عوام کو مزید جوتے پڑیں گے!

خدانخواستہ اگر ملک ڈیفالٹ کر جائے تو کوئی ملک آپ سے سودا نہیں کرتا، کوئی ملک آپ کو ادھار پر مال فروخت نہیں کرتا، کوئی کمپنی آپ سے لین دین نہیں کرتی، حتیٰ کہ آپ کے دوست ممالک بھی آپ سے کسی قسم کا معاہدہ نہیں کرتے، ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک سے بھاگ جاتی ہیں، دنیا بھر میں آپ کی رسوائی ہوتی ہے، لوگ ملک چھوڑ کر جانا شروع ہو جاتے ہیں اور آپ کے دشمنوں کو آپ پر حاوی ہونے کا موقع مل جاتا ہے۔ اور پھر حالات کو بہتر کرنے کے لیے آپ کو سخت فیصلے کرنا پڑتے ہیں اور ان سخت فیصلوں کے بعد ایک بار پھر ملک مزید نیچے جاتا ہے اور اگر فیصلے صحیح ہوں تو ملک کچھ عرصے بعد اپنے پاﺅں پر کھڑا ہوجاتا ہے ورنہ خاکم بدہن روانڈا، صومالیہ یا شام بن جاتا ہے۔اگر ہم وطن عزیز کی بات کریں تو ماہرین معاشیات کے نزدیک ہم ڈیفالٹ یا دیوالیہ ہونے سے چند ہفتے دور ہےں، یعنی اگر کسی نے اس پوزیشن پر ملک کی باگ ڈور نہ سنبھالی، ملکی استحکام کے لیے کام نہ کیا تو ملک کے معاشی حالات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ لیکن فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ سابقہ حکومت یعنی تحریک انصاف سے تو معیشت سنبھل نہیں رہی تھی اور وہ جیسے تیسے کرکے حکومت چلا رہے تھے، جبکہ شوکت ترین نے بھی معیشت کے حوالے سے چند اچھے فیصلے کرلیے تھے لیکن پھر سب کچھ بدل گیا اور حکومت اپوزیشن کو دے دی گئی۔ پھر اُس کے بعد کیا ہوا؟ ن لیگی قیادت لندن ”مشاورت“ کے لیے چلی گئی۔ اورزرداری نے اعلان کردیا کہ ہو سکتا ہے اگلے ہفتے اسمبلیاں ہی تحلیل کر دی جائیں۔ اُن کی اس بات پر مشہور پاکستانی فلم کا ڈائیلاگ یاد آگیا کہ ”جب کھلا نہیں سکتے تو پیدا کیوں کرتے ہو“ ۔ مطلب اگر حکومت کرنی ہی نہیں آتی تھی یا معیشت کو سنبھال نہیں سکتے تھے تو حکومت لی کیوں؟ اور پھر سوال یہ ہے کہ عمران خان کو حکومت سے نکالنے کا فائدہ کیا ہوا؟ نام نہاد عدم اعتماد تحریک لانے کا فائدہ کیا ہوا؟ اقتدار کے لیے اداروں کو لڑانے کا فائدہ کیا ہوا؟ حالانکہ اپوزیشن نے جب حکومت لی تھی تو اُسے پتہ تھا کہ سخت فیصلے کرنا پڑیں گے، معیشت کو بہتر بنانے کے لیے برآمدات میں اضافہ کرناپڑے گا، لیکن کیا کیا؟ کچھ نہیں! بلکہ نئی حکومت حاصل کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک ایک دن انتہائی اہم اور ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ معاشی طور پر پاکستان کو ڈیفالٹ کی طرف لے کر جا رہے ہیں، جس کے نتائج بہت ہی خطرناک ہوں گے۔اب پٹرول کی قیمتوں کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو بھئی سب کو علم ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھانا پڑےں گی، آج نہیں توکل پٹرول کی قیمت اوپر کرنی پڑے گی، مصنوعی طریقے سے پٹرول کی قیمت روک کر اُلٹا ملک کے لیے نقصان کا باعث بن رہی ہے۔ کیوں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ڈالر اوپر جائے اور پٹرول کی قیمت نہ بڑھے ، اس پر عمران خان کو شور مچانے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ اور اس پر اپوزیشن کو بھی شور مچانے کی ضرورت نہیں تھی کہ جب عمران خان کی حکومت پٹرول کی قیمتیں بڑھا رہی تھی، تب طوفان بدتمیزی ہر طرف جاری تھا کہ نہ جانے ملک پر کونسی قیامت ٹوٹنے والی ہے۔ حالانکہ آپ پر اگر اس طرح کی پوزیشن آجائے تو سمجھداری اسی میں ہے کہ ذاتی مفادات کی لڑائی چھوڑ کر ملکی مفاد کے لیے لڑائی لڑنی چاہیے، چند سال قبل تک اٹلی میں بھی ایسی ہی صورتحال تھی، مگر کمال حیرت سے تمام سیاسی پارٹیوں نے معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے ملکی مفاد کی خاطر سر جوڑا اور وہ معاشی بحران سے نکلنے میں ناصرف کامیاب ہوئے بلکہ آج اٹلی کی معاشی گروتھ 5.8جی ڈی پی ہے۔ لیکن اس کے برعکس یہاں سبھی سیاسی پارٹیاں صرف اپنا مفاد دیکھتی ہیں، اُنہیں ملک کا مفاد ہر گز عزیز نہیں ہوتا۔ کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ اگر پاکستان ڈیفالٹ کر جاتا ہے تو جو نتائج ہوں گے اُس سے نہ صرف مہنگائی بہت زیادہ ہو جائے گی بلکہ پاکستان کی صورتحال سری لنکا سے بھی بدتر ہو جائے گی، ہم تباہ و برباد ہو جائیں گے، ہماری معیشت کو بدترین صورتحال کا سامنا ہو گا، ملک کو خدانخواستہ خانہ جنگی کا ممکنہ سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔تو ایسے میں بھگتنا کس کو پڑے گا؟ ظاہر ہے عوام کو ہی،،، اور پھر اس کے بعد اگر موجودہ حکومت بھی نہ چل سکی اور پھر نگران حکومت بنانا پڑتی ہے اور پھر بے شرمی سے نگران حکومت کے دور میں انتہا کی مہنگائی کر دی جاتی ہے تو بھگتنا کس کو پڑے گا عوام کو! جوتے کس کو کھانا پڑیں گے عوام کو !الغرض اس کے لیے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنایا لیکن فیصلے یا تو لندن میں نواز شریف کے ہاتھ میں ہیں یا پھر آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کے مرہون منت۔اور اب جبکہ پوری کابینہ لندن میں نوازشریف سے ملاقات کے لیے بیٹھی ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا کوئی ”اعلامیہ“ جاری کیا گیا ہے یا بقول شاعر جو نہ ہو سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی حالات کا ماتم تھا ملاقات کیا تھی چلیں یہ مان لیا کہ موجودہ وزیر اعظم کو وزیر اعظم اس لیے بنایا کہ وہ پرفارم کرنے والا سیاستدان ہے لیکن اُن کے ہاتھ اور پاوں باندھ کر رکھ دیے گئے اور پھر توقع یہ کی جا رہی ہے کہ وہ فیصلہ بھی نہ کرے اور ملک کو اس مشکل سے بھی نکال دے۔ اب یہ بات مت کریں کہ عمران خان نے کیا ٹھیک کیا یا غلط۔میں یہ بات بارہا کہہ چکا ہوں کہ چلیں مان لیا کہ عمران خان کی حکومت نا تجربہ کار تھی لیکن آپ نے اور آپ کے اتحادیوں نے تو اس ملک پر 35سال تک حکومت کی ہے۔ آپ کے پاس تو ایسے ایسے گر ہونے چاہییں کہ ملک فوری طور پر لائن پر آجائے اور خدانخواستہ ڈیفالٹ نہ کرے۔ لہٰذااگر حکومت لی ہے تو فیصلہ کریں۔ اب ذمہ داری اتحادیوں کی بالعموم اور ن لیگ کی بالخصوص ہے۔ اگر پاکستان ڈیفالٹ کرتا ہے تواس سے موجودہ حکومت بری الذمہ نہیں ہو سکتی۔ ایک ایک دن قیمتی ہے۔ بہرکیف اب معاملہ ن لیگ، پی ٹی آئی یا پی پی پی کا نہیں بلکہ پاکستان کا ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اپنے اپنے سیاسی فائدے یا نقصان کی خاطر پاکستان کا ہی نقصان کر بیٹھیں اور افسوس کہ یہی ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ لندن میں کئی دن ضائع کر دیے مگر کوئی فیصلہ نہیں کیا۔فیصلے نہیں کرنے تو حکومت چھوڑیں، وقت مت ضائع کریں۔ یہ دو دو وزرائے اعظم اور دو دو وزرائے خزانہ والا کھیل نہیں چل سکتا۔ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ عمران خان کو مت نکالیں، اگر نکالیں تو فوری الیکشن کرائیں کیوں کہ درجن بھر اتحادیوں کے ساتھ کوئی حکومت نہیں چل سکتی اور یہاں اس حکومت سے توقع یہ کی جا رہی ہے کہ بڑے فیصلے کرے جس کے لیے نہ نواز شریف تیار ہیں، نہ زرداری اور نہ ہی مولانا فضل الرحمٰن۔شہباز شریف کو اگر وزیر اعظم بنایا تھا تو اُنہیں شہباز شریف ہی رہنے دیتے۔ سب توقع تو کر رہے ہیں کہ وہ حالات کو فوری بہتر کریں لیکن فیصلوں کا اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے ہی نہیں۔ میری تو شہباز شریف سے گزارش ہے کہ آج ہی استعفیٰ دے دیں تا کہ نئی حکومت آئے اور پاکستان کو بچانے کے لیے فیصلہ کرے۔ن لیگ نے پہلے غلط فیصلہ کیا اور عمران خان حکومت گرانے کے پلان میں شامل ہو گئی۔ اب ن لیگ ایک اور غلطی بلکہ بہت بڑی غلطی کر رہی ہے کہ پاکستان کی بقا کی خاطر جو فیصلے کرنے ہیںاُن فیصلوں سے اس لیے کترا رہی ہے کہ اُسے کہیں سیاسی نقصان نہ ہو جائے۔ جبکہ دوسری طرف عوام کو قربانی کا بکرہ بننے کے بجائے یہ سوچنا ہوگا کہ اُنہیں لیڈر کس کو چننا ہے؟ اس حوالے سے قبل ازمسیح کاایک واقعہ ملاحظہ فرمائیں کہ ایک چھوٹا سا لڑکا بھاگتا ہوا ”شیوانا“ (قبل از اسلام کے ایران کا ایک مفکّر) کے پاس آیا اور کہنے لگاکہ میری ماں نے فیصلہ کیاہے کہ وہ معبد کے کاہن کے کہنے پر عظیم ب±ت کے قدموں پر میری چھوٹی معصوم سی بہن کو قربان کر دے،آپ مہربانی کرکے اُس کی جان بچا دیں۔شیوانا لڑکے کے ساتھ فوراً معبد میں پہنچا اور کیا دیکھتا ہے کہ عورت نے بچی کے ہاتھ پاﺅں رسیوں سے جکڑ لیے ہیںاور چھری ہاتھ میں پکڑے آنکھیں بند کئے کچھ پڑھ رہی ہے۔بہت سے لوگ اُس عورت کے گرد جمع تھے اور بت خانے کا کاہن بڑے فخر سے بت کے قریب ایک بڑے پتّھر پر بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا،شیوانا جب عورت کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ اُسے اپنی بیٹی سے بے پناہ محبت ہے اور وہ بار بار اُس کو گلے لگا کر والہانہ چوم رہی ہے مگر اِس کے باوجود معبد کدے کے بت کی خوشنودی کے لیے اس کی قربانی بھی دینا چاہتی ہے۔ شیوانا نے اُس سے پوچھا کہ وہ کیوں اپنی بیٹی کو قربان کرنا چاہ رہی ہے توعورت نے جواب دیاکہ کاہن نے مجھے ہدایت کی ہے کہ میں معبد کے بت کی خوشنودی کے لیے اپنی عزیز ترین ہستی کو قربان کر دوں تا کہ میری زندگی کی مشکلات ہمیشہ کے لیے ختم ہوجائیں۔شیوانا نے مسکرا کر کہا:مگر یہ بچّی تمہاری عزیز ترین ہستی تھوڑی ہے؟ اِسے تو تم نے ہلاک کرنے کا ارادہ کیاہے،تمہارے لیے جوہستی سب سے زیادہ عزیز ہے وہ تو پتّھر پر بیٹھا یہ کاہن ہے کہ جس کے کہنے پر تم ایک پھول سی بچّی کی جان لینے پر تل گئی ہو،یہ بت احمق نہیں ہے وہ تمہاری عزیز ترین ہستی کی قربانی چاہتاہے تم نے اگر کاہن کی بجائے غلطی سے اپنی بیٹی قربان کر دی تو یہ نہ ہو کہ بت تم سے مزید خفاہو جائے اور تمہاری زندگی کو جہنّم بنا دے۔عورت نے تھوڑی دیر سوچنے کے بعد بچّی کے ہاتھ پاﺅں کھول دیئے اور چھری ہاتھ میں لے کر کاہن کی طرف دوڑی مگر وہ پہلے ہی وہاں سے بھاگ چکا تھا۔کہتے ہیں کہ اُس دن کے بعد سے وہ کاہن اُس علاقے میں پھر کبھی نظر نہ آیا۔دنیا میں صرف ”آگاہی“ کو فضیلت حاصل ہے اور واحد گناہ ”جہالت“ ہے،جس دن ہم اپنے ”کاہنوں“ کو پہچان گئے، ہمارے مسائل حل ہوجائیں گے اور یقین مانیں کبھی جوتے بھی نہیں کھانے پڑیں گے!