مارشل لاءملک کےلئے تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے!

سیدھی اور صاف بات ہے کہ موجودہ حالات میں ”نئی حکومت“ کے علاوہ اب کو ئی آپشن نہیں بچا، یہ حکومت جتنی دیر چلے گی ملک اتنا ہی مسائل کی دلدل میں پھنستا چلا جائے گا، پھر صورتحال شاید یہ ہو جائے کہ ملک کو اس صورتحال سے نکالنے کے لیے جلد یا بدیر خدانخواستہ مارشل لاءلگانا پڑ جائے۔ اور پھر ہماری تاریخ مارشل لاءکے حوالے سے اچھی نہیں رہی کیوں کہ پہلے مارشل لاءنے مشرقی پاکستان کو ہم سے الگ کر دیا، دوسرے نے سیاچن بھارت کو دیا، جہادی پیدا کیے اور ساتھ کلاشنکوف کلچر متعارف کروایا، جبکہ تیسرے نے سوات طالبان کے حوالے کیااور کارگل محاذ کھویا۔ خیر اس پر تو بعد میں بات کرتے ہیں مگر اس وقت موجودہ صورتحال میں پورا ملک نازک صورتحال سے گزر رہا ہے۔ وفاق ایک سیٹ پر اٹکا ہوا ہے، جو کسی بھی وقت چھوٹے سے جھٹکے کی نذر ہو سکتا ہے۔ پنجاب کی وزارت کا فیصلہ عدالت عظمیٰ کے پاس ہے جس کی تادم تحریر سماعت جاری ہے۔اس سماعت کا حکومتی اتحاد بائیکاٹ کر چکا ہے، فل کورٹ بینچ کا مطالبہ کیا جارہا ہے، جسے سپریم کورٹ یکسر مسترد کر چکی ہے۔ ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے خلاف تحریک انصاف کی درخواست میں فریقین بڑھتے جارہے ہیں، یعنی حالات کو اس قدر بگاڑاجا رہا ہے کہ جے یوآئی جیسی جماعت جس کی پنجاب میں کوئی سیٹ نہیں وہ بھی اس درخواست کی فریق بننا چاہتی ہے اور اس کے لیے سپریم کو رٹ پر دباﺅ بڑھا رہی ہے۔ جبکہ دوسری طرف ملکی معیشت تباہ ہو رہی ہے، ڈالر 233کا ہو چکا ہے، اسٹاک مارکیٹ گزشتہ پانچ سال پہلے کی پوزیشن سے بھی خراب ہو چکی ہے۔ لہٰذااس وقت سیاسی ماہرین یہ اندازہ لگا رہے ہیں کہ ملک مارشل لاءکی طرف بڑھ رہا ہے، اگر خاکم بدہن ایسا ہوا تو پھر یہ ایک دو سال کے لیے نہیں بلکہ 10، 20سال کے لیے آئے گا۔ اور پھر اگر آپ ماضی کی بات کریں تو پاکستان میں یہ چکر 1958سے جاری ہے۔7اکتوبر 1958ءکو پاکستان کے صدرمیجر جنرل (ر) سکندر مرزا نے ملک گیر مارشل لاءلگاتے ہوئے 1956ءکے آئین کو معطل کیا۔ وزیراعظم ملک فیروز خان نون اور دو وزرائے اعلیٰ ، وزیراعلیٰ مغربی پاکستان نواب مظفرعلی قزلباش اور وزیراعلیٰ مشرقی پاکستان عطاالرحمان اور ان کی کابیناو¿ں کو برطرف کیا البتہ دونوں گورنرز ، ذاکر حسین اور سلطان الدین احمد اپنے اپنے عہدوں پر برقرار رہے۔ ایک قومی اسمبلی اور دو صوبائی اسمبلیاں توڑیں۔ سیاسی پارٹیاں توڑیں اور سیاسی سرگرمیوں پر پابندی لگا کر آرمی چیف جنرل محمد ایوب خان کو مارشل لاءایڈمنسٹریٹر مقرر کر دیا تھا۔ اختیارات ، آرمی چیف کے سپرد کرنے کے باوجود سکندرمرزا ، صدارت سے چمٹے رہے لیکن 27 اکتوبر 1958ءکو انھیں اس ”زحمت“ سے بچا کر ملک بدرکردیا گیا تھا۔اس مارشل لاءکے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی قیادت کو باغی کر دیا گیا، محترمہ فاطمہ جناح کو بھی غدار قرار دیا گیا۔ جبکہ قائداعظم دور کی سیاسی قیادت کو پاکستان سے متنفر کردیا گیا۔ پھر 5 جولائی 1977کو لگے مارشل لاءکی روداد سن لیں، جسے لگے ہوئے 40 سال گزر گئے لیکن اس کے مابعد اثرات آج بھی محسوس کئے جاسکتے ہیں دہشت گردی، انتہاپسندی اور جمہوری عدم استحکام کے خطرات ہنوز درپیش ہیں۔ فوجی آمر اپنے اقتدار کو طو ل دینے کے لئے کٹھ پتلی عدلیہ اور سیاست دانوں سے قانونی ہونے کی سند حاصل کرتے ہیں طویل فوجی حکمرانی کے نتیجے میں سامنے آنے والے سیاست دانوں کی کھیپ وژن اورنظریاتی وسعت سے محروم ہوتی ہے۔ ان میں نظام کو بہتر بنانے کا کوئی عزم اورجذبہ نہیں ہوتا۔ احتساب اورمواخذے کو ملک میں سیاسی وفاداریاں بدلنے کےلئے دباﺅ کے طور پر استعمال کیاگیا۔ 5جولائی 1977کو مارشل لاء نافذ کرتے وقت جنرل ضیاءالحق مرحوم نے دعویٰ کیا تھا کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک کی وجہ سے آخری حربے کے طور پر مارشل لاءلگایا گیا حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ڈیڈ لاک ختم ہونے پرمارشل لاءلگایاگیا جب پیپلزپارٹی کی حکومت اوراپوزیشن کے درمیان عبوری حکومت کے تحت 90روز میں تازہ انتخابات کرانے پر اتفاق رائے ہو گیا تھا۔ضیاءالحق نے 18اکتوبر 1977کو عا م انتخابات کرانے کا وعدہ کیا۔ان کے قریبی معاونین نے بتایا کہ پیپلزپارٹی ختم ہو چکی اور 9جماعتی اتحاد پی این اے سادہ اکثریت حاصل کر لے گا۔ جب ضیاءالحق نے چاہا کہ پی این اے ایک سیاسی جماعت کی شکل اختیار کرلے تو اس اتحاد میں شامل جماعتوں کے رہنماﺅں نے انہیں بتا دیا کہ ایسا ممکن نہیں۔ بھٹو کو جیسے ہی رہا کیاگیا۔ پیپلزپارٹی نے اپنی انتخابی مہم شروع کردی۔ جس سے ضیاءالحق اوران کی انتظامیہ گھبراگئی، انتخابات سے قبل ا نٹیلی جنس رپورٹس میں پیپلزپارٹی کی کامیابی اور بھٹو کے دوبارہ برسراقتدار آنے کی پیشنگوئی کی گئی۔ جس نے نہ صرف ضیاءالحق کی حکمت عملی کو تبدیل کیا اور پھر انہوں نے وہ راہ اختیار کی جس سے پاکستان آج تک سنبھل نہیں سکا وہ جانتے تھے بھٹو ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ انہوں نے دائیں اوربائیں بازو کے بھٹو مخالف سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ عدلیہ کو بھی اپنے ساتھ ملالیا۔ 4اپریل 1979کو ضیاءالحق نے تمام بین الاقوامی اپیلوں کو نظرانداز کرتے ہوئے بھٹو کو پھانسی دیدی۔5جولائی 1977اور 4اپریل 1979کے درمیان پیپلزپارٹی کے ہزارو ں کارکنوں اوراکثررہنماﺅں کو بدترین مظالم کا نشانہ بنایاگیا ، پھانسیاں دی گئیں، کوڑے لگائے گئے اور ان پر تشدد کیاگیا۔ پی این اے میں شامل کچھ جماعتیں جلد ہی سمجھ گئیں کہ انہیں بھٹو سے چھٹکارے کے لئے ضیاءالحق نےاستعمال کیا۔ بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد ضیاءالحق نے خود بھی پی این اے کی اکثر جماعتوں سے کنارہ کرلیا۔ اسلام کے نام پر اپنی طرز کا سیاسی نظام متعارف کرایا نظریہ ضرورت کے نام پر عبوری آئینی حکم نامے (پی سی او) ججوں سے عدالتی جوازملنے کے بعد 1984میں ضیاءالحق نے سندھ میں اپنے خلاف تحریک کوکچل دیا۔الغرض 1979میں ایران کے انقلاب اور1980میںافغانستان میں سوویت یونین کی فوجی مداخلت ضیاءالحق کے لئے نعمت غیر متوقع ثابت ہوئی۔ امریکیوں کوسوویت یونین کا توڑ کر نے کیلئے پاکستانی سرزمین کی ضرورت تھی۔ اس نے سوویت یونین کےخلاف جنگ کو”جہاد افغانستان“ کانام دیا۔ اس کے بدلے پاکستان کو امریکا سے بھاری فوج اورمالی امداد ملی۔ تب ضیاءالحق نے جماعت اسلامی کو اپنے اقتدار کے لئے خطرہ سمجھا۔