23مارچ : قومیتوں سے آگے نکل کر سوچنے کا دن!

23 مارچ ایک تاریخ ساز دن جب برصغیر کے مسلمانوں کی منزل کا تعین ہوا اور قائداعظم کی ولولہ انگیز قیادت میں مسلمانوں نے اپنی اس منزل کو پا لیا۔ 23 مارچ 1940ءکو منٹو پارک لاہور میں قرارداد منظور ہوئی جو بعد میں ”قرارداد پاکستان“ کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس دن آل انڈیا مسلم لیگ نے اے کے فضل حق جو بنگال کے وزیر اعلیٰ تھے کی پیش کردہ قرارداد منظور کر کے یہ پیغام دیا تھا کہ اب متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں اور ہندوﺅں کا ایک ساتھ رہنا بہت مشکل ہے۔ قرارداد پاکستان کی منظوری کے 7 سال بعد مسلم لیگ نے قائداعظم کی قیادت میں 14 اگست 1947ءکو دنیا کے نقشے پر مملکتِ خداداد پاکستان نمودار کر کے انقلاب برپا کر دیا۔ قائداعظم کی قیادت میں مسلمانان برصغیر نے بے مثال قربانیاں دیں اور قائداعظم نے مطالبہ پاکستان کو عملی جامہ پہنانے اور دو قومی نظریہ کو روشناس کرانے کیلئے برصغیر کے چپے چپے کا دورہ کیا۔ سیاسی کارکنوں، صحافیوں، وکلا، طلبہ خواتین، علماءاور ہر ایک نے تحریک پاکستان میں بے پناہ قربانیاں دے کر اپنا تاریخی کردار ادا کیا۔ مسلمانان برصغیر نے قائداعظم کی مدبرانہ اور مخلصانہ قیادت میں انگریزوں اور ہندوﺅں کو گھٹنے ٹیکنے اور مطالبہ پاکستان تسلیم کرنے پر مجبور کر دیا۔آل انڈیا مسلم لیگ نے قائداعظم کی رہنمائی میں ایمان، اتحاد، تنظیم کی بدولت صرف سات سال کے عرصے میں مطالبہ پاکستان کی جنگ جیت لی۔ لیکن وہ دن اور آج کا دن پاکستان مسلسل بحرانوں کی زد میں ہے کیونکہ قائد کے بے وقت دنیا سے چلے جانے کے بعد طالع آزماﺅں کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا۔آپ کا وژن اور پاکستان کے بارے میں خیالات ہمیشہ اعلیٰ درجے کے رہے، قرار داد پاکستان پیش کرتے وقت قائداعظم محمد علی جناح سینئر مسلم لیگی رہنماﺅں کے جلو میں جلسہ گاہ پہنچ گئے۔ ان کے ابتدائی الفاظ کچھ اس طرح تھے۔ My Dear Brother and Sisters, this is the month of march, and now we have to start the march towards victory. قائد اعظم کی گرجدار اور رعب دار آواز سنتے ہی لاکھوں کا مجمع تالیوں سے گونج اُٹھا۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک وقت کے لیے دنیا کو ایسا پیغام گیا کہ ایک ایسی ریاست قائم ہوگی جو دنیا میں اپنا منفرد مقام رکھے گی۔ لیکن ہم آغاز میں ہی اُس وقت فیل ہو گئے جب ہم نے قائدا عظم کے جانے کے بعد اقلیتوں کے ساتھ برا سلوک کرنا شروع کردیا۔ حالانکہ پاکستان کو حاصل کرنے کے چیدہ چیدہ مقاصد میں سب سے اول مقصد ہر ایک کویہاں مذہبی آزادی ہوگی۔اس کے علاوہ دیگر مقاصد میں ایک نڈر ریاست، جھوٹ و جبر سے پاک ریاست ، تعصب سے پاک ریاست، لسانیت سے پاک قومی بھائی چارے کی ریاست اور ایک آزاد ریاست کا قیام تھا جہاں ہر چیز معیاری ہوگی اور ایک سسٹم کے تحت ملک آگے بڑھے گا۔لیکن اس کے برعکس آج پاکستان کو قائم ہوئے 75 برس ہو رہے ہیں لیکن محسوس یہ ہوتا ہے کہ تحریک پاکستان کے مقاصد کی تکمیل تشنہ رہ گئی ہے۔ آج جب بھی کبھی پاکستان پر کوئی آفت آتی ہے تو یقین مانیں ”قرار داد مقاصد “ کا بھرگس نکل جاتا ہے۔ بقول شاعر اب کام نہیں کوئی، جز کار عزاداری جب رو لئے جی بھر کے، پھر رونے کی تیاری نہایت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تاریخی جدوجہد اور لاکھوں جانوں کے نذرانے دے کر حاصل ہونے والا پاکستان آج مسائل کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے۔