عمران خان: غیر اخلاقی فیصلے کی سپورٹ نہیں کی جاسکتی!

اسمبلیاں تحلیل ہوگئیں، خان صاحب وزیر اعظم نہیں رہے، اُنہوں نے اقتدار کسی اور کے حوالے کرنے کے بجائے دوبارہ الیکشن کروانے کو ترجیح دی، اور تحریک عدم اعتماد سے بھی بھاگ کھڑے ہوئے۔ اس وقت ہر شہری کے ذہن میں سوال یہ ہے کہ آگے کیا ہو گا،پوری قوم کی نظریں اس وقت سپریم کورٹ کی جانب لگی ہیں ، صورتحال سپریم کورٹ کے فیصلہ سے واضح ہوگی۔جبکہ تادم تحریر سپریم کورٹ میں اس حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔ آئین کے تحت جب قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے اور حکومت ختم ہوتی ہے تو نگران حکومت قائم کی جا تی ہے جو 90دنوں میں عام انتخابات کراتی ہے۔ نگران حکومت کا قیام آئین کی شق 224 کے تحت عمل میں آتا ہے جس کی ذیلی شقوں کے مطابق اگر شق 58 کے تحت اسمبلی تحلیل ہو جائے، تو صدرِ مملکت وزیرِ اعظم اور قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف کی مشاورت سے نگران وزیرِ اعظم تعینات کریں گے۔ تاہم یہ تعیناتی صدرِ مملکت کا اختیار نہیں بلکہ یہ قائدِ حزبِ اختلاف اور وزیرِ اعظم کے اتفاق کے بعد عمل میں آتی ہے۔اور اس کام کے لیے اُن کے پاس اسمبلی کے تحلیل سے لے کر صرف تین دن کا وقت ہوتا ہے۔ایک بار ان کے نام پر اتفاق ہو جائے تو صدرِ پاکستان اس نام کی منظوری دیتے ہیں اوراگر عمران خان اور شہباز شریف کسی نام پر متفق نہ ہوئے تو؟پھر یہ معاملہ ایک پارلیمانی کمیٹی کے پاس جائے گا جو آٹھ ارکان پر مشتمل ہو گی۔ مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی تو تحلیل ہو چکی ہے، تو پھر یہ کمیٹی کیسے قائم ہو گی، اس میں کون لوگ شامل ہوں گے، اور یہ بھی اگر کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی تو؟ آئین میں اس بات کی گنجائش ہے کہ یہ کمیٹی قومی اسمبلی کے ارکان کے ساتھ ساتھ مکمل طور پر سینیٹ کے ارکان پر بھی مشتمل ہو سکتی ہے۔یہ تو تھی اس وقت کی صورتحال۔ مگر اس سارے معاملے میں عمران خان کا کردار بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ عدم اعتماد کی ووٹنگ ہونے دیتے، اُس کے بعد جو بھی نتیجہ آتا اُسے من و عن تسلیم کرتے ۔ باالفرض فیصلہ اُن کے خلاف آتا تو اس میں کیا تھا؟ اقتدار آنی جانی چیز ہے۔ مگر اصولوں پر جو کوئی کمپرومائز کرتا ہے وہ یقینا ایک بڑا لیڈر نہیں بن سکتا۔ اور ویسے بھی لیڈر چننے والے عوام کسی کی مرضی کے تابع نہیں ہوتے ۔ وہ ریاست کے آزاد شہری ہوتے ہیں،وہ دیکھتے ہیں کہ جو شخص اُس کے وطن کے بہترین مفاد میں کام کر رہا ہے وہ اُس پر جان بھی نچھاور کر دیتے ہیں، لیکن اس کے برعکس اگر کوئی ملک و قوم کے بارے میں سوچنے کے بجائے صرف اپنی ذات کے بارے میں سوچتا ہے تو لوگ اُس کو سپورٹ نہیں کرتے۔ وہ لیڈر تو نہیں بنتا مگر اپنی موت آپ ضرور مر جاتا ہے۔ لہٰذاعمران خان والے کیس میں بھی یہی ہوا ہے۔ یہاں پر خان صاحب نے اپنے آپ کو بچایا ہے، اُن سے یہ اُمید نہیں تھی، اور پھر یہ حقیقت ہے کہ ہم تو عمران خان کو گزشتہ دس سال سے اس لیے سپورٹ کر رہے تھے کہ عمران خان ہمیں نوازشریف و زرداری کا متبادل ملے گا۔ لیکن وہ تو اُن کے ساتھ رہ کر اُن کے رنگ میں رنگ گئے، کیوں کہ انہوں نے اسمبلیاں تحلیل کرنے جیسی حرکت کی ہے ، اُسے کوئی بھی ذی شعور شخص سپورٹ نہیں کرسکتا۔ یہ غیر جمہوری اور بزدلانہ حرکت سے زیادہ غیر اخلاقی حرکت ہے۔ ہم ایک سپورٹس مین سے ایسی حرکت کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ اُس میں سپورٹس مین سپرٹ ہونی چاہیے ۔ اس سے لاکھ درجے بہتر تھا کہ تحریک عدم اعتماد ہوجاتی تو کیا تھا؟ ہار جاتے! کوئی بات نہیں، کیوں کہ ہار میں بھی ایک سبق چھپا ہوا ہوتا ہے۔ یا شکست آپ کو دوبارہ سے حملے کے لیے تیار ہونے کا موقع بھی فراہم کرتی ہے۔ آپ تاریخ کی مثالیں اُٹھا لیں، جن قائدین کو وقتی شکست ہوئی، اُس کے بعد وہ دوبارہ عظیم الشان انداز میں آئے اور عوام کی خدمت کی۔ آپ چرچل کو دیکھ لیں جنہیں سیاست کی دنیا کا امام کہا جاتا ہے، انہوں نے دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر اور جرمنی کی شکست میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔ کہا جاتا ہے کہ اگر دوسری جنگ عظیم میں چرچل نہ ہوتا تو آج دنیا کا نقشہ کچھ اور ہو تا۔ جرمنی کے بعد وہ روس کا بھی خاتمہ چاہتا تھا اور اس کے لیے اس نے مغربی طاقتوں کے ساتھ مل کر بھر پور لابنگ کی، امریکی صدر روزویلٹ نے اس لابنگ کی مخالفت کی جس کی وجہ سے روس بچ گیا۔ چرچل برطانوی لوگوں کی دلدادہ شخصیت تھی، لیکن دوسری جنگِ عظیم جیتنے کے بعد ہونے والے انتخابات میں اُنہیں شکست ہوئی،اُس وقت بھی اُن پر وہی گزرا ،جس سے آج عمران خان گزررہے ہیں، کیوں کہ وہ بھی ملک کے لیے بہت کچھ کرنا چاہتے تھے مگر وقتی طور پر عوام ہی نے اُن کے آگے بند باندھ دیا۔ کیونکہ برطانوی عوام چاہتے تھے کہ اب کوئی ایسا حکمران آئے، جس کے ذریعے امن اور بھائی چارے کو فروغ ملے اور جنگیں ختم ہوں، اسی لیے چرچل نے نا صرف اپنی شکست کو قبول کیا بلکہ اُنہوں نے اس کے بعد بے شمار کتابیں لکھیں اور 1953ءمیں اسی بدولت اُنہیں ادب کا نوبل پرائز بھی دیا گیا اور وہ دوبارہ ملک کے لیے سود مند ثابت ہوئے۔ پھر آپ فرانسیسی لیڈر چارلس ڈیگال کو دیکھ لیں، ڈیگال کو اگر جدید فرانس کا بانی کہا جائے تو یہ یقینا یہ سچ ہوگا۔ اس شخص نے دوسری جنگ عظیم میں فرانس کے بچے کھچے لوگوں پر مشتمل جلاوطن حکومت اور گوریلا فوج بنائی، جرمنوں پر حملے کیے اور برسوں تک جنگلوں، پہاڑوں اور ویرانوں میں بے سروسامانی میں لڑ کر فرانس کو جرمنوں سے آزادی دلائی، ڈیگال جیت گیا اور عبوری حکومت کا سربراہ بن گیا۔اُس کے لیے بہت مشکل وقت آئے، حتیٰ کہ اُس کے اپنے ساتھی بھی ساتھ چھوڑ گئے۔ ایک وقت ایسا آیا کہ اُسے اپنے ملک کو نقصان پہنچانے یا کسی بحران میں دھکیلنے جیسے فیصلے کرنے کے بجائے اُس نے اپنے آپ کو سیاست سے بالکل الگ تھلگ کر لیا۔ اور Wait and Watch کی پالیسی کے تحت 1946ءمیں پیرس چھوڑ کر اپنے گاﺅں چلا گیا اور وہ 1958ءتک چھوٹے سے گاﺅں میں رہا، وہ سارا دن کتابیں پڑھتا اور سگار پیتا تھا اور صبح و شام دو وقت واک کرتا تھا اور اپنے کتوں کے ساتھ کھیلتا تھا،یہاں تک کہ وقت پلٹا،اور ملک کو اُن کی دوبارہ ضرورت محسوس اُس وقت ہوئی جب 1958ءمیں الجزائر کی طرف سے آزادی کی لہر اُٹھی اور ملک میں ہنگامے شروع ہوگئے۔ عوام کو اس نازک وقت میں صرف ایک سہارا نظر آیا اور وہ تھا چارلس ڈیگال۔ عوام نے اُنہیں دوبارہ مسند اقتدار پر بٹھایا اور پھر چارلس ڈیگال نے اس ملک کو دوبارہ بحرانوں سے نکالنے میں بھرپور مدد کی۔ الغرض جن لوگوں نے شکست کھائی وہ دوبارہ کھڑے ہوئے، عوام کو اُن کی سخت ضرورت محسوس ہوئی، اور پھر اُنہیں دوبارہ اقتدار میں لانے والا کوئی اور نہیں تھا بلکہ عوام ہی تھے۔ عمران خان نے خود بھی دو ورلڈ کپ ہار کر ہی تیسرا ورلڈ کپ جیتا تھا، خان صاحب اُن دو شکستوں پر اگر نہیں گھبرائے تو اب کیوں گھبرا گئے ہیں؟ بہرکیف عمران خان نے لیڈر بننے کا موقع کھو دیا ہے۔ اگر باالفرض تحریک عدم اعتماد ہو جاتی اور عمران خان کو شکست ہو جاتی تو اس بھان متی کے کنبے نے کیا کر لینا تھا؟ ”بھان متی کے کنبے “ کو یہاں بطور کہاوت استعمال کیا جاتا ہے، اس کی اگر تفصیل میں جائیں تو آپ کو پاکستان کی پوری سیاست کے بارے میں علم ہو جائے گا۔ یعنی بھان متی برصغیر کی ایک سیاسی، سماجی اور مذہبی کردار کی حامل خاتون تھی۔ وہ ریاست چتوڑ میں پیدا ہوئی‘ وہیں پلی بڑھی اور کام کاج شروع کیا۔ روایت ہے کہ پتلی تماشا کرنا اس کا پیشہ تھا۔ وہ شہر شہر‘ نگر نگر گھومتی، تماشا کرتی، کہیں سے داد وصول کرتی اور کہیں سے کوسنے اور گالیاں کھاتی۔ بھان متی میں جہاں بہت سی خوبیاں تھیں‘ وہیں ایک خامی بھی تھی۔ وہ ٹیم ورک پر یقین نہیں رکھتی تھی۔ جہاں جاتی نئے لوگ اکٹھا کرتی اور پتلی تماشا شروع کر دیتی۔ پرانی کہانی میں نئے کردار شامل کرنے کے بجائے وہ اداکار بدل دیتی تھی۔ ایک کے بعد ایک صبحیں آئیں‘ شامیں ڈھلیں‘ راتیں گزریں۔ اب بھان متی کی کہانی لوگوں کو بیزارکرنے لگی تھی۔ یہ بھان متی کا زوال کا آغاز تھا۔ لوگ کہنے لگے تھے کہ بھان متی کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا اٹھا کر ہمارا وقت ضائع کرتی ہے۔ وہ لوگوں کے رویے سے تنگ آ کر مجذوب سی ہو گئی اور دنیا سے الگ تھلگ رہنے لگی۔ اس نے ایک ہندو لڑکی کی ایک مسلمان لڑکے سے شادی بھی کروائی تھی جس کی وجہ سے دنیا والے اس کے مزید مخالف ہو گئے تھے اور اس کا مذاق اڑانے لگے تھے۔ یہیں سے وہ شہرہ آفاق محاورہ وضع ہوا جو ایک پولیٹیکل تھیوری کی بنیاد بھی بنا۔ ”بھان متی نے کنبہ جوڑا‘ کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا“۔ پاکستانی سیاست بھی بالکل ایسی ہے کہ ہر جماعت میں مختلف النظریات کے ادھر اُدھر کے لوگ شامل ہیں، اور اپوزیشن اتحاد میں تو ویسے ہی ادھر اُدھر سے روڑے اوراینٹیں اکٹھی کی گئی ہیں، جنہوں نے آپس میں لڑ لڑ کے دو تین مہینے میں ایکسپوز ہو جانا تھا، اور پبلک میں اس کا کیا مورال بننا تھا؟چند دنوں میں سب کو علم ہے کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جانا تھا، خان صاحب پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے دست و گریبان ہونے کا انتظار کرتے۔ یقینا یہ وقتی اور مصنوعی اتحاد جلد ٹوٹ جانا تھا، یہ لوگ ایک بار پھر ایک دوسرے کو منحوس، کرپٹ اور نیشنل سیکورٹی رسک کہہ رہے ہوتے اور ان کی لڑائیاں عمران خان کے لیے دوبارہ موقع پیدا کر دیتیں، قصہ مختصر کہ اگر عمران خان راستے سے ہٹ جاتے تو یہ لوگ ایک دوسرے کے کپڑے پھاڑ دیتے۔لیکن فی الوقت تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ خان صاحب پاکستانی سیاست میں ایک غیر اخلاقی حرکت کے مرتکب ٹھہرے ہیں جس کے لیے شاید تاریخ اُنہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اس کی وجہ شاید یہی تھی کہ ان کے مشیروں نے اُنہیں ڈرا دیا تھا، کہ اگر آپ کی حکومت چلی گئی تو علم نہیں کہ آپ کو جیل ہو جائے گی، جعلی مقدمے بن جائیں گے وغیرہ۔خیر آنے والے دنوں میں جو بھی وقت آئے وہ پاکستان کے لیے بہترین ہولیکن ایک التجا ضرور ہے کہ فیصلہ کرنے والی قوتیں بھی اس ملک پر اُنہی لوگوں کو سپورٹ نا کریں جنہوں نے اس ملک کا بیڑہ غرق کیا بلکہ ایسی قیادت تلاش کرے جو اس ملک کے لیے بہترین فیصلے کرے۔