احتساب میں عزت نفس کا خیال رکھا جائے!

بریگیڈئیر (ر) اسد منیر نے 16مارچ 2019 کو نیب راولپنڈی کے رویے کے خلاف احتجاجاً ڈپلومیٹک انکلیو میں خودکشی کر لی تھی، بالآخر انھیں عدالت نے تین سال بعد بری کر دیا ہے۔اب ان کی موت کے کم و بیش تین سال بعد بلآخر انھیں انصاف مل گیا اور انھیں احتساب عدالت نے نئے نیب آرڈیننس کی روشنی میں بری کر دیا ہے۔ آہ! ہمارا سسٹم… ہم اس واقعہ پر سوائے افسوس کرنے کے کچھ نہیں کرسکتے ! یقین مانیں ہر سرکاری ادارہ اُسی وقت بہتر کام کرے گا جب سیاست سے ہٹ کر میرٹ پر بھرتیاں ہوں، لیکن ہمارے ہر ادارے میں سفارشی کلچر کی مکمل اجارہ داری ہے۔اب تو گریڈ ا۷ میں بھرتیوں پر بھی گڑبڑ ہوتی ہے، نیب جیسا ادارہ بھی اس سے بری الذمہ نہیں ہے،خیر یہ بات سچ ہے کہ اس وقت کرپشن ہمارے اندر رچ بس گئی ہے، اور ہمارا ایماندار ممالک میں 140واں نمبر ہے، اور یہ کرپشن ضیاء دور میں اُس وقت شروع ہوئی جب پہلی بار غیر جماعتی الیکشن کراکے موقع پرستوں کے لیے سیاست کے دروازے کھولے گئے۔ ڈنمارک جو دنیا کے ایماندار ممالک میں پہلا نمبر رکھتا ہے، وہاں احتساب کا ادارہ ’’Danish Accountablity Bureau ‘‘ ایسے افراد پر مشتمل ہے ، جنھیں دنیا بھر میں سب سے زیادہ پروفیشنل ہونے کا اعزاز ہے۔اس ادارے کے پاس اگر کہیں سے کرپشن کی کوئی شکایت موصول ہوتی ہے تو وہ سب سے پہلے اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ شکایت کنندہ کا ذاتی مفاد کیا ہے اور اس کا کردار کیسا ہے؟ پھر جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے اُس کی اُس کے ادارے میں Reputationکیا ہے؟ پھر دیکھا جاتا ہے کہ کرپشن کی نوعیت کیا ہے؟ پھر یہ ادارہ اُس وقت تک اُس شخص یا ادارے کا نام واضح نہیں کرتا جب تک اُسے مکمل یقین نہ ہو جائے کہ مذکورہ شخص نے واقعی کرپشن کی ہے یا نہیں! پھر یہ ادارہ مکمل ثبوتوں کے ساتھ مجسٹریٹ کے حضور پیش ہو کر ثبوت دکھاتا ہے اور تب اُس شخص کی گرفتاری ممکن ہوتی ہے، اور پھر مجسٹریٹ ہی یہ فیصلہ کرتا ہے کہ فلاں شخص کو صرف بلا کر پوچھ گچھ کی جائے یا اُسے ایک مقررہ مدت کے لیے گرفتار کیا جائے۔ اور پھر آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جس پر الزام لگتاہے، یا جس شخص پر کیس فائل ہو چکا ہوتا ہے وہ چاہے اپنی سروس کے آخری سال میں ہو۔وہ اپنی پوسٹ سے استعفیٰ دے دیتا ہے، اور اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کر دیتا ہے۔ جب کہ اُن کے ہاں کیسز کے فیصلے کی مدت محض 60دن ہوتی ہے۔ وہاں کا احتساب بیورو اس محتاط انداز میں چلنے کے باوجود اپنا رعب و دبدبہ رکھتا ہے، ہر کوئی اُس ادارے سے بلکہ کرپشن کے خلاف قوانین سے ڈرتا ہے۔ اور اپنی عزت کو سب سے پہلے دیکھتا ہے کہ وہ اپنے خاندان اور اپنے دوست احباب کو کیا منہ دکھائے گا۔لیکن یہاں نیب تفتیش بعد میں کرتی ہے پہلے اُس شخص کو گرفتار کرتی ہے، پھر اُس کا میڈیا ٹرائل کیا جاتا ہے اور پھر 6مہینے سال نیب اُسے اپنی قید میں رکھنے کے بعد کہہ دیتی ہے کہ تفتیش ابھی ’’نامکمل‘‘ ہے۔پورا پاکستان احتساب کے حق میں ہے، ہر کوئی چاہتا ہے کہ پیسہ ریکور ہونا چاہیے، مگر کوئی بھی نہیں چاہے گا کہ کسی کی عزت نفس مجروح ہو، بے شمار لوگوں کے لیے پیسے سے زیادہ عزت نفس پیاری ہوتی ہے، وہ ساری عمر میں صرف عزت کماتے ہیں، چلیں یہ مان بھی لیا جائے کہ سب کچھ پیسہ ہی ہو گیا ہے تب بھی سوسائٹی میں کچھ لوگ ایسے موجودہیں، جن کی عزت پیسے سے بڑھ کر ہے، ایسے لوگوں کا خیال رکھنا بھی ریاست کی ذمے داری ہے، کیوں کہ ایسے لوگ اس ملک کا سرمایہ ہیں۔اس وقت آدھی سے زیادہ کابینہ اور آدھی سے زیادہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران کے بارے میں سب جانتے ہیں کہ انھوں نے مال و دولت کیسے کمائی؟ اور ان میں سے بعض عزت کو نہیں بلکہ پیسے کو دیکھتے ہیں لیکن کچھ لوگ ہیں جن کے لیے عزت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ میں بذات خود ایسے بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو ایماندار ہیں مگر انھیں نیب میں اس قدر تذلیل کا سامنا ہے کہ وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے اور اسد منیر کے کیے پر رشک کرتے ہیں۔اسد منیر کے بارے میں بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایک اپارٹمنٹ میں رہتے تھے، نہ ہی اُن کا کوئی ذاتی کاروبار تھا اور نہ ہی کوئی کمرشل جائیداد، صرف 2005 کے ماڈل کی ایک کار تھی۔تب بھی کسی نے انھیں کرپشن کے کیسز میں پھنسا دیا۔