جنت نظیر وادی سوات میں ایک بار پھر ”طالبانی“سائے!

چند روز سے ان خبروں نے خاصا مایوس کر رکھا ہے کہ ”ٹی ٹی پی کے سینکڑوں کی تعداد میں مسلح لوگوں نے سوات کا رُخ کیا ہے اور سوات کے پہاڑوں میں موجود ہیں۔“سمجھ نہیں آرہا کہ سوات کا کوئی بارڈر افغانستان کے ساتھ منسلک نہیں ہے تو پھر سینکڑوں مسلح لوگ کیسے سوات پہنچ گئے؟ ویسے تو اس حوالے سے آئی ایس پی آر کی وضاحت بھی آ چکی ہے کہ سوات میں طالبان کا وجود نہیں۔ مگر وہاں کے رہائشیوں کا احتجاج، مالم جبہ کا خالی ہوجانا، ٹور ازم آپریٹرز کی بکنگ کینسل کردینا اور پولیس کا طالبان کی سوات اور مٹہ میں موجودگی کا اعتراف کرنا ، وزیر دفاع خواجہ آصف کا اس حوالے سے اعتراف کرنا اور پھر سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک ویڈیو جس میں ڈی ایس پی سرکل پیر سید اور 2پاک آرمی سے تعلق رکھنے والے آفیسرز جنہیں مسلح افراد نے یرغمال بنایا ہوا تھا۔ جیسے ثبوتوں سے تو یہ بات اتنی آسان نہیں لگتی جتنی بتائی جا رہی ہے۔ لہٰذایہ تمام واقعات ان شکوک و شبہات میں اضافہ کرتے ہےں کہ ٹی ٹی پی اور ریاست کے درمیان مذاکرات کے نام پر کہیں نہ کہیں کھچڑی پک رہی ہے۔ اور سنا جا رہا ہے کہ ٹی ٹی پی کو اکا دکا ضلع تک محدود کردیا جائے، خدانخواستہ اگر ایسا ہوا کہ طالبان کو ایک یا دو اضلاع دے دیے جائیں ، تو پھر ہمارے سیکیورٹی ادارے یہ بات بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ لوگ پھر ایک دو ضلع پر نہیں رکیں گے اور یہ آگے بڑھتے چلے جائیں گے۔ کیوںکہ جب 2007ءمیں سوات مکمل ان کے قبضے میں آیا تھا تو اُس وقت بھی یہ لوگ اسلام آباد تک آگئے تھے۔ 2007یاد آیا ہے تو اُس وقت کے سوات کا ذکر بھی کرتا چلوں کہ یہ وہ دور تھا جب پاکستان(خاص طور پرسوات) میں طالبان پروان چڑھ رہے تھے۔ اور 2007ءمیں ضلع سوات پر طالبان کا مکمل قبضہ تھا۔ اُس وقت انہوں نے اپنی طرز کی شریعت کا نفاذ کرکے سوات میں عام آدمی کا جینا حرام کردیا تھا۔ اس سے قبل سکولوں ، مساجد، اور دیگر عبادت گاہوں کو بموں سے اڑا کر خوف وہراس کی فضا پیدا کی جارہی تھی۔ صورتحال اتنی زیادہ خراب وخستہ ہو چکی تھی کہ بادی النظر میں طالبان اسلام آباد پر بھی قبضہ کر سکتے تھے۔ یقین مانیں وہ مناظر آج بھی ہمیں یا د ہیں جب ضلع سوات میں اپنی ”حکمرانی“ کے دوران طالبان نے خواتین کو گھروں میں بند کردیا تھا، لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگادی تھی، اور بعض خواتین کو سرعام کوڑے مارے گئے تھے۔ بین الاقومی شہرت یافتہ ملالہ یوسف زئی کا واقعہ انہی دنوں پیش آیا تھا۔اُنہی دنوں چلاس کے قریب فیری میڈوس کے راستے میں 20سے زائد غیر ملکی سیاحوں کو مار دیا گیا تھا، پوری دنیا میں پاکستان بدنام ہو رہا تھا، ہمیں آج بھی وہ سکول کے بچے یاد ہیں، جن راستے میں ہی مار دیا جاتا تھا، ہمیں لڑکیوں کے جلتے سکول بھی نہیں بھولے، کہ گن گن کر 230سے زائد گرلز سکولوں کو آگ لگا دی گئی تھی، پھر مالم جبہ میں پی ٹی ڈی سی کے ہوٹلز کا آگ لگانا کوئی کیسے بھول سکتا ہے؟ کیسے کوئی بھول سکتا ہے کہ وہاں کے مقامی فنکاروں کو چن چن کر قتل کیا گیا، اور پھر یہی نہیں سوات سے نکل کر خود کش حملہ آور روزانہ کی بنیاد پر پورے ملک پر حملے کر رہے تھے۔ ان حالات کو خراب کرنے میں ملا فضل اللہ کا بہت بڑا ہاتھ تھا، اس گروپ نے جتنے ظلم کیے کیا اُنہیں بھلایا جا سکتا ہے؟ زمرد کی کانیں تک اُن کے پاس تھیں، جگہ جگہ اپنی چھاﺅنیاں قائم کرکے عوام کو حراساں کیا جاتا تھا۔ پھر پاک فوج نے آپریشن راہ حق کا آغاز کیا، کھربوں روپے ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں جانوں کا نذرانہ پیش کرکے ان سے جان چھڑوائی گئی اور پھر کہیں جا کر ہمیں سوات واپس ملا تھا۔ اس واقعہ کے بعد نہ تو کہیں اس حوالے انکوائری قائم ہوئی، نہ یہ پتہ چلانے کی کوشش کی گئی کہ ریاست کے اندر ایک ریاست اچانک کیسے قائم ہوگئی، اگر انکوائری ہو جاتی تو پتہ چل جاتا کہ سوات کس نے دیا ، کیوں دیا؟ اور افغانستان سے طالبان لا کر یہاں کیوں بسائے گئے؟ خیر یہ تو ایک الگ موضوع ہے مگر اب جبکہ وطن عزیز ایک نئی پریشانی کا سامنا کرنے والا ہے تو نہ جانے ہم نے کیوں کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لی ہیں کہ بقول شاعر علامہ اقبال آگ ہے اولادِ ابراہیم ہے نمرود ہے کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے لہٰذااللہ کرے کہ آئی ایس پی آر جیسا کہہ رہی ہے ویسے ہی حالات ہوں، اور سوات میں طالبان محض افواہوں کا ہی نتیجہ ہو۔ لیکن اگر حالات اس کے برعکس ہوئے تو یہ پہلے سے زیادہ تباہی کا باعث بنے گا، وہاں کے عوام پہلے ہی ظلم سہتے سہتے کئی نسلیں تباہ کر چکے ہیں، ابھی تو گزشتہ روز وہاں پر طالبان کے خلاف عوام نے احتجاج بھی کیا ہے، اور کہا ہے کہ ہم سے مزید کتنی قربانیاں درکار ہیں،وہاں کی سیاحت تو طالبان کے نام سے ختم ہو کر رہ گئی ہے، مالم جبہ تو خبر کے پھیلتے ہیں خالی ہوگیا تھا۔ مطلب اگر اللہ اللہ کرکے وہاں پر سیاحت کا آغاز ہوا ہی ہے، لوگ تھوڑا بہت خوشحال ہونا شروع ہوئے ہی ہیں، لوگ وہاں بلا جھجک آنا جانا شروع ہوئے ہیں تو وہاں طالبان کے چند ایک جتھے لا کر بٹھا دیے گئے ہیں ۔ حقیقت میں ہمیں اُن عناصر کو ڈھونڈنے کی ضرورت ہے کہ جو پاکستان کو پرامن نہیں دیکھنا چاہتاکہ جب بھی پاکستان تھوڑا بہت خوشحال ہونا شروع ہوتا ہے تو اس قسم کی بدگمانیاں پیدا کرنا شروع کردی جاتی ہیں۔ مغرب پہلے ہی ہم پر الزام لگاتا ہے کہ افغانستان میں ایک سال پہلے جو کچھ ہوا اُس میں پاکستان کا پورا ہاتھ تھا، اور ہمارے خفیہ ادارے کے لوگوں کی تصاویر بھی بین الاقوامی سطح پر نشر کی گئیں کہ جو افغان شورش کے فوری بعد کابل میں چائے نوشی سے لطف و اندوز ہو رہے تھے۔ لہٰذااگر یہ افغان طالبان کی سپورٹ سے سب کچھ ہو رہا ہے تو یہ یقینا اُس سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیوں کہ ہم کسی اور آگ سے نہیں بلکہ سورج کے شعلوں سے دھکتی ہوئی آگ سے کھیل رہے ہیں۔ البتہ افغان طالبان توکہہ چکے کہ ٹی ٹی پی، پاکستان کا مسئلہ ہے لیکن انہوں نے یہ بھی یقین دہائی کرائی تھی کہ ان کی سرزمین سے پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف کاروائی کی اجازت نہیں دی جائے گی۔لیکن کیسے یقین کیا جاسکتا ہے اور پھر پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ آج تک ان سے جتنے بھی معاہدے کیے گئے وہ پورے نہ ہوسکے۔ 2004 میں سب سے پہلے مذاکرات نیک محمد گروپ سے کئے لیکن چند مہینوں بعد ہی معاہدہ ختم ہوگیا۔