درآمدات پر پابندی : بغیر تحقیق ”فوری“ فیصلوں کی بھرمار!

قومی معیشت تاریخ کے اس سنگین ترین موڑ پر کھڑی ہے، جہاں سے نجات پانے کے لیے انتہائی اقدامات اُٹھانا ناصرف مجبوری ہے بلکہ اس کے بغیر گزارہ بھی ممکن نہیں ہے۔حد تو یہ ہے کہ معیشت کو ٹھیک کرنے والوں کی ترجیحات ہی کچھ اور ہیں، اور پھر نہلے پر دہلا یہ کہ ایک سیاسی پارٹی نے آج سے لانگ مارچ کا اعلان کر رکھا ہے، اور حکومت نے اسے بزور طاقت روکنے کا عندیہ دے دیا ہے۔ جس سے خدشہ ہے کہ ملک مزید سیاسی و معاشی عدم استحکام کی طرف جائے گا ۔ لیکن یہاں ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ملک میں جہاں پہلے ہی غیر یقینی کی صورتحال ہے وہاں جلدی میں.... موقع پرستی کی وجہ سے ....نیت میں کھوٹ کی وجہ سے ....مافیاﺅں کے ساتھ میل ملاپ کرکے .... مخالفین کو دبانے کے لیے یا سستی شہرت حاصل کرنے کے لیے ایسے ایسے فیصلے کر دیے جاتے ہیں جو انتہائی غیر مناسب ہو تے ہیںاور ملک کو مزید تباہی کی جانب لے جاتے ہیں۔ جیسے حال ہی میں حکومت نے مختلف 41قسم کی ”لگژری “ آئیٹمز کی درآمدات پر فوری پابندی لگا دی۔ ان آئیٹمز میں کھانے پینے کی اشیا، بڑی گاڑیاں ،موبائل فون کے علاوہ جیم اور جیولری، لیدر، چاکلیٹ اور جوسز، سگریٹ کی درآمد پر پابندی کے ساتھ ساتھ ہی امپورٹڈ کنفیکشنری، کراکری کی امپورٹ فرنیچر، فش اور فروزن فوڈ کی امپورٹ، ڈرائی فروٹ، میک اپ ، ٹشو پیپرز کی امپورٹ پر بھی پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اب یہ فیصلہ بغیر سوچے سمجھے اور بغیر کسی سٹیک ہولڈر کو شامل کیے کیا گیا ہے، جو عام اصطلاح میں ہم ”فوری“ فیصلہ بھی کہتے ہیں! لہٰذااس کے اثرات ملاحظہ فرمائیں کہ جب ”فوری“ پابندی لگتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ مثلاََ اب امپورٹڈ میک اپ پر پابندی لگی ہے تو آپ کسی بھی میک اپ آرٹسٹ سے بات کرکے دیکھیں ۔ جو میک اپ اُنہیں 2000روپے میں مارکیٹ سے آسانی سے دستیاب تھا وہ اُنہیں فوری طور پر ”بلیک“ میں 3ہزار روپے میں ملے گا۔ یا مقامی طور پر تیار کر دہ ناقص اور غیر معیاری میک اپ اب پابندیاں لگنے کے بعد”فوری“ طور پر اُسی قیمت میں چلا جائے گا جس قیمت میں امپورٹڈ دستیاب تھا، اس سے فائدہ کس کو ہوا؟ اُنہی چند خاندانوں کو جن کی سینکڑوں کی تعداد میں کمپنیاں ہیں۔ اور جو ملک کو پہلے ہی چلا رہے ہیں۔ پھر آپ گاڑیوں کی مثال لے لیں، جو گاڑیاں 10لاکھ روپے اون پر تھیں، پابندی لگنے سے ”فوری“ طور پر 15لاکھ روپے اون پر چلی گئیں۔ اور جو گاڑیاں مقامی طور پر اسمبل کی جاتی ہیں اُن کی قیمتیں بھی ”آٹو میٹکلی“اوپر چلی گئیں۔ مطلب جب آپ ”لگژری آئیٹمز“ پر پابندی لگاتے ہیں تو پاکستانی پراڈکٹ پھر اُس قیمت پر چلی جاتی ہے، اور پھر فائدہ عوام کو ہونے کے بجائے چند خاندان اُٹھالیتے ہیں.... کیسے؟ اس سلسلے میں میری ایک دوست تاجر سے بات ہوئی، اُس نے کہا کہ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ریاست جب سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوتی ہے تو پھر” تھرڈ پارٹی“ فائدہ اُٹھاتی ہے،،، وہ کیسے؟ وہ اس طرح کہ وہ حکومت کو جلدبازی میں ایسے سبز باغ دکھاتی ہے کہ جس سے حکومتی عہدیداروں کا ذاتی فائدہ بھی ہوتا ہے اور عوام کا بھی آٹے میں نمک کے برابر فائدہ نظر آتا ہے۔ جیسے موجودہ حکومت کے سابقہ ادوار میں کئی مرتبہ امپورٹڈ گاڑیوں پر سے ڈیوٹی فیس ہٹا دی گئی، حکومتی عہدیداروں اور چند خاندانوں نے ہزاروں گاڑیاں ”حسب ضرورت“ باہر سے منگوا لیں۔ جب یہ گاڑیاں کراچی پورٹ سے کلیئر ہوئیں تو ”فوری“ طور پر دوبارہ ڈیوٹی فیس لگا دی گئی۔ مطلب ہمارے ہاں ”فوری“ فیصلے ملک کو ڈبونے کے لیے کافی ہیں۔ اور یہ ایک بار نہیں بلکہ کئی بار ہوا ہے، آپ 1993ءسے لے کر 2022ءتک کے ان کے ادوار نکال لیں سب کچھ واضح ہو جائے گا۔ مطلب بغیرسوچے سمجھے فیصلے ہمیشہ ان سیاسی خاندانوں کی حکومت میں آپکو نمایاں نظر آئیں گے، جس میں ملکی فائدہ کم اور ذاتی پھرتیاں زیادہ نظر آئیں گی۔ اور پھر ان لوگوں کواس قسم کے فیصلے لیتے ہوئے تاجر برادری سے بھی غرض نہیں ہوتی کہ وہ کیا سوچیں گے؟ کیا کریں گے؟ اُنہوں نے جو آرڈر لے رکھے ہیںاُن کا کیا ہوگا؟ اور پھر حیرت کی بات یہ ہے کہ جن اشیاکی درآمد پر پاپندی لگائی گئی ہے وہ مجموعی درآمدات کا صرف %1.5 حصہ ہیں۔ مطلب 98.5فیصد درآمدات ابھی بھی پاکستان میں ہورہی ہیں۔ ایسے مصنوعی اقدامات سے معیشت نہیں سنبھلتی بلکہ منڈیوں میں بحران آجاتا ہے۔ حالانکہ ہماری50فیصد سے زائد درآمدات تو تیل و گیس کی صورت میں ہے جس پر نہ تو کنٹرول کرنے کی بات ہوتی ہے اور نہ ہی گیس سے بجلی پیداکرنے والے بڑے بڑے پلانٹس کو بند کرنے کی بات ہوتی ہے۔ اور پھر بات سیدھی سادھی ہے کہ ان بڑے پراجیکٹس سے بہت سے لوگوں کا ”کمیشن“ لگا ہوا ہے تو کوئی کیوں کر ان مصنوعات کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کو ترجیح دے گا۔ اور پھر آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ پاکستان کا ماہانہ امپورٹ بل 7ارب ڈالر کو کراس کر رہا ہے۔ مطلب 7ارب ڈالر ماہانہ پاکستان اسٹیٹ بنک کے اکاﺅنٹ سے نکل کر بیرون ملک جارہے ہیں۔ اور یہ سب اسی طرح کے ”فوری“ فیصلوں کی مرہون منت ہے۔ اور یہ فوری فیصلے آج سے نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے ہو رہے ہیں۔ میں زیادہ پیچھے نہیں جاتا آپ 1971ءسے دیکھ لیں جب پاکستان، بھارت اور بنگلہ دیش تینوں ملکوں نے اپنی اپنی سمت کا تعین کرنا شروع کیا تھا۔ اُس وقت ورلڈ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق، 1971 میں انڈیا کی قومی مجموعی پیداوار 67 ارب ڈالر تھی، جو اب 2021-22 میں 2700 ارب ڈالر ہوچکی ہے۔ یعنی7.7 فیصد سالانہ اوسط شرح نمو اور 49 برسوں میں 38 گنا اضافہ)۔جبکہ آج انڈیا کی فی کس آمدن2000 ڈالر ہوچکی ہے۔دوسری جانب بنگلہ دیش کی 1971 میں قومی مجموعی پیداوار 8.7 ارب ڈالر تھی جو پچھلے برس 2021-22تک 324 ارب ڈالر ہوچکی ہے، یعنی 7.71 فیصد سالانہ اوسط شرحِ نمو، جبکہ 49 برسوں میں 38.1 گنا اضافہ۔جبکہ آج فی کس آمدن 2100 ڈالرہے ، یعنی انڈیا سے زیادہ۔لیکن اس کے برعکس اگر ہم پاکستان کی بات کریں تو پاکستان کی مجموعی قومی پیداوار 1971 میں 10.6 ارب ڈالر تھی جو کہ پچھلے برس تک 263 ارب ڈالر تھی یعنی سالانہ اوسط شرح نمو 6.68 فیصد تھی اور 49 برسوں میں 23 گنا اضافہ ہوا۔ اوریہاں فی کس آمدنی 1193 ڈالر ہے۔ الغرض بھارت اس وقت 2700ارب ڈالر کی مارکیٹ، بنگلہ دیش 324ارب ڈالر کی مارکیٹ اور پاکستان ڈیڑھ سو ارب ڈالر قرض کے ساتھ 263ارب ڈالر کی مارکیٹ ہے۔ اور پھر یہی نہیں ہم سیاسی استحکام کے حوالے سے بھی اپنے جڑواں ممالک سے بہت پیچھے رہ چکے ہیں مثلاََ گلوبل اکانومی کی رپورٹ کے مطابق سیاسی استحکام کے لحاظ سے انڈیا کا نمبر 159 ہے، بنگلہ دیش کا 161 اور پاکستان کا 184 درجہ بنتا ہے۔اور پھر کمزور ترین ریاستوں میں بھی ہمارا نمبر 27واں، بنگلہ دیش کا 37واں اور انڈیا کا نمبر 63واں ہے۔ مطلب یہ سب کچھ اسی قسم کے ”فوری“ فیصلوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ جن میں قومی مفاد سے زیادہ ذاتی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے۔ جبکہ ہمسایہ ملک بھارت ہی کی دارآمدی پالیسی کو پڑھ لیں2002ءمیں بنائی گئی درآمدی پالیسی پر آج بھی من و عن عمل کیا جا رہا ہے۔ وہاں اگر موبائل کی درآمد پر پابندی ہے تو دوسری جانب انٹرنیشنل کمپنیوں کو یہ چھوٹ دی جاتی ہے کہ وہ بھارت میں انڈسٹری لگائیں اور اپنی پراڈکٹ مقامی طور پر تیار کریں تاکہ بھارتی عوام کو روزگار ملے، ترقی ملے اور ملک کا ریونیو ملک کے اندر ہی رہ جائے۔ بہرکیف یقینادرآمدی اشیاءپر پابندی لگانے سے ملکی معیشت میں بہتری آتی ہے، لیکن یہ پابندیاں کس بنیاد پر لگتی ہیں؟ ان کا دورانیہ کیا ہوتا ہے؟ اس سے کون کون سے لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں، کیا اس حوالے سے کسی نے تحقیق کی؟ آج اگر ڈالر 200روپے کو چھو رہا ہے تو کیا کبھی کسی نے غور کیا کہ روپے کی اس بے قدری کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ اس وقت ہمارے پاس صرف ڈیڑھ ماہ کی مدت کا زرمبادلہ قومی خزانے میں باقی رہ گیا ہے۔ جبکہ ہمارے ہمسایہ ممالک کے پاس اگلے دو سال تک کا زرمبادلہ پڑا ہے۔ لہٰذاحکومت اور فیصلہ سازوں کو چاہیے کہ اس حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے، مان لیا کہ بھارتی مارکیٹ پاکستان کی نسبت بہت بڑی ہے، وہاں پاکستان کی نسبت سیاسی استحکام بہتر ہے، وہاں الیکشن ہائی جیک نہیں ہوتے، وہاں تحریک عدم اعتماد ہائی جیک نہیں ہوتیں، وہاں وزیر اعظم ہاﺅس یا گورنر ہاﺅسز ہائی جیک نہیں ہوتے، وہاں بیک اسٹیج چیزیں نسبتاََ کم چلتی ہیں، وہاں بندکمروں میں فیصلے کم ہوتے ہیں، وہاں کی عدالتیں سیاست میں حصہ نہیں لیتیں، وہاں کے ادارے صائب فیصلے کرکے ملکی استحکام کے لیے کام کرتے ہیں۔ لیکن یہاں ”فوری“ فیصلے ہمیں لے ڈوبتے ہیں۔ ہم وائیٹ کالر کرائم کرنے کے ماہر ہیں، ہم اقتدار میں آکر دوستوں، رشتے داروں اور اپنے ملازموں کے ذریعے کروڑوں روپے کی خوردبرد کرنے کے ماہر ہیں ، مطلب کوئی ایک پارٹی ہی شاید ان جرائم سے دور رہتی، یہاں تو ہر جماعت ہر فرد ہی ذاتی فائدے لینے کے لیے ملک کو کھوکھلا کر رہا ہے، بلکہ بقول شاعر ہزاروں لوگوں میں دوچار بھی نہیں نکلے مری طرف تو میرے یار بھی نہیں نکلے لہٰذااس سیاسی عدم استحکام کے دور میں ایسی حکومت تشکیل دی جائے، جو روڈ میپ مہیا کرے، جو ملکی مفاد میں بہترین فیصلے کرے، اگر یہ قوم 1973ءکا متفقہ آئین مرتب کر سکتی ہے تو قومی پالیسی مرتب دینے میں بھی کوئی عار نہیں ہونی چاہیے ۔ اُمید کی جاسکتی ہے کہ اس پالیسی کے مرتب ہونے کے بعد نا تو کوئی لانگ مار چ کرے گا، نہ جلسے جلوسوں میں گیدڑ پھبکیاں اُڑائے گا اور نہ ہی کوئی ذاتی مفاد کیلئے”فوری“ فیصلے لے سکے گا!