عمران خان کرسی چھوڑیںاور ڈوبتی زندگیوں کو بچائیں!

یہ کیسی زندگی ہے کہ جو ہم صرف خود کے لیے جیتے ہیںیا ذاتی مفادات کے لیے جیتے ہیں یالالچ کے لیے جیتے ہیں۔ کبھی کرسی کی لالچ، کبھی عہدوں کی لالچ، تو کبھی پیسوں کی لالچ۔ایک طرف حکمران ، سیاسی رہنما، مذہبی رہنما سبھی ”سیاست“ کر رہے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف ملک بھر میں سیلاب کی سی صورتحال ہے، شہر شہر، گاﺅں گاﺅں ڈوب رہے ہیں ، ملک بھر سے بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کے دل دہلانے والے مناظر سامنے آ رہے ہیں۔ جون سے اب تک 903 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں جس میں 326 بچے اور 191 خواتین شامل ہیں اس دوران 1293 لوگ زخمی ہوئے ہیں۔جبکہ مالی نقصان کا ابھی اندازہ ہی نہیں کہ کیا صورتحال ہے۔ تونسہ، ڈی جی خان، راجن پور، فاضل پور وغیرہ میں جو خوفناک تباہی سیلابی ریلوں نے مچائی ہے، اس کی تفصیل جان کر ہر کوئی دکھی اور افسردہ ہے۔ پوری پوری بستیاں تباہ ہوگئیں، کچے مکانات نے تو خیر بہہ ہی جانا تھا، پکے مکانات بھی مسمار ہوگئے۔ کوئی سیاستدان آگے آنے کے لیے تیار نہیں ہیں، بلکہ اس وقت اُس انداز میں امداد بھی اکٹھی نہیں ہورہی جو پہلے ریلیف فنڈز کے لیے ہوا کرتی تھی، شاید اس میں مسئلہ ہمارے سیاستدانوں کا ہے یا عوام مہنگائی میں پس چکے ہیں، ان میں اگر کسی پر عوام اس وقت اعتماد کر سکتے ہیں تو وہ عمران خان ہیں۔ فی الوقت اُنہیں چاہیے کہ بنی گالہ چھوڑیں، ملتان میں بیٹھیں، راجن پوربیٹھیں یا تونسہ چلے جائیں اور سیلاب زدگان کو ریلیف دینے کے آپریشن کی خود نگرانی کریں، خود عوام کو اپیل کریں ، اگر عمران خان سیلاب فنڈز کے لیے عوام سے اپیل کریں گے تو لوگ اُن کی بات پر دھیان دیں گے، ورنہ وہ کسی شریف یا زرداری کی بات پر دھیان نہیں دھریں گے۔ کیوں کہ ان پر تو ابھی تو 2005ءکے زلزلے پیسے کھانے کے الزامات غلط ثابت نہیں ہوئے، اس لیے لوگ ان کی اپیل پر پیسے دینے کے لیے قطعاََ تیار نہیں ہیں۔ کیوں کہ صورتحال سوچ سے بھی زیادہ گھمبیر ہے، گاﺅں کے گاﺅں صفحہ ہستی سے مٹ رہے ہیں۔ ان سیلاب زدہ علاقوں سے جو مناظر سامنے آرہے ہیں وہ دل دہلا دینے والے ہیں۔ ان آنکھوں نے ایک منظر دیکھا جس میں ایک والد کے سامنے اُس کے بچوں کو سیلاب ایک جن کی طرح بہا لے گیا تو وہ بچوں کی تلاش میں اس سیلاب میں کود گیا۔ سیلاب کے تیز پانی میں وہ کئی میل تک اپنے بچوں کو ڈھونڈتا رہا۔ آخر پانی کی وحشی لہروں نے اس بلوچ باپ کو بھی دبوچ لیا اور جب اس کی لاش ملی تو اس کے صرف دونوں ہاتھ باہر تھے جبکہ باقی پورا جسم گیلی مٹی میں دھنس گیا تھا۔ وہ تصویر دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ایک باپ ایک بڑی بلا سے اپنے بچے واپس لینے کے لیے گھنٹوں لڑتا رہا کہ شاید وہ دریائی بلا اس کے بچے واپس کردے لیکن آخرکار وہ ہار گیا۔ جب دلدلی زمین سے اُس کی لاش نکالنے کے لیے کھدائی کی گئی تو اس کے بازو اس انداز میں اوپر اٹھے ہوئے تھے کہ مرنے سے پہلے اس نے آخری کوشش کی تھی کہ بلا کو شکست دے لیکن سیلاب بچوں کے بعد باپ کو بھی نگل گیا۔ایک اور منظر دیکھا جس میں ایک دیہاتی ماں جس طرح اپنے گھر کی تباہی دیکھ کر ماتم کررہی ہے، اسے دیکھ کر آپ کا کلیجہ پھٹ جائے۔ وہ سرائیکی زبان میں روتے ہوئے کہہ رہی ہے کہ اس کے بچوں نے کہاں کہاں مزدوری نہیں کی تاکہ وہ یہ گھر بنا سکیں۔ سب کچھ دریا بہا کر لے گیا اور اپنے پیچھے ملبہ اور تباہی چھوڑ گیا۔ ایک ماں کا وہ ماتم سن کر آپ کئی روز تک سو نہیں پائیں گے۔ ایک اور منظر میں ایک عورت اپنے بچے سنبھال کر بیٹھی ہے جس نے تین دن سے کچھ نہیں کھایا۔ اس کا خاوند کب کا غائب ہے۔ بچے بیمار ہو رہے ہیں۔ کھانے پینے کو ان علاقوں میں کچھ نہیں ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان سے ایک اور منظر نظر کے سامنے سے گزرا جس میں ایک خانہ بدوش خاتون جو سارا دن خود مانگ تانگ کر گزارہ کرتی ہے، وہاں سے گزری۔ اس غریب خاتون نے کچھ پیسے نکال کر وہیں سامنے ڈال دیے تاکہ سیلاب زدگان کی مدد ہوسکے۔ کیا بڑا دل پایا ہے اس خاتون نے کہ جو سارا دن دوسروں سے مانگا تھا وہ وہیں خیرات کر دیا کہ اس وقت مجھ سے زیادہ سیلاب زدگان کو پیسوں کی ضرورت ہے۔پھر چند ایک امدادی ٹیمیں ان مصیبت زدہ علاقوں میں پہنچیں تو وہاں ایک شخص دور بیٹھا تھا۔ وہ ان لوگوں سے امدادی پیکٹ لینے نہیں آیا۔ جب ایک امدادی ٹیم کا بندہ خود امداد لے کر پہنچا تو اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ وہ سکول ٹیچر ہے۔ اس کی اگلے ماہ تنخواہ آ جائے گی۔ اس امداد کے مستحق دیگر لوگ ہیں جن کا سب ذریعہ معاش تباہ ہوگیا ہے۔ میں خود امریکا میں ہوں ، چند دن میں واپسی ہے مگر ان سارے مناظر کو مایوسی سے دیکھ کر دل پھٹ رہا ہے، میرے ایک جاننے والے نے سابق وزیرا علیٰ پنجاب عثمان بزدار کے علاقے تحصیل تونسہ سے ایک تصویر بھیجی ۔ ایک بلوچ عورت سر جھکائے ساری دنیا کا دکھ اپنے کندھوں پر اٹھائے مایوس قدموں سے چل رہی ہے۔ پیچھے کچھ فاصلے پر مردوں کا ہجوم ہے۔ پتا چلا کچھ لوگ وہاں خیمے اور کھانے پینے کا سامان بانٹ رہے تھے۔ وہ اپنے بچے وہیں چھوڑ کر بھاگ کر گئی کہ وہ بھی جا کر ان سے خیمہ اور کچھ امداد لے آئے تاکہ بچوں کے سر پر گرمیوں اور حبس کے اس موسم میں کوئی تحفظ تو ہو۔ جب سب مرد وہاں خیموں کے لیے لڑ رہے تھے تو اس ماں کو کس نے کچھ لینے دینا تھا؟ اس نے کچھ دیر تو کوشش کی لیکن پھر اسے لگا یہ اس کے بس کا روگ نہیں۔ وہ پیچھے ہٹ گئی، کچھ دیر کھڑی رہی کہ شاید کسی کی ضرورت سے کچھ بچ جائے تو اسے مل جائے۔ جب اسے کچھ نہ ملا تو وہ تھکے ہارے قدموں سے اپنے بچوں کی طرف خالی ہاتھ لوٹ رہی ہے۔ اس تصویر سے واضح ہے کہ اس سے چلا نہیں جارہا۔ وہی خوف کہ وہ جا کر بچوں کو کیا کھلائے یا کیا بتائے گی۔ اس بلوچ ماں کی وہ تصویر شاید میرے ذہن میں نقش ہو کر رہ گئی ہے۔ یہی حالت بلوچستان میں ہوئی ہے جہاں ایک قطار میں کیچڑ میں لتھڑے چھوٹے بچوں کی میتیں دیکھ کر آپ پرکپکی طاری ہو جائے۔ ان کے والدین کا کچھ پتا نہیں۔ شاید وہ بھی پانی میں بہہ گئے ہوں گے۔ سندھ سے بھی ایسی ہی خبریں آرہی ہیں کہ وہاں بھی لوگ سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہوئے ہیں۔ سندھ اسمبلی کے سپیکر آغا سراج نے اس سیلاب کا سارا ملبہ یہ کہتے ہوئے کہ یہ گناہوں کی سزا ہے، انہی غریبوں پر ڈال دیا ہے۔ حیران ہوتا ہوں ایک غریب میں گناہ کرنے کی کتنی سکت ہوتی ہے؟ ایک غریب تو شاید اس طرح کے گناہ سوچ بھی نہیں سکتا جس طرح کے گناہ اس ملک کی اشرافیہ روز کرتی ہے۔ اگر گناہوں پر ہی عذاب اترنے ہیں تو یہ عذاب اشرافیہ پر کیوں نہیں اترتے؟ یہ کیسے عذاب یا گناہ ہیں جس کا شکار ہمیشہ محنت مزدوری کرنے والے غریب طبقات ہوتے ہیں جیسا کہ بلوچستان‘ خیبرپختونخوا‘ جنوبی پنجاب اور سندھ کے علاقے۔ غریب ہی ہمیشہ قدرتی آفات کا شکار کیوں ہوتے ہیں؟ اشرافیہ ایسے عذاب سے کیوں محروم رہتی ہے؟ایک طرف سیلاب نے لاکھوں لوگوں کو برباد کر دیا ہے تو دوسری طرف ہماری سول انتظامیہ حسبِ معمول ایک دفعہ پھر متاثرہ لوگوں کا خیال رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ وہ اپنے مزے میں ہے۔ اب آپ پوچھیں گے کہ وہ حکمران کدھر ہیں جو اِن سے ووٹ لے کر حکمرانی کرتے ہیں۔ تو سن لیں۔ شہباز شریف قطر پہنچے ہوئے ہیں ، باقی وفاقی وزراءیا تو بیرون ملک اُنہی کے ساتھ ہیں یا اسلام آباد میں ”مالی“ حساب کتاب میں مصروف ہیں۔ لہٰذاضرورت اس امر کی ہے کہ عمران خان سمیت تمام سیاستدانوں کو سیاسی سرگرمیاں ختم کرکے فوری طور پر ان علاقوں میں جانا چاہیے۔ حالانکہ جنوبی پنجاب کے عوام عمران خان کو سیاسی نجات دہندہ کے طور پر دیکھتی ہے ۔ وہ خاصے دلبرداشتہ اور خفا ہورہے ہیں۔ کیوں کہ جنوبی پنجاب تباہ ہو چکا ہے۔ اس وقت وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کو بھی تونسہ، ڈی جی خان، راجن پوروغیرہ جانا چاہیے بلکہ عمران خان اور پرویز الٰہی اکٹھے دورہ کریں ، میں پھر کہوں گا کہ اس حوالے سے ان کی ایک ساکھ اور اعتماد ہے۔ وہ اگر اکاﺅنٹ بتا کر اپیل کریں تو اوورسیز پاکستانی بھی اربوں روپے بھیج دیں گے۔خان صاحب اپنے کارکنوں کو سیلاب زدہ علاقوں میں بھیجیں۔ آپ یقین مانیں میرا اکثر جنوبی پنجاب جانا ہوتا ہے، وہاں کے لوگ اکثر کہتے ہیں کہ ہمیں آل شریف اور آل زرداری سے کوئی امید اور توقع نہیں، وزیراعظم شہباز شریف کی آنیاں جانیاں بطور وزیراعلیٰ بہت بار دیکھ چکے، ان کے لانگ بوٹ کی ڈرامائی کارکردگی بھی۔ عمران خان سے البتہ ہمیں توقعات اور امیدیں وابستہ ہیں۔یقین نہیں آ رہا کہ عمران خان تو اس طرف معمولی سی توجہ بھی نہیں دے رہا۔ اس کا تمام تر زور شہباز گل اور حکومت کے خلاف جنگ لڑنے میں ہے۔ کیا خان کو علم نہیں کہ جنوبی پنجاب نے ابھی چند ہفتے قبل اس کے حق میں بھرپور مینڈیٹ دیا۔ لہٰذاعمران خان اگر ایک ویڈیو بیان جاری کریں، جس میں وہ کہیں کہ اپنی تمام سرگرمیوں اور سیاسی لڑائی کو وہ ایک ماہ کے لئے معطل کر کے اپنی پوری توانائی سیلاب زدگان کی مدد کے لئے وقف کرنا چاہتے ہیں ، تو اس بیان کو بے پناہ پزیرائی ملے گی۔ خان صاحب تونسہ، راجن پور، ڈی جی خان کیمپ بنا کر بیٹھ جائیں، اپنے کارکنوں کو اکھٹا کریں، امدادی کام کی ترتیب بنائیں۔ وہ اگر وہاں پہنچیں گے تو تحریک انصاف کی پوری قیادت ساتھ ہوگی، وہ مختلف رہنماﺅں کو ایک ایک تحصیل کی ذمہ داری دیں۔امدادی سامان، راشن کی اپیل کریں تو یقینی طور پر تین چار دنوں میں سامان کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ تحریک انصاف کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ سینکڑوں، ہزاروں دیگیں روزانہ پکوا کر متاثرین میں بانٹ سکے۔خان صاحب اپنی طرف سے پارٹی رہنماﺅں کی ڈیوٹیاں لگائیں اور انہیں ذمہ داری سونپیں۔ جس شخص کو انہوں نے ساڑھے تین سال تک صوبے کا وزیراعلیٰ بنائے رکھا، اسے ہی انچار ج بنا دیں۔لیکن اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو یقینا وہ بھی روایتی سیاستدانوں میں گنے جائیں گے جو عوام کو ایک طرف رکھ کر ”کرسی“ کی جنگ لڑتے رہے ہیں اور لڑتے رہیں گے!