سانحہ ماڈل ٹاﺅن : آج بھی سسٹم کے منہ پر طمانچہ !

بسمہ کی عمر اُس وقت 13برس تھی، وہ صبح 17جون 2014کو نو بجے کے لگ بھگ لاہور کے علاقے ماڈل ٹاو¿ن میں واقع اپنی تنظیم کے دفتر پہنچیں۔ وہاں سے وہ قریب ہی واقع تحریک منہاج القران اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ پہنچیں۔ بسمہ امجد کی پھپھو بھی ان کے ساتھ تھیں۔تنظیم کی دیگر خواتین کے ہمراہ بسمہ کی والدہ بھی ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے مرکزی دروازے پر ہاتھوں کی زنجیر بنا کر کھڑی ہو گئیں تاکہ پولیس اندر نہ جا سکے۔ کیوں کہ گذشتہ رات ہی پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان اور پولیس کے درمیان پرتشدد جھڑپیں شروع ہو چکی تھیں۔ پولیس تحریکِ منہاج القران اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی رہائش گاہ کے سامنے رکھی گئی رکاوٹیں ہٹانے کے لیے پہنچی تھی جو ان کے مطابق تجاوزات کی مد میں آتی تھیں۔بسمہ کے مطابق ”میں اپنی والدہ کے ساتھ ہی کھڑی تھی جب گولیاں چلنے کی آواز آئی اور میں نے دیکھا کہ میری والدہ کے چہرے پر گولی آ کر لگی۔ اس کے ساتھ ہی ایک گولی پاس کھڑی میری پھپھو کے سینے میں لگی۔“والدہ کو ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال پہنچایا گیا۔ ہسپتال پہنچنے تک وہ سانسیں لے رہی تھی مگر ہسپتال پہنچنے پر اُن کا دم نکل گیا۔بسمہ کی پھپھو بھی دم توڑ چکی تھیں۔ 13 برس کی بسمہ اس وقت یہ سمجھنے سے قاصر تھیں کہ پولیس نے ان کی والدہ اور پھوپھی پر گولیاں کیوں چلائیں تھیں۔ گذشتہ8برس میں وہ اپنی والدہ کے لیے انصاف لینے کے لیے کئی احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں سے لے کر کئی عدالتوں میں جا چکی ہیں۔ انھیں آج تک اس سوال کا جواب نہیں مل پایا۔ مگر وہ اکیلی نہیں ہیں! ایک اور متاثرہ شخص کی داستان سنیے! محمد اویس بھی ان افراد میں شامل ہیں جنھوں نے اس روز جھڑپوں میں اپنے پیارے کھوئے۔ وہ ان دنوں تنظیم کے سیکریٹریٹ میں تعلیم کی غرض سے موجود تھے۔محمد اویس بتاتے ہیں کہ اس روز پولیس کا انداز ابتدا ہی سے جارحانہ تھا۔’ایسا لگتا تھا کہ رکاوٹیں ہٹانے کا محض بہانہ تھا۔ وہ کسی اور ہی ارادے سے آئے تھے۔ پولیس نے جب دھاوا بولا تو اس سے قبل اتنی زیادہ آنسو گیس برسائی گئی کہ مجھے ایسے لگا جیسے جسم پر سے جلد جل رہی ہو۔‘آنسو گیس کی اسی شیلنگ کے دوران ایک گولہ ان کے قریب آ کر گرا تھا اور زیادہ آنسو گیس سانس کے ذریعے اندر جانے کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔ بے ہوش ہونے سے قبل وہ پاس ہی کھڑے اپنے بڑے بھائی عاصم حسین سے بات کر رہے تھے۔کچھ دیر بعد ہی جب انھیں ہوش آیا تو وہ سیکریٹریٹ کی عمارت کے اندر والے حصے میں تھے۔ ان کے ساتھی انھیں اٹھا کر وہاں لائے تھے۔ انھوں نے اپنے دوستوں سے اپنے بھائی کے بارے میں دریافت کیا۔ اس وقت انھیں خبر دی گئی کہ ان کے بھائی کے سینے میں گولی لگی تھی اور وہ ہلاک ہو گئے۔محمد اویس کہتے ہیں ’میرے لیے وہ دن قیامت کا دن تھا۔ میرا بھائی صرف بھائی نہیں بلکہ میرا دوست بھی تھا۔‘محمد اویس کے والد معراج دین کو بھی ٹانگ میں گولی لگی تھی۔ ان کی جان بچ گئی لیکن گذشتہ سات برس سے وہ بستر پر ہیں اور چلنے پھرنے سے قاصر ہیں۔محمد اویس بھی گذشتہ آٹھ برس سے اپنے بھائی اور والد کے لیے انصاف کے متلاشی ہیں۔اس کے علاوہ وہ بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے ساتھیوں کا گولیاں لگتے دیکھیں۔ ’ایک شخص میرے پاس ہی کھڑا تھا جب اس کو گولی لگی۔ کسی کو ٹانگ میں تو کسی کو بازو میں گولی لگی۔ میں نے اپنے سامنے تین سے چار ساتھیوں کو مرتے دیکھا۔‘ جی ہاں یہ ہے سانحہ ماڈل ٹاﺅن لاہور جو 17جون 2014ءکو اپنے ساتھ کئی داستانیں چھوڑ گیا۔ اس سانحہ میں 14افراد شہید اور 100سے زائد زخمی ہوئے تھے اس لیے آپ کو سو سے زائد ایسی ہی داستانیں سننے کو ملیں گی۔ اور آج جب وہی حکومت دوبارہ اقتدار میں آچکی ہے جس کی بدولت یہ سانحہ رونما ہوا تو ایک بار پھر اہل لاہور کے زخم تازہ ہوگئے ہیں۔ یقین مانیں ! اب تو ہمیں انصاف کی اُمید بھی نہیں رہی! کیوں کہ جب یہ سانحہ ہوا تو سمجھا جا رہا تھا کہ یقینا یہ ایک ٹیسٹ کیس ہوگا،جس کا انصاف ہوتا نظر آئے گا۔ کیوں کہ اس کیس میں مدعی پارٹی پاکستان عوامی تحریک ، خصوصاََ سربراہ جماعت پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری اس سانحہ کے بعد خاصے متحرک نظر آئے اور اس کیس کی پاداش میں ایک سے زائد دھرنے بھی دے ڈالے، ایسے لگ رہا تھا جیسے پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا کیس ہوگا جب مظلوم کو انصاف ملے گا۔ پھر اسی کیس کی بنا پر سابقہ حکومت کا نہ صرف ووٹ بنک کم ہوا بلکہ اُنہیں کئی ایک مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ لیکن انصاف نہیں ہونا تھا،،،، نہیں ہوا! بلکہ اس دوران 4سال ن لیگ کی حکومت کے گزرے ، ساڑھے تین سال تحریک انصاف کی حکومت کے اور اب تین ماہ دوبارہ ن لیگ کی حکومت کو ہو چکے ہیں۔ مگر سانحہ ماڈل ٹاﺅن آج بھی وہیں کا وہیں کھڑا ہے، جہاں پہلے دن تھا اور کسی ایک ملزم کو بھی سزا نہیں ہوئی۔ بلکہ بقول شخصے سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے تمام ملزمان پہلے سے بہتر عہدوں پر تعینات ہو گئے ہیں جیسے سابقہ دور حکومت میں ڈاکٹر توقیر شاہ سمیت سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کے تمام ملزم اور چھوٹے بڑے کردار پہلے سے بہتر عہدوں پر تعینات ہو چکے ہیں، سابق دور حکومت میں سانحہ کے ملزم حکومت بدلنے پر اپنی گرفت ہونے کے خوف میں مبتلا تھے آج پرکشش تعیناتیاں ملنے پر وہ بے خوف ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ مظلوموں کو انصاف دینا تو دور کی بات سانحہ ماڈل ٹاﺅن کے ظلم کے خلاف احتجاج کرنے والے سو سے زائد کارکنوں کو انہی کے دور حکومت میں سزائیں سنائی گئیں۔ وہ پانچ اور سات سال کے لیے جیلوں میں بند اور ناکردہ گناہوں کی سزابھگت رہے ہیں۔جبکہ طاہر القادری صاحب سے بھی اس حوالے سے شکوہ بنتا ہے کہ وہ اب بھرپور انداز میں احتجاج کرتے نظر نہیں آرہے۔ وہ منظر عام سے غائب ہیں، اُنہیں چاہیے کہ وہ پاکستان آئیں اور ان مظلومین کے ساتھ کھڑے ہوں تاکہ دنیا کو نظر آئے کہ قائد کو بھی اتنا ہی دکھ ہے جتنا لواحقین کو ہے۔ بہرحال یہ الگ بحث ہے مگر حیرت اس بات پر ہے کہ ہمارا معاشرہ خواص کے لیے جہاں چیخ اُٹھتا ہے وہیں ان مظلوموں کی کوئی سننے کو تیار نہیں۔ اس کی مثال آپ حال ہی میں ہونے والی ڈاکٹر شیریں مزاری کی لے لیں کہ اُن کی گرفتاری پر کس طرح میڈیا چیخ اُٹھا تھا۔ جس پر وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے گرفتاری کا نوٹس لیا اور ہدایت جاری کی کہ ڈاکٹر صاحبہ کو فوری رہا کیا جائے۔اس کے لیے رات ساڑھے گیارہ بجے عدالت لگ گئی ، جن کو طلب کیا گیا وہ سب بھی وہاں پہنچ گئے، ڈاکٹر صاحبہ بھی وکٹری کا نشان بناتے ہوئے عدالت پہنچ گئیں اور تقریباً کوئی رات بارہ بجے ڈاکٹر شیریں مزاری کو رہائی مل گئی اور ساتھ ہی ساتھ جوڈیشل انکوائری کا بھی حکم دے دیا گیا تاکہ دیکھا جائے کہ کن حالات میں، کس قانون کے تحت اور کس بنیاد پر تحریک انصاف کی خاتون رہنما کو گرفتار کیا گیا۔