گھربیٹھے عمرے کا ثواب حاصل کریں!

کیا آپ کے علم میں ہے کہ ایک تہائی پاکستان پر آفت آنے کے باوجود آج بھی روزانہ 30ہزار پاکستانی عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب جا رہے ہیں، اور حج کے بعد سے اب تک کم و بیش ڈیڑھ لاکھ پاکستانی زائرین عمرہ کی ادائیگی کر چکے ہیں۔ جبکہ پاکستان انڈونیشیا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے جہاں سے سب سے زیادہ عمرہ زائرین سعودی عرب جاتے ہیں۔ انڈونیشیا کا ذکر چھڑا ہے تو بتاتا چلوں کہ یہ آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا مسلمان ملک ہے،جہاں سے ہر سال 20لاکھ افراد عمرہ کے لیے جاتے ہیں، لیکن ایک سال ایسا بھی جب یہاں سے چند ہزار افراد ہی عمرہ کے لیے جا سکے۔ یہ سال 2004-5کا تھا جب سمندری طوفان (سونامی) آیا تو 2لاکھ 30ہزار افراد لقمہ اجل بن گئے۔ یہ واقعہ دسمبر 2004ءمیں رونما ہوا اور سال 2005ءمیں اس ملک سے عمرہ کے لیے جانے والے افراد کی تعداد محض 13ہزار تھی۔ اُس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ وہاں آفتوں کی وجہ سے لوگ غریب ہوگئے تھے بلکہ بنیادی وجہ یہ تھی کہ وہاں کے علماءکرام نے فتویٰ جاری کیا تھا کہ اگر آپ کا بھائی مصیبت میں ہے اور آپ عبادات کو ترجیح دیں تو ایسی عبادات اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتے۔ یہ سننا تھا کہ تمام عمرہ کا ارادہ رکھنے والوں نے اپنا ارادہ ترک کرکے اپنے اُن 4کروڑ بھائیوں کی مدد کی جو سونامی کی نذر ہو چکے تھے۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہاں پر جب دوبارہ 2018ءمیں سونامی آیا تو اُس وقت مرنے والوں کی تعداد محض پانچ تھی۔ مطلب انہوں نے سونامی کی ”واردات“ کوروکنے کے لیے احسن اقدامات کیے، ساحلی علاقوں میں سونامی سے الرٹ رہنے کا بہترین سسٹم نصب کیا گیا، جس سے ان علاقوں میں پیشگی اطلاع دے دی گئی اور 2کروڑ افراد نے بروقت نقل مکانی کرکے اپنی جان بچائی! لیکن اس کے برعکس پاکستان میں کسی قسم کا کوئی فتویٰ جاری نہیں ہو سکا۔ علماءکرام اس تعمیری کام میں حصہ لینے سے عاری نظر آرہے ہیں۔ آپ خود دیکھ لیں کسی جامع مسجد کی طرف سے یا کسی بڑے مولانا صاحب کی طرف سے اس حوالے سے کوئی فتویٰ نہیں آیا۔ حالانکہ اس وقت ملک کے حالات یہ ہیں کہ کئی دنوں سے پاکستان کے اکثر علاقے سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں اور دوسری جانب ہمارے قریب قریب سارے خودساختہ رہنما ( سیاستدان) کرسی کرسی اور آئی ایم ایف آئی ایم ایف کے کھیل میں مشغول دکھائی دے رہے ہیں یا پھر سرکاری خرچ پر بیرونی دوروں میں مصروف ہیں۔ اسی وجہ سے ہمارا میڈیا (خاص طور پر فرنٹ لائن الیکٹرانک میڈیا) بھی پہلے تو ذاتی مفادات کے اس کھیل کی کوریج میں مصروف رہا کیونکہ بارہ مصالحے، ریٹنگ اور پیسے یہیں سے ملتے ہیں۔ کہیں جلسے، کہیں پریس کانفرنسیں۔کون گرفتار ہو گیا، کون گرفتار ہو سکتا ہے، کس کے ساتھ گرفتاری میں کیا سلوک ہوا؟لیکن بعد میں اُسے بھی ہو ش آیا کہ سیلاب نے تو واقعی زندگیاں تباہ کر دی ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے، اور سینکڑوں ہلاک ہوگئے ہیںتو اُنہیں بھی خیال آیا کہ کوریج کرنی چاہیے۔ اسی میں ”بھلائی“ ہے۔بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ جب سوشل میڈیا پر ملک کے سنگین حالات آنے شروع ہوئے تو مجبوراََ سیاستدانوں اور میڈیا کو بھی یہ فیصلہ کرنا پڑا کہ وہ بھی کچھ اعلانات کر دیں، اپنے دلوں کے درد کا اظہار کریں، اپنی بے حسی کی کچھ پردہ داری کریں اور کچھ ویڈیوز اور فوٹو سیشن کر لیں کہ اگلے الیکشن میں کام آئیں گے۔