کیا عمران خان جیل جانا چاہتے ہیں؟

آج کل ہماری سیاست کا کیا حال ہے؟ اسے جاننے کے لیے ایک بناوٹی کہانی ملاحظہ فرمائیں۔ ایک سردار جی کی اپنی بیوی سے لڑائی ہوگئی، تو تو میں میں اتنی بڑھی کہ سردار جی نے ہاتھ جوڑ کر کہا،”بس کر بس کر، اج توں توں میری ماں۔۔۔ !!“ اب بیوی کو ماں کہہ دیا تو مذہبی معاملہ آگیا، دونوں اپنے گرو جی یعنی اپنے مذہبی پیشوا کے پاس گئے، تو گرو جی نے بڑی کتابیں نکال لیں۔ایک رکھ دوسری دیکھ۔دوسری رکھ تیسری دیکھ۔ڈھیر کتابیں دیکھ لیں پھر ایک کتاب کے ورق پھرول کے ان کو بتایا کہ اب تم دونوں کو چالیس دن تک چار سو لوگوں کو کھانا کھلانا پڑے گا پھر ہی تم دونوں کا میاں بیوی والا رشتہ بحال ہو سکتا ہے ورنہ تم کو علیحدگی کر نا ہو گی۔ بس جی ! پھر کیا ہوا؟سردار کو تو گھڑوں پانی پڑ گیا۔ برادری میں الگ سے بے عزتی کا خدشہ تھا۔بہت خرچہ ہوا، اور سردار جی نے گھر کی ایک ایک چیز پیچ کر چالیس دن تک چارسو لوگوں کا کھانا پورا کیااکتالیسویں دن دونوں میاں بیوی خالی گھر میں اکلوتی چارپائی پر بیٹھے۔ایک دوسرے کا منہ تک رہے تھے۔سردار بہت افسردہ تھا۔گھر میں کھانے کو کچھ نہ تھا۔ سردارنی بولی، ”سردارا ! ایہہ سب کچھ تیری وجہ نال ہوئیا !“ سردار جی نے غصے سے اپنی گھر والی کو دیکھا، اوربولے، ”فیر چھیڑنی آ اپنے پیو نوں۔۔۔لہٰذالڑائی پھر دوبارہ شروع ہوگئی اور دوبارہ ”گروجی“ تک پہنچ گئی۔ پھر گرو جی جو اپنے فیصلوں میں خود مختار تھے اُن کے ہر فیصلے کو سرخم تسلیم کرنا پڑتا تھا،،، اس لیے انہوں نے آخر میں جو فیصلہ دیا وہ یہاں بیان کرنا ہی ممکن نہیں ہے! یہی حال ہماری سیاست کا ہے کہ ہم نے آپسی لڑائیاں لڑ لڑ کر ملک کی ہر چیز بیچ ڈالی ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ ہم ابھی بھی باز آنے سے گریزاں ہے۔ ابھی بھی اگر اپوزیشن خاص تو پر تحریک انصاف احتجاجی سیاست کے لیے جلسے جلوس کر رہی ہے تو حکمران جماعتیں یعنی پی ڈی ایم اُس سے بڑے جلسے کرنے کا اعلان کر رہی ہیں۔ یقینا یہ چیزیں ملکی مفاد میں نہیں مگر انہیں سمجھائے کون؟ اور پھر عمران خان ہی کی اگر بات کریں تو وہ آج بھی کریز سے باہر نکل کر کھیل رہے ہیں، مثلاََ اُن کا حالیہ بیانیہ ”امریکا غدار ہے“ یا جو امریکا کا یار ہے وہ غدار ہے غدار ہے۔۔۔ جیسے بیانیے عوام میں مقبول تو ہور ہے ہیں ۔ اور یہ نعرے تو ویسے بھی ہماری تاریخ کا حصہ رہے ہیں۔ جیسے 1965ءاور 1971ءکی پاک بھارت جنگوں میں یہ نعرے زبان زد عام تھے، پھر 9/11کے واقعات کے بعد بھی پاکستان میں یہ نعرے ہر سطح پر مقبول تھے۔ ایک وقت تھا کہ ایک طرف ہم کیری لوگر بل اور یو ایس ایڈ کے ذریعے ہم امریکا سے سالانہ 2,3ارب ڈالر وصول کر رہے تھے مگر ہم نے امریکا زندہ باد کا نعرہ کبھی کسی کو لگاتے نہیں سنا۔ لیکن آجکل سرکاری سطح پرنیم سرکاری سطح پر اور کسی سابق وزیر اعظم کے منہ سے امریکا کے خلاف پوری مہم ہم عمران خان کے جلسوں میں دیکھ رہے ہیں۔ لہٰذااس کے اُن کی اپنی سیاسی جماعت پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں اور اس کے ساتھ ملک پر کیا اثرات ہو سکتے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے مگر اس وقت جو صورتحال بن رہی ہے وہ ہمیں اس طرف لے کر جا رہی ہے کہ خدشہ ہے کہ کہیں خان صاحب کسی مقدمے میں جیل نہ بھیج دیے جائیں، اور پھر وہیں سے اُن کی سیاست کو کہیں ”فل سٹاپ“ نہ لگا دیا جائے۔ کیوں کہ بادی النظر میں عمران خان کی جارحانہ سیاست کا نقصان صرف اُن کی ذات کو ہوگا، کھل کر امریکا کے خلاف باتیں میرے خیال میں نہ تو خود پاکستان کے لیے ٹھیک ہیں اور نہ خود عمران خان کے لیے۔ اور پھر یہ بھی زمینی حقائق ہیں کہ ہم تھرڈ ورلڈ کنٹری ہیں، اور تھرڈ ورلڈ کنٹری یعنی تیسری دنیا کے ممالک میں سے ہیں،اس وقت تیسری دنیا(یعنی تھڑڈ ورلڈ) کے 170 کے لگ بھگ ترقی پذیر ،پسماندہ اور غریب ممالک امریکہ اور مغربی یورپ کے ترقی یافتہ ممالک، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے اجتماعی شکنجے کے مقابلے میں اس قدر کمزور اور بے دست و پا ہو چکے ہیں۔ جس کا مطلب وہ ممالک ہیں جو پسماندہ ، ترقی پذیر اور غریب ممالک ہیں۔( جبکہ پہلی دنیا کے ممالک میں ریاستہائے متحدہ امریکہ، کینیڈا ، مغربی یورپ اور جنوبی کوریا وغیرہ شامل ہیں۔چین،سوویت یونین ،کیوبااور اس کے اتحادی ممالک دوسری دنیا کہلاتے ہیں۔ ) لہٰذاان تیسری دنیا کے تمام ممالک کا مسئلہ یہ ہے اس کی ہر بڑی شخصیت کے مفادات امریکا کے ساتھ جڑے ہیں، کہیں اُن کے بچے وہاں زیر تعلیم ہیں، تو کہیں وہاںجائیداد خرید کر لی گئی ہیںیا ریٹائرڈ بیوروکریسی وہاں شفٹ ہو چکی ہے اور اب یہ سب لوگ وہیں پر رہنا پسند کرتے ہیں۔اس لیے نہ تو یہ لوگ چاہیں گے کہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بگاڑ آئے اور نہ ہی امریکا چاہے گا کہ ان ممالک میں جو اُسی کے تابع ہیں وہاں کوئی ایسا لیڈر آئے جو اُسی کے مفادات کے خلاف کام کرے۔ اس لیے عمران خان جلسے وغیرہ کرکے شاید عوام میں مقبول تو ہو جائیں مگر بعض جگہوں پر آپ کو محتاط ہو کر کھیلنا پڑتا ہے۔ اور رہی اس حوالے سے عوام کی بات تو یہ حقیقت ہے کہ ہمارے شہری جو امریکا جانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا لیتے ہیں، وہ امریکا پہنچ کر بھی غدار ہے امریکا غدار کے نعرے لگانے سے باز نہیں آتے۔ اور پھر خان صاحب سے اس قوم کی ابھی بہت سی توقعات ہے، اُن کی پاکستانی سیاست میں انٹری واقعی کسی خواب سے کم نہیں، وہ حقیقت بن چکے ہیں، ابھی بھی بہت سے لوگ اُن کے گرویدہ ہیں۔ جن کے ذریعے وہ اگلا الیکشن بھی جیت سکتے ہیں، مگر مسئلہ یہ بھی ہے کہ اُس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا ہم نے اپنی قوم کی تربیت کی ہے؟ کہ وہ گھاس کھا کر گزارہ کرلے؟وہ بھوک کو برداشت کر لیں گے؟ یقین مانیں کہ یہاں تو 90فیصد لوگ کرپشن کے مارے ہوئے ہیں، اس لیے یہاں انقلاب کیسے لایا جا سکتا ہے؟ اور پھر سب سے اہم بات یہ کہ ہمیں اس سے پہلے یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ابھی تو ہم ایک قوم بھی نہیں بنے۔ بلکہ یوں لگتا ہے کہ ساری قوم مختلف طبقات اور گروہوں میں بٹ کر رہ گئی ہے۔ سبھی ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن ہیں۔ ملک میں جاری طاقت کی کشمکش کی بدولت سیاسی درجہ حرارت بلندیوں کو چھو رہا ہے اور یہ درجہ حرارت صرف طاقت کے ایوانوں تک محدود نہیں بلکہ پاکستان کے د±ور دراز کے تمام علاقوں،گلی کوچوں، قصبوں اور شہروں میں ایک ناسور کی طرح پھیل چکا ہے۔ گلی گلی‘ قریہ قریہ ایک نہ ختم ہو نے والی لاحاصل بحث جاری ہے۔لوگ باہم دست و گریباں ہیں۔