سیلاب فنڈزکی کمی: وزیر اعظم سب سے پہلے عوام کا مورال بلند کریں!

ہمارے وزیر اعظم امریکا پہنچ چکے ہیں، آج شام ہی اُن کا اقوام متحدہ کی 77ویں جنرل اسمبلی سے خطاب ہوگا، خطاب میں یقینا وہ پاکستان میں ہونے والی سیلاب کی تباہ کاریوں سے دنیا کو آگاہ کریں گے، دنیا سے امداد مانگیں گے اور ری انفراسٹرکچر کے لیے دنیا کو تعاون کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔آگے چلنے سے پہلے میں آپ کو پریم چند کا ایک افسانہ ”کفن“ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں جس کے دو کردار ہیں ،گھسو اور مادھو۔ دونوںباپ بیٹا ہیں اور پرلے درجے کے نکھٹو۔نچلی ذات کے دونوں کردار ایک جھونپڑی میں رہتے ہیں،کام کاج کرتے نہیں، کبھی دل چاہا تو مزدوری کر لی اور پھر کئی دن کے لیے اِدھر ا±دھر پَڑ رہے۔کبھی مانگ تانگ کے بھی گزارا کر لیا کرتے تھے اور چھوٹی موٹی چوری چکاری سے بھی نہ کتراتے تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے مصیبت رحمت بن کے آتی ہے۔ کہانی کے مطابق گھسو کے بیٹے مادھو کی بیوی درد ِ زہ سے کراہ رہی ہے اور دونوں باپ بیٹا جھونپڑی کے باہر الاﺅ جلائے آلو بھون کے کھا رہے ہیں جو وہ کسی کے کھیت سے چرا لائے ہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد باپ بیٹے سے کہتا ہے کہ تیری بیوی اندر ہاتھ پاﺅں پٹخ رہی ہے جا کر اسے دیکھ آ۔ بیٹا اس لیے اٹھ کر اسے دیکھنے نہیں جاتا کہ اگر گیا تو باپ سارے آلو کھا جائے گا۔ الٹا بیٹا ہی اپنے باپ سے کہتا جا تو جا کر دیکھ آ۔ دونوں اسی بحث میں گرم گرم آلو اُڑاتے رہتے ہیںاور پھر دھوتی اوڑھ کر وہیں سو جاتے ہیں۔ صبح اٹھ کر دیکھتے ہیں کہ مادھو کی بیوی مر چکی ہے، آنکھیں اوپر چڑھ چکی ہیں جسم اکڑ چکا ہے اور لاش پہ مکھیاں بھنبھنا رہی ہیں۔اب دونوں نکھٹووں نے رونا پیٹنا شروع کر دیا جیسے وہ ہر بار مصیبت پڑنے پر کیا کرتے تھے۔ اب دونوں کو لاش کے لیے کفن اور جلانے کے لیے لکڑی کی فکر ہوئی مگر پیسے کہاں تھے۔ ایسے میں انہیں بیرونی امداد کے حصول کا خیال آیااور وہ چودھری کے ڈیرے پر جا پہنچے۔ چودھری ان کی شکل دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ پھر مانگنے آئے ہیں۔ چودھری کے انکار کے بعد بھی دونوں باپ بیٹا ہار کہاں ماننے والے تھے، چوکھٹ پر بیٹھ گئے اور رونا پیٹنا شروع کر دیا۔ چودھری کو دونوں کے لچھن معلوم تھے ، وہ جانتا تھا کہ پیسے لے کر اڑا دیں گے ،کفن دفن پہ خرچ نہ کریں گے۔ پھر بھی جان چھڑانے کے لیے اس نے چند روپے بے رخی سے ان کی جانب اچھال دیے اور وہاں سے چلتا کیا۔ روپے لے کر باہر نکلے تو سوچا باقی لوگوں سے بھی تھوڑے تھوڑے مل جائیں تو اور بھی اچھا ہو گا۔ لہٰذا اہل محلہ کے آگے بھی جھولی پھیلانے نکل پڑے۔ کسی نے آنہ دیا کسی نے دو آنے۔ کرتے کراتے دونوں کے پاس مرحومہ کے کفن دفن کے لیے معقول رقم جمع ہو گئی۔ اب کیا تھا، کفن خریدنے کو نکلے تو گفتگو شروع ہوئی کہ سستا کفن خرید کے اگر کچھ روپے بچا لیں تو کل کو کام آئیں گے۔ مرنے والی کو کیا معلوم کہ سستا کفن خریدا ہے یا مہنگا۔ اس موقع پر دل کی تسلی کے لیے دونوں نے اپنے معاشی حالات پر ایک فلسفیانہ گفتگو بھی کی۔ کرتے کراتے دونوں ایک شراب خانے کے سامنے پہنچ گئے، اور سارے پیسے اُڑادیے۔ نشہ تھوڑا اُترا تو مادھو کو اپنی بیوی کے کفن دفن کی تشویش ہوئی اور باپ سے کہنے لگا کہ پیسے تو خرچ ہو گئے اب کفن اور لکڑی کیسے خریدیں گے۔ باپ ساٹھ سال کا تجربہ کار گھامڑ تھا۔اُس نے کہا کفن چھوڑو لیکن یہ طریقہ اچھا ہے مانگنے کا، لوگوں کا کیا ہے، ایک دو بار دیں مگر پھر اُس کے بعد کوئی نہ کوئی خود کفن خرید کے لکڑیوں کا انتظام کرے گا اور لاش کا کریا کرم تو ہو ہی جائے گاتو پھر روپے کفن دفن میں جھونکنے کی کیا ضرورت ہے۔