لوگ پاکستان کو کیوں چھوڑ رہے ہیں!

جب آپ کے گھر میں غیر یقینی کی صورتحال ہو، بدامنی ہو،لاقانونیت ہو، کوئی سسٹم نہ ہو، کہیں انصاف نہ مل رہا ہو، اقربا پروری ہو اور پھر کہیں سے بہتری کی کوئی اُمید بھی نظر نہ آرہی ہو تو پھر آپ گھر چھوڑنے والوں کو کیسے روک سکتے ہیں؟ یہی حالات کچھ پاکستان کے نظر آرہے ہیں، یہاں تو پہلے ہی اشرافیہ بیرون ملک رہتی ہے اور جو رہے سہے سرمایہ کار اور کاروباری حضرات ہیں وہ بھی دوسرے ممالک میں شفٹ ہو رہے ہیں، اور پھر یہ معاملہ اس قدر پیچیدہ ہے کہ آپ جانے والوں کو قانونی اور اخلاقی طور پر روک بھی نہیں سکتے، کیوں کہ ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے اور اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ہر وہ اقدام کرے جو اُس کے لیے ضروری ہو۔ اور پھر حیران کن بات یہ ہے کہ خطے کے دیگر ممالک پاکستان کے حالات کو دیکھتے ہوئے نت نئے ”پیکجز“ متعارف کروارہے ہیں۔ یہی وہی مفادات کی گیم ہے جس کا اپنے کالموں میں بار بار ذکر کرتا رہا ہوں۔اس ”مفاداتی گیم “ پر دوبارہ آتے ہیں لیکن اُس سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ حقیقت میں ہو کیا رہا ہے؟ ایک انگریزی کہاوت ہے کہ one country's crisis provides opportunities for another یعنی کسی ایک ملک کے برے حالات دوسرے ملک دوسرے ممالک کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ جیسے دنیا جانتی ہے کہ آجکل پاکستان کے معاشی ، سیاسی اور امن و امان کے حالات کس قدر خراب ہیں تو اس کا فائدہ خطے کے دیگر ممالک سرمایہ دار پاکستانیوں کو اپنی طرف راغب کر کے اُٹھا رہے ہیں ۔ ان میں سرفہرست ترکی ہے! جی ہاں ہمارا دوست ملک ترکی! (ظاہر اپنے ملک میں سرمایہ داروں کو راغب کرنے کا ہر ملک کا حق ہوتا ہے اس لیے ترکی سے ہمیں کوئی گلہ نہیں، لیکن اس کے برعکس ہم اپنی پالیسیوں کا رونا ضرور رو سکتے ہیں)۔ آج کل آپ نے پاکستان میں ترکی میں سرمایہ کاری کے اشتہارات تو دیکھے ہی ہوں گے، وہ پاکستانیوں کے لیے خصوصی پیکجز متعارف کروارہے ہیں،اور اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔ اور پھر گزشتہ چند سالوں میں ترکی نے جس انداز میں پاکستان کے اندر اپنا عوامی Influenceپیدا کیا ہے اُس کی مثال نہیں ملتی۔ یعنی جیسے ہی انڈین ڈراموں پر یہاں پابندی لگی ، ترک فلم اور ڈرامہ انڈسٹری نے پاکستان میں اپنی جگہ بنانا شروع کردی، اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ عمل سرکاری سطح پر بھی ہونے لگا اور پھر سب نے دیکھا کہ سابقہ حکومت نے ترک ڈرامہ سیریل ”ارتغرل “ کو دیکھنے کے لیے عوام سے ”اپیل“ بھی کی۔ جس کا اثر یہ ہوا کہ 90فیصد پاکستانی سلطنت عثمانیہ سے روشناس ضرور ہوگئے۔ اسے ہم سائنسی زبان میں کلچر Dominentبھی کہہ سکتے ہیں۔ یعنی ترک کلچر کے پاکستان میں آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ آج ہر پاکستانی ترکی جانے کی خواہش رکھتا ہے، جس سے ناصرف ترکی کی سیاحت کو فروغ ملا بلکہ گزشتہ چند سالوں میں ڈھائی لاکھ پاکستانیوں نے وہاں مستقل سکونت بھی اختیار کی۔ اور پھر ترکی نے پاکستانیوں کو راغب کرنے کے لیے ایسے ایسے پیکجز متعارف کروائے کہ آپ وہاں جانے سے انکار ہی نہیں کر سکتے۔ مثلاََ انہوں نے پاکستانیوں کے لیے سادہ الفاظ میں یہ سہولت فراہم کردی کہ جو عمرہ کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا ویزہ لگوائے اُس کے لیے ترکی کا ایک ماہ کا ویزہ فری ہوگا۔ ان کے ایسا کرنے سے گزشتہ 3 سالوں میں 53لاکھ پاکستانیوں نے ترکی کا دورہ کیا۔ پھر چند ماہ قبل تک رئیل اسٹیٹ میں2 لاکھ 50 ہزار ڈالر کی سرمایہ کاری کرکے سکونت اور تھوڑے ہی عرصے میں ترکش شہریت حاصل کی جاسکتی تھی لیکن اس اسکیم کی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے ترکش حکومت نے 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر کی حد بڑھاکر 4 لاکھ ڈالر کردی مگر اس کے باوجود شہریت کے حصول کی غرض سے ترکی میں سرمایہ کاری کرنے والوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے ترکی کے رئیل اسٹیٹ کے شعبہ میں سرمایہ کاری کرکے اس اسکیم سے فائدہ اٹھایا ہے اور وہاں کی شہریت حاصل کرکے اب ترکی میں رہائش پذیر ہیں۔ ترکی کے قانون کے مطابق ترکش شہریت کے حامل افراد دہری شہریت نہیں رکھ سکتے۔ اطلاعات ہیں کہ ترک حکومت ایسی قانون سازی کررہی ہے جس کے تحت پاکستانیوں کو دہری شہریت رکھنے کی اجازت ہوگی اور پاکستانی بیک وقت ترکی اور پاکستان کی دہری شہریت رکھ سکیں گے۔ اگر یہ ممکن ہوگیا تو ترکی جاکر بسنے والی پاکستانی اشرافیہ کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا۔ پھر یہی نہیں آپ یو اے ای کو دیکھ لیں جس کے بارے میں کبھی خیال ہی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ وہ کسی غیر ملکی کو اپنے ہاں مستقل ویزہ فراہم کر سکتا ہے مگر اُس نے بھی اپنے قوانین میں تبدیلیاں کیں اور شہریت کے قانون میں تبدیلی کرتے ہوئے غیر ملکیوں کو شہریت دینے کا فیصلہ کیا گیا ۔اور یو اے ای نے دنیا بھر کی اشرافیہ کو راغب کرنے کے لیے نئی اسکیمیں متعارف کرائی ہیں جن کے تحت اگر آپ 20لاکھ درہم یا ساڑھے پانچ لاکھ ڈالر دو سال کے لیے یو اے ای کے کسی بینک میں فکس ڈپازٹ کروادیتے ہیں تو یو اے ای کا گولڈن ویزا حاصل کرکے 10سال کے لیے اپنی فیملی اور ملازمین کے ساتھ یو اے ای میں رہائش اختیار کرسکتے ہیں، جو قابلِ تجدید ہے۔ یو اے ای کی ایک اور اسکیم کے تحت اگر آپ یو اے ای کی پراپرٹی میں 2 ملین درہم (5.5 لاکھ ڈالر) کی سرمایہ کاری کرتے ہیں تو یو اے ای کا 5سالہ گولڈن ویزا حاصل کرسکتے ہیں۔ پھر یہی نہیں بلکہ دنیا کے سب سے باصلاحیت افراد کےلیے انہوں نے الگ ”ٹیلنٹ ویزہ“ متعارف کروایا ہے۔ ٹیلنٹ ویزا اسکیم کی پیشکش کرنے والے دیگر ممالک میں امریکہ ، برطانیہ اور سنگاپور شامل ہیں۔ نئی پالیسی میں دوہری شہریت کی تفصیل دی گئی ہے کہ متحدہ عرب امارات کی شہریت حاصل کرنے والے اپنی اصل شہریت بھی برقرار رکھ سکتے ہیں۔ ان اسکیموں سے دنیا بھر کے امرا نے فائدہ اٹھایا ہے جس میں بھارتی پہلے نمبر پر ہیں جب کہ پاکستانی دوسرے نمبر پر نظر آرہے ہیں۔ آپ بنگلہ دیش ہی کو دیکھ لیں، پہلے ہی ہماری آدھی سے زائد ٹیکسٹائل انڈسٹری بنگلہ دیش منتقل ہو چکی ہے یعنی پاکستان کی ٹیکسٹائل برآمدات محض 7ارب ڈالر جبکہ بنگلہ دیش کی 34ارب ڈالر ہو چکی ہیں، اگر ہم رقبہ، آبادی، وسائل اور معیشت کے لحاظ سے پاکستان کا موازنہ بنگلہ دیش سے کریں تو اس کی ٹیکسٹائل برآمدات بھی 34 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔ فی الوقت بنگلہ دیش نے ایسا کوئی پیکج اناﺅنس تو نہیں کیا مگر اُس نے پاکستان میں انرجی کرائسز کو دیکھتے ہوئے سرمایہ کاروں کے لیے بجلی کے نرخ پاکستان سے آدھے ، بلاتعطل اور مفت پانی کی فراہمی اور پٹرولیم مصنوعات پر بھی سبسڈی کا اعلان کیا ہے۔ الغرض یہاں اس دنیا میں کہیں مذہب کی جنگ نہیں، کہیں قوموں کی جنگیں نہیں۔ آپ کو ہر طرف مفادات کا ٹکراﺅ نظر آئے گا، اگر آپ کے مفادات ٹکرا رہے ہیں تو عیسائیوں کی آپس میں عالمی جنگ ہو سکتی ہے، اگر آپ کے مفادات ٹکرا رہے ہیں تو عرب جنگ بھی ہوسکتی ہے۔ اور پھر ایک عرصہ سے ”مسلم دنیا“ بحرانی کیفیت کا شکار ہے، کسی ایک نکتے پر متفق ہونا تو دور کی بات ہے، تمام 56اسلامی ممالک 56”سمتوں“ کی طرف جا رہے ہیں، جائیں بھی کیوں ناں! سب کے اپنے اپنے مفادات اور زمینی حقائق ہیں۔ انہی مفادات کی وجہ سے ایران، سعودی عرب، ترکی، ملائشیا، انڈونیشیا، پاکستان اور دیگر بڑے اسلامی ممالک آج تک کسی ایک پلیٹ فارم پر ایک ایجنڈے کے ساتھ اکٹھے نہیں ہوسکے۔ اسلامی ممالک تو ایک طرف کسی ایک نکتے پر تمام عیسائی ممالک بھی اکٹھے نہیں ہوسکے، اگر ایسا ہوتا تو یا مذہب کی بنیاد پر ممالک کے درمیان تعلقات قائم ہوتے تو پہلی اور دوسری جنگ عظیم کبھی عیسائی ممالک کے درمیان نہ ہوتی۔ اور کبھی ایران عراق جنگ نہ ہوتی، کبھی سعودی عرب اور ایران آپس میں نہ لڑتے، یا کبھی اسلامی ممالک بھی شام اور افغانستان کی جنگ میں امریکا و روس کا ساتھ نہ دیتے۔ آج آپ پاکستانیوں کی ترکی یا چین یا بنگلہ دیش یا یو اے ای میں جانے پر پابندی لگا دیں پھر دیکھیے گا کہ یہ دوست ممالک آپ کے ساتھ کیسا تعلق رکھتے ہیں! لہٰذاہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ دنیا میں شہریت کی فروخت ایک صنعت کا درجہ اختیار کرچکی ہے اور دنیا کے بیشتر ممالک سرمایہ کاری کے عوض اپنے ملک کی شہریت فروخت کررہے ہیں۔ شہریت کی فروخت کی صنعت کا حجم 25 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ لہٰذاان ممالک کے علاوہ ڈومینیکن ری پبلک ایک لاکھ ڈالر، مونٹی نیگرو 2 لاکھ 50 ہزار ڈالر، پرتگال 3 لاکھ 50ہزار ڈالر، امریکہ 8 لاکھ ڈالر، مالٹا 10 لاکھ ڈالر اور برطانیہ 25 لاکھ ڈالر کے عوض شہریت کے لیے اپنے ملک کے دروازے کھول رہے ہیں۔جبکہ دوسری طرف پاکستان میں سیاسی و معاشی عدم استحکام کی وجہ سے لوگ ملک چھوڑنے کو ترجیح دیتے ہوئے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں اپنا سرمایہ لگا رہے ہیں۔ اور پھر پاکستانی اشرافیہ اور صاحبِ حیثیت طبقہ ان حالات میں ممکنہ ڈیفالٹ کے خطرے کے پیش نظر ، انصاف نہ ملنے کی وجہ سے، اداروں کے اوپر سے اعتماد اُٹھ جانے کی وجہ سے اور روپے کی گرتی ہوئی قدر کے باعث اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کرکے غیر ملکی شہریت کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ اس طرح پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے اقدامات کرے جس سے پاکستانی سرمایہ کاروں اور اشرافیہ کا اعتماد بحال ہو اور وہ بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے یا غیر ملکی شہریت حاصل کرنے کے بجائے اپنے ملک میں رہنے اور سرمایہ کاری کو ترجیح دیں۔اور اس میں ایک اور چیز کا اضافہ کردوں کہ پہلے یہ ہوتا تھا کہ عوام کو کسی ایک ادارے پر اعتماد ہوتا تھا تو وہ پاکستان کے لیے رک جاتے تھے، مگر اُن کا یقین آج صفر بٹا صفر ہو چکا ہے، آج صرف پاکستان میں وہی رہ رہا ہے کہ جس کا بیرون ملک جانے کا بس نہیں چل رہا، ورنہ تو پڑھا لکھا طبقہ اور ٹیلنٹڈ افراد یہاں سے زندہ بھاگ جانے کو ترجیح دے رہے ہیں!