2006 میں ٹی ٹی پی کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود سے معاہدہ بھی ناکام رہا، 2007میں مولانا صوفی محمد کے داماد مولانا فضل اللہ جو اس وقت ہر دم پاکستان مخالف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اسی سال اسلام آباد میں لال مسجد آپریشن کے بعد سوات کے شدت پسند متحرک ہوئے اور مولانا فضل اللہ نے سیکیورٹی فورسز کے خلاف حملوں کا اعلان کر دیا،15جولائی 2007کوسوات میں پہلا خود کش حملہ ہوا جس میں 13ایف سی اہلکار اور 6شہری شہید ہوئے اسی سال فضل اللہ نے شرعی عدالتیں قائم کر دیں،نومبر میں جنرل پرویز مشرف کے حکم پر فوج نے سوات کو شدت پسندوں سے پاک کرنے کے لئے آپریشن راہ نجات کے تحت فوج داخل کر دی اپریل2008 میں امام ڈھیرئی جو کہ فضل اللہ اور اس کے ساتھیوں کا ہیڈ کوارٹر تھا پر فوج نے قبضہ کر لیا بعد میں اے این پی نے شدت پسندوں کے ساتھ 21نکاتی امن معاہدہ کیا جو کامیاب نہ ہوا۔ دسمبر میں ایک بار پھر شدت پسندوں نے سوات کے 75فیصد حصہ پر قبضہ کر لیا جس پر فوج نے ”راہ حق“ 2آپریشن کا آغاز کیا لیکن سرحدی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے وہ زیادہ کامیاب نہ ہوا اور فرور ی 2009میںنظام عدل پر آمادگی ظاہر کی اور یوں صوبائی حکومت نے کالعدم تحریک نفاذ شریعت محمدی کے مولانا صوفی محمد کے ساتھ دستخط کیے ،اسی آڑ میں شدت پسند پہلے تویہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے مگر بعد میں تازہ دم ہو کر اس علاقے میں پھر سے متحرک ہو گئے،پھر 2014 میں ایک بار پھر ٹی ٹی پی سے مذاکرات ہوئے لیکن یہ بیل بھی منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ پھر سابقہ حکومت تحریک انصاف کے ساتھ بھی ٹی ٹی پی کے مذاکرات جاری رہے، مگر یہ خفیہ رکھے گئے ۔ بہرکیف سوات جسے پاکستان کا سوئٹرزلینڈ بھی کہا جاتا ہے دارلحکومت اسلام آباد سے شمال مشرق کی جانب محض254کلومیٹر اور پشاور سے 170کلومیٹر دوری پر ہے جس کا رقبہ5337مربع کلومیٹر ہے اس کے شمال میں چترال ،جنوب میںبونیر ،مشرق میں شانگلہ ،مغرب میں ضلع دیر اور مالا کنڈ ایجنسی کے علاقے اور جنوب مشرق میں سابق ریاست امب کا خوبصورت علاقہ واقع ہے،دنیا اس خطے کو سکیٹنگ کی دنیا کے نام سے جاننا شروع ہو چکی ہے، ہر سال گرمیوں کے آغاز میں یہاں کم و بیش 2لاکھ سے زائد ملکی و غیر ملکی سیاح اسکیٹنگ سے لطف و اندوز ہونے اور جنت نظیر وادی کو آنکھوں میں سمونے کے لیے آتے ہیں۔ لیکن اب جب یہاں شرپسند عناصر کی موجودگی کی خبریں دنیا بھر میں پھیل رہی ہیں ، اور میں آج کل امریکا میں فیملی کے ساتھ موجود ہوں تو میرے بچے بھی مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ آخر کون ہے جو پاکستان کا اصل دشمن ہے؟ کون پاکستان میں طالبان کو دعوت دے کر وطن عزیز کو ایک بار پھر دنیا کے ریڈار پر لانا چاہ رہا ہے۔ لہٰذاخدارا! اس ملک پر رحم کھائیے، اور ٹی ٹی پی کو ذرا سی بھی چھوٹ دینے کے بارے میں نہ سوچیں، کیوں کہ یہاں چھوٹ دینے کا مطلب سب کچھ دینا ہوتا ہے بالکل اُسی طرح جس طرح کالعدم لشکر طیبہ کو تھوڑی سی چھوٹ دی تھی تو انہوں نے لاہور جیسے شہر میں اپنی عدالتیں لگانا شروع کر دی تھیں، اُن سے جان چھڑانا مشکل ہوگیا تھا، اور پھر جیسے ہی ہم تحریک لبیک کو تھوڑا سا موقع فراہم کرتے ہیں تووہ پورے ملک کا حشر نشر کر دیتا ہے۔ بالکل یہ بھی ویسا ہی کریں گے، اس لیے ان سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے ورنہ پاکستان مزید ناکام ہو جائے گا!