عید الفطر : اصل مقصد خوشی منانا نہیں بلکہ خوشیاں بانٹنا ہے!

اگر کسی نے یہ معلوم کرنا ہو کہ اُس کے لیے ”عید“ کیا ہے؟ تو محض اس سے اس موضوع پر بات کر کے دیکھیں آپ کو ہر لمحہ اُس کے چہرے پر پریشانیوں کے آثار نمایاں ہوتے نظر آئیںگے؟ یہ اس معاشرے کا کوئی اور طبقہ نہیں بلکہ سفید پوش طبقہ ہے جس کے لیے عید کی خوشی ،خوشی نہیں بلکہ ”فکر عید“ ہے۔ وہ اپنے بچوں کی ضروریات کو پورا کرنے کی فکر میں تگ و دو کرتا رہتا ہے کیوں کہ اس دور ہلاکت خیز میں عید آتی ہے تو مارے خوف کے بدن پر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں کہ عید آئی کہ قیامت آئی ہے۔جس معاشرے میں ذرائع دولت اور اقتدار و اختیار چند مخصوص ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائیں، وہاں عمومی خوشیوں کا تصور اس حد تک ناپید ہوجاتا ہے کہ تہواروں کی خصوصی خوشیاں بھی (جو کہ اپنی اصل روح میں عمومی ہوتی ہیں) چند خاندانوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہیں۔طبقاتی امتیازات کے ڈسے ہوئے اس معاشرے میں دینی تہوار کو بھی چھوٹے اوربڑے کے پیمانے سے ماپا جاتا ہے۔ہمیں یاد ہے کہ چند سال پہلے عید صرف عید ہوا کرتی تھی، لیکن آج ہم بٹ گئے ہیں۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر ہوگیا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ وہ خوش قسمت کون ہوںگے جو بھرپور انداز سے عید کی مسرتوں کو انجوائے کر رہے ہوں گے۔ میرے چاروں سمت تو دکھوں، فاقوں، زخموں اورآنسوﺅں کے گدلے پانیوں کی رات ہے۔ اس ”جھیل“ کی تہہ میں مجھے تو خوشی کا کوئی دمکتا موتی دکھائی نہیںدیتا۔ اس معاشرہ میں جہاں 98فیصد گھروں میں غربت، عسرت، تنگدستی، فاقہ مستی، خود سوزی اور خودکشی کی وارداتوں نے آج بھی صف ماتم بچھا رکھی ہے، حیران ہوں کہ ان تیرہ و تاریک گھروں کے 22 کروڑ مکین کیونکر عید منائیں گے؟ موجودہ حکومت کے دور کی یہ پہلی عید ہے، جب یہاں مہنگائی کا دور دورہ ہے، عوام تنگ دست ہو رہے ہیں، کہیں چیک اینڈ بیلنس نہیں ہے، کہیں کوئی سسٹم دکھائی نہیں دے رہا، کہیں دور دور تک آپ کو پرائز کمیٹیاں کام کرتی نظر نہیں آرہیں، الغرض ملک میں ہزاروں کام کرنے والے پڑے ہیں، تو ایسی صورت میں آپ اقتدار ملتے ہیں عمرہ کی ادائیگی کے لیے چلے جائیں تو پھر عوام کی طرف سے مزاحمت کا سامنا تو یقینا کرنا ہی پڑے گا۔ خیر یہ تو الگ بحث ہے مگر آج عید ہے لیکن عید کی حقیقی خوشی وقت کے ساتھ ساتھ ماند پڑتی جارہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عید کسی کیلئے خوشی بن کر آتی ہے تو کسی کیلئے حسرتوں کا پہاڑ بنا دی جاتی ہے۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ عید کی خوشیاں ملک میںغربت، مہنگائی، بے روزگاری،، عدم تحفظ ، نا انصافی اور دیگر مسائل کی وجہ سے متاثر ہو رہی ہیں۔ کہتے ہیں کہ حقیقی مسرتیں دھن، دولت کی محتاج نہیں ہوتیں۔ حقیقی خوشیاں انسان کے اندر سے پھوٹتی ہیں اور روشنی بن کر ہر طرف بکھر جاتی ہیں۔ تاہم مادّہ پرستی کے دور میں لوگ حقیقی م±سرّتوں کے لیے ترستے نظر آتے ہیں۔ رمضان المبارک مسلمانوں کے لیے روحانی م±سرّتیں لے کر آتا ہے اور جاتے جاتے عیدالفطر کا تحفہ دے جاتا ہے۔ مسلمانوں کے لیے عیدالفطر کا تہوارم±سرّت اور شادمانی کا پیغام بن کر آتا ہے، لیکن اسے کیا کہا جائے کہ انسانوں کے بنائے ہوئے نظام کی وجہ سے طبقاتی تفریق اور معاشی ناہم واری ان خوشیوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کرچکی ہے۔ اور پھر سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی میں طبقاتی تفریق پہلے اس قدر زیادہ اور اتنی نچلی سطح تک نہیں تھی، جتنی آج نظر آتی ہے۔ امیر اور غریب کی عید میں پہلے کتنا اور کیسا فرق تھا اور آج کیا صورتِ حال ہے؟ اس بارے میں آپ بازاروں میں چلے جائیں آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ ہمارا معاشرہ کس قدر تقسیم کا شکار ہوچکا ہے۔ کل میں نے اور آپ نے تبدیلی کے خواب دیکھے تھے اور آج بھی ہم پھر اسی قسم کے خواب آنکھوں میں سجائے ”ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم“ کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔وہ دن کب آئے گا جب محروم طبقات کے جھونپڑوں میں روشنی ہوگی اور غاصب مقتدر طبقات کے محلات کو انقلاب کا سیل بے پناہ بلڈوز کر کے دھرتی کے ناسوروں کا خاتمہ کریگا اور جناح آبادیوں، لالو کھیتوں اور دھوپ سڑیوں کے مکین بارگاہ رب العزت میں فرط مسرت سے سجدہ شکرانہ ادا کرتے ہوئے کہیں کہ ”اے زمینوں اور آسمانوں کے مالک! تیرا شکریہ کہ تو نے اس پاک سرزمین کو ان ناسوروں سے پاک کر دیا، جنہوں نے اربوں ڈالر کے اثاثے بیرون ملک بنائے اور کھربوں کے قرضے بغیر سانس لئے ڈکار لئے۔ ان کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا کیوں کہ یہ لوگ اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں اور اسمبلیاں تو ”مقدس“ہیں اور اس مقدس اسمبلی میں بھی کبھی غریب کی بات نہیں کی گئی.... ریکارڈ گواہ ہے کہ پارلیمنٹ میں مہنگائی کے موضوع پر بحث کے دوران ارکان کی حاضری افسوسناک حد تک کم ہوتی ہے۔ کیوں؟ اس لئے کہ مہنگائی ارکان اسمبلی کا مسئلہ نہیں۔ ارکان پارلیمنٹ کی اکثریت معاشرے کے مقتدر طبقات سے تعلق رکھتی ہے، یہ وہ بااختیار مقتدر طبقات ہیں کہ زرعی اراضی سے سالانہ 700 ارب کی دولت سمیٹتے ہیں لیکن قومی خزانہ میں ایک پھوٹی کوڑی بطور ٹیکس جمع کروانے کے روادار نہیں۔ ان جاگیرداروں اور دیہہ خداﺅں کے کتے بھی تازہ گوشت کھاتے ہیں لیکن ان کے 15لاکھ کھیت مزدوروں کو گوشت کھانے کیلئے عید قرباں کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے یہ وہ” برہمن“ ہیں جو ہر سال کتا دوڑ،ریچھ کی لڑائی اور دیگر عیاشیوں پر 14ارب 82 کروڑ 27لاکھ روپے پانی کی طرح بہا دیتے ہیںلیکن کوئی احتساب بیورو ان ”مقدس بچھڑوں“ پرہاتھ ڈالنے کا تصور بھی نہیںکر سکتا۔ ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے7فیصد جاگیردار 63 فیصد زمین پر قابض ہیں جبکہ 93فیصد کسان صرف 37فیصد زمین کے مالک ہیں۔ اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے عید سے پہلے تو اپنی تنخواہوں میںخاطر خواہ اضافہ فرما لیا مگر انہیں غریب کا خیال نہیں آیا۔ بقول شاعر مہنگی ہر شے ہے رضا انسان سستا ہو گیا خودکشی پر اس لئے وہ کمر بستہ ہو گیا آپ ہمارے روایتی سیاستدانوں کی اہلی اور نا اہلی کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ہر سال عید آتی ہے اور ہر سال مہنگائی کا رونا رویا جاتاہے .... ہر سال سیلاب آتے ہیں اور ہرسال سینکڑوں لوگ مرتے ہیں .... لیکن کوئی سد باب نہیں کیا جاتا.... اور نہ ہی اس طرف کوئی سنجیدہ کوشش عمل میں لائی جاتی ہے .... یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ حکمران طبقہ تو ایک طرف بعض تاجر و ذخیرہ اندوز حضرات ہی عوام کو لوٹنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ دنیا بھر میں یہ رواج ہے کہ مذہبی تہواروں کے مواقعوں پر عام استعمال کی اشیاءکی قیمتوں میں کمی کردی جاتی ہے۔ حکومتیں ہی نہیں ہر طبقے کے افراد دیگر طبقات کے لوگوں کو ہرممکن سہولتیں فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں، مثلاً یورپ و امریکہ میں لوگوں کی اکثریت،ایسی چیزیں جو عام دنوں میں گراں ہونے کے باعث نہیں خریدی جاسکتیں، ان کی خریداری کے لیے کرسمس کا انتظار کرتی ہے۔ جبکہ ہمارے یہاں عید اور رمضان المبارک کے موقع پر تو بنیادی ضرورت کی اشیاءکی قیمتیں دوگنی سے بھی زیادہ بڑھ جاتی ہیں۔ ترقی یافتہ مغربی ممالک کو تو چھوڑ دیجیے، ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں، وہاں بھی رمضان کے مہینے میں اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم کرکے مسلمانوں کوسہولت دی جاتی ہے۔آپ یقین مانیں تہذیب یافتہ ملکوں میں عیدین یا کرسمس کے موقع پر 50فیصد تک سیلز لگ جاتی ہیں، چرچ عید کے اجتماعات کے لیے کھول دیے جاتے ہیں اور سب سے اہم بات یہ کہ ان لوگوں میں احساس ذمہ داری بڑھ جاتا ہے کہ ہم نے امیر غریب میں فرق نہیں کرنا ہے۔ مختصر یہ کہ عید ہمیں یہ پیغام دیتی ہے کہ ہم دوسروں کو خوشیاں دیں، دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ جب ہم یہ سوچ کر نیکی کریں گے کہ اس سے انسانیت کی فلاح ہوگی، تو یقین مانیں آپ کا ضمیر بھی پرسکون رہے گااور آپ بھی ہمیشہ پرسکون رہیںگے۔ اور اگر حکومتی سطح پر آپ دیکھیں کہ ن لیگ کی نومولود حکومت جو بدلے کی سیاست شروع کرنے جا رہی ہے اُسے چاہیے کہ سب سے بڑا بدلا ہی یہی ہوتا ہے کہ آپ اس نظام کی بہتری کے لیے کام کریں۔ اگر کام ہوتا نظر آئے گا، اگر حکومت چیک اینڈ بیلنس کے نظام کو بہتر بنا لے گی، اگر حکومت ناجائز منافع خوری پر کنٹرول حاصل کر لے گی تو یہی سب سے بڑا بدلا بھی ہوگا اور حکومت کا عوام پر احسان ہوگا۔ ورنہ ڈیڑھ سالہ حکومتی دور کا پتہ بھی نہیں چلنا اور برسراقتدار حکمرانوں نے ایک بار پھر ہاتھ ملتے رہ جانا ہے!!!