کیا امریکا اور چین بھی جنگ کے قریب ہیں؟

روس اور یوکرین کی جنگ نے جتنا دنیا کو نقصان پہنچایا ہے ، جدید جنگوں میں شاید ہی کسی جنگ میں اتنا نقصان پہنچا ہوگا۔ اس جنگ میں اگر امریکا یوکرین کا ساتھ نہ دیتاتو شاید روس یوکرین کو کب کا پچھاڑ چکا ہوتا ،لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اس کے اثرات پوری دنیا میں دیکھے جا رہے ہیں۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں، مہنگائی ہر ملک کا مسئلہ بنا ہو ا ہے، روس پر امریکی پابندیوں کے بعد عالمی تجارت کو بھی شدید نقصان پہنچا ہے، یوں لگتا ہے جیسے دنیا بھر میں توانائی کا بحران پیدا ہو چکا ہے۔ اور فی الوقت یہ بھی کہنا ممکن نہیں کہ یہ جنگ کب تک رہے گی اور اس کا خاتمہ کیسے ممکن ہوگا۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ابھی روس یوکرین جنگ ختم نہیں ہوئی تھی کہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں امریکا اور چین کے درمیان تائیوان کو لے کر نئی ”سرد جنگ“ نے جنم لے لیا۔ ایک طرف امریکا تائیوان کو چین سے ”آزادی“ دلانا چاہتا ہے جبکہ دوسری طرف چین امریکا کو انتباہ کر رہا ہے کہ تائیوان اُس کا حصہ ہے اور امریکی مداخلت آگ سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ میں چونکہ آج کل ایک بار پھر امریکی یاترا پر ہوں تو یہاں عام عوام دوبڑی طاقتوں کے درمیان اس ممکنہ جنگ کو لے کر خاصے پریشان دکھائی دے رہے ہیں، اور امریکا میں پہلے ہی خاصی مہنگائی ہو چکی ہے اور اس ممکنہ جنگ کے بعد جوبائیڈن حکومت مزید مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ خیر یہ سرد جنگ اُس وقت شروع ہوئی جب امریکا نے سپیکر نینسی پلوسی کے دورہ تائیوان کا اعلان کیا۔ یہ 25برس بعد کسی بھی اعلیٰ امریکی عہدیدار کا دورہ امریکا تھا۔ اس دورے کی حساسیت اس قدر تھی کہ چین کے امریکا کے بحری بیڑے آمنے سامنے آگئے تھے۔ امریکی سپیکر جب تائیوان کے ائیرپورٹ پر اتریں تو چینی حملے کا خطرہ بھانپتے ہوئے ائیرپورٹ سمیت تمام گردونواح کی لائیٹس بجھا دی گئی تھیں۔ کئی بار فلائیٹ کا رخ موڑا گیا، ٹریکنگ ویب سائیٹ کے مطابق اس فلائیٹ کو تین لاکھ لوگوں نے لمحہ بہ لمحہ چیک کیا۔ لیکن اسے چینی ناکامی سمجھیں یا کچھ اور مگر 82سالہ امریکی سپیکر نینسی پلوسی نے تائیوان پہنچنا تھا تو وہ پہنچ گئیں۔ اور پہنچتے ہیں تقریر کی کہ تائیوان کی آزادی کو کوئی نہیں روک سکتا وغیرہ۔ مزید آگے چلنے سے پہلے اگر ہم چین تائیوان مسئلہ پر نظر ڈالیں تو تائیوان ایک جزیرہ ہے اور عالمی سیاسیات کے تناظر میں ری پبلک آف چائنا کا حصہ ہے۔ اس کے مغرب میں چین، شمال میں جاپان اور جنوب میں فلپائن ہیں۔ اس کا رقبہ 36ہزار مربع کلومیٹر ہے اور آبادی تقریباً اڑھائی کروڑ ہے۔اس کے اردگرد بہت سے چھوٹے چھوٹے جزیرے بھی ہیں۔ اس کی آبادی میں 21فیصد بدھ، 5فیصد عیسائی، ایک فیصد مسلمان اور باقی لامذہب لوگ ہیں۔ امریکہ نے اس کو ہر طرح کی دفاعی قوت (بری، بحری اور فضائی) سے مسلح کر رکھا ہے۔ لیکن چین کے مقابلے میں تائیوان محض ایک ”خار و خس“ ہے جس کو چین جب چاہے حملہ کرکے اپنے قبضے میں لے سکتا ہے۔ تاہم فی الحال چین اپنی ابھرتی ہوئی فوجی قوت کو امریکہ اور اس کے حواریوں کے جوابی حملوں سے ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ اگر ہم تاریخی حوالے سے بات کریں تو کشور مہبوبنی کی کتاب Has China Wonکے مطابق تائیوان اور چین کا مسئلہ آج کا نہیں بلکہ صدیوں پرانا ہے۔ جب تائیوان چین کا ہی علاقہ تھا لیکن جاپان کے ساتھ 1894 سے 1895 تک ہونے والی جنگ کے بعد چین کو تائیوان سے دستبردار ہونا پڑا۔مغربی طاقتوں نے چین کو تائیوان کے معاملے پر کئی بار دھوکہ دیا۔لہٰذاچین نے یہ اخذ کیا کہ یہ نئے علاقے بشمول تائیوان اس کے حصے میں آئیں گے کیونکہ چین نے ایک لاکھ شہریوں کو یورپ میں برطانیہ اور فرانس کی مدد کے لیے بھیجا تھا۔ لیکن یہ علاقے چین کے بجائے جاپان کو دے دیے گئے، مغربی اتحادیوں نے چین اور جاپان دونوں سے بیک وقت خفیہ معاہدے کیے تاکہ انہیں مغرب کا اتحادی برقرار رکھا جائے۔اس کے بعد چین کو احساس ہوگیا کہ مغربی ممالک نے اس کے ساتھ دھوکہ کیا ہے، 4 مئی 1919 کو چین میں بہت بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔چینی قوم کے حافظے میں ’4 مئی تحریک‘ کی یادیں اب بھی محفوظ ہیں، اسی لیے امریکا یا کسی بھی مغربی ملک کی طرف سے تائیوان کو چین سے علیحدہ کرنے کی کوشش اُن تاریخی یادگاروں کو دوبارہ تازہ کر دیتی ہے۔ جنگ عظیم اول کے اختتام پر چین کو امریکا اور برطانیہ کی طرف سے یقین دہانی کروائی گئی کہ ورسائی امن کانفرنس کے دوران تائیوان چین کو واپس کر دیا جائے گا۔ورسائی معاہدوں کے تحت جرمنی کو اپنی دیگر نوآبادیوں کے ساتھ ساتھ چینی سرزمین پر موجود اپنے علاقوں سے دستبردار ہونا تھا۔پھر1949 کی افیونی جنگ کے دوران چین نے بھاری نقصان اٹھایا تھا۔ جس کی تمام تاریخی نشانیوں کو چین نے یا تو ختم کردیا یا حل کردیا، جیسا کہ ہانگ کانگ اور مکاو¿ کے علاقے لیکن تائیوان کا قضیہ حل نہ ہوسکا۔ بہرحال تائیوان دنیا کا واحد ملک ہے جس کی حاکمیت کا تنازعہ چین اور امریکہ کے درمیان گلے کی پھانس بنا ہوا ہے۔ تائیوان اقوام متحدہ کا رکن نہیں اور مغربی دنیا بھی ”وَن چائنا“ پالیسی کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے۔ جب چین کو 1949ءمیں ایک آزاد ملک کی حیثیت دی گئی تھی اور اسے اقوام متحدہ کا رکن بنا لیا گیا تھا تو چین کا حقِ حکمرانی تائیوان پر بھی تسلیم کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد چین کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن تسلیم کر لیا گیا، وہ ایک جوہری قوت بھی بن گیا اور تب سے لے کر اب تک چین نے فوجی اعتبار سے اتنی ترقی کر لی ہے کہ وہ دنیا کی تیسری بڑی طاقت (امریکہ اور روس کے بعد) بن چکا ہے۔ لیکن ابھی تک چین عسکری قوت کے تناظر میں اس مقام تک نہیں پہنچ سکا جہاں امریکہ اور روس پہنچے ہوئے ہیں۔ لیکن آج نہیں تو آنے والے کل میں چین کو نہ صرف امریکہ کی ہمسری حاصل ہو جائے گی بلکہ وہ دنیا کا عظیم ترین ملک بھی بن جائے گا۔پھر 70 کی دہائی میں رچرڈ نکسن کی صدارت کے دوران اس وقت کے امریکی سیکرٹری خارجہ ہینری کسنجر نے چین کے ساتھ مصالحت کا عمل شروع کیا۔1972 کو ایک مشترکہ بیان میں امریکا نے تسلیم کیا کہ ’تائیوان چین کا حصہ ہے، امریکی حکومت اس حیثیت کو چیلنج نہیں کرتی، ہم چاہتے ہیں کہ چین خود ہی تائیوان معاملے کا پرامن حل نکالے‘۔ یہ بہت قابل ذکر بات ہے کہ چین کی تمام حالیہ حکومتوں نے اپنی پچھلی پالیسیز سے ہٹ کر تائیوان کے ساتھ تعلقات کو مستحکم کرنے کی کوشش کی ہے۔ 2008 میں ایک لاکھ 88 ہزار 744 تائیوانی شہری چین کی سیاحت کے لیے گئے جبکہ چین کے 3 لاکھ 29 ہزار 204 شہری تائیوان گئے۔ 2008 سے 2016 تک دونوں ممالک میں تعلقات بہتر ہوئے اور 2016 کے دوران 36 لاکھ تائیوانی شہری چین کی سیر کو گئے جبکہ 42 لاکھ کے قریب چینی شہریوں نے تائیوان میں سیاحت کی۔ خیر فی الوقت محترمہ نینسی کے تائیوان کے مجوزہ دورے نے دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ چین نے اس دورے کو اپنی علاقائی خود مختاری پر حملہ قرار دے کر اس کی مذمت پر بیانات کا ایک طویل سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ عالمی دانشور یہی سمجھتے تھے کہ محترمہ تائیوان نہیں جائیں گی۔لیکن دورہ ہو گیا ہے اور جو چین کے لیے قابل برداشت نہیں ہے اس لیے میرے خیال میں چین نے نینسی پلوسی کی تائیوان آمد پر جو بیانات دیئے تھے وہ اگرچہ کسی تیسری جنگ کا الٹی میٹم نہیں تھے لیکن دنیا یہی سمجھتی تھی کہ نینسی کا یہ دورہ امریکہ۔ چین چپقلش کو ٹیسٹ کرنے کا ایک لٹمس ہے۔ اس ٹیسٹ میں بظاہر چین کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے اور نینسی منگل کی شام تائیوان کے دارالحکومت تائی پی (Taipei) میں اتر چکی ہے اور اس کا استقبال بھی تائیوانی حکومتی حکام کی طرف سے کیا جا چکا ہے لیکن چین کی طرف سے ابھی تک تائیوان کے خلاف کسی زمینی، بحری یا فضائی حملے کی کوئی اطلاع نہیں ملی۔لیکن آبنائے تائیوان سے شروع کریں تو اس چھوٹے سے جزیرے کے محیط کو چھ حصوں میں برابر برابر تقسیم کرکے ہر حصے میں چینی بحری اور ہوائی جہاز زندہ ایمونیشن سے جنگی مشقیں کر رہے ہیں۔ شمال میں جاپان ہے جو امریکہ کا اتحادی اور چین کا حریف ہے۔ اس کی سرزمین پر امریکہ نے اپنے جدید ترین لڑاکا طیاروں کے کئی سکواڈرن صف بند کر رکھے ہیں۔ لیکن وہ چینی جنگی مشقوں کے جواب میں کوئی جنگی مشق نہیں کر رہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ امریکہ نہیں سمجھتا کہ چین، تائیوان پر حملہ کرے گا اور نینسی کے دورہ تائیوان کے جواب میں تائیوانی فضاو¿ں، سمندروں یا زمینوں کے کسی حصے پر یلغار کرے گا۔ لہٰذااس وقت عالمی طاقتوں کو سمجھداری سے کام لینے کی ضرورت ہے اور تائیوان کے مسئلے پر چین اور امریکا دونوں کو لچک دکھانے کی ضرورت ہے۔ اور خاص طور پر امریکا کو کیوں کہ عالمی میڈیا میں ایسی رپورٹس منظرعام پر آئی ہیں کہ تائیوان کی موجودہ قیادت ون چائنہ کو تسلیم کرچکی ہے اور اپنے آپ کو بطور خودمختار ملک تائیوان متعارف کرانے میں زیادہ سنجیدہ ہے، حالیہ پیش رفت اس امر کی عکاسی کرتی ہے کہ کچھ عالمی قوتوں کی جانب سے خطے میں نئی صف بندیوں کا عمل جاری ہے،خدشہ ہے کہ اگرعالمی سپر طاقتوں کی باہمی چپقلش کے نتیجے میں کسی نئی جنگ کے شعلے ہمارے پڑوس میں بڑھکتے ہیں تو اسکے منفی اثرات لامحالہ پاکستان پر بھی پڑیں گے، جو پہلے ہی گزشتہ 21سالوں سے نام نہاد جنگ میں جھونک دیے گئے ہیں۔ہمیں اس حوالے سے خارجہ محاذ پر بہت سمجھداری، احتیاط اور دوراندیشی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ورنہ موجودہ حکومت بھی عمران حکومت کی طرح بری طرح پھنس جائے گی کہ وہ کس کا ساتھ دے اور کس کا نہ دے!