FATFپر کامیابی :پاکستان کی کامیابی!

ویسے یہ بھی درست ہے کہ ہم جیسے بگڑے ہوئے ممالک کو ٹھیک کرنے کے لیے دنیا میں فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) جیسی تلوار رکھی گئی ہے، ورنہ کون کہتا ہے کہ ہم سدھرنے والے ہیں، کون کہتا ہے کہ ہم منی لانڈرنگ پر آسانی سے قابو پا سکتے ہیں، کون کہتا ہے کہ ہم دہشت گردوں کی معاونت کرنا بند کر سکتے ہیں.... ایمانداری سے بتائیں کہ اگر ایف اے ٹی ایف کی شرائط پر عمل درآمد نہ کرنا ہوتا تو دہشت گردوں کو سزائیں ہوتیں؟ ہر تنظیم یا ادارہ اپنے آپ کو ایس ای سی پی میں رجسٹرڈ کرواکر اپنے کھاتے درست کرتا؟ کالعدم تنظیموں کو لگام ڈالی جاتی؟ نہیں ناں! مطلب ہم ہر جگہ ڈنڈے کے یار ہیں! حالانکہ یہ ساری چیزیں بالکل اسی طرح ہےں جس طرح ہر مذہب کی بنیاد ہے کہ سچ بولیں، کسی کو دھوکہ مت دیں یا ایمانداری سے کام کریں۔ یعنی سب کو علم ہے کہ دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی میں ملک غیر مستحکم ہوتا ہے، منی لانڈرنگ سے ملک کو نقصان ہوتا ہے، دہشت گردوں کو معاونت ملتی ہے، ٹیکس چوری کرنا بڑا جرم ہے کیوں کہ یہ کسی بھی ملک کو کھوکھلا کر دیتا ہے وغیرہ وغیرہ مگر پھر بھی ہم کبوتر کی طرح آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ خیر آپ کو علم تو ہو گیا ہوگا کہ ہم نے FATFکے ڈر سے 34”ناقابل برداشت “ اور مشکل ترین شرائط پوری کردی ہیں۔ اگر یہ شرائط پوری نہ کرتے تو ہم یا تو گرے لسٹ میں ہی پڑے رہتے یاخاکم بدہن بلیک لسٹ کر دیے جاتے۔ خیر ابھی بھی گرے لسٹ میں ہی ہیں مگر شنید ہے کہ ہم یہاں سے باہر نکل آئیں گے۔ آگے چلنے سے پہلے اگر ہم گرے لسٹ پر نظر ڈالیں تو درحقیقت ایف اے ٹی ایف کی جانب سے اس لسٹ میں ہم اکیلے شامل نہیں ہیں بلکہ پاکستان کے علاوہ 22ممالک جن میں البانیا، بارباڈوس، کمبوڈیا، جبرالٹر، جمیکا، مصر، مالی، موروکو، میانمار، پانامہ، فلپائن، سینیگال، ترکی، یو اے ای، یمن ، شام اور یوگنڈا وغیرہ بھی گرے لسٹ میں شامل ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ بھی ہے جس میں صرف دو ممالک ایران اور شمالی کوریا شامل ہیں۔ ایف اے ٹی ایف کی بلیک لسٹ میں ہونے کا مطلب ہے کہ آپ اس کے وجود سے ہی انکاری ہیں۔ اور آپ دنیا کے کسی قانون کو نہیں مانتے۔ تبھی آپ کے ملک میں نہ تو باہر سے انویسٹمنٹ آتی ہے اور نہ ہی آپ کسی دوسرے ملک سے لین دین کر سکتے ہیں۔ ہاں اگر کوئی ملک ان ممالک سے چوری چھپے یا سامنے آکر لین دین کرتا ہے تو وہ اُس کا خود ذمہ دار ہوتا ہے۔ لہٰذااگر آپ ”گرے لسٹ“ میں ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ آپ ٹھیک ہونا چاہتے ہیں اور اس کے لیے آپ تگ و دو بھی کر رہے ہیں اور پرعزم بھی ہیں۔اور اگر آپ گرے لسٹ سے نکل جاتے ہیں تو بہت سے ممالک آپ کے ملک میں انویسٹمنٹ کریں گے ۔ بڑی بڑی کمپنیاں آئیں گی اور اربوں ڈالر کے پراجیکٹس لگائیں گی۔ لہٰذایہFATFوالا سسٹم میرے خیال میں اچھا ہے، ورنہ ہم جیسے ممالک جنہوں نے خود کو نہ سدھارنے کی قسم اُٹھا رکھی ہے۔ وہ کبھی راہ راست پر نہ آتے ۔ لیکن اس میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کا صدر دفتر چونکہ یورپ میں ہے، یورپ امریکا کے زیر سایہ ہے، اور امریکا میں انڈین لابی مضبوط ہے ۔ اس لیے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ہمیں انڈین لابی کی طرف سے بہت سے خدشات ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ ہم معاشی طور پر خوشحال ہوں یا ہم گرے لسٹ سے نکل کر وائیٹ لسٹ میں آجائیں۔ یا کچھ لوگ تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایف اے ٹی ایف کے اگلے صدر ٹی راجہ کمار کا تعلق انڈیا سے ہے جو اگلے دو سال کے لیے اس بڑی آرگنائزیشن کا صدر منتخب ہونے جا رہے ہیں۔ ٹی راجہ کمار کے پاس سنگاپور کی شہریت ہے مگر پیدا بھارت میں ہوئے تھے اور سابق وزیرِ خارجہ شاہ محمودقریشی کئی بار کہہ چکے ہیں کہ انڈیا فیٹف کے فورم کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کررہا ہے۔لیکن میری رائے ان سب خدشات سے ذرا مختلف ہے، وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ سب سے پہلے ہمیں خود احتسابی کرنا ہوگی کہ کیا ہم نے مکمل طور پر منی لانڈرنگ پر قابو پا لیا ہے؟ چلیں مکمل طور پر منی لانڈرنگ تو شاید امریکا یا یورپ میں بھی ختم نہ ہوسکی ہو مگر کیا ہم منی لانڈرنگ کے 90فیصد خاتمے کے لیے پراعتماد ہو چکے ہیں؟ یا کیا ہم نے اس ملک میں دہشت گردی پر مکمل قابو پا لیا ہے؟ یا کیا ہمارے لوگوں نے دہشت گرد تنظیموں کی معاونت کرنا بند کر دی ہے؟ یا سب سے بڑھ کر ہم نے کرپشن پر قابو پالیا ہے؟ اگر یہ سارے سوالوں کے جواب ہاں میں ہیں تو پھر آپ کہہ سکتے ہیں کہ ہم ٹھیک ہوچکے ہیں مگر انڈیا نہیں چاہتا کہ ہم گرے لسٹ سے باہر نکلیں۔لیکن اگر جواب ناں میں ہے تو پھر ہمیں خود احتسابی کرنا ہوگی۔ ہاں! لابنگ کا اثر ضرور ہوتا ہے لیکن اگر آپ پراعتماد ہیں تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو نیچا نہیں دکھا سکتی۔ لیکن فی الوقت تو حیرت اس بات کی ہے کہ وطن عزیز میں ن لیگ کیا، تحریک انصاف کیا ، پیپلزپارٹی کیا ہر جماعت ”کریڈٹ“ لینے کے لیے بے تاب نظر آرہی ہے، حالانکہ دیکھا جائے تو میرے خیال میں تحریک انصاف اس کی زیادہ مستحق اس لیے بھی ہے کیوں کہ ان کے دور میں ہی ایف بی آر میں FATFسیل قائم کیا گیا، تحریک انصاف ہی کے دور میں اہداف کو پورا کرنے کے لیے سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک باڈی تشکیل دی۔ پھر اسی دور میں وزارت داخلہ میں بھی FATFسیل قائم کیاگیا۔ پھر رئیل سٹیٹ اور جیولری کے کاروبار کے ذریعے منی لانڈرنگ کو روکنے کے اقدامات کیے گئے، پھر تحریک انصاف ہی کے دور میں ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے 6بل منظور کیے گئے۔ پھر انہی کے دور میں حافظ سعید اور ذکی الرحمان لکھوی کو سزا سنائی گئی۔ پھر انہی کے دور میں ہی FIAمیں بھی FATFسیل قائم کیا گیا تاکہ آن لائن فراڈ وغیرہ کو روکا جاسکے۔ اور پھر انہی کے دور میں 4جولائی 2021کو نیب میں بھی دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے اور منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے ایک سیل قائم کیا گیا۔ قصہ مختصر کہ بالغ نظری کا تقاضا یہ ہے کہ سیاسی عصبیت کے آزار سے بلند ہو کر تحریک انصاف کی حکومت کے اس کردار کو تسلیم کیا جائے، جس نے اس فیصلے کو یقینی بنایا۔اگر غلطیوں پر بے رحمی سے گرفت کی جاتی ہے تو سماج کے اہل فکر و سیاست میں اتنا ظرف بھی ہونا چاہیے کہ کامیابی پر تحسین میں بھی بخل سے کام نہ لیا جائے۔تجزیے کا ترازو جب عصبیت کی بنیاد پر کسی طرف جھکتا ہے تو المیے جنم لیتے ہیں۔ چیزوں کی ترتیب ہمیشہ درست رہنی چاہیے۔ ہمارے ہاں ہر معاملے میں کریڈٹ لینے کی جنگ شروع ہو جاتی ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک مریضانہ رویہ ہے تاہم یہ بھی کوئی صحت مند رویہ نہیں کہ کسی حکومت کی فیصلہ سازی قومی زندگی میں کسی اچھی خبر کا انتساب بن جائے تو اس کا اعتراف نہ کیا جائے۔ تحریک انصاف کے ناقدین اگر اس اعتراف کا بھاری پتھر اٹھا سکیں تو پھر ہم خیر سگالی کی اس راہ پر چل سکتے ہیں جہاں تمام قومی قیادت مل بیٹھ کر کسی مرحلے پر ایک میثاق معیشت پر دستخط کر سکتی ہے اور یہ طے کر سکتی ہے کہ اگلے بیس سال کے لیے ہماری معاشی پالیسی یہ ہو گی اور حکومتوں کے بدلنے سے اس پالیسی کے بنیادی خدو خال تبدیل نہیں ہوں گے۔ اس سے سرمایہ کار میں وہ اعتماد جنم لے گا،جو پاکستان میں سرمایہ کاری کے راستے کھولے گا۔لیکن اگر ہماری عصبیت ایک سیاسی فریق کی کامیابی کو تسلیم کرنے سے بھی انکاری ہے تو پھر میثاق معیشت جیسے خوابوں کو بھول جائیے،پھر صرف جنگ و جدل اور نفرت و ہیجان ہی سے معرکہ آرائی ہوا کرے گی۔ اگر موجودہ مہنگائی اور پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کی ذمہ داری عمران دور میں کیے گئے فیصلوں پر ڈالی جا سکتی ہے تو ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کا کریڈٹ عمران دور میں کیے گئے فیصلوں کو کیسے نہ دیا جائے؟ پھر اس کے ساتھ ساتھ پاک فوج کو بھی کریڈٹ دیا جانا چاہیے بلکہ افواج پاکستان نے اس حوالے سے کلیدی کردار ادا کیا اور حکومت اور قومی اداروں کے ساتھ مل کر تمام نکات پر عملدرآمد یقینی بنایا۔ اس حوالے سے حکومت سے مشاورت کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کے احکامات پر 2019 میں جی ایچ کیو میں DGMO کی سربراہی میں سپیشل سیل قائم کیا۔جی ایچ کیو سیل نے جب اس کام کی ذمہ داری سنبھالی تو اس وقت صرف 5 نکات پر پیشرفت تھی اس سیل نے 30 سے زائد محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز کے درمیان کوارڈینیشن میکنزم بنایا ہر پوائنٹ پر ایک مکمل ایکشن پلان بنایا اور اس پر ان تمام محکموں، وزارتوں اور ایجنسیز سے عمل درآمد بھی کروایا۔جی ایچ کیو میں قائم سیل نے دن رات کام کرکے منی لانڈرنگ اور ٹیرر فائننسنگ پر ایک مو¿ثر لائحہ عمل ترتیب دیا، جس کی وجہ سے ایف اے ٹی ایف میں کامیابی حاصل ہوئی، پاکستان نے اپنا 2021 کا ایکشن پلان ایف اے ٹی ایف کی طرف سے مقرر کردہ ٹائم لائنز یعنی جنوری 2023 سے پہلے مکمل کر لیا۔ بہرکیف یہ ایک کامیابی ہے، اور اب ستمبر تک ابھی بھی رسمی واچ لسٹ پر ہیں جس کے مطابق ایف اے ٹی ایف ٹیمیں ستمبر 2022ءتک پاکستان میں اینٹی منی لانڈرنگ (AML) اور کاونٹر ٹریرسٹ فائناسنگ (CFT) سسٹمز کی پائیداری اور ناقابل واپسی کو چیک کرنے کے لیے جلد ہی آن سائٹ وزٹ کریں گی، جس کے بعد 22 اکتوبر تک وائٹ لسٹنگ کی راہ ہموار ہو گی۔ اُمید ہے پاکستان اس میں بھی یقینی طور پر کامیاب ہوگا، اور ہم پر لگے الزامات کے بادل جلد ہی چھٹ جائیں گے، اور پاکستان میں جلد ہی بیرون ملک سے سرمایہ کاری آئے گی۔کہا جاتا ہے کہ شکست یتیم ہوتی ہے اور فتح کے بہت سے والی وارث ہوتے ہیں لہٰذاوالی وارث ہونا اچھی بات ہے، مگر ہمیں ایک بات ضرور سمجھنا ہوگی کہ ابھی بہت سے چیلنجز ہیں جنہیں فتح کرنا ہے !لیکن اگرہم یونہی کریڈٹ کے چکر میں لڑتے رہے تو پھر کوئی ملک کا نہیں سوچے گا اور نہ ہی اس ملک میں خوشحالی آنے دے گا!