ٹرانس جینڈر ایکٹ: مخالفت برائے مخالفت کسی چیز کا حل نہیں!

آج کل ایک بحث زبان زد عام ہے کہ ملک میں کہیں (خاکم بدہن) ہم جنس پرستی کو قانونی حیثیت مل گئی ہے، کہیں کہا جا رہا ہے کہ اب شاید پاکستان میں LGBTکو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جا رہے ہیں، ایل جی بی ٹی کیا ہے، اس پر آگے چل کر بات کریں گے مگر سب سے پہلے اُس ایکٹ کی بات کرتے ہیں جو پاکستان میں ٹرانسجینڈر کے حوالے سے لاگو کیا گیا ہے، یہ قانون درحقیقت خواجہ سراﺅں کو قانونی طور پر تسلیم کرتا ہے۔ اس ایکٹ کی بدولت، خواجہ سرا ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ وغیرہ تک حاصل کر سکتے ہیں۔ خواجہ سرا اپنی صوابدید پر قومی ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)کے ریکارڈ میں اپنی مرضی سے جنس کی شناخت کر سکتے اور اسے تبدیل کرا سکتے ہیں۔ گھر میں یا عوامی جگہ پر خواجہ سراﺅں کو ہراساں کرنا ممنوع ہے۔ تعلیمی یا معاشرتی طور پر خواجہ سراﺅں سے امتیازی سلوک ممنوع ہے۔ یہ ایکٹ حکومت کو محفوظ مکانات قائم کرنے اور خواجہ سراﺅں کو طبی اور تعلیمی سہولتوں کی فراہمی کا پابند بناتا ہے۔ اس سے حکومت کو سائیکو تھراپی مہیا کرنے کے لیے مراکز قائم کرنے کی بھی سہولت ملتی ہے۔ یہ قانون حکومت کو جیلوں میں خواجہ سراﺅں کے لیے الگ کمرے قائم کرنے کا پابند بناتا ہے۔ کسی شخص کو خواجہ سراﺅں سے زبردستی بھیک منگوانے پر پچاس ہزار روپے جرمانہ اور 6 سال تک قید یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔ ایکٹ میں بحیثیت پاکستانی شہری ان کے تمام حقوق تسلیم کیے گئے ہیں۔ انہیں ملازمتوں، تعلیم حاصل کرنے اور صحت کی سہولتوں تک کی فراہمی میں قانونی حیثیت دی گئی جبکہ وراثت میں ان کا قانونی حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ خواجہ سراﺅں کو کوئی عوامی سہولت دینے سے انکار اور امتیازی سلوک پر مختلف سزائیں بھی تجویز کی گئی ہیں۔ یہ تمام فوائد اسی قانون کے ہیں لیکن چند ایک چیزیں جنہیں ناپسند کیا جا رہا ہے وہ یہ ہیںکہ ایک تو اس میں ٹرانس جینڈر کی جو تعریف کی گئی ہے، اس میں خواجہ سرا کے ساتھ اس ”سیلف پرسیوڈ جینڈر آئیڈنٹٹی “(Self perceived gender identity )کے تصور کو ڈال دیا گیاہے کہ جو بھی شخص مرد ہوتے ہوئے خود کو عورت کہے، اس پر کوئی اعتراض نہ کرے، کوئی میڈیکل اپ چیک اپ نہ ہو اور اسے فوری عورت مان لیا جائے۔ اس کی شناختی دستاویزات اور ہر جگہ اس حوالے سے رجسٹریشن ہوجائے۔ یہ غلط، غیر اخلاقی، غیر شرعی اور نامناسب ہے۔ یہ ایک طرح سے سپریم کورٹ کے 2012کے فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق شناخت کی تبدیلی کے لئے میڈیکل چیک اپ ضروری ہے۔اگر خواجہ سرا اس پر اعتراض کرتے ہیں تو میرے خیال میں اُنہیں اس حوالے سے برطانوی قوانین پڑھنے کی بھی ضرورت ہے، جس میں میڈیکل کی شرط کو اولین ترجیح دی گئی ہے، پھر اس ایکٹ میںپہلی بار یہ مان لیا گیا ہے کہ جنس(SEX) الگ ہے ، صنف (Gender)الگ۔ دوسرا یہ کہ جنس بائیولوجیکل یعنی پیدائشی ہے جبکہ صنف کا تعلق معاشرے کی اقدار سے ہے۔ تیسرا یہ کہ اگر جنس الگ ہے ، صنف الگ تو صنف کا تعین معاشرے کی اقدار یا اخلاقیات یا مذہبی قوانین کے بجائے فرد کے خالصتاً ذاتی اختیار میں ہے۔ کوئی فرد جو بھی صنف چن لے ، وہ اس کاذاتی معاملہ ہے۔ اعتراض تو دور کی بات ہے، اس پر سوال بھی نہیں اٹھا سکتا۔ خیر ان ساری باتوں میں ایک اچھی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں اس حوالے سے Debateکی جا رہی ہیں، ظاہر ہے جب کسی بھی چیز کے حوالے سے قومی سطح پر بحث و تکرار ہوتا ہے تو اُس کا ہمیشہ فائدہ ہی ہوتا ہے، ورنہ پہلے تو کوئی اس حوالے سے بات کرنے کی جرا¿ت بھی نہیں رکھتا تھا۔ اور ویسے بھی اگر کہیں ہیجڑہ پیدا ہوگیا ہے تو اُس کی حفاظت کرنا، اُس کو معاشرے میں عزت دینا، اُس کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دینا یہ ریاست ہی کا کام ہے۔ یعنی ایک بچہ غریب پیدا ہوا، بے ہنر پیدا ہوا، نان کوالیفائیڈ پیدا ہوا اور معصوم پیدا ہوا ۔ اُسے کوالیفائیڈ بنانا، اُسے اپنے ملک کے لیے مفید بنانا، اُسے ہنر مند بنا کر عوام کی خدمت کے لیے پیش کرنا، اور اُسے زمانے سے لڑنے والا بنانا تو ریاست کی ذمہ داری ہے۔تو پھر اگر کسی کے گھر کوئی خواجہ سرا پیدا ہوگیا ہے تو اُس کو معاشرے میں عزت دلوانے سے کیسے ریاست بھاگ سکتی ہے؟ لیکن اس کے برعکس ہم تو ساری زندگی ان سے نفرت کرتے رہے ہیں، بلکہ نوعمری میں میں یہ تسلیم کرتا ہوں کہ میں بذات خود بھی ان سے نفرت کیا کرتا تھا، ایسا شاید اس لیے تھا کہ کیوں کہ ہم جو کچھ اپنے ارد گرد دیکھ رہے ہوتے ہیں وہی کچھ سیکھتے بھی ہیں، لہٰذاہمارے ارد گرد تو یہی کچھ ہوتا تھا کہ کہیں میلے ٹھیلے پر انہیں ناچتا دیکھ لیا، کہیں ”موت کے کنویں“ میں اٹھکیلیاں بھرتے دیکھ لیا، یا پھر کہیں کسی کے گھر اولاد ہوتی تو وہاں صبح صبح یہ لوگ آن ٹپکتے تھے اور کچھ نہ کچھ اُس گھر سے لے کر ہی جان چھوڑتے تھے، لوگ، بچے ، جوان سبھی گلی محلوں سے گزرتے ان لوگوں کا مذاق اُڑاتے تھے۔ پھر ہم نے دیکھا کہ ان کی قبرستان میں تدفین بھی بہت سی جگہوں پر مسائل کا شکار رہی ہے۔ایک طویل عرصہ تک ان کی کوئی شناخت نہیں تھی۔ شناختی کارڈ ایشو نہیں ہوتا تھا، وراثتی جائیداد میں حصہ نہیں ملتا تھا۔ خواتین میں یہ جا نہیں سکتے کہ عورتیں ان سے بات کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہوجاتی ہیں ، شادی بیاہ کے لئے یہ خاص طور سے تیار ہوتے ہیں، وہاں پر بہت سے مشٹنڈے ان سے سیکس ورکر کا سا سلوک کرتے اور اسی گھٹیا انداز میں ڈیل کرتے ہیں۔پچھلے چند برسوں میں ایسے بہت سے سانحات ہوئے ہیں جن میں ان کے خود ساختہ عاشقوں یا شائقین نے رقابت یا کسی اور معاملے پر انہیں قتل کر دیا،سر کے بال کاٹ دئیے، تشدد کا نشانہ بنایا وغیرہ وغیرہ۔اور تو اور علاج کے لئے خواجہ سرا ہسپتا ل جائیں تو عجیب وغریب صورتحال پیدا ہوجاتی ہے، خواتین وارڈ میں یہ ایڈمٹ ہونا چاہتے ہیں مگر وہاں خواتین مزاہم ہوتی ہیں۔ مردانہ وارڈ میں انہیں بستر ملے تو پورا وارڈ مذاق اڑاتا، فقرے کستا اور تفریح طبع کی چیز سمجھتا ہے۔ تصور کریں کہ موٹر وے پر یا کسی اور جگہ سفر کرتے ہوئے انہیں پبلک ٹوائلٹس میں جانا پڑے تو کتنی مشکل ہوتی ہوگی؟ کیا کچھ سہنا، سننا پڑتا ہوگا؟لیکن اس کے برعکس ہمارے بڑے ہمیں سمجھایا کرتے تھے، کہ ان کو تنگ نہیں کیا کرو، ان کی بددعا اثر رکھتی ہے، پھر کہا جاتا تھا کہ انہیں کچھ نہ کچھ خیرات دیا کرو ، ان کی دعا بہت اثر رکھتی ہے وغیرہ وغیرہ ۔ پھر آہستہ آہستہ ہمیں آگہی ملتی گئی، تعلیم ملتی گئی اور شعور آتا گیا کہ یہ بھی اللہ ہی کی مخلوق ہیں۔ لیکن ایک طبقہ آج اس قانون کی آڑ میں ان کو قتل کرنے جیسے فتوے جاری کر رہا ہے، اُنہیں خطرہ ہے کہ اس سے اسلام شدید خطرے میں آسکتا ہے۔ حالانکہ جن برائیوں کا ذکر وہ کر رہے ہیں معذرت کے ساتھ وہ تو ہمارے معاشرے میں پہلے سے موجود ہیں۔ اُنہیں روکنے کے لیے تو آج تک کسی نے آواز نہیں اُٹھائی؟ خیر واپس اس قانون کی طرف آتے ہیں تو قارئین! 2018ءکے بعد 4برسوں میں نادرا کو جنس کی تبدیلی کی تقریباً 31 ہزار کے قریب درخواستیں موصول ہوئی ہیں جن میں سے 16530 مردوں نے اپنی جنس مرد سے عورت جبکہ 15154 عورتوں نے اپنی جنس عورت سے مرد کرائی ہے۔جبکہ ہمارے ہاں خواجہ سراﺅں کی تعداد 3سے 4لاکھ بتائی جاتی ہے، جب اس قدر زیادہ لوگ موجود ہوں تو میرے خیال میں وہ ”اسٹیک ہولڈرز“ ہی کہلائیں گے۔ لہٰذاقانون بناتے وقت یا اُس میں ترمیم کرتے وقت ہمیں اُن لوگوں کو بھی ساتھ بٹھانا چاہیے۔ ”مخالفت برائے مخالفت“ کی پالیسی اپنانے سے ہمیشہ مسائل بڑھتے ہیں، ہم یہ بالکل نہیں کہتے کہ بل کو من و عن قبول کر لیں یا من و عن رد کردیں بلکہ یہ ضرور کہتے ہیں کہ جن چیزوں پر اعتراض ہے وہ بیٹھ کر ڈسکس کریں، اس میں تمام سٹیک ہولڈرز کو بٹھائیں اور کہیں کسی کو لگتا ہے کہ اس بل سے ” گے ازم“ کو فروغ ملے گا تو اُس کے تدارک کے لیے کام کریں، اُس کے تدارک کے لیے قانون بنائیں۔ یہ نہ کریں کہ بل کو ہی یکسر مسترد کر دیں۔ ہر چیز کا حل احتجاج یا لڑائی نہیں ہے، بلکہ اب تو ان چیزوں کے بارے میں دنیا میں ڈیبیٹس ہوتی ہیں، ایک دوسرے کو سنا جاتا ہے، ایک دوسرے کا دلائل کو سنا جاتا ہے، ایک دوسرے کی باتوں کو تسلیم کیا جاتا ہے، ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کیا جاتا ہے، ایک دوسرے کے موقف کو سراہا جاتا ہے، ایک دوسرے کے مذاہب کا احترام کیا جاتا ہے، ایک دوسرے کے معاملات کو سلجھانے کی کوششیں کی جاتی ہیں، اگر آپ کو کسی دوسرے کی یا اقلیت کی بات پسند نہیں تو اُس سے بیٹھ کر بات کریں اور کچھ لے دے کر کسی Solutionکی طرف آئیں۔ بلکہ اس حوالے سے مغرب کی بات نہ ہی کریں تو اچھا ہے، کیوں کہ پھر ابہام بڑھ جاتا ہے، وہاں تو LGBTسے بھر آگے بڑھ گئے ہیں، مطلب اب یہ LGBTQIA2Sبن گئی ہے۔ اس میں ایل سے لیزبین، جی سے گے، بی سے بائیوسیکشوئیل یعنی دونوں رجحانات رکھنے والا ، ٹی سے ٹرانس جینڈریعنی وہی جس کی تعریف اوپر بیان کی ہے، کیو سے مرادایسے لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہمارے رجحانات کے بارے میں پوچھا نہ جائے کیونکہ وہ مختلف اوقات میں مختلف جنسی رجحان رکھتے ہیں۔ اسی طرح اے سے مراد اے سیکشوئل ہے یہ ایک اور عجیب وغریب معاملہ ہے یعنی ایسے لوگ جو مرد ہیں یا عورت ہیں مگر انہیں جنس سے کوئی دلچسپی نہیں ، وہ کسی بھی قسم کا جسمانی تعلق قائم نہیں کرنا چاہتے ،2 ایس سے مراد ٹو سپرٹ ہے یعنی ایک جسم میں دو روحیں، بتایا جاتا ہے کہ امریکہ کے بعض قبائلی ٹائپ گروہوں میں یہ مسئلہ بھی ہے کہ ایک فرد خود کو کبھی مرد تصور کرتا ہے اور کبھی عورت ، تو 2 ایس دراصل اس پیچیدہ جنسی تصور کرنے والوں کی نمائندگی کرتا ہے۔ میرے خیال میں اگر حکومت اُن کے لیے ایجوکیشن و تربیت کا اہتمام کرے تو اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وہ معاشرے کا مفید رکن بن سکتے ہیں ، اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ اُن کا گلا گھونٹ کر مارنے کی کوشش کی جائے۔ اور کہا جائے کہ یہ لوگ اس معاشرے میں ہونے ہی نہیں چاہیے۔