سیاست میں شائستگی کا دامن نہ چھوڑا جائے!

ابراہم لنکن کے بارے میں کون نہیں جانتا ؟ وہ امریکا کے سولہویں صدر، عظیم سیاستدان اور جدید امریکا کے بانی تھے، اگر وہ اقتدار میں نہ آتے تو امریکا کا حال بھی براعظم افریقہ جیسا ہوتا ، کیوں کہ انہوں نے ڈیڑھ سوسال قبل ملک بھر سے خانہ جنگی ختم کرکے ترقی کی راہ پر ڈالا۔ وہ ایک موچی کے گھر پیدا ہوئے تھے، وہ خود بھی جوتے بناتے رہے، انہوں نے بطور ڈاکیا، بطور کلرک اور بطور مزدور بھی کام کیا۔ اور آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب قدم بڑھاتے ایک دن امریکی کانگریس کے رکن بھی منتخب ہوگئے۔ 1856ءمیں وہ امریکا کی ڈیموکریٹس پارٹی میں شامل ہو ئے اور 1860ءمیں امریکا کے سولہویں صدر منتخب ہوئے۔ اور 15 اپریل 1865 کو انہیں قتل کردیا گیا۔اس وقت امریکی سینٹ میں ہو بہو پاکستان کی طرح جاگیرداروں، تاجروں ، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کا قبضہ تھا، یہ لوگ سینٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ ابراہم لنکن صدر بنے تو انہوں نے امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کر دیا، اس کے لیے انہوں نے ایک صدارتی ایک فرمان کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزادکر کے فوج میں شامل کیا جس کے دو ررس اثرات مرتب ہوئے۔امریکی اشرافیہ لنکن کی اصلاحات سے براہ راست متاثر ہو رہی تھیں چنانچہ یہ لوگ ابراہم لنکن کیخلاف ہو گئے تھے اور مضحکہ اڑانے سے بالکل نہیں چوکتے تھے، ان کی صدارت سے متعلق ایک واقعہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب وہ بطور صدر حلف اٹھانے کے بعد پہلے صدارتی خطاب کے لیے آئے تو ایک سینیٹر اپنی نشست سے اٹھا اور ابراہم لنکن سے مخاطب ہو کر بولا، ”لنکن! صدر بننے کے بعد یہ مت بھولنا تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا“۔ یہ فقرہ سن کر پورے سینٹ نے قہقہ لگایا۔ لنکن مسکرائے اور سیدھے ڈائس پرآگئے اور اس رئیس سنیٹر سے مخاطب ہو کر کہا کہ۔۔”سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراءکے جوتے بھی سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا امریکہ میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے والد سے جوتے بنواتے تھے کیوں؟ اس لئے کہ پورے امریکہ میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا والد ایک عظیم فنکار تھا، اس کے بنائے ہوئے جوتے محض جوتے نہیں ہوتے تھے، وہ ان جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا، میرے والد کے پورے کیریئر میں کسی نے ان کے بنائے ہوئے جوتے کی شکایت نہیں کی،وہ ایماندار تھے، اور یہی ایمانداری میں اپنے پورے ملک میں بھی دیکھنا چاہتا ہوں، اس لیے آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جو تا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جو تا بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کوئی میرے والد کے کا م کی شکایت نہیں کرے گا کیونکہ پورے امریکہ میں میرے والد سے اچھا موچی کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک عظیم فنکار، ایک جینئس اور ایک عظیم کاریگر تھا اور مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے“۔ یہ سننا تھا کہ پورا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا، انہوں نے اپنی ”بے عزتی“ کا جواب شائستگی اور دلائل سے دیا۔ کہ جملہ کسنے والا سینیٹر بھی اُن کا گرویدہ ہوگیا۔ لیکن اس کے برعکس آج نہ تو وہ شائستگی رہی ہے نہ دلیلیں ساتھ دیتی ہیں اور نہ ہی کسی میں برداشت کا مادہ ہے....ابراہم لنکن آج مجھے اُس وقت یاد آئے جب قوم نے وزیر اعظم عمران خان کو کراچی میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے سنا۔ اور خاصے دباﺅ کا شکار نظر آئے۔ اسی دباﺅ کی وجہ سے حسب روایت انہوں نے مخالفین کو آڑے ہاتھوں لیا اور کسی کو بوٹ پالشیاکہا تو کسی کو ڈیزل، کسی کو اردو سیکھنے کا طعنہ دیا تو کسی کو چور ڈاکو کے القابات سے نوازا۔ حد تو یہ تھی کہ یہ بات انہوں نے ایک بار نہیں بار بار دہرائی اور پھر وہ یہ باتیں کسی ایک جلسے میں نہیں کر رہے ہر ہر کارنر میٹنگ یا جلسے میں اُن کی تقاریر ایسی ہی ہوتی ہیں۔ حالانکہ حالیہ لڑائی ”تحریک عدم اعتماد پرہے، جس پر اپوزیشن کا پورا حق ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد پیش کرے، جبکہ حکومت کو قانونی حق ہے کہ وہ اس کا دفاع کرے۔ اور اس میں مسئلہ ہی کیا ہے؟ یہ تو ایک سیاسی عمل ہے، اس پر لڑنے یا پریشان ہونے کی کیا ضرورت ہے؟ اس پر تو ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ یہ سیٹیں آنی جانی چیزیں ہیں، کیا فرق پڑتا ہے؟ علم نہیں ان سیاستدانوں کا نہ جانے شائستگی، تحمل اور برداشت کہاں چلا گیا ہے؟ حالانکہ جس طرح سیاست ایک عبادت ہے اسی طرح سیاستدان بھی آئیڈیل شخصیت ہوا کرتے ہیں، اُن میں شائستگی کا عنصر کبھی ختم نہیں ہوتاہے۔ آپ تاریخ اُٹھا کر دیکھ لیں ، قائد اعظم محمد علی جناح سے لے کر مسلم لیگ کے پہلے دور حکومت تک سیاست میں بڑی وضع داری تھی،شائستگی تھی۔سیاسی رہنما یہاں کی روایات کو مد نظر رکھتے ہوئے تقاریرکرتے تھے۔نوابزادہ نصر اللہ خان، مولانا شاہ احمد نورانی ،مولانا مفتی محمود،خان عبدالولی خان،عطاءاللہ مینگل،عبدالصمد خان اچکزئی،نواب اکبر بگٹی اور اس وقت کے دیگر کئی رہنماتھے۔وہ سیاست کرتے تھے جلسے جلوسوںمیں تقاریر کیا کرتے تھے لیکن سخت ترین سیاسی مخالفین کے بارے میں بھی بات کرتے ہوئے شائستگی اور وضع داری کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھتے تھے۔سید عطاءاللہ شاہ بخاری جیسے شعلہ بیان رہنما نے کبھی بھی کوئی ایک نازیبا لفظ استعمال نہیں کیا۔ان سیاسی رہنماﺅں کے بعد اس وقت سیاست سے شائستگی رخصت ہونے لگی جب سیاست میں غیر سیاسی،نا تجربہ کار اور نو آموز افراد داخل ہونا شروع ہوئے۔جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ہمارے ہاں سیاست میں معاشرتی روایات اور شائستگی کاخاتمہ ہوتا گیا۔اس سے قطع نظر کہ سیاستدان قوم کے رہنما ہوتے ہیں۔قوم ان سے تمیز اور انداز گفتگو سیکھتی ہے۔پہلے تو نوجوان سیاسی رہنماﺅں کو اپنا آئیڈیل بناتے تھے لیکن ہمیں یاد ہے کہ مسلم لیگ(ن) سے کس طرح شہید بھٹو کی نازیبا تصاویر والے پوسٹر چھپوا کر جہاز سے لاہور شہر میں گرائے گئے تھے۔پاکستان میں فوجی حکومتیں بھی آئیں لیکن کبھی کسی سیاسی رہنما کے بارے میں ایک بھی نازیبا اور توہین آمیز لفظ سننے کو نہ ملا۔لیکن موجودہ سیاستدان حقیقت میں گرچکے ہیں۔ کبھی میاں شہباز شریف ،آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹتے نظر آتے ہیں، کبھی سابق صدر مرحوم فاروق لغاری پر آصف علی زرداری کی طرف سے ذاتی حملے کئے گئے اور ان کی کردار کشی کی گئی۔کبھی مسلم لیگ(ن) نے عمران خان کی سابقہ اہلیہ جمائمہ خان کے بارے میں کہا۔عمران خان کی کردار کشی کی گئی حتیٰ کہ ان کی ذاتی زندگی پربھی بری طرح کیچڑ اچھالا گیا۔