پاکستان ہر فیلڈ میں چار قدم پیچھے کیوں؟

پاکستان کی سیاسی جماعتوں، اُن کے رہنماﺅں اور کرتا دھرتاﺅں نے اس ملک کو اس قدر زنگ آلود کر دیا ہے کہ یہ ملک ہر وقت اپنے بچاﺅ کی ترکیبیں اختیارکرتارہتا ہے، اسی اثناءمیں یہ ایک تجربہ گاہ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، کوئی لانگ ٹرم پالیسی نہیں، کہیں کوئی تھنک ٹینک نہیں اور نہ ہی کہیں دور دورتک ترقی کے کوئی آثار۔ یہاں تو حالات یہ ہیں کہ” ارباب اختیار“ کے سامنے جو کوئی بھی آکر بڑھکیں مارتا، سچی جھوٹی دلیلیں دیتا ، خود کو اچھا اور دوسروں کو غلط ثابت کرتا ہے ، ارباب اختیار اُنہیں ”موقع“ ضرور دے دیتے ہیں۔ اورپھر جب کوئی دوسرا آتا ہے اور پہلے کے بارے میں کہتا ہے کہ ناں! اس نے تو ملک کا بیڑہ غرق کردیا ہے لہٰذااقتدار مجھے دیجیے۔ بس کچھ دلیلیں وغیرہ سن کر اقتدار اُس دوسرے کے ہاتھ میں دے دیا جاتا ہے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کوئی دس سال پہلے چپس بنانے والی کمپنی نے اپنے ہی خلاف مہم چلائی کہ اس میں سور کی چربی ملائی جاتی ہے، جب پورے پاکستان میں یہ بات پھیل گئی اور بچے بچے کی زبان پر یہ بات چڑھ گئی کہ فلاں کمپنی کی چپس میں حرام جانور کی چربی ہے۔ ایسے میں کمپنی نے ایک معروف جامعہ کی خدمات حاصل کیں اور فتویٰ یا سرٹیفکیٹ حاصل کیا کہ ہماری پراڈکٹ میں کسی طرح سے بھی حرام جانور کی چربی کا استعمال نہیں کیا جاتا۔ بس وہ دن اور آج کا دن۔ بہت سی کمپنیاں آئیں مگر اس پراڈکٹ کا کوئی توڑ نہیں نکالا جا سکا۔ اب بندہ پوچھے کہ بھئی! اُس جامعہ میں کونسی فرانزک لیب موجود ہیں جہاں سے شفافیت کا سرٹیفکیٹ بھی مل گیا؟ مطلب! ہمارے جانچنے کے پیمانوں کا اندازہ لگائیں! کہ ہمارے معیارات کیا ہیں! بقول شاعر پھر وہی تلخی حالات مقدر ٹھہری نشے کیسے بھی ہوں کچھ دیر میں اتر جاتے ہیں جب حالات یہ ہوں تو پھر آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ملک پر حکومتیں کرنے والوں کو اچھی طرح جانچا جاتا ہو گا؟ کبھی کوئی آتا ہے تو وہ ڈالر کو 245روپے ، اور پٹرول کو ڈھائی سو روپے تک لے جاتا ہے۔ اور کبھی کوئی آتا ہے تو کہتا ہے کہ اُسکی پارٹی نے معیشت صحیح نہیں چلائی اور 180والے ڈالر کو نیچے 218پر لا کر کہتا ہے کہ دیکھا یہاں کیا کیا ہوتا رہا ہے۔ پھر ایک سابق وزیر اعظم کو جن عدالتوں نے تاحیات نااہل قرار دیا وہی عدالتیں اس قانون کو کالا قانون کہہ رہی ہوتی ہیں، اور پھر جو عدالتیں کل تک ایک سٹیک ہولڈر کو ریلیف دے رہی تھیں آج اُسی کو عدالتوں میں گھسیٹ رہی ہیں۔ مطلب ہمارے معیارات کا لیول چیک کریں کہ ہم جیسا چاہیں، جب چاہیں اپنے آپ کو اور اپنی پراڈکٹ کو بہتر ثابت کرنے والا ”سرٹیفکیٹ“ حاصل کرلیں! خیر یہ ہماری پرانی روایات ہیں، اسے بھلا کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟ اور انہی” معیارات “ کی وجہ سے ہم آج تک ترقی نہ کر سکے۔ جبکہ اسی دوران دنیا ترقی کے زینے طے کرتی گئی ، ہمارے ہمسایہ ممالک خصوصاََ انڈیا بنگلہ دیش نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو ڈھال لیا تو وہ بچ گئے۔ اور جن ممالک نے اپنے آپ کو جدید ترقی اور بدلتی دنیا کی جانب نہیں موڑا وہ پیچھے رہ گئے! ان میں سری لنکا اور پاکستان نمایاں ہیں۔ آپ اس کی مثال یوں دے سکتے ہیں کہ 1998 میں کوڈک میں 17لاکھ ملازمین کام کر رہے تھے اور وہ دنیا میں 85فی صد فوٹو پیپر فروخت کرتے تھے۔کچھ سال میں ڈیجیٹل فوٹو گرافی نے انہیں بازار سے نکال دیا اور کوڈک دیوالیہ ہو گیا،اس کے تمام ملازمین سڑک پر آ گئے، ان سب کے معیار میں کوئی کمی نہیں تھی پھر بھی وہ مارکیٹ سے باہرآگئے،وجہ یہ کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل نہیں ہوئے تھے،حالانکہ اُنہیں علم تھا کہ آنے والے 10سال میں دنیا پوری طرح سے تبدیل ہو جائے گی۔لیکن انہوں نے اپنی اسی پراڈکٹ کو اپنی جنت بنا لیا اور اسی میں رہنے لگے۔ مگر وقت بہت ظالم ہے یہ کسی کی پرواہ نہیں کرتا۔ آج بھی ہمیں علم ہے کہ آج چلنے والی صنعتوں میں سے70 سے90 فی صد آنے والے چند سالوں میں بند ہو جائیں گی۔مگر پھر بھی ہم اس کا کوئی سد باب نہیں کرتے۔ آپ دیکھیں اوبر (uber) صرف ایک سافٹ ویئر ہے، اپنی ایک بھی کار نہ ہونے کے باوجود وہ دنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی ہے۔ایئر بی این بی (air bnb) دنیا کی سب سے بڑی ہوٹل کمپنی ہے حالانکہ ان کے پاس اپنا کوئی ہوٹل نہیں ہے۔اب امریکہ میں نوجوان وکلاکیلئے کوئی کام باقی نہیں ہے کیونکہ آئی بی ایم واٹسن (ibm watson)سافٹ ویئر ایک لمحے میں بہتر قانونی مشورے دے دیتا ہے۔مطلب خدشہ یہ ہے کہ اگلے10 سال میں90فی صد امریکی وکیل بیروزگار ہو جائیں گے،جو10فی صد بچ جائیں گے وہ سپر ماہر ہوں گے،واٹسن نامی سافٹ ویئر انسانوں کے مقابلے میں کینسر کی تشخیص 4 گنا زیادہ درست طریقے سے انجام دیتا ہے۔2030 تک کمپیوٹر انسانوں سے زیادہ ذہین ہوں گے،اگلے 10 سال میں90فی صد کاریں پوری دنیا کی سڑکوں سے غائب ہو جائیں گی۔جو بچ جائیں گی وہ یا تو الیکٹرک کاریں ہوں گی یا ہائبرڈ، اور سڑکیں خالی ہوں گی۔ پٹرول کی کھپت میں90 فی صد کمی واقع ہو گی، عرب ممالک جن کا سب سے بڑا ذریعہ آمدن ہی تیل ہے اگر انہوں نے اگرمتبادل انتظام نہ کیا تو تمام عرب ممالک دیوالیہ ہو جائیں گے،آپ کو اوبر جیسے سافٹ ویر سے کار مل جائے گی، کچھ ہی لمحوں میں ڈرائیور لیس گاڑی آپ کے دروازے پر کھڑی ہو گی۔اگر آپ اسے کسی کے ساتھ شیئر کر لیتے ہیں تو وہ سواری آپ کو موٹر سائیکل سے بھی سستی پڑے گی،کاروں کے ڈرائیور لیس (driverless) ہونے کی وجہ سے99 فی صد حادثات بند ہو جائیں گے۔زمین پر ڈرائیور جیسا کوئی روزگار نہیں چھوڑا جائے گا،جب90فی صد کاریں شہروں اور سڑکوں سے غائب ہو جائیں گی تو ٹریفک اور پارکنگ جیسے مسائل خودبخود ختم ہو جائیں گے کیونکہ ایک کار 20 کاروں کے برابر ہو گی۔اب سب کچھ اے ٹی ایم سے کیا جا رہا ہے اور لوگوں نے اپنے فون سے ہی ریلوے ٹکٹ بک کرنا شروع کر دی ہیں۔اب پیسوں کا لین دین بھی تبدیل ہو رہا ہے، کرنسی نوٹ کو پہلے پلاسٹک منی (اے ٹی ایم کارڈ) نے تبدیل کیا تھا، اب یہ ڈیجیٹل ہو گئی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ دنیامیں بھاری بھرکم انفراسٹرکچر کی حامل روایتی انٹرنیٹ سروس دم توڑنے والی ہے۔ مصنوعی سیاروں کے ذریعے انٹر نیٹ سروس فراہم کرنے والی ’اسٹار لنک ‘ نے فائبر اور کھمبوں جیسے انفراسٹرکچر سے نجات دلادی اور اب وہ ایک ڈش یا انٹینے کے ذریعے تیز رفتار نیٹ کی دنیا کے ساتوں براعظموں کے کسی بھی کونے میں فراہمی کے دعوے دار ہیں۔ اسپیس ایکس اور ٹیسلا کے سی ای اوارب پتی ایلون مسک نے ٹویٹ کیا کہ اسٹار لنک اب انٹار کٹیکا سمیت تمام ساتوں براعظموں میں فعال ہے۔اسٹار لنک ایلون مسک کی اسپیس ایکسپلوریشن ٹیکنالوجیز کارپوریشن (اسپیس ایکس) کا ایک حصہ ہے جس کا مقصد زمین کے نچلے مدار میں گردش کرنے والے مصنوعی سیاروں کے ذریعے صارفین کو تیز رفتار براڈ بینڈ انٹرنیٹ پیش کرنا ہے۔ کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اس وقت 36 ممالک میں لاکھوں صارفین ہیں۔ان میں گھریلو اور کاروباری دونوں طرح کے صارفین موجود ہیں۔ الغرض دنیا بہت تیزی سے بدل رہی ہے،اور ہمارے پاس اس وقت بلکہ ہر سال یہ تین کام کرنے کے ہوتے ہیں۔ پہلا لانگ مارچ کی تیاری، دوسرا نوازشریف یا فلاں سیاستدان کی وطن واپسی اور تیسرا نئے آرمی چیف کی ”تقرری“۔ جبکہ اقتدار میں موجود پارٹی کے تین کام یہ ہوتے ہیں کہ اپوزیشن کا قلع قمع کیسے کرنا ہے؟ کرپٹ سیاستدانوں کی حفاظت کیسے کرنی ہے؟ اور فیصلہ کرنے والی قوتوں کو کیسے خوش کرنا ہے؟ اور ہم عوام کا تو یہ حال ہے کہ ہم صرف وقت گزاری کے لیے زندگی گزار رہے ہیں۔ اسی وقت گزاری پر مجھے ایک پرانا لطیفہ یاد آ گیا ہے کہ ایک گاڑی دلی سے امرتسر جارہی تھی۔ برتھ پر ایک نوجوان لیٹا تھا جبکہ نیچے سیٹ پر دوسرے مسافروں کے ساتھ ایک بزرگ بیٹھا تھا۔بزرگ اور نوجوان باتیں کرنے لگے، کہاں رہتے ہو، کدھر گئے تھے، کہاں جا رہے ہو، امرتسر میں گھر کہاں ہے، والدین کیا کرتے ہیں۔ کتنے بھائی بہن ہیں، کیا نام ہیں، کام کیا کرتے ہیں۔کچھ دیر بعد مسافروں کو احساس ہوا یہ تو ایک دوسرے کو پرانا جانتے ہیں بلکہ دونوں شاید ایک ہی گھر میں رہتے ہیں لیکن گفتگو ایسے کررہے تھے جیسے پہلی بار مل رہے ہوں۔کسی نے پوچھا تو بزرگ بولے :میں باپ ہوں اور یہ بیٹا ہے۔ ہم اکٹھے دلی گئے تھے اب گھر جارہے ہیں۔مسافر حیران ہوئے تو بولے :لمبا سفر ہے سوچا ذرا گپ شپ لگا لیں۔ بس ہم پاکستانیوں کا حال بھی کچھ اسی قسم کا رہ گیا ہے۔ یہاں بھی محض وقت گزاری کے لیے ایشوز کو بنایا جاتا ہے، اُنہیں کھڑا کیا جاتا ہے اور پھر ایشوز خود بخود ختم ہو جاتے ہیں۔ جیسے یہاں سب کو پتہ ہے کہ اب بارشیں زیادہ ہوا کریں گی، گلیشئر زیادہ پگھلا کریں گے۔ ہم پھر بھی کچھ نہیں کریں گے اور اگلے سال کے آنے کا انتظار کریں گے۔ بالکل اسی طرح جس طرح ہم ہر سال اکتوبر نومبر لاہور کو دنیا کا آلودہ ترین شہر دیکھتے ہیں جہاں سموگ ہر سال ڈیرے ڈالتی، شہریوں کو سانس اور آنکھوں کے مرض میں مبتلا کرتی ہے۔ لیکن سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ ہم اس حوالے سے کوئی ایمرجنسی لگا کر اس کا سدباب کریں۔ لہٰذاآنکھیں اور کان کھلے رکھیں ورنہ آپ پیچھے رہ جائیں گے، وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل ہونے کیلئے تیار رہیں۔اور حکومت کو اس حوالے سے جگاتے رہیں، کہ شاید کسی بھی وقت اسے ہوش آجائے اور ہم دنیا کے ساتھ چلنا شروع کردیں!