محمد خان جونیجو : جمہوریت کا گمنام مجاہد !

28مئی (یوم تکبیر) سے جڑا 29مئی شاید کسی کو یاد نہیں، یہ وہ دن ہے جب اُس وقت کے صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق نے محمد خان جونیجو کی حکومت کا تختہ اُلٹا تھا، ہوا کچھ یوں کہ 29 مئی 1988 کی شام اسلام آباد ایئرپورٹ کا وی آئی پی لاو¿نج مقامی صحافیوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس وقت کے وزیراعظم محمد خان جونیجو چین، جاپان اور فلپائن کے طویل دورے سے واپسی پر میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے۔جبکہ دوسری طرف صدر جنرل ضیاءالحق اگلے روز چین جانے والے تھے۔ ان کے سٹاف نے تین گھنٹے کے نوٹس پر اخباری نمائندوں کو پریس کانفرنس کی اطلاع دی۔ رپورٹرز نے غیر ملکی دورے کے بارے میں روایتی بریفنگ سمجھ کر اس کو اہمیت نہ دی ۔ لیکن خبر چھپڑ پھاڑ تھی جو حکومت کی برطرفی پر ختم ہو رہی تھی۔ لہٰذامحمد خان جونیجو کے لیے بھی پاﺅں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی، بتایا جاتا ہے کہ جونیجو پریس کانفرنس سے فری ہو کر وزیر اعظم ہاﺅس کے لان میں بیٹھے چائے پینے کی تیاری کر رہے تھے کہ ایوان صدر کا ایک جوائنٹ سیکرٹری تیزی سے ان کی طرف آیا اور بولا کہ ”سر ایک بری خبر ہے۔ ضیاءالحق نے آپ کی حکومت برطرف کر دی ہے۔“محمد خان جونیجو کے لیے یہ الفاظ کسی دھماکے سے کم نہ تھے۔ وہ کسی ردعمل کا اظہار کیے بغیر ننگے پاو¿ں چلتے ہوئے اپنے کمرے میں چلے گئے۔ اور مختصر سا سامان پکڑا اور گھر کو چلے گئے۔ ویسے تو محمد خان جونیجو کا تعلق سندھ سے تھا، لیکن اُنہوں نے پورے ملک کے لیے بے شمار کام کیے، اُنہیں پیر پگاڑہ نے Referکیا تھا، جبکہ جنرل ضیاءبھی بھٹو کی پھانسی کا مداواکرنے کے لیے سندھ سے ہی وزیر اعظم چاہتے تھے اس لیے محمد خان جونیجو فائنل ہوگئے۔ یقین مانیں! جونیجو نے جب حلف اُٹھایا تو اُن کے حلف اُٹھانے کے 12منٹ کے اندر ہی جنرل ضیاءالحق سے اختلافات شروع ہوگئے تھے، وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ پہلی ملاقات میں ہی محمد خان جونیجو نے جنرل ضیا سے پوچھ لیا کہ ”آپ مارشل لاءکب ختم کریں گے“ بس یہ پوچھنا تھا کہ جنرل ضیاءکے چہرے کا تاثرات ہی تبدیل ہوگئے۔ خیر اب کچھ نہیں ہو سکتا تھا، کیوں کہ حالات جنرل صاحب کے لیے بھی ٹھیک نہیں تھے۔ اس کے بعد پھر جب محمد خان جونیجو نے وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالا تو انھوں نے پر پرزے نکالنے شروع کیے، ان کے لیے ہوئے کئی فیصلوں سے صدر ضیا الحق کو اتفاق نہیں تھا اور بعض معاملات پر ان کا خیال تھا کہ جونیجو صاحب ان کے دائرہ کار میں مداخلت کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ جنرل ضیا بہرحال ایک آمر تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ انہی کا نامزد کیا ہوا وزیر اعظم ان کےسامنے ریڈ لائن کراس کرے کیونکہ اس وزیراعظم کو تو لایا ہی اس لیے گیا تھا کہ دنیا کو دکھایا جا سکے کہ پاکستان میں جمہوری نظام نافذ ہے۔شرافت اس قدر تھی کہ مخالفین بھی اُن کے بارے میں مثبت رائے رکھتے تھے، بلکہ چند سال قبل میر ظفر اللہ خان جمالی سے کسی نے پوچھا کہ آپ تو شریف النفس اور جمہوریت پسند آدمی تھے پھر بھی اداروں کے ساتھ آپ کی نہیں بنی، اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جمالی صاحب نے فرمایا کہ ایک شخص مجھ سے بھی زیادہ شریف النفس اور جمہوری تھا، اُس کا نام محمد خان جونیجو تھا، ان کی اُن کے ساتھ بھی نہیں بنی تھی۔ خیر 1986ءکے بے نظیرکے فقید المثال استقبالیے کی وجہ سے بھی فوجی قیادت جونیجو صاحب کو ناپسندیدگی کی نظر سے جونیجو صاحب کو دیکھ رہی تھی۔چونکہ اُس وقت محترمہ کی مقبولیت کا بھی وہی گراف تھا جو آجکل عمران خان کا ہے۔ اُس وقت جنرل ضیاءکی خواہش تھی بے نظیر کے استقبال کے لیے آنے والوں کو بزور طاقت روکا جائے لیکن محمد خان جونیجو نے جمہوری رویہ اپناتے ہوئے ایسا کرنے سے انکار کردیا (لیکن آج ایسا سیاستدان آپ کو بالکل نہیں ملے گا) اور پھر مجھے یاد ہے کہ بے نظیر نے لاہور میں جو جلسہ کیا تھا، اُس سے زیادہ میں نے زندگی میں کسی جلسے میں اتنی عوام کو نہیں دیکھا، ائیر پورٹ سے جلسہ گاہ تک 10منٹ کے سفر کو طے کرنے کے لیے 14گھنٹے لگ گئے تھے۔ اور پھرجب جنیوا معاہدے سے قبل جونیجو صاحب نے اپوزیشن جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس مشورے کے لیے طلب کی تو جنرل ضیا الحق نے انھیں کہا کہ وہ اس آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت اور خطاب کرنے کے خواہشمند ہیں۔اس حوالے سے جنرل ضیا الحق نے محمد خان جونیجو سے کہا کہ میں جنیوا مذاکرات کے حوالے سے اپنا مو¿قف ان لوگوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں کہ میں کیوں معاہدے کے حق میں نہیں ہوں (جنرل ضیاءالحق افغانستان میں مستحکم سیاسی حکومت کے قیام سے قبل جینوا معاہدے پر دستخط کرنے کے حق میں نہیں تھے) لیکن محمد خان جونیجو نے صاف منع کر دیا اور کہا کہ آپ کو بلایا تو ان میں سے کوئی بھی اے پی سی میں شریک نہیں ہو گا۔لہٰذامحمد خان جونیجو نے آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا، اور ڈنکے کی چوٹ پر کیا اور یہ شاید جنرل ضیاءالحق کے لیے بڑا دھچکا تھا۔اس کانفرنس کی خاص بات یہ تھی کہ محترمہ بے نظیر صاحبہ سمیت ملک کی تمام بڑی قیادت بھی اس میں شریک ہوئی۔ یہ کانفرنس دو دن چلی اور دوسرے دن جنرل ضیاءکا وزیر اعظم جونیجو کو فون آیا اور پوچھا کہ یہ ڈرامہ کب تک چلے گا؟ پھر جنرل ضیا الحق نے کہا کہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کہ اگر آپ لوگوں نے جنیوا معاہدے پر دستخط کیے تو: People will lynch you پھر سب کو یاد ہو گا کہ اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہوا تو جونیجو سارا معاملہ پارلیمنٹ میں لے کر آنا چاہتے تھے مگر جنرل ضیاءاسے دبانا چاہتے تھے، یہاں بھی اُنہوں نے بات ماننے سے انکار کیا۔ پھر ضیاءصاحب نے اُن کے خلاف کرپشن کے کیسز قائم کرنے کے لیے ایک انکوائری کمیٹی قائم کی۔ مگر الزام ثابت ہونا تو دور کی بات ۔ اُن پر کرپشن کا الزام لگایا ہی نہیں جا سکا۔ مطلب اُس وقت وزیر اعظم اور صدر کے درمیان تعلقات سرد مہری کا شکار تھے، جسے دور کرنے کے لیے اُس وقت کے مشیر اور وزیر اطلاعات راجہ ظفرالحق نے متعدد بار کوشش کی مگر حالات خراب ہی ہوتے گئے۔ اس حوالے سے راجہ ظفر الحق کہتے ہیں کہ ”مجھے اندازہ ہو گیا کہ معاملات خراب ہو رہے ہیں اس لیے میں نے دونوں کو اکھٹا کرنے کا فیصلہ کیا اور ایک روز جونیجو صاحب کو ساتھ لے کر آرمی ہاو¿س چلا گیا۔ لیکن بات نہ بن سکی۔ الغرض پاکستان میں اگر آپ نے پارلیمنٹ کی بالا دستی دیکھنی ہے تو وہ دور صرف محمد خان جونیجو کا ہے۔ محمد خان جونیجو نے ملک کو آئین کے مطابق چلانے کی جو کوشش کی ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے۔جونیجو صاحب نے دفاعی بجٹ کو پارلیمنٹ میں زیر بحث لانے کی کوشش کی، پھر یہاں یہ بھی بات اہم ہے کہ جن لوگوں نے جونیجوکے ساتھ بے وفائی کی ، اُن لوگوں کی وجہ سے آج پاکستان مشکلات کا شکار ہے۔ کیوں کہ جو جولوگ آج اس ملک میں انتشار پھیلا رہے ہیں وہ ضیاءہی کی باقیات ہیں۔ بہرکیف محمد خان جونیجو کی وزارت عظمیٰ کے تابوت میں آخری کیل اس وقت ٹھوکی گئی جب انھوں نے فوجی افسروں کی ترقیوں اور تقرریوں کی فائلیں ایوان وزیر اعظم میں روکنا شروع کر دیں۔ وہ بعض افسروں کی فائلیں ازخود طلب کرنے لگے تھے اور جو فائلیں بھجوائی جاتی تھیں ان کو روکنے لگ گئے تھے۔ایک بڑا اختلاف جنرل مرزا اسلم بیگ کی بطور وائس چیف آف سٹاف کی تقرری کا بھی تھا۔ جنرل ضیا الحق کا خیال تھا کہ یہ تقرری ان کی مرضی سے ہونی چاہیے اور وہ اسلم بیگ کو اس منصب پر فائز نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن جونیجو صاحب نے ان سے اتفاق نہیں کیا اور کہا کہ یہ وزیر اعظم کا اختیار ہے اس طرح انھوں نے جنرل اسلم بیگ کو وائس چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا جس میں جنرل ضیا الحق کی مرضی شامل نہیں تھی۔پھر آپ جب بھی محمد خان جونیجو کی معاشی پالیسیوں کی بات کی جائے اور انھیں جاننے والے ان کی دیانتداری اور کفایت شعاری کی مثالیں پیش کرتے ہیں اور انہی کی روشنی میں محمد خان جونیجو نے پاکستان کی معاشی پالیسی کی سمت مقرر کرنے کی کوشش کی۔راجہ ظفر الحق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کی دیانتداری کی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”جو شخص بطور وزیر اعظم شام کو وزیر اعظم ہاو¿س کی گاڑیوں کی لاگ بک بھی چیک کرے اس کی دیانت پر آپ کیا شبہ کر سکتے ہیں؟“پھر انہوں نے کفایت شعاری کی مثال قائم کرتے ہوئے ایک نئی مثال قائم کی۔ انھوں نے سرکاری خزانے سے نئی، بڑی اور درآمدی گاڑیوں کی خریداری کی شق ختم کر دی۔انھوں نے حکم دیا کہ وہ تمام سرکاری افسر جو سرکاری گاڑی استعمال کرنے کے مجاز ہیں وہ اب درآمدی گاڑیوں کی بجائے مقامی طور پر تیار کردہ گاڑیاں استعمال کریں گے۔اس فیصلے کے بعدبہت سے افسران ان کے خلاف ہو گئے۔ فوجی افسروں نے تو جونیجو صاحب کی حکم عدولی اس انداز میں کی کہ انھوں نے وزیر اعظم کی خواہش کے برعکس پرانی جیپوں کے استعمال کو ترجیح دی۔ لہٰذاہم محمد خان جونیجو کے دور کو پاکستان کی تاریخ کا سنہرا دور کہہ سکتے ہیں ، اُن کی حکومت کو صدر ضیاءنے جیسے ہی 29مئی کو برطرف کیا، مسلم لیگ ن کے سربراہ میاں محمد نواز شریف کو جنرل ضیاءالحق کی ہدایت پر نگران وزیر اعلیٰ پنجاب لگا دیا گیا۔ پھر اُس کے بعد لگاتار ابھی تک ایک ایسے دور کا آغاز ہوا کہ پارلیمنٹ کی بالادستی کے دعوے کرنے والوں نے پارلیمنٹ کومحض ربڑ سٹیمپ بنا کر چھوڑا اور یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان پارلیمنٹ کی بالادستی کے حوالے سے دنیا کے آخری نمبروں پر آتا ہے!!!