2013ءتک خان صاحب نے بھی شائستگی کا دامن پکڑے رکھا مگر اُس کے بعد پھر اُنہوں نے ایسی ایسی زبان استعمال کی جس سے قومی سیاست کو خاصا نقصان پہنچا ہے، اور پھر حد تو یہ ہوتی ہے کہ جواب میں دوسری طرف سے بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جاتا ہے۔سیاست کے اس تاریک دور میں صرف چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی ایسے سیاسی رہنماہیں جو اپنی خاندانی روایات کے امین ہیں۔اور یہ غنیمت ہے۔میں سمجھتا ہوں کہ ہماری سیاسی تاریخ میں موجودہ حالات کو مدنظر رکھ کر یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ سیاسی مخالفت اپنی جگہ لیکن یہ دونوں شخصیات بلاشبہ سیاسی رہنما کہلانے کی مستحق ہیں۔ بہرکیف دنیا میں بے شمار تحریکیں چلی ہیں، بے شمار تحریک عدم اعتماد ہوئی ہیں، ایک ایک ووٹ سے کامیابیاں لی ہیں، ایک ایک ووٹ پر پانچ پانچ سال تک حکومتیں قائم رہی ہیں، لیکن بہترین سیاستدان اور لیڈر وہی ہوتا ہے جس میں قوت برداشت زیادہ ہوتی ہے، جو لوگوں کا آئیڈیل ہو ، اُس کی سخت سے سخت حالات میں بھی زبان شیریں ہوتی ہے، اور پھر معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں سیاستدان کم ”بزنس مین“ کا رش زیادہ ہوگیا ہے۔ آپ ملک بھر کے تمام ایوانوں میں دیکھ لیں، حقیقی سیاستدان کم اور ”کمیشن خور بزنس مین“ زیادہ نظر آئیں گے، اورپھراس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سیاستدانوں کو بکنے کایا اپنا ریٹ لگوانے کا بھی الگ ہی شوق ہے، کیوں کہ وہ اتنا مہنگا الیکشن لڑکر آتے ہیں اس لیے اُن کا بک جانا تو بنتا ہے۔ وہ سب سے پہلے اپنے پیسے پورے کرتے ہیں، پھر ”منافع“ وصول کرتے ہیں۔ اور یہ بقول طاہر القادری کے شاید اسی لیے ہے کہ ہمارے ہاں پہلے سے بڑے ڈاکو بھی اگر اقتدار میں آجائیں تو ہمارے عوام اُنہی کو ہی چنیں گے، اس کی بڑی وجہ اُن کے بقول یہ ہے کہ عوام کو شعور نہیں دیا گیا، اور پھر جب قوم کو آپ بنی اسرائیل بنا کر رکھ دیں تو پھر بنی اسرائیل تو فرعون کے ساتھ بھی خوش تھی، فرعون بنی اسرائیل کے بیٹوں کو ذبح کرتا تھا، اُن کی بچیوں کے ساتھ بدفعلی کرتا تھا، لیکن بنی اسرائیل آواز نہیں اُٹھاتے تھے، اور نہ ہی حضرت موسیٰ ؑ کو ”ووٹ“ دیتے تھے۔ لہٰذاخوف کے ساتھ اگر آپ ملک کی طاقت ختم کردیں، جرا¿ت ختم کردیں، اُن کو تعلیم نہ دیں، اُن کو روزگار نہ دیں، اُن کو ترقی نہ دیں تو آپ اُن کو جسمانی طور پر نہیں بلکہ اُن کو شعوری طور پر مار دیتے ہیں۔ لہٰذاقوم کی تربیت کرنے والے پارلیمنٹرین نہیں بلکہ ایک ہجوم ہیں جو 1985ءکے غیرجماعتی الیکشن کے بعد وجود میں آئے یہ لوگ تو خود بکنے کو تیار ہوتے ہیں، ان میں سیاست، خدمت اور انسانیت کا جذبہ تو دور تک نظر نہیں آتا اور نہ ہی یہ نظر آتا ہے کہ یہ کسی فلاحی مقصد کے لیے یہاں آئے ہیں، یہی حال نیچے ہوگیا ہے، بلدیاتی انتخابات ہوں، ضمنی انتخابات ہوں یا کسی بار وغیرہ یا کسی پریس کلب کے ہی الیکشن کیوں نہ ہوں، سرعام بولیاں لگ رہی ہوتی ہیں۔ یعنی اوپر سے نیچے تک سسٹم ہی کرپٹ ہے جس میں عام آدمی الیکشن ہی نہیں لڑ سکتا۔ الغرض اس پارلیمنٹ سے عام عوام کو کیا اُمید ہو سکتی ہے جو کروڑوں روپے لگا کر آئی ہے اور کروڑوں روپے بنانے آئی ہے۔ لہٰذاایک خان صاحب سے اُمید تھی، لیکن اب وہ بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جا رہی ہے کیوں کہ وہ بھی ابراہم لنکن بننے کے بجائے روایتی سیاستدان بن رہے ہیں اور یہ ملک و قوم کے لیے نیک شگون نہیں ہے!