فیصلے پارلیمنٹ کے ہی ملکی مفاد میں ہوتے ہیں!

وطن عزیز کے مسائل ہی نرالے اور خود ساختہ ہیں، جیسے شعبہ تعلیم کو حکومت نے نظرانداز کیا تو پرائیویٹ مافیا کے وارے نیارے ہوگئے، شعبہ صحت حکومت کی توجہ سے محروم ہوا تو وہاں بھی پرائیویٹ ہسپتال مافیا کی چاندی ہوگئی، ادویات بنانے کی نجی سطح پر اجازت دی گئی تو اس شعبہ میں بھی مافیا نے قبضہ جما لیا، چینی آٹا و اشیائے خورونوش پر چیک اینڈ بیلنس ختم ہوا تو وہاں بھی ناجائز منافع خوروں کی موجیں لگ گئیں وغیرہ۔ بالکل اسی طرح ہمارے جمہوری اداروں نے جیسے ہی کمزوری دکھائی تو فیصلہ کرنے والی قوتوں نے اس چیز کا فائدہ اُٹھایا اور سب کچھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور پارلیمنٹ کو یاتو فارغ کردیا گیا یا اُسے محض ربڑ سٹیمپ بنا دیا۔ تبھی ہماری سیاسی جماعتوں کا حال دیکھ لیں، قوت فیصلہ سے محروم سیاسی جماعتوں سے عوام نے نفرت کرنا شروع کردی اور تبھی یہ سیاسی جماعتیں جن کا حجم سکڑتا سکڑتا قومی سے صوبائی جماعتوں تک چلا گیا۔ جیسے ن لیگ سمٹ کر پنجاب کی سیاسی جماعت بن گئی، پی پی پی سندھ کی سیاسی جماعت اور تحریک انصاف کے پی کے کی سیاسی جماعت بن گئی۔ لہٰذااگر پاکستان کے سیاسی ادارے بہترین مفاد اور ملکی مفاد کے لیے کام کر رہے ہوتے تو آج ملک کے حالات بلاشبہ بہتر ہوتے، جیسے دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کو دیکھ لیں جہاں جمہوریت مضبوط ہے وہاں آپ بے مثال ترقی پائیں گے لیکن جہاں جمہوریت کمزور ہے جیسے پاکستان، سری لنکا، شام ، ایران وغیرہ یہ ممالک ہر گزرتے دن معاشی و سماجی مسائل میں ڈوب رہے ہیں۔ اور یہ بات میں ویسے ہی نہیں کہہ رہا۔آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں کہ جب سے دنیا بنی ہے تب سے دنیا نے اتنی ترقی نہیں کی جتنی حالیہ پانچ سو سال میں ہوئی ہے۔ پہلے ”ظالم دور“ ہوا کرتا تھا جب ملک کا ”فاتح“ جنگجو ہی اُس ملک کا سربراہ ہوا کرتا تھا، جسے یا تو ذاتی مفادات عزیز ہوتے تھے یا صرف اپنی شان و شوکت کا مسئلہ تھا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے جمہوری نظام پنپنے لگا۔ اگر ہم تاریخ کے اوراق کو گردانیں تو ہمیں سب سے پہلے برطانوی نظام ملتا ہے جہاں سب سے پہلےپارلیمانی نظام قائم ہوا۔ یہ بات800سال قبل 1215ءکی ہے جب برطانیہ کے پہلے بادشاہ اور امراء(بیرنس ) کے درمیان کشمکش، معرکہ آرائی اور خانہ جنگی کی ہوئی۔اُس وقت بادشاہ جان کے ظلم وستم اور استبداد کے خلاف جاگیرداروں اور امراءنے علم بغاوت بلند کیا تھا اور لندن پر قبضہ کر لیا تھا۔ نتیجہ یہ کہ بادشاہ جان کو گھٹنے ٹیک دینے پڑے اور اسے اس تاریخی عہد نامہ پر اپنی مہر ثبت کرنی پڑی جسے میگنا کارٹا یعنی عظیم منشور کہا جاتا ہے۔ اس منشور میں عوام کی آزادی اور ان کے حقوق کو تسلیم کرنے کا پیمان کیا گیا تھا اور بادشاہ جان نے نہ صرف خود بلکہ اس ملک میں آنے والے تمام فرماں رواو¿ں کو قانون کی حکمرانی کاتابع بنا دیا۔ یہ برطانیہ کی پہلی بنیادی آئینی دستاویز تھی اس کے بعد نہ تو کبھی کوئی تحریری آئین مرتب ہوا اور نہ اس کے لئے تحریک چلائی۔پھر بادشاہ ایڈورڈ اول نے 1275ءمیں پہلا کابینہ کا اجلاس طلب کیا جس کا مقصد محصولات میں اضافہ کرنا اور فرماں روا کے لئے زیادہ سے زیادہ رقم وصول کرنا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس پارلیمنٹ کے لئے ملک میں پہلی بار عوام کے نمائندوں کا انتخاب ہوا۔ ان نمائندوں کو شائیرس ( دیہی اضلاع) میں رہنے والوں اور شہروں میں رہنے والوں نے منتخب کیا تھا۔یہ نمائندے جب لندن آئے تو انہیں پانچ الگ الگ گروہوں میں تقسیم کردیاگیا۔ ایک گروہ میں کلیسا کے بشپس اور راہب تھے دوسرے گروہ میں امراء، روساء اور جاگیردار تھے، تیسرا گروہ ثانوی درجے کے پادریوں پرمشتمل تھا اورچوتھے گروہ میں دیہی اضلاع شائیرس کے نائیٹس تھے جبکہ پانچواں گروہ عام شہریوں پر مشتمل تھا۔ان گروہوں کے الگ الگ اجلاس ہوئے جن میں بادشاہ نے یہ بات منوا لی کہ بادشاہ کو تمام منقولہ املاک پراس کا پندرھواں حصہ ٹیکس کی صورت میں وصول کرنے کا اختیار ہے اور اسے برآمد کئے جانے والے اُون پر بھی محصول وصول کرنے کا حق ہے۔اس فیصلہ کے فورا بعد بادشاہ نے بشپس ، راہبوں، ارلس اور بیرونس کے علاوہ دوسرے تمام گروپس کے نمائندوں کو اپنے اپنے علاقوں میں ٹیکس جمع کرنے کے لئے روانہ کر دیا اور باقی ماندہ نمائندوں کو نئے قوانین مرتب کرنے اور نظم و نسق کے بارے میں صلاح مشورے پر مامور کردیا ان کے اس ادارے کو دارلامراءکا نام دیا گیا۔ پھر اسی طرح لوگ منتخب ہوتے رہے، اور ملک ترقی کرتا چلا گیا، لیکن سولہویں صدی میں ہنری پنجم کے دور میں دارلامراءاوردیگر گروپس کے درمیان کشیدگی نے بڑھتے بڑھتے معرکہ آرائی اور پھر خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی اور آخر کار فرماں روا کو شکست ہوئی اور شاہ چارلس اول کاسر قلم کردیا گیا۔ پھر یہاں سے پارلیمنٹ کی بالادستی کی تاریخ شروع ہوتی ہے کہ جب خانہ جنگی کے بعد 1660میں جب بادشاہت بحال ہوئی تو اسی وقت پارلیمنٹ کی بالادستی بھی تسلیم کی گئی اور1688 میں بل آف رائیٹس قانون حقوق کی منظوری انگلستان میں جمہوری انقلاب کی نوید لائی۔یہ وہ سنہری دور تھا جب پارلیمنٹ کی بالا دستی ہونا شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے دنیا کے دیگر ممالک میں بھی یہی سسٹم موضوع بحث بننے لگا، عوام میں شعور آنے لگا کہ ریاست عوام کی ہوتی ہے اوراس پر کوئی ڈکٹیٹر کیسے اُس پر حکومت کر سکتا ہے؟۔ لہٰذا دیکھتے ہی دیکھتے پارلیمانی نظام نے دنیا بھر میں قدم جمانا شروع کیے اور ملکوں کے عوام نے اپنے حق میں بہترین قوانین پاس کیے، اُن پر عملدرآمد کیا اور یوں یہ ممالک دنیا کے ترقی یافتہ ممالک بن گئے ، اس کی بڑی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ جب بھی فیصلے پارلیمنٹ کرے گی تو وہ ایک تمیز کے دائرے میں رہ کر کرے گی، وہ ملکی مفادات کے لیے ہوں گے، وہاں Debateہوگی، فیصلوں کے حوالے سے ہر شخص ذمہ داری لے گا۔ ہر شخص کوکسی نہ کسی نکتے پر اعتراض کا حق ہوگا، ہر شخص دوسرے سے بڑھ کر تیاری کر کے ایوان میں داخل ہوگا۔ تو بہترین فیصلے اور قانون سازی عمل میں آئے گی۔ لیکن اس کے برعکس اگر یہی فیصلے کہیں اور ہوں گے، تو یا تو یہ کسی ادارے کے حق میں ہوں گے، شخصیت کے حق میں ہوں گے، یا ذاتی مفادات کے لیے ہوں گے۔ تو ملک آگے جانے کے بجائے پیچھے چلا جائے گا جیسے وطن عزیز !۔ جب کہ آپ بھارت پر جتنا مرضی اعتراض کرلیں وہاں کے سیاسی حالات بھی پاکستان سے مختلف نہیں ہیں ، وہاں بھی سیاسی جماعتیں سکڑ رہی ہیں، جس کا سب سے زیادہ اثر کانگریس پر ہوا ہے جس کی سیٹیں ہر گزرتے دن سکڑ رہی ہے ۔ لیکن وہاں کی پارلیمنٹ یا عدلیہ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ جو فیصلے پارلیمنٹ یا عدالتوں میں ہو جاتے ہیں، پھر من و عن اُن پر عمل بھی ہوتا ہے۔ وہاں آج تک پارلیمنٹ کے فیصلوں کے حوالے سے کبھی کوئی سڑک پر نہیں آیا اور نہ ہی کسی دوسرے ادارے نہیں پارلیمنٹ کے فیصلوں میں ٹانگ اڑانے کی کوشش کی ہے۔ تبھی بھارت آج 600ارب ڈالر سالانہ کی انڈسٹری بن چکا ہے جبکہ ہم محض 25ارب ڈالر کی انڈسٹری بن کر رہ گئے ہیں۔ اس کی وجہ کچھ بھی ہو لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ہمارے فیصلے ہماری پارلیمنٹ میں ہونے چاہیے، وہیں ہر ایشو کو زیر بحث لایا جائے۔ لیکن ایسا کرے کون؟ جبکہ حالات یہ ہیں کہ ہمارے ہاں جتنے بھی فیصلے پارلیمنٹ سے باہر ہوتے ہیں، وہ غیر معروف اور مختصر المدتی ہوتے ہیں۔ پھر یہاں آج تک جتنی بھی جنگیں ہوئی ہیں، وہ سب آمریت کے دور میں ہوئی ہیں، الغرض ہمارے ہاں بڑے بڑے فیصلے بھی عموما سیاستدان کرنے سے قاصر ہوتے ہیں جیسے اگر 1970ءکے الیکشن کے بعد اگر فوری طور پر اسمبلی کا اجلاس بلا لیا جاتا تو آج صورتحال قدرے مختلف ہوتی ۔ اُس وقت عوامی لیگ کی سیٹیں سب سے زیادہ تھیں اور اسے ہی وزارت عظمیٰ ملنا تھی، لیکن اُس وقت بھی پسند نہ پسند کا چکر چلا اور بات ملک کو دو ٹکڑے کرنے پر ختم ہوئی۔ حالانکہ اگر شیخ مجیب کو دونوں مشرقی و مغربی پاکستان کی وزارت عظمیٰ مل جاتی تو کیا وہ پاگل تھا کہ اس ملک کو توڑنے کا سبب بنتا۔ پھر مسئلہ کشمیر بھی آج تک اسی لیے حل نہ ہو سکا کہ اُس کا مسئلہ پارلیمنٹ میں نہ لایا جا سکا۔ نوازشریف کے دور میں واجپائی صاحب لاہور آئے، تو بس سروس شروع ہوئی، رابطے بحال ہونا شروع ہوئے لیکن ہمارے ہاں کارگل کا مسئلہ شروع کر دیا گیا۔ لہٰذااس میں کوئی شبہ نہیں کہ ہمارے ملک کے پیچھے رہ جانے کی سب سے بڑی وجہ پارلیمنٹ کا کمزور ہونا ہے۔ اور اسی کمزوری کی وجہ سے ملک تیزی سے ڈیفالٹ کی جانب بڑھ رہا ہے لہٰذاہمیں اپنی معیشت کو وینٹی لیٹر سے بچانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ یہ کام روائتی معاشی پالیسیوں سے ممکن نہیں بلکہ اس کے لیے ہمیں معاشی استحکام کے لیے کڑوی گولیاں یا سخت گیر فیصلے کرنے ہوںگے۔اور یہی فیصلے پارلیمنٹ کے ذریعے کرنا ہوں گے، اگر عوام کی جیبوں سے پیسہ نکلوانے کا تہیہ حکومت نے کر لیا ہے تب بھی سب سے پہلے اُسے پارلیمنٹ میں جانا چاہیے۔ کیوں کہ معاشی استحکام کے لیے ہمیں پہلے سیاسی استحکام کی کنجی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا ہوگا۔ حکومتوں میں تسلسل، ایک دوسرے کا سیاسی مینڈیٹ کو قبول کرنا ، محاذ آرائی او رالزام تراشیوں کی سیاست سے گریز،حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی معاشی پالیسیوں میں جذباتی سطح کی پالیسی سے گریز، معیشت پر سیاسی سودے بازی کرنا یا حزب اختلاف کا حکومت کا بلاوجہ ساتھ نہ دینے کی پالیسی ملک کے مفاد میں نہیں۔ ہمیں سیاسی محاذ پر ایک ایسے سیاسی میثاق جمہوریت یا سیاست کی بھی ضرورت ہے۔جہاں تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے لیے قبولیت کا ماحول پیدا کریں او رایک ایسے معاہدے کی طرف پیش رفت کی جائے جس میں حکومت او رحزب اختلاف سمیت سب ہی فریقین پر اتفاق بھی کریں اور دستخط بھی کریں کہ وہ معاشی معاملات پر کوئی ایسی مہم نہیں چلائیں گے جس میں ریاست کو معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑے۔ ورنہ جب ہمارے فیصلے کہیں اور ہوں گے تو یقینا ہم خسارے میں ہوں گے اور ملک کا پھر اللہ ہی حافظ ہوگا!