ونڈ کے محل قبرستان لگ رہے تھے۔ کہ جنہیں میری نظر میں اپنے عوام کی فکر نہیں اُنہیں حکمران یا سیاستدان کہلانے کا بھی حق نہیں۔ بہرحال ہم نے 70فیصد کے قریب سامان تقسیم کردیا تو اُس کے بعد ایک عجیب سے صورتحال پیدا ہوئی، ویسے تو کمشنر لیاقت علی چٹھہ، ڈی سی انور بریار اور اے سی شکیب نے جس ایریا میں امداد تقسیم کرنے کے انتظامات کر رکھے تھے وہ بہترین تھے مگر عوام تھی کہ کسی بھی طرح منظم رہنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ وہاں پر موجود حقیقی متاثرین کا خیال تھا کہ آدھی سے زیادہ امداد تو ہم تک پہنچتی نہیں بلکہ دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگ لے جاتے ہیں۔ ہم نے اپنے تعیں اس حقیقت کو جاننے کی کوشش کی تو پتہ چلا کہ خفیہ اداروں کی رپورٹس کے مطابق اس وقت ملتان اور گردو نواح کے تمام بھکاری ڈیرہ غازی خان، راجن پور اور ان جیسے علاقوں میں جا چکے ہیں تاکہ راشن وغیرہ اکٹھا کیا جاسکے۔ اور پھر ہمارے ٹرک کی طرف بھی ایسے ہی پروفیشنل بھکاری آن لپکے۔ جس کی وجہ سے امداد تقسیم کرنے کا عمل ہمیں روکنا پڑا۔ اور چونکہ ہم نے واپسی کا سفر بھی کرنا تھا اس لیے مناسب یہی سمجھا کہ بقیہ سامان وہاں پر موجود الخدمت فاﺅنڈیشن کو دے دیا تاکہ وہ اسے حقیقی مستحقین تک پہنچادیں۔ اس پورے سفر کی روداد سنانے کا مقصد صرف ایک ہے، جو راقم پہلے دن سے کہتا رہا ہے کہ اگر کہیں آفت آئے تو سب سے پہلے اُس کا ڈیٹا بیس مرتب کیا جائے، پھر سرکاری کے پاس ہر قسم کاریکارڈ موجود ہو۔ اور ایک ویب سائیٹ بنائی جائے جہاں متاثرہ افراد کی بحالی کے بارے میں عوام کو آگہی مل سکے۔ لیکن افسوس کہ حکومت نے کچھ نہ کیا۔مطلب ہم نے کچھ نہیں کرنا تو مطلب نہیںکرنا! اور بقول شاعر گلشن تو ہمارا اُجڑ رہا ہے کسی کو کیا فکر! قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو