منحرف اراکین کی سیاست پاکستان کو لے ڈوبی ہے!

جب معاشرے میں اخلاقیات ختم ہو جائیں تو پھر اس کا اثر ہر طبقے پر پڑتا ہے، اداروں میں ”سرد جنگ“ کا آغاز ہو جاتا ہے، جس کا اثر نچلے طبقات پر بھی پڑتا ہے۔ ریاست کا ہر فرد خود کو قانون سے بالا تر سمجھنے لگتا ہے، ہر کوئی قانون توڑنے اور خود کو سپیرئیر ثابت کرنے کی تگ و دو میں ایسے ایسے بلنڈر کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس جس معاشرے میں اخلاقیات ہوتی ہیں وہاں پر اگر اداروں کی جانب سے کوئی ڈکٹیشن موصول ہو تو اعلیٰ عہدوں پر بیٹھی شخصیات اداروں کے احترام میں عہدوں سے الگ ہو جاتی ہیں، یا پھر اگر کہیں سے الزامات کی بھنک بھی پڑتی ہے تو وہ خود کو عہدے سے الگ کرکے اپنے آپ کو پیش کردیتے ہیں۔ مطلب ساری اخلاقیات کی گیم ہوتی ہے۔ مگر یہاں وطن عزیز میں ہر کوئی اقتدار کے ساتھ چپکنا چاہتا ہے،ہر کوئی ہر حد کو پار کرنا چاہتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اس کے لیے روپے پیسے کابھی بے دریغ استعمال کیا جارہا ہے۔ انسان بک رہے ہیں، بولیاں لگ رہی ہیں، انسانیت ختم ہو رہی ہے، اخلاقیات نام کی کوئی چیز نہیں رہ گئی، اختلاف کرنا گناہ بن کر رہ گیا ہے۔ ادارے آپسی لڑائیوں میں اس قدر آگے بڑھ چکے ہیں کہ ”دخل اندازی“ ایک عام لفظ اور اصطلاح بن چکی ہے۔اور یہ لڑائی پارلیمان سے ہوتی ہوئی گلی محلے تک پہنچ چکی ہے۔ بات پارلیمان کی ہو تو یہاں بیڑہ ہی غرق ہو چکا ہے، 70فیصد سے زائد اسمبلی ممبران ”لوٹے“ بن چکے ہیں جنہوں نے ماضی میں یا حال میں اپنی وفاداریاں بیچی ہیں۔ آج کل بھی اس حوالے سے خوب شور شرابا ہے، اور سپریم کورٹ کا بھی حال ہی میں ان اراکین کے حوالے سے فیصلہ آیا ہے۔ یعنی عدالت عظمیٰ نے پارٹی سے منحرف اراکین اسمبلی کا ووٹ شمار نہ کرنے کا اکثریتی فیصلہ سنا یا ہے۔فیصلے کے مطابق ایسے اراکین کی تاحیات نااہلی کو مسترد کر کے معاملہ پارلیمنٹ کو بھیج دیا ہے کہ وہ نااہلی کی مدت پر مناسب قانون سازی کرے۔اگر اس فیصلے سے پہلے دیکھیں تو ملک کے موجودہ سیاسی حالات میں سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی سے منحرف اراکین کی وجہ سے ایک آئینی بحران پیدا ہو ا۔ اس لوٹاکریسی کی تاریخ وطن عزیز میں بہت پرانی ہے۔ جس پر طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں کہ یہ سلسلہ پاکستان کو وراثت میں ملا۔ جیسے 1937 میں پنجاب میں ہونے والے عام انتخابات میں یونینسٹ پارٹی نے 175 میں سے 99 نشستوں پر کامیابی حاصل کی جبکہ آل انڈیا مسلم لیگ کو صرف دو نشستیں حاصل ہوئیں، مگر صرف چھ ماہ کے اندر اندر یونینسٹ پارٹی کے متعدد امیدواروں نے اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرلی۔ جن میں میاں شوکت حیات، میاں ممتاز دولتانہ، میاں عبدالعزیز اور شیخ صادق حسین جیسے نامور سیاست دان شامل تھے۔ آنے والے دنوں میں آشیانہ بدلنے والے ان پرندوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا۔ 1945 کے اختتام تک یونینسٹ پارٹی کے لاتعداد نامور افرادآل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہو چکے تھے، چنانچہ 1946 کے انتخابات میں یونینسٹ پارٹی 175 کے ایوان میں صرف 18 نشستوں پر کامیابی حاصل کر پائی۔صرف نو برس کی مختصر مدت میں وہ سب کچھ ہو گیا جس کا 1937 میں خواب بھی نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ انتخابات کے بعد ان 18 نشستوں پر کامیاب ہونے والے نصف سے زیادہ ارکان آل انڈیا مسلم لیگ سے آ ملے۔یہی وہ زمانہ تھا جب پنجاب کے مشہور سیاست دان ڈاکٹر محمد عالم لوٹا کو بار بار سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی وجہ سے ’لوٹا‘ کا خطاب دیا گیا۔ ڈاکٹر عالم لوٹا کی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی تاریخ 1929 سے شروع ہوتی ہے اور 1947 میں ان کی وفات تک جاری رہی۔ قیام پاکستان کے بعد بھی سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کی یہ روایت قائم رہی۔ 1957 میں جب صدر پاکستان اسکندر مرزا نے پارلیمنٹ میں اپنی سیاسی جماعت ری پبلکن پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو مسلم لیگ میں شامل متعدد ارکان فوری طور پر اس نومولود پارٹی کا حصہ بن گئے، یا بالفاظ دیگر پاکستان کی سیاسی تاریخ کے پہلے باضابطہ لوٹے بن گئے۔ سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ ایوب خان کے دور میں بھی جاری رہا۔ کچھ افراد کو دولت کے ذریعے، کچھ کو وزارتی ترغیبات کے ذریعے اور کچھ کوحکومتی دباو¿ کے ذریعے اپنا ہمنوا بنایا گیا۔قصہ مختصر کہ پھر یہ روایت ایسی چلی کہ ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاءا لحق، محترمہ بے نظیر بھٹو، نوازشریف ،جنرل پرویز مشرف اور عمران خان تک سبھی اس کے اسیر ہوتے رہے۔ حالانکہ اس لوٹا کریسی کو روکنے کے لیے 2010ءمیں آرٹیکل 63اے میں اٹھارویں ترمیم بھی کی گئی ، جس کا مقصد ہارس ٹریڈنگ اور فلور کراسنگ کو روکنا تھا۔ اس کے تحت اگر کوئی رکن قومی اسمبلی اپنی پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفیٰ دے یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہو جائے یا پارٹی سربراہ کی مرضی کے خلاف ووٹنگ کے دوران غیر جانبدار رہے یا مخالفت میں ووٹ دے تو اس کے خلاف نا اہلی کی کارروائی عمل میں لائی جا سکتی ہے۔ لیکن اس کے برعکس ہمارے ہاں یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ یہاں قوانین تو بن جاتے ہیں مگر شرفاءاور مافیا اُس کو اپنے مطابق موڑ لیتے ہیں۔ جس طرح ہم نے اسلامی قوانین بنائے، لیکن شرفا نے اُن اپنے مطابق مولڈ کر لیا اور پھر اُن کو فائدہ ہونا شروع ہوگیا۔ جیسے دیت کے قوانین ہیں، ان قوانین کو دیکھتے ہوئے تمام اشرافیہ نے اپنے اپنے ملزمان دیت کے قوانین کے تحت روپے پیسے کے بل بوتے پر اُنہیں باعزت بری کروا لیا۔ پھر جیسے ہی مذکورہ بالا منحرف اراکین کے حوالے سے قانون بنا تھا کہ اب پاکستان کو سیاسی پارٹیاں بدلنے والوں سے نجات ملے گی، لیکن ہر پارٹی اپنی مرضی کے مطابق Electableاراکین کو اکٹھا کرتی رہیں ہیں، جیسے2008ءکے الیکشن میں تمام ق لیگ ہی لوٹا ہوگئی تھی، جس کے بعد دونوں پارٹیوں نے اُنہیں خوشی سے قبول کیا۔ اور اب بھی منحرف اراکین کو دونوں پارٹیاں بڑی خوشی سے قبول کر رہی ہیں تو یہ انتہائی افسوسناک ہے۔ آپ ان منحرف اراکین کی وفاداریوں کو چھوڑیں بلکہ اس سے پہلے تو جعلی ڈگری والے اراکین کو تمام جماعتوں نے بھی اور عوام نے بھی اُنہیں قبول کیا۔ حالانکہ سب کو علم تھا کہ یہ سب لوگ جھوٹے ہیں، اور جھوٹ بول کر یہ ممبر پارلیمنٹ بنے ہیں، نہ اُن کو پارٹی نے ری جیکٹ کیا اور نہ ہی عوام نے ۔ حد تو یہ ہے کہ اس وقت بھی پارلیمنٹ میں بے شمار ایسے لوگ موجود ہیں جن کی ڈگریاں جعلی تھیں۔ لہٰذاہمیں ایسے لوگوں سے بطور قوم نفرت کرنی چاہیے، بلکہ اس حوالے سے بھی قانون بننا چاہیے کہ لوٹوں کو پارٹیاں بھی قبول نہ کریں اور ان کے قول و فعل سے نفرت کی جائے، اور پھر ایسے اراکین سے ناصرف سماجی دوری رکھی جائے، بلکہ ان سے معاشرتی نفرت بھی کی جانی چاہیے ۔ الغرض قوم بننے کے لیے ہمیں سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔ اور یہ فیصلے عوام سے شروع کرنا ہوں گے۔عوام کو ایسے افراد سے نفرت کرنا پڑے گی جو جرائم پیشہ ہوں اور ہمارے اوپر مسلط ہو چکے ہوں، یقین مانیں امریکا میں تو ریپ کیس کا کوئی قیدی جیل چلا جائے تو دوسرے قیدی اُسے ویسے ہی مار دیتے ہیں،کیوں کہ اسے اخلاقی جرم سمجھا جاتا ہے، لیکن یہاں تو منحرف اراکین، یا لوٹے اپنے حلقے میں واپس جاتے ہیں تو وہاں اُن کا پھولوں سے استقبال ہو رہا ہوتا ہے۔ نہ ہار پہنانے والوں کو شرم آتی ہے، نہ ہار پہننے والوں کو شرم آتی ہے۔ لہٰذاان کا سماجی و معاشرتی بائیکاٹ ہونا چاہیے کہ یہ لوگ دوبارہ اسمبلیوں میں نہ آسکیں ۔ کیوں کہ ایسے لوگ جن کی بنیاد ہی جھوٹ اور مطلب پر مبنی ہو وہ کیسے اپنے حلقے کے عوام کی خدمت کر سکتے ہیں، یا کیسے اس ملک کی قانون سازی میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں؟ اور بے شمار وکلاءجن کی ڈگریاں جعلی ثابت ہو چکی ہیں، لیکن کوئی اُن سے نفرت ہی نہیں کر رہا، وہ آج بھی نا صرف پریکٹس کر رہے ہیں بلکہ بڑے بڑے مقدمات میں معاونت بھی کر رہے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ لہٰذاعدالت عظمیٰ اس پر بھی ایک از خود نوٹس لے کہ ”لوٹا“ اراکین کی اب کوئی حیثیت نہیں رہے گی جو اپنی پارٹی سے انحراف کرتے ہیںاور پھر جو شخص ایک دفعہ جھوٹا ثابت ہو جائے پھر اُسے دوبارہ اے کلاس شہری نہیں بلکہ اُسے بی کلاس شہری ڈکلیئر کیا جانا چاہیے کیوں کہ وہ جھوٹا ثابت ہو چکا ہے۔ اور میں پھر یہی کہتا ہوں کہ عوام کو بھی اس پر ایکشن لینا چاہیے اور اس قدر سخت ایکشن لینا چاہیے کہ بطور قوم ہم پر کوئی حملہ نہ کر سکے۔ عوام کے ڈر سے کوئی سیاسی جماعت ایسے اراکین کو ٹکٹ نہ دے، اور پھر سپریم کورٹ کے بھی علم میں ہو کہ اگر اُس نے عوام کی مرضی کے خلاف کوئی قانون سازی کی تو عوام احتجاج کرے گی۔ کیوں کہ ان لوگوں کی وجہ سے پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کی روائت پیدا ہوئی۔چھانگا مانگا اور مری کے بدنما داغ ایسے ہی اراکین نے جمہوریت کی اجلی چادر پر لگائے۔دانشمندی کا تقاضا ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سیکھ کر آگے بڑھا جائے۔سیاسی شعور کسی وجہ سے ترقی نہیں کر پا رہا اس لئے قومی سطح پر ماضی کی غلطیوں سے سیکھنے کا عمل نشوو نما نہیں پا سکا۔ایک ہی طرح کی غلطیاں مسلسل کی جا رہی ہیں۔نوے کے عشرے میں جس طرح سیاسی حکومتوں کو الٹانے کے لئے اراکین کی خریدوفروخت ہوتی رہی ہے وہ چلن 2022ءکو بھی داغدار کر رہا ہے۔پنجاب میں پی ٹی آئی کے 25اراکین اسمبلی نے پارٹی ہدایات نظر انداز کر کے حمزہ شہباز کو ووٹ دیا۔اس سے صوبہ بحران اور سیاسی کشمکش کا شکار ہوا۔وقت آ گیا ہے کہ شخصیات کی بجائے سیاسی جماعتوں کو مضبوط کیا جائے، کوئی رکن اپنی جماعت کی پالیسی سے اختلاف کرے تو اسے اسمبلی سے استعفیٰ دے کر عوام سے نیا مینڈیٹ لینا چاہیے سپریم کورٹ نے منحرفین کے لئے سزا کے تعین کا معاملہ پارلیمنٹ کے سپرد کیا ہے۔امید ہے سیاسی جماعتیں اس اہم معاملے کو قومی مفاد پیش نظر رکھ کر دیکھیں گی۔