اس نے بیٹے کو سمجھایا کہ جب تک روپے ملتے رہیں اسے خرچ کرتے رہو جب تک کہ مخیر حضرات خود کفن دفن نہ کر دیں۔ شاید دنیا کے کئی ممالک نے منشی پریم چند کا یہ افسانہ پڑھ لیا ہے۔ تبھی وہ اس بار سیلاب زدگان کی امداد کے لیے کیش نہیں دے رہے ہیں بلکہ سامان خرید کر بھجوا رہے ہیں۔ لہٰذااب آتے ہیں شہباز کابینہ کی طرف تو نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں یقینا اُن کا تقریر کرتے ہوئے رویہ معذرت خوانہ سا ہوگا، کیوں کہ اُنہوں نے دل سے تسلیم کرلیا ہوا ہے کہ ہم ”بھکاری“ ہیں، بلکہ ابھی وہ چند دن پہلے بھی فرما رہے تھے کہ ہم جہاں جاتے ہیں ہمیں سمجھا جاتا ہے کہ ہم شاید پیسے مانگنے آئے ہیں، حالانکہ اُنہیں بلا جھجک یہ کہنا چاہیے کہ پاکستان میں جو تباہی مچی ہے اس کی ساری ذمہ داری ترقی یافتہ صنعتی ممالک پر عائد ہوتی ہے جو گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی خرابی کے اصل ذمہ دار ہیں۔اورجن کی وجہ سے پاکستان میں غیر معمولی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور صدیوں سے جمے ہوئے گلیشئرپگھل کر ہلاکت آفرین سیلابوں کا باعث بن رہے ہیں۔بلکہ اُنہیں تو پاکستان کے سو فیصد نقصان کا وہاں پر کلیم کرنا چاہیے، کیوں کہ ابھی تک جتنی امداد پاکستان کو حاصل ہوئی ہے وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے برابر ہے۔ حیرت مجھے اس بات پر ہو رہی ہے کہ وہی دنیا، وہی پاکستان ، وہی پاکستانی عوام پھر ہم سے دنیا کی اس قدر بے رخی کیوں؟ آپ یقین مانیں 2010ءمیں جب سیلاب آیا تھا تو اُس وقت پاکستان میں 60 ممالک اور عالمی اداروں کی جانب سے 4ارب ڈالر امداد آئی تھی جس میں امریکہ کی جانب سے دی گئی 60 کروڑ ڈالر کی امداد بھی شامل تھی۔ تاہم موجودہ سیلاب کے بعد سے اب تک صرف 12 ملکوں اور بین الاقوامی اداروں کی جانب سے صرف 9کروڑ ڈالر امداد آئی ہے جس میں امریکہ کی جانب سے دی گئی صرف پانچ کروڑ ڈالر کی امداد بھی شامل ہے۔حالانکہ اُس وقت 10ارب ڈالر کا نقصان ہوا تھا جبکہ اس 2022ءکے سیلاب کا تخمینہ 22ارب ڈالر سے زیادہ کا لگایا جا رہا ہے۔ بلکہ اُس وقت تو آئی ایم ایف کی جانب سے پاکستان کو 0.7 فیصد بجٹ خسارہ بڑھانے کی اجازت ملی تاکہ متاثرین سیلاب کی مدد کے لیے زیادہ حکومتی فنڈ مختص کیے جا سکیں۔پھر آپ 2019 میں جب دنیا کے دوسرے ممالک کی طرح کورونا وائرس نے پاکستان کا رُخ کیا اور اس کی روک تھام کے لیے حکومت کو لاک ڈاو¿ن، سمارٹ لاک ڈاو¿ن اور پابندیاں عائد کرنا پڑیں تو اس سے معیشت کو نقصان ہوا۔پاکستان کو کورونا وائرس کے منفی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے عالمی اداروں کی جانب سے امداد ملی۔ کورونا وائرس کے دوران بھی پاکستان آئی ایم ایف پروگرام کا حصہ تھا اور اسے عالمی ادارے کی جانب سے 2ارب ڈالرسے زائد کی امداد ملی۔لیکن اس بار نہ تو ایشیائی ترقیاتی بینک، نہ ہی عالمی بینک کی جانب سے ابھی تک کوئی فنڈز جاری نہیں کیے گئے اور نہ ہی مشرق وسطیٰ کے دوست ممالک کی جانب سے کوئی رقم پاکستان کو فراہم کی گئی جس کی وجہ سے پاکستان کو اس وقت ڈالر کی قلت کا سامنا ہے اور یہ پاکستانی روپے کے مقابلے میں دوبارہ بلند سطح پر موجود ہے۔بلکہ مجھے تو یوں لگ رہا ہے جیسے عالمی ادارے یہ سمجھ رہے ہیں کہ پاکستان امداد لینے کا عادی ہو چکا ہے، حالانکہ راقم نے پچھلے ماہ جب سیلاب شروع ہوا تھا اُسی وقت لکھا تھا کہ خدارا ایک ایسا میکانیزم بنایا جائے کہ جس سے دنیا پاکستان کی مدد کرنے سے نہ ہچکچائے۔ اس کے لیے کوئی ویب سائیٹ لانچ کر دی جائے، تاکہ وہاں پر روپے پیسوں کا حساب روزانہ کی بنیاد پر درج کیا جائے۔ لیکن حکومت ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