اُس وقت بھی یہ میڈیا، تحریک انصاف اور انسانی حقوق کے علم برداروں کے لیے بڑی کامیابی تھی لیکن یہ سب دیکھ کر میرے ذہن میں ایک سوال پیدا ہوا کہ کیا جو انصاف ڈاکٹر صاحبہ کو ملا، جس طرح میڈیا نے اُن کی گرفتاری پر شور مچایا، جیسے وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس پر نوٹس لیا اور کہا کہ عورتوں کے ساتھ ایسا رویہ ہماری معاشرتی اقدار کے خلاف ہے اور پھر جیسے رات بارہ بجے عدالت کھلی اور ڈاکٹر صاحبہ کو رہائی ملی، کیا یہ انصاف پاکستان کی عام عورت کو حاصل ہے؟ کیا یہ انصاف سانحہ ساہیوال، سانحہ ماڈل ٹاﺅن، سانحہ بلدیہ ٹاﺅن، سانحہ سندر سمیت ہزاروں سانحات کے لواحقین کو حاصل ہے؟ نا جانے کتنے معصوموں کو روزانہ کی بنیاد پر جھوٹے سچے کیسوں میں گرفتار کیا جاتا ہے، اُن کے لیے کتنی بار میڈیا نے اس طرح اُ ن کی رہائی تک ایک منٹ کے لیے بھی خاموشی اختیار نہیں کی، کتنی بار وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ نے اُن کی گرفتاری پر نوٹس لیا، کتنی بار اس ملک کی عدالتیں رات گئے اُن کے لیے کھلیں۔ بہرکیف واپس سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر آتے ہیں تو اس کیس کو بھی آج 8سال بیت گئے مگر کہیں کوئی بڑی پیش رفت دیکھنے میں نہ آسکی۔ آج بھی جسٹس علی باقر نجفی کی رپورٹ چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے کہ اس سانحہ کے اصل ملزمان کون ہیں؟ مگر مجال ہے کہ اداروں کے سر سے جوں بھی رینگی ہو۔حالانکہ اس دوران بہت سوں نے اپنی سیاست چمکائی اور بہت سوں نے وقتی طور پر ان مظلومین کے سر پر ہاتھ رکھا جیسے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے بھری عدالت میں تنزیلہ امجد شہید کی بیٹی بسمہ امجد کو کمٹمنٹ دی کہ آپ تعلیم حاصل کرنے کے حوالے سے اپنی ماں کا خواب پورا کرو انصاف آپ کو ہم دیں گے۔پھر سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے دھرنے کے موقع پر ایف آئی آر کے اندراج کے ساتھ ساتھ انصاف کا یقین دلایا۔ پھر سابق وزیراعظم پاکستان عمران خان نے ایک سے زائد بار وعدہ کیا کہ اقتدار میں آ کر مظلوموں کو انصاف دلوائیں گے۔اس کے علاوہ بھی بہت سے وزراءاور قائدین نے سانحہ ماڈل ٹاﺅن پر اشک شوئی کی۔ مگر نتیجہ وہی صفر بٹا صفر ہی رہا۔ یعنی انصاف پہلے بھی ناممکن لگ رہا تھا، آج بھی صورتحال مختلف نہیں ہے۔ لہٰذامسئلہ یہ نہیں کہ اس سانحہ کے ابھی کتنے راو¿نڈز باقی ہیں اور آخری راو¿نڈ کب آئے گا؟ مسئلہ یہ ہے کہ قصوروار کب سامنے آئیں گے؟ چلیں مان لیا کہ سانحہ ماڈل ٹاو¿ن کاانصاف کرنا اور غیرجانبدار تفتیش کرانا سابق حکمرانوں کی ذمے داری تھی کیونکہ الزام ان پر تھا، تو کیا اس کے بعد کچھ نہیں ہوناتھا؟ اور پھر کیا عام عوام سانحہ بلدیہ ٹاﺅن، سانحہ ماڈل ٹاﺅن، سانحہ ساہیوال، سانحہ اسلام آباد، سانحہ ابرفین، سانحہ مچھ، سانحہ12مئی اور دیگر کئی سانحات کی طرح قربان ہوتے رہیں گے۔ اور سانحات پر نوحہ کناں رہیں گے۔ بقول شاعر سانحہ نہیں ٹلتا سانحے پہ رونے سے حبس جاں نہ کم ہوگا بے لباس ہونے سے اب تو میرا دشمن بھی میری طرح روتا ہے کچھ گلے تو کم ہوں گے ساتھ ساتھ رونے سے لہٰذااس سے پہلے کہ عوامی عدالتیں لگیں، جس کے خدشات 90فیصد تک بڑھ چکے ہیں، ہمیں کم از کم ان سانحات کی انکوائریاں کر لینی چاہئیں ۔ تاکہ کوئی بڑا ”سانحہ“ نہ ہو جائے!