بلکہ اس حوالے سے دشمن میڈیا (بھارت) کے مشکور ہیں کہ جنہوں نے ہمیں احساس دلایا کہ ہمارے ہاں شدید سیلاب آیا ہوا ہے۔ ایک بھارتی اخبار نے ا س سب کے بارے میں ان الفاظ کے ساتھ رپورٹ شائع کی ہے کہ ” کئی دنوں سے سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور پنجاب میں سیلاب کے ہاتھوں مچی شدید تباہ کاریوں کے بعد آخر کار پاکستان غفلت کی نیند سے بیدار ہو ہی گیا“۔ میرے خیال میں تو اس بھارتی اخبار کا ہم پر احسان ہے کہ دشمن ہونے کے با وجود اس نے ہمیں شرمندہ کرنے اور احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔ کہ چلو اس برس تو جو ہونا تھا ہو گیا شاید اگلے سیلاب میں ہمارے لیڈر بہتر طور پر اپنی قوم کے لیے کچھ کر لیں۔ خیر بات لمبی ہوگئی مگر آج یہاں بات یہی کرنے کا ارادہ ہے کہ پاکستانیوں کو بھی چاہیے کہ چند ماہ کے لیے عمرہ کی ادائیگی موخر کرتے ہوئے اپنے متاثرہ بھائیوں کی مدد کریں تو یقینا اسی میں بھلائی ہے، اس طرح ہم روزانہ 6کروڑ روپے سیلاب متاثرین کے لیے اکٹھے کر سکتے ہیں، اور اس طرح اُن کا عمرہ گھر بیٹھے قبول ہو سکتا ہے۔ اور ویسے بھی ہمارا اسلام یہی کہتا ہے کہ بھائی بھائی کا خیال رکھا کرو، رسول اللہ نے فرمایا، جسے سیدنا ابو ہریرہؓ نے روایت کیا ہے کہ ”جو شخص کسی مومن کی دنیا میں کوئی تکلیف رفع کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی تکلیفوں میں سے کوئی تکلیف رفع کرے گا۔ جو شخص کسی تنگدست پر آسانی کرے گا ، اللہ تعالیٰ دنیا و آخر ت میں اس کے لئے آسانی فرمائے گااور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوشی کرے گا، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی عیب پوشی کرے گا۔ پھر اس حوالے سے ایک اہم واقعہ آپ کی گوش گزار کردوں کہ حضرت احمد بن اسکاف دمشقی رحم اللہ علیہ نے حجِ بیت اللہ کے ارادے سے کئی سال میں ایک خطیر رقم جمع کی۔ حج سے چند دن پہلے انہوں نے ہمسایہ کے گھر میں اپنے بیٹے کو کسی کام سے بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد وہ منہ بسورتا ہوا واپس آیا۔ ابنِ اسکاف? نے پوچھا، بیٹے خیر تو ہے، تم روتے کیوں ہو؟ اس نے کہا، ہمارے پڑوسی گوشت روٹی کھا رہے تھے، میں منہ دیکھتا رہا اور انہوں نے مجھے پوچھا تک نہیں۔ ابنِ اسکاف رنجیدہ ہو کر ہمسائے کے گھر گئے اور کہا سبحان اللہ، ہمسایوں کا یہی حق ہوتا ہے جو تم نے ادا کیا۔ میرا کمسن بچہ منہ تکتا رہا اور تم گوشت روٹی کھاتے رہے، اس معصوم کو ایک لقمہ ہی دے دیا ہوتا۔یہ سن کر پڑوسی زار زار رونے لگا اور کہنے لگا، ہائے افسوس اب ہمارا راز فاش ہوگیا۔ گویم مشکل وگرنہ گویم مشکل۔ خدا کی قسم، پانچ دن تک میرے گھر والوں کے منہ میں ایک دانہ تک نہیں گیا، لیکن میری غیرت کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے روکتی تھی، جب نوبت ہلاکت تک پہنچی تو ناچار جنگل گیا، ایک جگہ مردہ بکری پڑی تھی، اس کا تھوڑا سا گوشت لے لیا اور اسی کو ابال کر ہم کھا رہے تھے، یہی سبب تھا کہ ہم نے آپ کے بچّے کو کچھ نہ دیا، ورنہ یہ کب ہوسکتا تھا کہ ہم گوشت روٹی کھائیں اور آپ کا بچّہ منہ تکتا رہے۔یہ سن کر احمد بن اسکاف پر رقّت طاری ہوگئی۔ بار بار کہتے کہ اے احمد تجھ پر افسوس ہے کہ تیرے گھر میں تو ہزاروں درہم و دینار پڑے ہوں اور تیرے ہمسایوں پر فاقے گزررہے ہوں۔ قیامت کے دن تو اللہ کو کیا منہ دکھائے گا اور تیرا حج کیسے قبول ہوگا؟ پھر وہ گھر گئے اور سب درہم و دینار جو حج کی نیت سے جمع کیے تھے، چپکے سے لا کر با اصرار ہمسائے کو دے دیے اور خود اپنے گھر میں بیٹھ کر یادِ الٰہی میں مشغول ہوگئے۔ یعنی ہم بچپن سے کہانیاں سنتے آرہے ہیں کہ ایک شخص کا حج کس طرح قبول ہوا۔ لہٰذامیرے خیال میں ہمیں ان سیلاب زدگان کی مدد کے لیے ہر طرح سے مددکرنی چاہیے، یقین مانیں اس وقت ایک لقمہ کھانا بھی اندر نہیں جاتا جب یہ سوچ آتی ہے کہ اُن لوگوں کا کیا حال ہوگا جن کے تمام جانور ، فصلیں، گھر بار سب کچھ اُجڑ گیا اور پھر اُنہوں نے قومی شاہراہوں پر ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ فی الوقت ہمیں گوشت کھانا چھوڑ دینا چاہیے، لوگ لگژری لائف سٹائل کو ترک کردیں، شادیاں سادگی سے کرنا چاہیے اور بچے ہوئے پیسے سیلاب زدگان کو دیں گے تو میرے خیال میں یہ اُن کے لیے زیادہ سود مند ہے۔ بلکہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ ہمیں 6ستمبر کی ”مہنگی“ تقریبات کو منسوخ کردینا چاہیے اور ان تقریبات سے بچائی ہوئی رقوم سیلاب زدگان کو دینی چاہیے، یا اگر دشمن کو 6ستمبر کی یاد دلانی بہت زیادہ ضروری ہوتو ان تقریبات کو فنڈ ریزنگ کے مقاصد کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ اگر ایسا ہو جائے تو ہمیں باہر سے مدد لینے کی ضرورت ہی نہیں ، اور ویسے بھی باہر سے وصول کی گئی رقوم کے بارے میں ہمارا ماضی بہت داغدار ہے، وہ پیسہ اوپر والے آپس میں ہی بانٹ لیتے ہیں جبکہ غریب کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ یقین مانیں زلزلہ زدگان کے لیے آئے ہوئے کمبل اور دیگر اشیاءکئی سال تک باڑہ مارکیٹ میں فروخت ہوتے رہے۔ ہمیں افسوس سے یہ بات بھی کہنا پڑتی ہے کہ کسی سیاسی جماعت کے کارکن سیلاب زدگان کی امداد کے لیے پیش پیش نظر نہیں آرہے۔ ہاں اس حوالے سے جماعت اسلامی شاید واحد جماعت ہے جس میں کارکنان کو فلاحی کاموں کی تربیت دی جاتی ہے‘ یہی وجہ ہے کہ آفت کے وقت سب سے پہلے جماعت اسلامی کے کارکنان متاثرین کی مدد کو پہنچتے ہیں۔کہنے کو تحریک انصاف کی ٹائیگر فورس‘ جمعیت علمائے اسلام کی انصار الاسلام‘ پیپلزپارٹی کے جیالے اور مسلم لیگ (ن) کے متوالے موجود ہیں جو سیاسی سرگرمیوں میں تو پیش پیش ہوتے ہیں مگر فلاحی کاموں میں کم کم دکھائی دے رہے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کی بے اعتنائی کے برعکس غیر سرکاری امدادی تنظیمیں‘ ادارے اور نجی سطح پر لوگوں نے ایثار کی مثال قائم کر دی ہے۔ سماج کے یہ روشن چہرے ا±مید کی کرن بن کر متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان پہنچا رہے ہیں۔نمائش اور کریڈٹ سے بے نیاز یہ لوگ متاثرین کو ریسکیو کرنے سے لے کر بنیادی ضروریاتِ زندگی فراہم کر رہے ہیں۔ بہرکیف سیلاب کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں‘ اب بھی دریائے سوات‘ پنجگوڑا‘ دریائے کابل اور دریائے سندھ میں پانی کی سطح بلند ہے۔ ہمیں آگے بڑھنا ہو گا اور ہر شخص کو پاکستان کا عبدالستار ایدھی بننا ہوگا جو کہا کرتے تھے کہ میری ایمبولینس یہ نہیں دیکھتی کہ لاش مسلمان کی پڑی ہے یا ہندو کی۔ وہ صرف یہ دیکھتی ہے کہ سامنے پڑا مردہ انسان ہے! ہمیں بھی ایسی سوچ رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم ”رانگ نمبروں“ کے ہاتھوں یونہی ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے اور سب سے بڑے مذہب” انسانیت “ کی یونہی بے حرمتی کرتے رہیں گے! بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ یہ پاکستانیوں کے لیے سب سے بڑا موقع ہے کہ اُنہیں عمرہ ادا کرنے کے ثواب کو حاصل کرنے کا گھر بیٹھے موقع مل رہا ہے، عمرہ کی ادائیگی کے دوران انسان غلطی بھی کر سکتا ہے کہ جس سے اُس کا شاید عمرہ بھی قبول نہ ہو مگر یہاں تو غلطی کا کوئی شائبہ نہیں بلکہ سیدھی قبولیت ہے!