”استاد “خوشحال تو ،،، ملک خوشحال !

دنیا بھر میں ہر سال 5اکتوبر کو اساتذہ کا عالمی دن منایا جاتا ہے، پاکستان میں بھی جب سے سوشل میڈیا بام عروج کو پہنچا ہے، ہم لوگ بھی اساتذہ کو یاد کرنا شروع ہوگئے ہیں ورنہ تو خار خار ہی ہم اپنے تمام اساتذہ کو یاد کیا کرتے تھے۔ بلکہ کئی دفعہ تو دوست احباب یا پرانے کلاس فیلو ہی ایک دوسرے کو بتایا کرتے تھے کہ یار! وہ فلاں ٹیچر جو ہمیں فلاں کلاس میں فلاں مضمون پڑھایا کرتے تھے، اُن کابہت زیادہ کسمپرسی کی حالت میں انتقال ہو گیا ہے۔ ہم تھوڑی دیر کے لیے افسردہ ہوتے، پرانی یادیں تازہ کرتے اور ایک بار پھر اپنے روزانہ کے معمولات میں اپنے آپ کو کھپا لیتے۔ اب گزشتہ روز بھی ٹیچرز ڈے پر ویسے ہی ایک پرانے کلاس فیلو سے میں جب بات کر رہا تھا کہ گورنمنٹ کالج کے فلاں ٹیچر کا نمبر تو دو۔ لیکن دوست نے بتایا کہ اُن کا حال ہی میں انتقال ہوگیااور آخری وقت میں اُن کے پاس اپنا علاج کروانے کے پیسے بھی نہیں تھے۔ یقین مانیں دل بجھ سا گیا۔ کہ ہماری حکومتیں یا ہمارے کرتادھرتا، اُستاد کو اس قدر عزت کیوں نہیں دیتے؟ جس کے وہ مستحق ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس جو معاشرے استاد کی اہمیت کو جان چکے ہیں وہ اُسے عزت و تکریم کے ساتھ ساتھ فکر معاشیات سے بھی آزاد کر چکے ہیں،جبکہ اس ملک میں سب سے زیادہ تنخواہ ججز یا بیوروکریٹس کی ہے، اورجو طبقہ ججز کو بناتا ہے وہ یا تو کسمپرسی کی حالت میں زندگی بسر کر رہا ہے یا بھوک سے مر رہا ہے۔ ایسا کیوں ہے؟ ویسے تو ہمارے اُساتذہ کی کل تعداد 60لاکھ کے قریب ہے، جن میں سے 32لاکھ سرکاری اور 28لاکھ پرائیویٹ اساتذہ ہیں۔لیکن تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 96فیصد اساتذہ بنیادی ضروریات سے محروم سفید پوشی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے اساتذہ کا دنیا بھر کے اساتذہ کو دی جانے والی مراعات سے مقابلہ کریں تو حیرت کی بات ہے کہ ہم کسی رینکنگ میں ہی نہیں آتے۔ کیوں کہ ہم ایک اُستاد کو 2900ڈالر سالانہ یعنی 55ہزار روپے ماہانہ اوسطاََ تنخواہ دے رہے ہیں جبکہ سوئٹزرلینڈ میں 1لاکھ دس ہزارڈالر سالانہ، کینیڈا میں 80ہزارڈالر، جرمنی70ہزار ڈالر، ہالینڈ 65ہزار ڈالر، آسٹریلیا 67ہزار ڈالر، امریکا 63ہزار ڈالر اور ڈنمارک، آسٹریا ، آئرلینڈ وغیرہ 60ہزار ڈالر سالانہ تنخواہیں دے رہے ہیں۔ یعنی ہمارے ہاں ایک اُستاد کی اوسطاََ ماہانہ تنخواہ اگر 55ہزار روپے بنتی ہے تو مذکورہ بالا ممالک میں اوسطاََ ماہانہ تنخواہ 7سے 9لاکھ روپے بنتی ہے۔ جبکہ اُن کی عزت و تکریم کا یہ عالم ہے کہ ہمارے گریڈ 20کے پروفیسر کو ایک کانسٹیبل گرفتار کر سکتا ہے، ہمارے سترھویں گریڈ سے نیچے کے اساتذہ ہر سال خصوصاََبجٹ سے پہلے سڑکوں پر احتجاج کرتے اور پولیس سے ماریں کھاتے نظر آتے ہیں، ہر الیکشن ڈیوٹی میں، ہر امتحان کی ڈیوٹی میں یا کسی بھی ہنگامی صورتحال میں آپ کو اساتذہ ہی ڈیوٹی دیتے نظر آئیں گے۔ مطلب! جس سوسائٹی میں استاد کی عزت نہیں ہوگی اور استاد کی تنخواہ تمام دیگر شعبوں سے زیادہ نہیں ہوگی، وہ معاشرہ کبھی ترقی نہیں کر سکتا۔ بلکہ اگر استاد کی تنخواہ زیادہ ہوگی، مراعات زیادہ ہوں گی، تو لوگ سی ایس ایس کرنے کے بجائے استاد بننا پسند کریں گے، قابل اور ذہن لوگ اساتذہ بنیں گے۔ جب آپ ججز کو ہر شعبہ سے ہٹ کر تنخواہیں دے رہے ہیں، گھر دے رہے ہیں یا ملک کا دفاع کرنے والی فورسز کو پلاٹ دے رہے ہیں۔ لیکن یہ ظلم نہیں کہ انہی کے اساتذہ کسمپرسی کی حالت میں مر رہے ہیں، انہی کے اساتذہ اپنا گھر تک نہیں بنا سکتے، حتیٰ کہ یونیورسٹی کا پروفیسر بھی اپنا گھر نہیں بنا سکتا ۔ سوال یہ ہے کہ ترقی یافتہ قومیں اساتذہ پر اتنا کیوں خرچ کرتی ہیں؟ ظاہر ہے وہ جانتی ہیں کہ ٹیچر ہی وہ شخصیت ہے جو قوم کو ڈلیور کرتا ہے، باقی شعبہ جات تو قوم کے لیے سروسز فراہم کرتے ہیں، اس لیے وہ ٹیچر کو دوسرے طبقات سے زیادہ سہولیات فراہم کرتے ہیں۔ تاکہ وہ سائنسدان پیدا کر سکیںاور تحقیق میں اپنے طلبہ کی مدد کر سکیں۔ جبکہ ہم اساتذہ کی عزت و تکریم کے حوالے سے بھی دنیا بھر کی کسی رینکنگ میں نہیں آتے۔ حالانکہ ہمارا اسلام اس بات کا بار بار درس دیتا ہے کہ استاد قوم کا معمار ہوتا ہے۔ لیکن ہماری تعلیمات پر مغرب عمل پیرا ہو کر کہاں سے کہاں نکل گیا ہے۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال لے لیں کہ مشہور پاکستانی ادیب ،دانشور ماہر تعلیم جناب اشفاق احمد صاحب مرحوم جب اٹلی میں اپنی تدریسی خدمات انجام دے رہے تھے تب ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کی پاداش میں ان کا چالان کیا گیا۔اپنی مصروفیت کی وجہ سے جب انھوں نے چالان ادانہ کیا تب ان کو چالان کی عدم ادائیگی اور عدم حاضری کے سبب عدالت میں پیش کیا گیا۔جج نے چالان کی ادائیگی میں تاخیر کی وجہ دریافت کی تو اشفاق احمد نے بتایا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں اور اپنی تدریسی سرگرمیوں کی وجہ سے چالان کی بروقت ادائیگی سے قاصر رہے۔ جج کو جب پتہ چلا کہ وہ ایک ٹیچر ہیں تب وہ اپنی کرسی سے احتراماََ کھڑے ہو گئے اور حیرت و استعجاب سے کہنے لگا “A Teacher in the Courtیعنی ایک اُستاد عدالت میں.... یہ کہتے ہوئے جج نے ان کا چالان معاف کردیا۔ بہرکیف اس میں دو رائے نہیں کہ استاد کسی بھی قوم کا معمار ہوتا ہے۔اس معماری میں بھی کوئی تخصیص نہیں کہ وہ کہاں کہاں قوم کی تعمیر کرتا ہے اور کن کن علوم و فنون میں تعمیر کرتا ہے۔مغرب علمی اور سائنسی دنیا میں اگر پوری اسلامی دنیا پر حکمرانی کررہا ہے تو استاد ہی کی مرہون منت ہے۔ہمیں دل پر ہاتھ رکھ کر سنجیدگی سے سوچنا ہوگا کہ کون سی فیلڈ ہے جس میں مغرب ہم پر حکومت نہیں کررہا۔مصنوعات سے لے کر نظام حکومت تک اور تہذیب و تمدن او ر کلچر سے لے کر تعلیم و تحقیق تک، غرض ہرفیلڈ میں وہ مسلم امہ پر مسلط ہے۔مغربی دنیا میں آج بھی پبلک ٹرانسپورٹ میں جگہ خالی نہ بھی ہو تو استاد کے لیے گنجائش نکالی جاتی ہے۔مغربی عدالتوں میں کسی بھی شخص سے یہاں تک کہ ان کا مذہبی پیشوا پادری سے بھی زیادہ استاد کی گواہی معتبر سمجھی جاتی ہے۔امریکہ جس کو گالیاں دیتے ہم تھکتے نہیں، وہاں آج بھی کسی طالب علم کو نمایاں کامیابی ملے تووہ اولین فرصت میں اپنے استاد کو سیلوٹ کرتا ہے جیسے ہمارے ہاں ایک سپاہی اپنے اعلیٰ آفیسر کو سیلوٹ کرتا ہے۔وہاں تو جنگ عظیم دوم سے لیکر آج تک یہ معاہدہ لاگو ہے کہ جنگ کے دوران دونوں متحارب گروپ علمی دانش گاہوں اور اساتذہ کی رہائش گاہوں پر کسی صورت حملہ نہیں کریں گے۔ لیکن یہاں تو اساتذہ کو ہتھکڑیاں لگا لگا کر عدالتوں میں پیش کیا جاتا ہے، انہیں احتجاج کی صورت میں بکتر بند گاڑیوں میں دھکیلا جاتا ہے۔ پھر بات یہیں ختم نہیں ہوتی چند ماہ قبل ہم نے دیکھا کہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں اُساتذہ جو 11دن سے سخت سردی میں بیٹھے تھے پر شیلنگ کی گئی، یہ اُساتذہ بھلا کون تھے؟ یہ وہ اساتذہ تھے جنہیں حکومت 8ہزار روپے ماہانہ دے رہی تھی، اور گزشتہ 7ماہ سے وہ بھی بند کر دی گئی تھی۔ یعنی یہ اساتذہ شام کی شفٹ میں” بیسک ایجوکیشن پروگرام“ کے تحت بچوں کو تعلیم دے رہے تھے۔ جسے حکومت نے بغیر بتائے بند کر دیا اور محض 8دس ہزار روپے ماہانہ تنخواہوں پر رکھے گئے اُساتذہ پر بھی قدغن لگا دی گئی۔ پھر آپ پرائیویٹ سکولوں کے اساتذہ کو دیکھ لیں 90فیصد سکولوں میں اساتذہ ماہانہ 5ہزار سے 15ہزار روپے تک وصول کرتے ہیں، یہاں یہ بات حکومتیں ضرور بتائیں کہ ایک استاد آخر کیسے 10,000 روپے یا 20، یا 40ہزار روپے میں گزارہ کرے اور اپنے خاندان کی دال روٹی کا بندوبست کرے؟ آپ آج کے دور میں ایک لاکھ روپے ماہانہ سے گھر کا کچن چلا کر دکھا دیں۔یہ ممکن ہی نہیں کہ آپ کا کچن اتنے کم پیسوں سے چل سکے۔ بقول شاعر ہم حقیقت ہیں تو تسلیم نہ کرنے کا سبب ہاں اگر حرف غلط ہیں تو مٹا دو ہم کو بہرحال ایک انگریزی مقولہ ہے: A Teacher is a Beacon that lights the path of a Child (استاد وہ مینارہ نور ہے جوبچے کی راہ کو “علم و ہدایت سے” منور کر دیتا ہے)، پھر حضرت علی ؓکا قول ہے کہ ہر وہ شخص میرا استاد ہے جس نے مجھے ایک لفظ بھی سکھایا ہو۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اگر ہم مغربی اقوام کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو اُستاد کو معاشی حالات کے جھنجٹ سے نکالا جائے، اُسے فقیر بنانے یا معاشرے کا ایک غیر اہم حصہ بنانے کے بجائے مغربی اقوام کی طرح اُسے عزت بخشی جائے۔ مغرب میں اساتذہ کی تمام ضروریات زندگی کو پورا کرنا حکمرانوں کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے وہ لوگ اساتذہ کو ذہنی سکون اور اطمینانِ قلب سے قوم کے بچوں کو تعلیم سے آراستہ و پیراستہ کرنے کیلئے تمام روزمرہ زندگی کی آسائشوں اور سہولیات مہیا کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے جبکہ ہمارے ہاں ایسی ایسی اسکیمیں اور حکمتیں بنائی اور اپنائی جاتی ہیں جس سے اساتذہ کا نام اور مقام سوسائٹی میں بدنام ہوتا نظر آتا ہے، وہ لوگ اساتذہ کو بھاری تنخواہیں دیتے ہیں ان کے بچوں کو تعلیمی وظائف اور تعلیم کی تکمیل کے بعد باعزت روزگار فراہم کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں بالکل اسکے برعکس ہے یہاں اساتذہ کی تنخواہیں وقت پر ادا نہیں کی جاتی، روزگار کا کوئی اچھا انتظام اور بندو بست نہیں ہے بہت سارے انجینئر اور پڑھے لکھے لوگ بے روزگار یا چھوٹا سا کام کرکے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، وہ لوگ اساتذہ کو کئی جدید مراعات سے نوازتے ہیں جبکہ یہاں اساتذہ کی حیلے بہانوں سے تنخواہیں کاٹی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ تعلیم کا شعبہ زبردست بدحالی کا شکار ہوتا جارہا ہے، ایسے حالات اور واقعات میں یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ مغربی ممالک اور ہمارے ملک میں شعبہ تدریس میں زمین آسمان کا فرق ہے، تب ہی ہم تہذیب یافتہ اقوام میں 128میں سے 119ویں نمبر پر آتے ہیں۔ اور ہمارے اساتذہ ہر وقت ذہنی طور پر مفلوج رہتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ کاش اُنہوں نے صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرکے کسی اور شعبہ میں اپنے آپ کو کھپا لیا ہوتا!!