”بڑوں“ کی لڑائی کا حل ، الیکشن ہیں؟

لیں جی! ملک میں ایک بار پھر ”بڑوں“ کی لڑائی کا کھیل شروع ہوگیا، تاریخ گواہ ہے کہ یہ لڑائی جب جب لڑی گئی بڑوں کو تو شاید کچھ نہیں ہوا مگر وطن عزیز مزید کمزور تر ہوتا چلا گیا۔ 1971 کی جنگ ہو، بھٹو کے دھاندلی زدہ الیکشن ہوں، جنرل ضیاءالحق کا مارشل لاءہو، 1985ءکے غیر جماعتی الیکشن ہوں، 90کی دہائی کی سیاست ہو، 99ءکا مارشل لاءہو، بے نظیر کی شہادت ہو، 2013ءکا دھاندلی زدہ الیکشن ہو، 2014-16کے دھرنے ہوں، ڈان لیکس ہو، 2018ءکا الیکشن ہو ، تحریک لبیک کے دھرنے ہوں یا 9اپریل کی کامیاب تحریک عدم اعتماد ہو۔ جب جب بھی بڑوں کی لڑائی ہوئی ”گھر“ کا ستیاناس ہوگیا۔ کیسے؟ مثلاََاگرآپ کسی کام کرنے کی جگہ یا گھر ہی لے لیںجہاں آپ رہ رہے ہوں، وہاں ”بڑوں“ کی لڑائی ماحول میں کیسا بگاڑ پیدا کرتی ہے یہ آپ سے بہتر کوئی نہیں جان سکتا۔ یہی ملک کے ساتھ ہو رہا ہے۔ آج جب عمران خان اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پر ہیں، اور حکومت اُنہیں نیچا دکھانے کے لیے اصل مسائل سے توجہ ہٹائے ہوئے ہے۔ حالانکہ ملک پہلے ہی نہیں چل رہا، معیشت وینٹی لیٹر پر ہے، کاروبار تباہ ہوچکے ہیں، آئی ایم ایف اگلی قسط ریلیز کرنے سے انکاری ہے، ڈالر ڈبل سنچری پوری کرکے مزید بڑھتا جا رہا ہے، بڑے بڑے دعوے کرنے والے سائنسدان قسم کے معیشت دان وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل جانے کدھر غائب ہو گئے ہیں۔ نہ کوئی بیان، نہ کوئی ڈالر مافیا کے خلاف کارروائی.... بس ایک ہی رٹ کہ پچھلی حکومت معیشت کا ستیاناس کر گئی۔ بھئی اگر وہ ستیاناس کر گئے ہےں تو آپ لوگ تو تجربہ کار ہیں، کئی دہائیوں سے آپ دونوں جماعتوں نے اس ملک پر حکومت کی ہے تو اب کس منہ سے اپنی بری کارکردگی کو چھپا رہے ہو؟اور پھر اگر کوئی حل نہیں نکال سکتے تھے تو لڑ جھگڑ کر حکومت کیوں لی؟ خیر یہ تو الگ بحث ہے مگر اس وقت حکومت وقت کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئں اور معاملات کو سنبھالنے کے لیے تحریک انصاف سے بات چیت کرے، مذاکرات کرے ۔ ورنہ بقول شخصے” کسی کا کچھ جانا نہیں اور ملک کا (خاکم بدہن) کچھ رہنا نہیں! خیر اگر ہم بات کریں کہ اس وقت تحریک انصاف کی حالیہ تحریک اور مطالبات کی ، تو اُن کا سب سے بڑا اور اہم مطالبہ ہے کہ فوری طور پر الیکشن کا انعقاد کروایا جائے، تحریک انصاف یہ بڑا مطالبہ اس لیے بھی کر رہی ہے کہ اُسے علم ہے کہ اس وقت اُسے ہمدردی کا ووٹ حاصل ہوگا، اور اس وقت اُس کی مقبولیت کا گراف جو دوران حکومت 40فیصد تک گر گیا تھا اب 65فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس حکومت اسمبلیوں کی مدت پوری کروا کر اگلے سال الیکشن کروانا چاہتی، کیوں کہ حکومت کبھی نہیں چاہے گی کہ اس وقت الیکشن کروائے جائیں جب عمران خان کی مقبولیت کا گراف بہت اوپر ہو۔ جبکہ ان دونوں کے علاوہ فیصلہ کرنے والی قوتیں بھی اس پوری صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں ، بادی النظر میں وہ فکر مند بھی ہیں اور فیصلے کرنے کی پوزیشن میں بھی۔ لہٰذاایک افواہ یہ بھی ہے کہ شاید چند ”ایکسپرٹ“ افراد پر مشتمل ایک ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کر دی جائے۔ لیکن یہاں ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ٹیکنو کریٹس ڈیموکریسی سے مختلف حکومت ہوتی ہے۔ ٹیکنو کریٹس میں افراد کو ان کے تجربہ اورمہارت کی بنیاد پر کردار سونپا جاتا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ وہ اکثریت کی رائے سے مطابقت رکھتے ہیں یا نہیں۔ ٹیکنو کریٹس اپنی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں انہیں رائے عامہ سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔پاکستان میں سابقہ حکومت ”نیم ٹیکنوکریٹ“ حکومت رہی جس میں معیشت کو درست کرنے کے لیے بہت سے ایکسپرٹس امپورٹ کیے گئے مگر کچھ نہ بن سکا۔ اوریہ تجربہ بری طرح ناکام ہوگیا۔ جبکہ اگر ہم دنیا بھر میں اس حوالے سے نظر دوڑائیں تو یہ تجربہ کہیں بھی کامیاب نہیں رہا، بلکہ یہ ٹیکنوکریٹس چونکہ پہلے ہی احسانات تلے دبے ہوتے ہیں اس لیے بعض قوتیں انہیں اپنے لیے استعمال کرتی ہیں اور یہ لوگ جو بھی دباﺅ میں بہت جلد آکر ٹریک سے اتر جاتے ہیں۔ جیسے بنگلہ دیش میں کرپشن ختم کرنے کے نام پر جنوری 2007 میں دو سال کے لئے ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم کی گئی تھی۔ بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ کا خیال تھا کہ وہ عوام میں مقبول لیڈر شپ کو کرپٹ کہہ کرکے ان سے جان چھڑا لیں گے۔اس وقت بنگلہ دیش کی دو مقبول سیاسی پارٹیاں عوامی لیگ اور نیشنل پارٹی تھیں اور ان کی قیادت شیخ حسینہ اور بیگم خالدہ ضیاءکر رہی تھیں۔ اس وقت بنگلہ دیش کے آرمی چیف معین الدین احمد تھے جنہوں نے ”Two Minus“ کا کھیل کھیلا اور اس کے لئے سپریم کورٹ کا کندھا استعمال کیا۔ بنگلہ دیشی اسٹیبلشمنٹ اور سپریم کورٹ نے ورلڈ بینک کے ایک سابق عہدیدار فخرالدین احمد کو امریکہ سے امپورٹ کیااور اسے اسی طرح وزیر اعظم بنوا دیا جیسے کبھی پاکستان میں امریکہ سے معین قریشی کو 1993میں امپورٹ کیا گیا تھا۔فخرالدین احمد پاکستانی سول سروس کے سابق بیوروکریٹ تھے جو 1971 میں بنگلہ دیش بن جانے کے بعد بنگلہ دیش سول سروس میں شامل ہو گئے تھے لیکن چند سال بعد ہی استعفی دے کر امریکہ میں ورلڈ بینک کے ملازم ہو گئے تھے جہاں انہوں نے 22 سال خدمات انجام دیں اور نائب صدر کے عہدے سے ریٹائر ڈہوئے۔اور بعد میں اُنہیں امپورٹ کرکے بنگلہ دیش میں دو سال کے لیے ٹیکنو کریٹس کی حکومت قائم ہوگئی۔ ٹیکنوکریٹس کی اس حکومت نے دو سال بنگلہ دیش میں خوب ادھم مچایا ، کام کاج کیا کرنا تھا ، بس اپنا دو سال کا وقت سیاست دانوں کو کرپٹ کہنے میں گزار دیا۔غیر آئینی ٹیکنوکریٹ وزیر اعظم فخرالدین احمد نے آرمی چیف معین الدین احمد کو مدت ملازمت میں توسیع بھی دی۔ دو سال بعد جب جنوری 2009 میں الیکشن کرائے گئے تو جرنیلوں اور سپریم کورٹ کی اصل حقیقت عوام نے ادھیڑ کر رکھ دی اورعوام نے دونوں عوامی سیاست دانوں شیخ حسینہ اور بیگم خالدہ ضیاءکو ہی ووٹ دئیے۔ بنگلہ دیش ٹیکنو کریٹ ماڈل چاروں شانے چت ہو گیا اور یہ بات ثابت ہو گئی کہ عوام اپنے منتخب کردہ سیاست دانوں کوہی پسندکرتے ہیں ۔ بنگلہ دیش کے بعد رومانیہ نے بھی حال ہی میں ٹیکنو کریٹ حکومت کا ناکام تجربہ کیا۔ نومبر 2015 میں ایک سیاسی بحران کے بعد یورپین یونین میں رومانیہ سے تعلق رکھنے والے زرعی کمشنر ڈاسیان سیالوس کو دارالحکومت بخارسٹ امپورٹ کیا گیا جنہوں نے 21 رکنی ”کرپشن فری“ ٹیکنوکریٹ حکومت بنائی لیکن اس حکومت نے ایک سال بعد ہی ہاتھ کھڑے کر دئیے اور الیکشن کرا کر بھاگنے میں ہی عافیت جانی۔ جنوری 2017 میں ایک بار پھر عوام کے منتخب نمایندوں نے حکومت سنبھالی اور ٹیکنو کریٹ تجربہ کا وقت سے پہلے ہی اسقاط ہو گیا۔ اس وقت رومانیہ کی منتخب حکومت کو عوام کی مکمل سپورٹ حاصل ہے۔لہٰذایہ تجربہ نہ ہی کیا جائے تو بہتر ہوگاکیوں کہ پاکستان اب دوبارہ کسی بڑی مصیبت کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ لہٰذااب رہی بات دوبارہ الیکشن کروانے کی تو صاف سی بات ہے کہ دنیا بھر میں جب بھی کہیں تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی ہے تو اپوزیشن کو حکومت نہیں ملتی بلکہ ممبران پارلیمنٹ عوام میں چلے جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے سامنے برطانیہ کی ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ میں 1742ءسے لے کر 1979 ءتک کے 237 برسوں میں عدم اعتماد کی پچیس تحریکیں کامیاب ہوئیں اور ایسی ہر صورت میں عدم اعتماد کا شکار ہونے والے وزیراعظم کے مشورے پر دارالعوام (پارلیمنٹ کا ایوانِ زیریں، جیسے ہمارے ہاں قومی اسمبلی ہے) کے نئے انتخابات ہوئے۔برطانوی روایت کے مطابق عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے والے وزیراعظم کا یہ اختیار قائم رکھا جاتا تھا کہ وہ نئے انتخابات فوری طور پر کرا لے۔ وضاحت کے لیے اس کو یوں سمجھ لیجیے کہ پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد انہی کے مشورے پر صدر اسمبلی توڑ کر الیکشن کرالیتے تو یہ برطانوی پارلیمانی جمہوریت کی درست پاسداری ہوتی۔ اب میں نے 1979ءتک اس لیے لکھا کہ برطانیہ میں بھی جب تک عدم استحکام کی تحریک کے بعد دوبارہ الیکشن کروائے جاتے تو اُس کے بعد معاملات نارمل ہوجاتے لیکن اس کے برعکس وہاں پر بھی 1979ءسے 2010تک خاصے سیاسی مسائل رہے، جن کے بعد2011ءمیں ایک قانون پاس ہوگیا کہ اب پارلیمنٹ اپنے پانچ سال پورے کرے گی اور پانچویں سال کے پانچویں مہینے کی پہلی جمعرات کو عام انتخابات ہوا کریں گے۔پھر اُس کے بعد برطانیہ بھی کئی ایک مسائل سامنے آئے جیسے 2016 ءمیں برطانیہ کے یورپی یونین سے الگ ہونے کا معاملہ آگیا۔ یہاں سے عدم استحکام کا ایسا کھیل شروع ہوا جس نے چار سال تک برطانیہ میں کسی حکومت کو ٹک کر کام نہ کرنے دیا۔ ایک بار الیکشن بھی ہوا مگر استحکام میسر نہ آسکا۔ پچھلے الیکشن میں برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم بورس جانسن نے اپنی انتخابی مہم اس بنیاد پر چلائی کہ ملک کو باندھ کر رکھ دینے والے اس قانون سے جان چھڑوائیں گے۔ انہوں نے الیکشن کے بعد فوری طور پر اس قانون پر دیگر سیاسی جماعتوں سے بات چیت شروع کی اور آخرکار مارچ 2022ءمیں یہ قانون ختم کرکے وہ صورتحال بحال کردی جو اس سے پہلے تھی، یعنی عدم اعتماد کے بعد نیا الیکشن ہی ہونا چاہیے۔مطلب لوٹ کے بدھو گھر کو آئے! لہٰذایہاں بھی حکومت کو جانا الیکشن کی طرف ہی پڑے گا چاہے آج نہیں تو کل ....ورنہ ہم عدم استحکام کی طرف بڑھتے چلے جائیں گے۔ اور آپ دیکھ لیں کہ پہلے ہی اس ملک کی کیا صورتحال ہے اور سوچیں کہ کیا یہ ملک مزید عدم استحکام کا متحمل ہو سکتا ہے؟ اگر نہیں تو خدارا ہوش کے ناخن لیں اور الیکشن کی طرف بڑھیں ورنہ بقول شاعر رہے نہ ساتھ پچھتاوے بھی تو رنج ہوا کہ حاصل سفر عمر رائیگاں بھی گیا