اور اُسے بھی سائیڈ لائن کردیا۔ اور 11سالہ اقتدار کا ”ثمر“ گن کلچر، جہاد، بے امنی اور غیر سیاسی شخصیات کی سیاست میں انٹری کی صورت میں نکلا جس کے اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ پھر آپ مشرف مارشل لاءکی بات کرلیں جو 1999ءمیں لگااور 2008تک قائم رہا۔ 12 اکتوبر 1999ءکی مجموعی بغاوت کو بھی سانحہ ہی سمجھتا ہوں کیونکہ ایک منتخب سویلین حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہونے والے فوجی آمر جنرل پرویز مشرف نے وطن عزیز کے ساتھ سانحہ ہی بہا کیا تھا۔ ایک ایسا سانحہ جس کے مضمرات آج تک محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے نائن الیون کا واقعہ سرزد ہوگیا جس میں پاکستان دنیا بھر میں ”فرنٹ لائن“ اتحادی بن گیا۔ اور پھر مشرف نے ”سب سے پہلے پاکستان“ کا نعرہ لگا کر افغانستان میں امریکی حملے کو درست قرار دے کر افغان جنگ کو اپنے گھر لے آئے۔ اور سوات طالبان کا گڑھ بن گیا۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سوات میں نام نہاد ”شریعت“ نافذ کر دی گئی، ریاست کے اندر ریاست بن گئی۔ پھر پورے ملک میں دھماکے ہونے لگے، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا تھا کہ خودکش حملہ پاکستان کے کسی ضلع میں نہ ہوتا ہو۔ الغرض اس مارشل لاءکی بدولت پاکستان نے 70ہزار سے زائد قیمتی جانیں قربان کیں اور اربوں ڈالر کا نقصان اُٹھایا۔ قصہ مختصر کہ اب تک جتنے بھی مارشل لاءآچکے ہیں، کسی سے ملک کی بہتری نہیں ہوئی، کوئی مارشل ملک کے حق کے لیے بہتر نہیں رہا، پھر ہر مارشل لاءمیں عوام تک خبروں کے ذرائعوں کا گُم کر دیا جاتا ہے، خبریں ٹیمپر کر کے عوام تک پہنچائی جاتی ہیں، سخت قسم کے سینسر لگا دیے جاتے ہیں۔ کرپشن بڑھ جاتی ہے، لاقانونیت بڑھ جاتی ہے، ادارے من مرضیاں کرتے ہوئے عوام پر مسلط ہونا شروع ہو جاتے ہیں، دنیا آپ سے خفا ہوجاتی ہے، سرمایہ کار بھاگ جاتے ہیں، ملکی معیشت کا بھرکس نکل جاتا ہے، ملکی فیصلے ایک شخص کے ہاتھ میں چلے جاتے ہیں۔ لہٰذااسی لیے کہتے ہیں کہ بدترین جمہوری حکومت بھی مارشل لاءسے ہزار گنا بہتر ہوتی ہے۔ بہرحال اب کی بار اگر ایسے حالات ہوئے اور مارشل لا لگ گیا تو اُس کے برے نتائج ہوں گے اور یہ نتائج بہرحال ملک کی تین بڑی سیاسی جماعتوں کو بھگتنا پڑیں گے اور کیا یہ اس کے لیے تیار ہیں؟ اگر ہاں تو بسم اللہ اور پھر 20 سال کے لیے سیاست بھول جائیں اور اگر نہیں تو پھر ہر ایک کے مینڈیٹ کا احترام کرنا پڑے گا۔ میاں نواز شریف، زرداری کو آگے بڑھ کر عمران خان کے ساتھ ڈائیلاگ کرنا ہوگا، انھیں الیکٹورل ریفارمز آرمی چیف کی تقرری کا طریقہ کار اور اگلے الیکشن کے لیے اکٹھے بیٹھنے کی دعوت دینی چاہیے اور عمران خان کو یہ دعوت قبول کر لینی چاہیے کیوں؟ کیوں کہ یہ جمہوریت کے لیے آخری موقع ہے ہم نے اگر یہ بھی کھو دیا تو پھر ہمیں واپسی کے لیے لمبا سفر طے کرنا پڑے گا۔لہٰذاہمیں صرف یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مارشل لاءکوئی نظام نہ ہونے کی وجہ سے ملک کیلئے نقصان دہ اور بدحکمرانی کے مطابق ہوتا ہے۔اس سے ادارے تباہ وبرباد ہوجاتے ہیں اور نظام حکمرانی لڑکھڑا جاتا ہے!