چاروں طرف کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے۔جس مادرِ وطن کیلئے قربانیاں دی گئیں، اسے مفاد پرست حکمرانوں نے کچھ ہی برسوں بعد دو لخت کر دیا۔طالع آزماﺅں کی اقتدار کی ہوس نے مغربی پاکستان ہم سے جدا کر دیا۔لہٰذایہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہماری بطور قوم کیا کارکردگی رہی ہے؟ کیا ہم اُس معیار پر پورا اُترے جس معیار پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا؟ بلکہ اس دن کے بارے میں تو یوں کہا جائے کہ یہ دن اپنی کھوئی ہوئی منزل کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے ازسرنو تعین کا یوم عہد ہے، یوم احتساب ہے کہ ہم نے یہ وطن جس مقصد کیلئے حاصل کیا تھا کیا ہم سب اس کیلئے کوشاں ہیں۔ آج اگر ہم اس ملک کو ٹھیک کرنے کا عہد کرنا چاہیں اور سب سے پہلے اس ملک کے مسائل کو ایک ایک کرکے ختم کرنا چاہیں تو اس میں سب سے پہلا مسئلہ ہمارے ہاں چھوٹے چھوٹے گروہوں میں بٹی ہوئی قوم کا ہے۔کیوں کہ قائد اعظم کی رحلت کے بعد ہم قومیتوں میں ایسا پھنسے کہ پھر ہمیں ایک قوم بننا یاد ہی نہ رہا۔ اسی قوم پرستی نے اس ملک کو اتنا نقصان پہنچایا کہ ہر کوئی انفرادی ترقی کے بارے میں سوچنے لگا۔ کسی نے اجتماعی ترقی کی طرف توجہ نہ دی۔ حالانکہ ہمارے قائدین نے اس ملک کو حاصل ہی ایک قوم بننے کے لیے کیا تھا۔ آپ مولانا محمد علی جوہر کو دیکھ لیں۔ 1930ءمیں وہ بیماری کی حالت میں لندن گئے جہاں انہوں نے ایک راﺅنڈ ٹیبل کانفرنس میں شرکت کرنا تھی، وہاں وہ برطانیہ کے وزیراعظم جیمز رمزے میکڈونلڈ کو مخاطب ہوئے اور کہا کہ ”بیماری کے باوجود میرے یہاں آنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ میں اپنے ملک کے لئے آزادی کا پروانہ لے کر واپس جاﺅ ں گاتاکہ ہم برصغیر کے مسلمان ایک ”قوم“ بن سکیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ایک غلام ملک میںجانے کی بجائے ایک آزاد ملک میں مرنا پسند کروں گا“ مولانا محمد علی جوہر نے اپنی گرجدار آواز میں خوبصورت انگریزی بولتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی دھمکی نہیں بلکہ ایک تنبیہہ ہے۔ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں کے اکثریتی صوبوں میں ان کی آئینی حکومت قائم نہ کی تو ہندوستان میں خانہ جنگی شروع ہوسکتی ہے۔ ابھی لندن میں ان کی شاندار تقریر کی گونج باقی تھی کہ چند روز علیل رہنے کے بعد چار جنوری 1931کو وہ دیارِ غیر (لندن)میں انتقال کرگئے۔ ان کی خواہش کے مطابق انہیں ”غلام ملک“ میں واپس نہ لایا گیا۔ ان کے جسدخاکی کو فلسطین لے جایا گیا جہاں مفتی امین الحسینی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس مرد ِ درویش کو بیت المقدس میں دفن کیا گیا ۔ ان کی اس کاوش ، تڑپ ، جذبے اور بے باک بہادری نے ”نئے ملک“ کی بنیاد رکھی۔چونکہ اُس وقت ہندوستان میں1000سے زائد قومیں آباد تھیں، سبھی مسلمان قوموں نے قومیتوں سے ہٹ کر ایک قوم بن کر سوچنا شروع کردیا۔ لیکن پھر جب ملک بن گیا تو نہ جانے سوچی سمجھی سازش کے تحت ہمیں قوم پرستی میں اُلجھا دیا گیا۔ جس کا نقصان یہ ہوا کہ ہسپتالوں، سکولوں، سرکاری دفتروں اور چہار سو حالات بدتر ہوگئے ، ہر طرف چور بازاری اور رشوت کا بازار گرم ہوگیا، ملک غریب اور امیر طبقے میں بٹ کر رہ گیا۔ پھر امیر طبقے نے یہاں ہر وہ سہولت چھیننا شروع کردی جو اُس کی دسترس میں بھی نہیں تھی۔بلکہ یہاں تو ہر کسی کو غدار کہا جانے لگا، ہر ایک کو غدار کا سرٹیکیفیٹ دیا جانے لگا۔ قصہ مختصر کہ ہماری بدقسمتی رہی کہ ہمیں آزادی تو مل گئی مگر ہم اسے برقرار رکھنا اور بڑھانا تو دور کی بات، ہم اپنا وطن پیچھے کی طرف لے گئے،ہمارے رہنماﺅں نے ہمیں ایک تحفہ دیا اور جس میں ہر میدان کے ماہر، ہنرمند، ڈاکٹر، انجنئیر اور سائنس دان موجود ہیں، یہ سب ٹاٹ سکولوں میں تعلیم حاصل کرکے بنے اور دنیا بھر کے ممالک میں خدمات انجام دے رہے ہیں، مگر ہم نے ان سے فائدہ اٹھانے کی بجائے ان کی حوصلہ شکنی کی۔ان کو باہر بھگا دیا۔ حالانکہ ترقی کے جتنے مواقع پاکستان میں ہیں دنیا میں شائد ہی کہیں ہوں۔ صرف ایک ٹریکٹر بنانے کی بدولت ہم نے بڑی ترقی کی اور ہزارہا لوگ اس سے وابستہ ہوئے لیکن آج تک ہماری حکومتوں نے جاپان، جرمنی اور دیگر ملکوں سے کمیشن کی خاطر 800سی سی اور 1300سی سی گاڑیاں مقامی طور پر بنانے کے لائسنس نہیں دیئے۔ہمیں جس چیز کی ضرورت نہیں وہ ہم باہر سے منگوارہے ہیں۔صرف اس لیے کہ وہاں سے آئی ہوئی چیزوں سے کمیشن حاصل ہوتا ہے جبکہ مقامی انڈسٹری اتنا کمیشن نہیں دے سکتی۔ کیا یوم پاکستان پر ایسی باتیں تسلیم کرکے آگے بڑھنے کی ضرورت نہیں ہے؟ لہٰذااس دن کو ہمیں ضرور جوش و خروش سے منانا چاہیے مگر اس کے اغراض و مقاصد کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے ۔ یہ بات سچ ہے کہ جمہوری ملک اپنے قومی دن بڑی شان سے منایا کرتے ہیں، مگر وہ اپنے آپ کو دوبارہ سے تیار کرنے کے لیے ایسے دنوں کو مناتے ہیں اور عہد کرتے ہیں کہ وہ اپنی ریاست کے لیے کام کریں گے۔ درحقیقت میں جب تک ہم ایک مضبوط سسٹم کی بنیاد نہیں رکھیں گے تب تک ہمیں یہ دن دھوم دھام کے ساتھ منانے کا بھی کوئی حق نہیں ہے۔ یہاں جمہوریت کے نام پر بھی خاندانی اجارہ داری ہے۔ سیاست باپ، بیٹا، بیٹی اور بہو میں رہی، کوئی سیاسی ورکر آگے نہ آسکا، غلام حیدر وائیں، معراج خالداور جہانگیر بدر(مرحوم) جیسے چند لوگ آگے آئے مگر ان کو بھی احکامات لیڈ پنسل سے لکھ کر دیئے جاتے تھے اور ان پر عملدرآمد کرایا جاتا تھا۔ الغرض ایسے لگتا ہے جیسے یہ ملک عوام کیلئے بنا تھا مگر اشرافیہ نے اس پر قبضہ کرلیا۔ بہرکیف آج کے پاکستان کو ایک بار پھر قومیتوں سے نکل کر ایک قوم بن کر دکھانا ہے۔ سچ اور حق کے حصول کا جذبہ رکھنے کا مظاہرہ کرنا ہے۔ پاکستان سے لگن میں اپنے اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر ثابت قدم رہنا ہو گا۔ پاکستانی قوم بن کر پاکستان کی حفاظت کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے دشمنوں کی میلی نظروں سے پاکستان کی طرف دیکھنے والی آنکھ کو جڑ سے نکالنا اور پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف انہیں عبرت کا نشان بنانا ہے۔ اس لئے آج 23 مارچ کا دن قوم کیلئے تجدید عہد کا دن ہے اور اس دن ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے آج تک جو دانستہ یا نادانستہ کوتاہیاں کی ہیں ان کا ازالہ کیسے کرنا ہے۔ آج پھر تحریک آزادی پاکستان جیسے جذبے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم درست وقت پر درست فیصلے لیں تو یقیناً ہماری کایا پلٹ سکتی ہے۔