مقدمات بھگتنے والے سیاستدان ملک کی تقدیر کیسے سنوار سکتے؟

ہم نے جب سے ہو ش سنبھالا ہے یہاں حکومتوں کو کرپشن پر نکالا جاتا ہے، تقریباََ ہر سیاسی رہنما کرپشن کے ڈھیروں الزامات لگتے رہے ہیں، بے نظیر ، نواز شریف کی حکومتیں کرپشن پر ختم ہوتی رہیں، 1988ءمیں جونیجو حکومت،1990میں بے نظیر حکومت، 1993میں نواز شریف کی حکومت 1996ءمیں پھر بے نظیر حکومت اور 1999ءمیں پھر نوازشریف حکومت کو کرپشن کی بنیاد پر ختم کیا گیا۔ یہ جتنی بھی حکومتیں ختم ہوئیں سب پر کرپشن چارجز تھے، پھر جب پیپلزپارٹی کا تیسرا دور ختم ہوا تب بھی کرپشن کی لمبی فہرستیں موجود تھیں، پھر 3،4سال قبل جب ن لیگ کی حکومت ختم کی گئی تو نہ جانے کون کون سے کرپشن کے کیسز کے بعد ختم کی گئیں۔ واحد تحریک انصاف کی حکومت ایسی تھی جو کرپشن پر ختم ہونے کے بجائے اندرون پارلیمان حالات خراب کر کے ختم کی گئی۔ اور پھر حیرت کی بات یہ ہے کہ جو مقتدرہ قوتیں 2018ءتک ن لیگ کو کرپشن میں لتھڑا سمجھ کر باہر نکال رہی تھیں آج اُنہیں سپورٹ کرتی نظر آرہی ہیں۔ اگر یہ سب کچھ ٹھیک ہے تو مطلب پہلے جتنی بھی حکومتیں بنی یا ختم ہوئیں اُنہیں جان بوجھ کر چھیڑا جاتا رہا۔ لہٰذااب یہ سلسلہ ختم ہونا چاہیے اب یہ چھیڑ چھاڑ ختم ہونی چاہیے ، اس کے لیے کوئی انقلابی اقدامات کرنے چاہیے بالکل اسی طرح جس طرح بھارتی سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ سیاستدانوں پر مقدمات کو پبلک کیا جائے تاکہ عوام صحیح فیصلہ کرکے بہترین قیادت کا انتخاب کر سکیں! تفصیل اس کی کچھ یوں ہے کہ پاکستان کی طرح بھارت میں بھی طویل عرصے سے تحریک چل رہی ہے کہ اس معاشرے سے بدعنوانی، بے ایمانی اور جرائم پر قابو پانے کے لیے کچھ عملی اقدامات اٹھائے جائیں اور ملکی سیاست میں جرائم کی سرپرستی پر پابندی عائد کی جائے۔ لیکن جرم ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے، ماہرین اس کی بڑی وجہ اسمبلیوں میں بیٹھے ممبران کو سمجھتے ہیں، کیوں کہ بھارتی پارلیمان کے تمام ایوانوں اور انکی ریاستی اسمبلیوں کے نصف سے زائد اراکین کے خلاف سنگین نوعیت کے جرائم میں ملوث ہونے کی بنا پر مقدمات درج ہیں۔ ان میں اغوا برائے تاوان، قتل اور آبروریزی جیسے دیگر سنگین جرائم بھی شامل ہیں۔پاکستان کی طرح بھارتی سیاست کی جانب جرائم پیشہ افراد کے راغب ہونے کا ایک بڑا سبب یہ رہا ہے کہ وہاں کے سیاست دانوں نے ازخود اس قدر اختیارات حاصل کر رکھے ہیں، جس کے سبب وہ خود کو ملکی قوانین سے بالا تر سمجھے جانے لگے ہیں۔ جبکہ ان میں سے بیشتر اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سیاست میں شمولیت تیزی سے دولت حاصل کرنے کا ایک آسان ذریعہ بن گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک کا یہی المیہ ہے کہ یہاں کی سیاست میں جرائم پیشہ افراد کا عمل دخل بہت حد تک بڑھ چکا ہے۔ حتیٰ کہ ان ممالک کے بڑے بڑے ٹیکس چور صنعتکار، سرمایہ دار، جاگیردار انتخابات میں اسی کالا دھن کے بل بوتے پر حصہ لیتے ہیں اور پیسے کے بے دریغ استعمال کے ذریعے جیت انکا مقدر ٹھہرتی ہے۔ ان تمام کامیاب ممبران کا اصل مقصد ممبر پارلیمنٹ بن کر اپنے خلاف بدعنوانی کے الزامات کے تحت قائم کئے گئے مقدمات کو ختم کرانا یا قانونی خامیوں کی بنا پر عدالتوں کے ذریعے باعزت طور پر بری ہونا ہوتا ہے۔ اگر یہ لوگ از خود الیکشن میں حصہ نہ بھی لیں تو ان کی حمایت یافتہ سیاسی پارٹیاں میدان میں اترتی ہیں۔ جن کی پشت پر ان لوگوں کا سرمایہ ہوتا ہے۔ کامیابی کی صورت میں یہ لوگ حکومتی پارٹی کو بلیک میل کر کے ان سے اپنے کام نکلواتے ہیں۔ جبکہ سیاسی پارٹیاں بھی اپنے اوپر سرمایہ کاری کرنے والوں کا خاص خیال رکھتی ہے۔ الغرض بھارتی سیاست میں جرائم کی بڑھتی ہوئی آمیزش کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مودی کے گزشتہ دور حکومت میں 1700 اراکین اسمبلی جو کہ ان قانون ساز اداروں یعنی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے معزز اراکین تھے، جن پر بھارتی عدالتوں میں مختلف جرائم کے لیے مقدمات چل رہے تھے۔گزشتہ دور میں بھارتی لوک سبھا اور راجیہ سبھا کے 30 فیصد سے زائد ارکان کا شمار ایسے جرائم پیشہ افراد میں ہوتا تھا، جن پر قتل، اقدام قتل، زیادتی، اغوا برائے تاوان اور انسانی سمگلنگ سمیت مختلف سنگین جرائم کے مقدمات تاحال زیر سماعت ہیں۔جبکہ موجودہ 17 ویں لوک سبھا میں جنتا دل یونائیٹڈ کے 16 میں سے 13 ارکان، کانگرس کے 51 میں سے 29 ارکان، ڈی ایم کے 23 میں سے 10، ترنمول کانگرس کے 22 میں سے 9 اور بی جے پی کے 301 میں سے 116 ارکان پر مختلف علاقوں میں بیسوں سنگین مقدمات درج ہیں۔ ویسے تو بھارت میں ایک اصول کارفرما ہے کہ وہاں ادارے ایک دوسرے کے کام میں دخل اندازی نہیں کرتے اور ہر حوالے سے محتاط رہتے ہیں، اور اگر وہاں کی سپریم کورٹ کو سیاستدانوں سے متعلق یا فوج سے متعلق کوئی فیصلہ دینا پڑتا ہے تو اُن کی سب سے پہلی کوشش یہی ہوتی ہے کہ وہ ”درمیانی راستہ“ نکالیںاور وہ بسا اوقات اس میں کامیاب بھی ہو جاتی ہے۔ لہٰذاوہاں کی اسمبلیوں کی ساری صورتحال کے حوالے سے درخواستیں جب سپریم کورٹ میں پہنچیں تو اُس نے وہاں بھی درمیانی راستہ نکالتے ہوئے فیصلہ عوام پر چھوڑدیا۔ فیصلہ کچھ یوں تھا کہ تمام سیاسی پاروں کو پابند کردیا گیا کہ جو پارٹی جس اُمیدوار کو ٹکٹ دے گی، اُس پر موجود تمام مقدمات کو پبلک کرنے کی بھی پابند ہوگی، تاکہ عوام کو پتہ چلے کہ وہ جس اُمیدوار کا انتخاب کرنے جا رہے ہیں اُس کا کردار کیا رہا ہے؟ ایسا کرنے سے سپریم کورٹ نے تمام مدعاعوام پر چھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ اگر پھر بھی عوام کریمنل ریکارڈ یافتہ اُمیدوار کو منتخب کرتے ہیں تو یہ اُن کی ”چوائس“ ہے۔ لیکن پھر بھی پارٹیاں ایسے افراد کا انتخاب نہ کریں جن پر مختلف قسم کے مقدمات چل رہے ہوں۔ بادی النظر میں بھارتی سپریم کورٹ کا یہ طریقہ کار ٹھیک ہے کیوں کہ جنوبی ایشیا کی پارلیمنٹس میں کریمنل ممبرز کی آمد کو ویسے تو روکا نہیں جا سکتا تو کیوں ناں عوام کو باشعور کر کے دیکھ لیا جائے اور خاص طور پاکستان جہاں کی اسمبلیوں میں بھی ایک بڑی تعداد اُن افراد کی ہے کہ جن پر یاتو مقدمات چل رہے ہیں یا اُن کے فیصلے ہو چکے ہیں یا اُنہیں سزائیں ہو چکی ہیں۔ آپ ممبران قومی و صوبائی اسمبلیوں کو چھوڑیں چند ماہ قبل اقتدار میں آنے والی پی ڈی ایم کی مرکزی حکومت کو دیکھ لیں کہ اس میں بیشتر وزراءپر مختلف نوعیت کے بے شمار مقدمات درج ہیں۔ حلف اٹھانے سے پہلے جن کے خلاف مقدمات درج ہیں ان میں وزیر اعظم میاں شہباز شریف سرفہرست ہیں اور ان پر منی لانڈرنگ کا مقدمہ درج ہے۔ اس مقدمے میں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز بھی نامزد ہیں اور ان پر حلف اٹھانے سے دو روز بعد ہی لاہور کی متعلقہ عدالت میں فرد جرم عائد کی جانی تھی۔ ان پر نیب کے مقدمات بھی ہیں جن میں آشیانہ ہاو¿سنگ سکیم اور صاف پانی کی سکیم شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جن وفاقی وزرا پر نیب کے مقدمات ہیں اور وہ ان دنوں ضمانتوں پر ہیں، ان میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی احسن اقبال، وفاقی وزیر برائے ریلوے خواجہ سعد رفیق کے علاوہ وفاقی وزیر سید خورشید شاہ شامل ہیں۔اور پھر ان سب سے بڑھ کر جن وفاقی وزرا کے خلاف فوجداری مقدمات درج ہیں، ان میں ایاز صادق، خرم دستگیر، رانا ثنا اللہ، شاہ زین بگٹی، عبدالقادر پٹیل اور رانا تنویر حسین شامل ہیں۔وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات کی سمگلنگ جبکہ ایاز صادق اور رانا تنویر حسین پر پاکستان مسلم لیگ نواز کی نائب صدر مریم نواز کی نیب میں پیشی کے موقع پر نیب کی عمارت اور پولیس اہلکاروں پر حملے کا مقدمہ درج ہے۔ چلیں آپ ان کو چھوڑیں آپ سابق حکومتی پارٹی یعنی تحریک انصاف کو دیکھ لیں ، اُن کی کابینہ میں شامل متعدد افراد کے خلاف مقدمات بھی درج تھے اور یہ تمام مقدمات ضابطہ فوجداری دفعات کے تحت درج کیے گئے تھے۔ ان میں موجودہ صدر پاکستان کے علاوہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے اہم ارکان شامل ہیں۔ ان ارکان میں سابق وفاقی وزیر دفاع پرویز خٹک، سابق وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شریں مزاری، سابق وفاقی وزیر شفقت محمود کے علاوہ پنجاب کے سابق صوبائی وزیر علیم خان اور شوکت یوسفزئی کے علاوہ متعدد رہنما شامل تھے۔ ان افراد کے خلاف پی ٹی آئی کے اسلام آباد دھرنے کے دوران پارلیمنٹ ہاو¿س پر حملہ، پی ٹی وی کی عمارت پر حملہ اور پولیس کی تحویل سے لوگوں کو آزاد کروانے کے مقدمات درج تھے۔ موجودہ صدر عارف علوی سمیت ان افراد کو چند ہفتے پہلے ہی دو مقدمات سے بری کیا گیا ہے۔ پھر آپ پیپلزپارٹی کو دیکھ لیں یا چلیں سندھ کو دیکھ لیں جہاں پیپلزپارٹی گزشتہ 13سال سے اقتدار میں ہے، وہاں کے ممبران صوبائی اسمبلی کا تو اللہ ہی حافظ ہے، ڈاکٹر عاصموں، شرجیل میمنوں، انور مجیدوں کا، سندھ نعروں، وعدوں، دعوﺅں کا قبرستان بن چکا، سندھ کرپشن کا گڑھ ہوا، سندھ بیڈ گورننس کا شہکار ٹھہرا، حتیٰ کہ لاڑکانہ ابلتا گٹر مگر بیک وقت بھٹو، زرداری، بلاول کو تقریروں سے فرصت نہیں، گلابی اردو، شتابی لہجہ، گلا پھاڑ دھمکیاں، ہنس ہنس کر پیٹ درد ہو جائے، پچھلے 13سالوں سے ارب پتی بلاول تقریریں ٹھوکی جا رہا، سندھ اور سندھیوں کیلئے ایک کام بھی نہ کیا۔ بقول شاعر اک ہجرت کی آوازوں کا کوئی بین سنے دروازوں کا زکریا پیڑوں کی مت سن یہ جنگل ہے خمیازوں کا بہرکیف یہ ہمارے سیاستدانوں کی مختصر سی کرپشن کہانیاں ہیں، پھر بھی اگر آپ انہیں ہر بار اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر اس ملک کا اللہ ہی حافظ ہے، لہٰذااگر یہاں کے اداروں کو بھی تھوڑی سی فرصت ملے تو یہ بھی ایسا فیصلہ جاری کر سکتے ہیں کہ ہمارے اراکین اسمبلیوں کا بھی کریمنل ریکارڈ سوشل میڈیا پر یا اخبارات میں شائع کیا جائے تاکہ عوام کو آسان انداز میں اپنے رہنماﺅں کے حوالے سے پتہ چل سکے اور وہ بہتر فیصلہ کر سکیں کہ کونسا اُمیدوار اُن کے لیے بہتر ہوگا!