سوشل میڈیا پرمختلف سیاسی وابستگی رکھنے والے لوگوں کے درمیان ایک مخاصمت کی فضا برقرار ہے۔ ہر شخص دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑ رہا ہے۔ ہر کوئی دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ ہر ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے پر تلا ہے۔ہر آدمی یہ سمجھتا ہے کہ جو موقف وہ اختیار کیے ہوئے ہے، وہ مدلل، جامع اور وزنی ہے اور مخالف فریق کی بات لفظوں کی شعبدہ بازی سے زیادہ کچھ نہیں۔ اس ساری صورتحال کا ایک منطقی نتیجہ تو یہ ہے کہ ہم بحیثیت قوم‘ جو پہلے ہی مختلف طبقوں، گروہوں، فرقوں اور ذاتوں میں منقسم چلے آرہے تھے، مزید تقسیم کا شکار ہوچکے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ یہ بات سبھی جانتے ہیں مگر کوئی بھی اس قوم کی تربیت کرنے اور اسے اپنانے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اور پھر رہی بات خان صاحب کی تو بقول شاعر جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے بہرکیف بات عمران کی درست ہے کہ ہمیں کسی کی فرمانبرداری کی ضرورت نہیں، ہمیں کسی سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں وغیرہ وغیرہ لیکن اس کے لیے ہمیں تیاری تو کرنی چاہیے، اس کے لیے لائحہ عمل تو بنانا چاہیے، اس کے لیے ملک کی معیشت کو اپنے پاﺅں پر کھڑا کرنا چاہیے، اس کے لیے ملکی پیداوار کو بڑھانا چاہیے، اس کے لیے ہمیں ہر حوالے سے خود مختار ہونا چاہیے، اس کے لیے ہمیں چین امریکا کے تابع نہیں ہونا چاہیے، تب جا کر ہم انقلاب کی باتیں کریں تو وہ ہمیں زیب دیتی ہیں۔ اور یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ یہ خود خان صاحب کے ہوا کرتے تھے۔ 2018سے پہلے جب وہ اپوزیشن میں تھے تو پاکستانیوں کا جوش بڑھانے کیلئے بات بات پر یورپی ملکوں کا حوالہ دیتے تھے کہ فلاں یورپی ملک نے اس مشکل میں اپنی عوام کیلئے یہ کر دیا وہ کر دیا۔ ایسی مثالیں سن سن کر لوگوں کو اشتیاق ہوا کہ خان صاحب وزیراعظم بن گئے تو ہمارا ملک بھی یورپ کی طرح ہو جائے گا۔ جو کچھ وہاں ہوتا ہے ہمارے ہاں بھی ہوگا۔ لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد خان صاحب نے لائن بدل لی ۔اور ہر بات پر کہتے: دیکھیں اٹلی، برطانیہ اور امریکہ کچھ نہیں کر سکے تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ پھر فرماتے کہ آپ تھرڈ ورلڈ کے شہری ہیں اور تھرڈ ورلڈ کے شہری کی طرح ہی رہیں۔لہٰذااب اُن کی حکومت ختم ہونے کے بعد ایک بار پھر اُن کا بیانیہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اس لےے خدشہ ہے کہ وہ بھی کہیں روایتی سیاستدان نہ بن جائیں۔ اور پھر ہمارا کیا ہے ہم تو پہلے ہی 74 سال سے تھرڈ ورلڈ رہے ہیں، اب چند سال مزید بھی رہ لیں گے تو کون سا آسمان ٹوٹ پڑے گا۔ لیکن خان صاحب اپنا بیانیہ بیان کرتے ہوئے یہ ضرور تسلیم کریں کہ فی الوقت نہ تو ہم ایک قوم ہیں، نہ ہم ایماندار ہیں، نہ ہمارے ادارے ٹھیک ہیں، نہ اس وقت ملک ترقی کر رہا ہے، نہ معیشت ٹھیک ہے، نہ حکمران ٹھیک ہیں اور نہ ہی اس فیصلہ کرنے والی قوتوں میں ملکی ترقی کے لیے سنجیدگی کا عنصر پایا جاتا ہے، لہٰذاہمیں سب سے پہلے ترقی کرنی چاہیے، پھر اس قسم کے نعرے لگانے چاہیے ورنہ ہم دنیا سے کٹ کر رہ جائیں گے!