اوور سیز پاکستانی : وزیراعظم کے پاس دل جیتنے کا بہترین موقع !

پاکستان میں اکثر ہر مسئلہ سمندر جتنا بڑا ہو جاتا ہے ، اور پھر اگر مسئلے کو نہ حل کرنا ہوتو مسئلہ اس سے بھی زیادہ بڑا بنا دیا جاتا ہے۔ جیسے سالانہ 30ارب ڈالر بھیجنے والے سمندر پار پاکستانیوںکے ووٹ کا مسئلہ جسے شاید ہی کوئی حل کرنا چاہتا ہے، حالانکہ پچھلی حکومت نے اس حوالے سے اسمبلی سے بل بھی پاس کروا لیا مگر سوال پھر وہیں کا وہیں کہ ووٹنگ کیسے ہو؟اس حوالے سے الیکشن کمیشن ہاتھ کھڑے کر نے ہی والی تھی کہ تحریک انصاف کی حکومت ختم ہوگئی۔ اور بل کی مخالفت کرنے والی ”اپوزیشن“ جماعتیں اقتدار میں آگئیں۔ اب مرے پرسو درے کے مترادف ووٹنگ کے حق سے محروم اوور سیز پاکستانی مایوسی کا شکار نظر آرہے ہیں۔ جبکہ موجودہ شہباز حکومت تارکین وطن کی دلجوئی کرنے کی غرض سے اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کے بجائے پارلیمنٹ میں تارکین وطن کےلیے نشستیں مختص کرنے پر غور کررہی ہے۔”مخصوص نشستوں “ سے مراد پارلیمنٹ میں یہ افراد منتخب ہو کرنہیں آتے بلکہ پارٹی کی طرف سے ان کا چناﺅ کیا جاتا ہے، جیسے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین کی شمولیت کی حوصلہ افزائی کے لئے جنرل مشرف نے خواتین کے لئے مخصوص نشستیں متعارف کروائیں۔اس کے مقاصد اور اس کی روح کے برعکس اس قانونی شق نے مضبوط سیاسی پس منظر رکھنے والی، مضبوط پشت پناہی کی حامل،عوامی مقبولیت اور دولت مندپس منظر والی بہت سی خواتین کے لئے دروازے کھول دیئے۔مختصراً یہ کہ ان کےلئے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے کا ایک آسان راستہ نکل آیا ۔لہٰذااوورسیز پاکستانیوں کے لیے مخصوص سیٹیں بھی محض وقت کو دھکا لگانے کے مترادف ہوگا۔ جبکہ اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون نے کہا ہے کہ ہم غریب ملک ہیں پوری دنیا میں پولنگ اسٹیشن قائم کر کے ووٹنگ نہیں کر اسکتے نہ ہی سفارتخانوں میں اتنے بڑے پیمانے پر اوورسیز ووٹنگ ممکن ہے۔ حالانکہ وزیر قانون کو یہ علم ہونا چاہیے کہ دنیا کے 100 سے زیادہ ممالک اپنے بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو کسی نہ کسی حوالے سے ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق دیتے ہیں۔ زیادہ تر ممالک نے ووٹ کا حق استعمال کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی شرط رکھی ہے اور اگر کوئی اورسیز شہری اپنے ووٹ کا حق استعمال کرنا چاہتا ہے تو اسے اس شرط پر پورا اترنا ضروری ہے۔ مثال کے طور پر برطانیہ کا کوئی شہری اگر ملک سے باہر رہتا ہے تو وہ انتخابات میں ووٹ ڈال سکتا ہے۔ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ بیرون ملک رہنے والے برطانوی شہری کے طور پر رجسٹرڈ ہو اور ایسا وہ پندرہ سال ملک سے باہر رہنے تک ہی کر سکتا ہے۔ ماضی میں پندرہ سال کی شرط کو ہٹایا گیا تھا لیکن اورسیز الیکٹرز بل کی مدت پوری ہونے کے بعد یہ شرط پھر نافذ ہو گئی اور ابھی تک اسی شکل میں ہے۔امریکہ میں بھی ایک ریاست کا قانون دوسری ریاست سے مختلف ہے لیکن زیادہ تر ریاستوں نے بیرون ملک رہنے والوں کو ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہوا ہے۔انڈیا نے بھی بیرون ملک رہنے والے شہریوں کو ووٹ ڈالنے کا حق دیا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دوہری شہریت نہ ہو۔ انڈیا دوہری شہریت کی اجازت ہی نہیں دیتا۔ جن کی دوہری شہریت ہے انھیں ایک اورسیز سیٹیزن آف انڈیا کی پاسپورٹ نما دستاویز دی گئی ہے جس کی مدد سے وہ ملک میں ویزہ کے بغیر آ جا سکتے ہیں، پراپرٹی خرید سکتے ہیں، لیکن نہ تو ووٹ ڈال سکتے ہیں اور نہ ہی انتخابات میں بطور امیدوار کھڑے ہو سکتے ہیں۔مغربی ممالک میں فرانس وہ واحد ملک ہے جس نے کبھی بھی بیرون ملک شہریوں کے ملک میں پارلیمانی اور صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی شرائط نہیں رکھیں اور بیرون ملک رہنے والا ہر فرانسیسی شہری ملک میں ووٹ ڈالنے کا حق رکھتا ہے۔کینیڈا میں 2019 سے پہلے تک کچھ شرائط تھیں لیکن اب انھیں ختم کر دیا گیا ہے اور ان کے بیرون ملک رہنے والے شہری اب انتخابات میں ووٹ ڈال سکتے ہیں۔ اسی طرح کا حال اٹلی کا بھی ہے، لیکن اگر اطالوی شہری کسی ایسے ملک میں رہ رہا ہے جہاں اطالوی حکومت کا کوئی سفارتی نمائندہ نہیں ہے تو اسے اٹلی آ کر ووٹ ڈالنا ہوگا اور اگر وہ ایسا کرتا ہے تو اطالوی حکومت اس کے سفر کے 75 فیصد اخراجات برداشت کرتی ہے۔ لہٰذایہ کہنا کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹنگ کا حق دینا مشکل مرحلہ ہوتا ہے، یہ سراسر غلط ہے۔اور چونکہ اس وقت پاکستان کی ایک بڑی آبادی یعنی پاکستان بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق ایک کروڑ 13 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں پاکستان سے باہر مقیم ہیں۔( یہ وہ پاکستانی ہیں جو حکومت پاکستان کے رجسٹرڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹرز کے ذریعے بیرون ملک گئے ہیں۔ دیگر طریقوں سے باہر گئے افراد کا اس میں شمار نہیں کیا گیا۔)تو اُنہیں ووٹ کا حق دینے سے یا اُن کے مسائل سمجھنے سے یقینا وزیر اعظم شہباز شریف کا قد کاٹھ اونچا ہوگا۔ اور معذرت کے ساتھ لندن میں اُن کی رہائش گاہ کے باہر جو تحریک انصاف کے کارکنان کا جم غفیر جمع ہوتا ہے اُس میں بھی کمی واقع ہوگی۔ پھر ان اوورسیز پاکستانیوں کے مسائل ایسے بھی نہیں ہیں کہ انہیں حل نہ کیا جا سکے۔ جیسے تمام ائیرپورٹس پر اوور سیز پاکستانیوں کو پریشانی بھی ہورہی ہے، امیگریشن حکام ان کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کر رہی، جو” سفارشی کلچر“ کی بدولت پروٹوکول لگوا لیتے ہیں، حکام اُن کے ساتھ اچھا سلوک کرتے ہیں، جو نہیں لگواسکتے اُن کے ساتھ بدتمیزی والا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، اُن کی تذلیل کرتے ہیں، اُن سے بے شمار قسم کے فضول سوال کیے جاتے ہیں، بار بار اُن کا سامان چیک کیا جاتا ہے۔ زیادہ مسئلہ اُس وقت ہوتا ہے جب ائیرپورٹ پر بیرون ملک سے اکیلی خاتون آرہی ہو، یا اکیلے بزرگ کو بھیجا گیاہو۔ اور پھر یہ مسائل اُس وقت مزید عیاں ہو جاتے ہیں جب اُنہیں بار بار روٹس تبدیل کروائے جاتے ہیں ۔ مثلاََ پہلے پی آئی اے اور دیگر ائیرلائنز کی بدولت ”نان سٹاپ“ روٹس کی وجہ سے پاکستانی نیویارک، لندن، پیرس، شکاگو، جاپان وغیرہ سے براہ راست پاکستان آجاتے تھے یا یہاں سے چلے جاتے تھے، مگر اب ہم دوسری غیر ملکی ائیرلائنز کی مرہون منت ہیں، جو منہ مانگے دام وصول کرنے کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی رویہ اختیار کرتی ہیں، پہلی بات تو یہ ہے کہ وہ پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ صحیح سلوک ہی نہیں کرتی ۔ اور پھر نہلے پر دہلا یہ کہ اگر جہاز لیٹ ہوجائے تو بیرون ملک پاکستانی پاسپورٹ رکھنے والوں پر دیگر ممالک کے مسافروں کو ترجیح دیکر ہوٹل دیا جاتا ہے، اور پاکستانی بسا اوقات وہیں بنچوں پر بیٹھ کر جہاز کے آنے کا انتظار کرتے ہیں ،حالانکہ پاکستانیوں نے بھی ٹکٹ کے اُتنے ہی پیسے خرچ کیے ہوتے ہیں ۔ جتنے دیگر ممالک کے مسافروں نے ادا کیے ہوتے ہیں! پھر اوور سیز پاکستانیوں کو پاکستان کی ایمبیسی سے بہت شکایات ہوتی ہیں، وہاں تک پہنچنا پاکستان کے خارجہ آفس میں پہنچنے سے زیادہ مشکل ہے، اوور سیز پاکستانیوں کا اپنے ایمبیسی آفس میں ملنا حد درجے مشکل ہو چکا ہے، حالانکہ اس حوالے سے سابقہ حکومت نے احکامات جاری کیے مگر مسائل جوں کے توں رہے۔ پھر ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایک نئی ایپ متعارف کروا دی گئی ہے، کہ جو ایپ ڈاﺅن لوڈ کریں اور اُس کے دیے گئے پروسس پر عمل کرے تو وہ فلائی کر سکتا ہے، اس حوالے سے بھی کہیں کوئی آگہی مہم شروع نہیں کی گئی، پھر لیبر ٹائپ پاکستانیوں کو وہ ایپ پڑھنی بھی نہیں آتی، اسی لیے بیشتر پاکستانیوں کو ائیرپورٹ سے گھروں کو لوٹنا پڑتا ہے، حتیٰ کہ گزشتہ سال جب میں امریکا سے پاکستان کے لیے فلائی کرنے والا تھا، کہ ایک دن پہلے مجھے میرے دوست نے ایپ کے متعلق بتایا، اگر مجھے نا بتایا جاتا تو میں بھی لاہور کے لیے فلائی نہیں کر سکتا تھا۔ پھر یہاں اوورسیز پاکستانیوں کے پلاٹس پر قبضے کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔ جن کی طرف سابقہ حکومت نے ضرور توجہ کی مگر ابھی بھی ہزاروں درخواستیں التوا میں پڑی ہیں۔ بہرکیف شہباز حکومت کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ وہ اوورسیز پاکستانیوں کے لیے کچھ کریں۔ کیوں کہ یہ وہی لوگ ہیں جو دن رات محنت کر کے اربوں ڈالر کا زرمبادلہ پاکستان کو بھیجتے ہیں، جن سے پاکستان کی معیشت میں بہتری آتی ہے۔ الغرض ابھی بھی بہت سے مسائل حل طلب ہیں جنہیں دور کر کے حکومت اوور سیز پاکستانیوں کا دل جیتا جا سکتا ہے۔ٹھیک ہے کہ ووٹنگ کا مسئلہ مشکل ہے مگر یہ ناممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ اس میں ایک بڑا خطرہ ہیکنگ کا ہے۔ رازداری کو یقینی بنانا اور جبر سے پاک ووٹنگ ایک اور بڑا چیلنج ہے۔لہٰذاشہباز حکومت اس چیلنج کو قبول کرے اور اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹنگ کے حق سے محروم نہ کرے ورنہ وہ اپنا ہاتھ کھینچ لیں گے اور پاکستان معاشی طور پر مزید کمزور ہو جائے گا۔ اور رہی بات کہ بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان کے اصل مسائل کا بھلا کیا علم؟ تو خدارا یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جتنا بیرون ملک پاکستانیوں کو پاکستان کے بارے میں علم ہوتا ہے، اتنے شاید ہمیں معلوم نہیں ہوتا۔ میں خود بھی جب بیرون ملک جاتا ہوں تو پاکستان کے حوالے سے خبروں میں زیادہ دلچسپی لیتا ہوں، کیوں کہ یہ ایک فطری عمل ہے، اس لیے اس مسئلے کو سمندر سے بڑا بنانے کے بجائے حل کرنے کی طرف پیش قدمی کی جائے اور ووٹ سیمپلنگ کے لیے ایک آدھ ملک کا انتخاب کرلیں تو زیادہ بہتر ہوگا۔میرے خیال میں سب سے پہلے ووٹنگ برطانیہ کا انتخاب کیا جائے ، کیوں کہ وہاں حالات سازگار بھی ہیں اور بہترین بھی ! اس لیے وہاں ٹیسٹنگ ووٹنگ بھی ہو جائے گی اور حکومت کا بھرم بھی رہ جائے گا۔