ڈاکٹر مہدی حسن: اصولوں پر ڈٹے رہنے والے شخص!

بقول شاعر جنگل میں اتنی خاموشی پہلے کبھی نہ تھی اے کارواں ٹھہر کوئی ساتھی بچھڑ گیا ہمارے ہر دلعزیز اُستاد، رہنما اور ترقی پسند لیڈر ڈاکٹر مہدی حسن ہم سے بچھڑ گئے،وہ طویل عرصہ سے علیل تھے، اُن کا شاگرد ہونے کے ناتے ہمارا دھیان زیادہ تر اُن کی طرف ہی لگا رہتا تھا، کیوں کہ وہ ایک عرصے سے گلے کے سرطان اور امراض قلب میں مبتلا تھے۔اور پھر یوں ہوں کہ اُن کی تکلیف کٹ گئی۔ آخر ی بار اُنہیں چند سال قبل ایک تقریب میں دیکھا تھا، لیکن اُس وقت بھی اُنہیں دیکھ کر دل بجھ کر رہ گیا تھا۔ بیماری نے انہیں چر لیا تھا۔ان کی سلامتی کی دعا کی لیکن ساتھ میں یہ دھڑکا بھی لگ گیا کہ شاید اب ساز ہستی خاموش ہونے کو ہے اور آج وہ خبر آگئی جس نے ہم سب کو اداس کر دیا ہے۔وہ احمد مشتاق کے اس شعر کی جیتی جاگتی مثال تھے اور رہیں گے: تزئینِ کائنات کا باعث وہی بنے دنیا سے اختلاف کی جرا¿ ت جنہوں نے کی جی ہاں !پنجاب یونیورسٹی ہو، کسی احتجاج کی سرپرستی کرنی ہو یا کسی آمر کو پکارنا ہو ، ڈاکٹر مہدی حسن اپنی پوری زندگی میں اختلاف کا استعارہ رہے۔ یعنی انہوں نے اپنے نظریات کی بڑی بھاری قیمت ادا کی۔ قانون کی حکمرانی پر ان کا یقین تھا۔ اسی یقین نے ان میں آمریت کے خلاف جرا¿ت اظہار پیدا کی۔ جب انہوں نے یحییٰ خان کے زمانے میں مارشل لاءپر تنقید کی تو نوکری سے نکالے گئے۔ دس ماہ کی قانونی لڑائی کے بعد بحال ہوئے۔ضیا الحق کے دور میں بھی نوکری سے برخاست ہوئے اور ہائی کورٹ کے سٹے آرڈر سے یونیورسٹی کا بند دروازہ اپنے لیے کھلوایا۔ ان کے ’جرم‘ کی نوعیت یہ تھی کہ تحریک بحالی جمہوریت کے دوران نواب شاہ کے ایک قصبے میں نہتے شہریوں پر گولی چلی تو اس جارحیت کے خلاف دستخطی مہم شروع ہوئی۔ وہ اس مہم میں شامل ہوئے۔ ظاہری بات ہے نازک مزاج شاہاں کے لیے یہ جسارت کیسے قابل قبول ہوتی۔سات برس پہلے ایک قومی اخبار کے لیے ان کا انٹرویو کیا تو کچھ اور حقائق بھی معلوم ہوئے۔ نامور قانون دان رضا کاظم نے ان کا مقدمہ لڑنے کی ہامی بھری لیکن پہلی پیشی سے قبل ہی وہ گرفتار ہو گئے۔ مقدمے کی سماعت شروع ہونے پر جج صاحب نے وکیل صاحب کے بارے میں استفسار کیا تو یہ گویا ہوئے کہ وہ آپ کے دائرہ سماعت سے باہر اٹک قلعے میں قید ہیں اس لیے اب میں اپنا وکیل آپ ہوں۔اس مقدمے کی سماعت کرنے والے جسٹس غلام مجدد مرزا نے ان سے کہا کہ وہ سیاست کیوں کرتے ہیں؟ ڈاکٹر مہدی حسن نے جواب دیا کہ وہ سیاست نہیں کرتے اپنے منصب سے انصاف کی کوشش کرتے ہیں جس کا تقاضا ہے کہ طلبہ کو باور کروایا جائے کہ آمریت ملکی مفادات کے خلاف ہے۔ قصہ کوتاہ یہ کہ انہیں سٹے آرڈر مل گیا جو ان کی ریٹائرمنٹ تک چلا۔ پروفیسر ڈاکٹر مہدی حسن پاکستان کے نامور صحافی، مبصر اور سیاسی تجزیہ کار تھے۔ تعلیم صحافت اور انسانی حقوق کے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دینے پر حکومت پاکستان نے 2012 میں انہیں ستارہ امتیاز عطا کیا تھا۔ دنیا جانتی ہے کہ ڈاکٹرصاحب ایک با اصول آدمی تھے، روشن خیال اور سیکولر۔ تشدد اور انتہاپسندی سے انہیں نفور تھا۔ نظریاتی اعتبار سے بڑے مخلص تھے لیکن ان کے دروازے ہر مکتب فکر کے افراد کے لیے کھلے تھے کیونکہ ان کا مکالمے پر یقین تھا۔ ایک دلچسپ بات یہ تھی ڈاکٹر مہدی حسن کی محفلوں میں شریک ایک مخبر بھی ان کے اخلاق اور شائستگی سے متاثر ہو کر ان کا گرویدہ ہو گیا۔ آہستہ آہستہ ہم بھی اُن کے اخلاق اور شائستگی سے متاثر ہوگئے تھے لیکن اُس سے پہلے جب ہم نئے نئے یونیورسٹی میں داخل ہوئے تو ڈاکٹر صاحب ہمیں بالکل بھی اچھے نہیں لگتے تھے! کیوں کہ ہمیں لگتا تھا کہ وہ زیادہ تر سینئر طلبہ کے جھرمٹ میں اور خاص طور پر طالبات کے جھرمٹ میں گھرے اُن کے مسائل سنتے نظر آتے تھے لیکن پھر آہستہ آہستہ ہم نے اُن کے مزاج کو سمجھا اور پھر ہم بھی اُن کے گرویدہ ہوگئے۔اور اس قدر ہوئے کہ ہم اُن کے لیے ماریں کھانے کے لیے بھی تیار ہوجاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں پنجاب یونیورسٹی میں تھا تو ایک جماعت کی طرف سے اُن کی بہت زیادہ کردار کشی کی مہم چلائی گئی،ایک دفعہ تواُنہیں مخصوص جماعت کے چند لڑکے اُن کے ہوسٹل کے باہر اُنہیں پیٹنے کے لیے کھڑے تھے تو مجھے یہ ”اعزاز“ حاصل ہوا کہ اُستاد محترم کے دل میں گھر کرنے کا اس سے اچھا موقع نہیں ہو سکتا، لہٰذامیں بھی اپنے چند دوستوں کے ساتھ اُن کے دفاع میں کھڑا ہوگیا اور مخالف گروپ وہاں سے چلا گیا! اور پھر اُس وقت سوشل میڈیا تو ہوتا نہیں تھااور پوسٹرز یا وال چاکنگ کے ذریعے ہی دل کی بھڑاس نکالی جاتی تھی، لہٰذااُن کے خلاف ایسے ایسے غیر اخلاقی پوسٹرز لگائے جاتے کہ طلبہ میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی، لیکن وہ خود ہی طلبہ کو تشدد سے منع کر دیتے، مثلاََ ایک دو پوسٹرز مجھے ابھی بھی یاد ہیں کہ ” مہدی حسن بھگاو¿ ملک بچاو¿!“ ”غدار ہے، غدار ہے ، مہدی حسن غدار ہے“ وغیرہ وغیرہ۔ حد تو یہ تھی کہ اس غیرموافق ماحول میں وائس چانسلر نے بھی انھیں عزیمت کے بجائے رخصت کی راہ اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کا جواب تھا کہ جماعت کا دائرہ نہر کے پل تک ہے، میرا دائرہ اثر اس کے بعد شروع ہوتا ہے۔ وہ مزاح کے بھی بڑے حامی تھے اور اکثر خود بھی مزاح سے دوسروں کو محظوظ کرتے تھے۔ ایک انٹرویو میں ڈاکٹر مہدی حسن بتاتے ہیں کہ 1964 کی بات ہے۔ طارق(پی ٹی وی کے مشہور پروگرام نیلام گھرکے اناﺅنسر طارق عزیز )ریڈیو میں ڈیڑھ سو روپے تنخواہ پر اناو¿نسر تھا۔ میں پی پی آئی سے وابستہ تھا اور میری تنخواہ 165 روپے تھی۔ بھاٹی گیٹ کے قریب ہم ایک کمرے میں رہتے، جس کا کرایہ میں دیتا کیونکہ میری تنخواہ طارق سے زیادہ تھی۔ اس زمانے میں کرائے کے کمروں میں پنکھوں کا رواج نہیں تھا۔ ایک روز گرمی نے طارق کو خاصا زچ کیا تو ہم لاءکالج کے پرنسپل کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ چھٹیوں میں اگر ایک کمرے میں ہمیں رہنے کی اجازت مل جائے تو مہربانی ہو گی، وہ مان گئے۔ برابر کے کمرے میں جمعدار گرمیوں کی چھٹیاں انجوائے کرتے۔ ایک دن ڈیوٹی سے واپس آیا تو طارق خلاف معمول جاگ رہا تھا، میں نے کہا سوئے نہیں؟ اور تم میری چارپائی پر کیوں ہو؟ میں نے دیکھا تو جمعدار میری چارپائی پر سو رہا تھا۔ میں نے طارق سے کہا اسے اٹھاو¿ تو اس نے بتایا کہ وہ کوشش کر چکا ہے اور شراب میں دھت اس بندے سے گالیاں کھا چکا ہے۔ میں نے کہا آو¿ اس کی چارپائی الٹاتے ہیں۔ ایسا کرنے پر وہ اٹھ کھڑا ہوا اور گالیاں دیتا چلا گیا۔ اس پر طارق نے کہا کہ جمعدار سے بھی گالیاں کھالیں، اس سے زیادہ ذلت کیا ہو گی، تو اب میرے دن بدلیں گے۔ اس کا کہا سچ ثابت ہوا، چند دن بعد پی ٹی وی کا آغاز ہوا تو طارق کو اناو¿نسر کی نوکری ملی، اور اس کی تنخواہ ڈیڑھ سو سے چھ سو روپے ہو گئی۔ لیکن اُس کے بعد ہمارا لائف سٹائل بدل گیا اور دوبارہ ہمیں کبھی کسی جمعدار نے گالیاں بھی نہیں دیں! ایک روشن دماغ تھا نہ رہا! بہرکیف ڈاکٹر مہدی حسن روشن دماغ تھے۔ روشن خیالی ان کے لیے ذہنی سرگرمی نہیں طرز زندگی کا درجہ رکھتی تھی۔ ڈاکٹر مہدی حسن بے باکی سے سچ کہنے والے اس قبیلے کے فرد تھے جو اب اس ملک میں معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ڈاکٹر مہدی حسن کس قدر پرخطر راہ کے مسافر تھے:اس کا اندازہ اُن کی تصانیف سے ہو جاتا ہے۔ انہوں نے تاریخ، صحافت، ابلاغ عامہ اور سیاسی جماعتوں پر بہت سی کتابیں تصنیف کیں، ان کی کتاب ”دی پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان“ کو صحافی اور پروڈیوسر بطور حوالہ استعمال کرتے ہیں۔ایک طویل عرصے تک انسانی حقوق کے کارکن اور انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کی گورننگ کونسل کے رکن کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر مہدی حسن نے اس موضوع پر بہت سے مقالے لکھنے کے ساتھ ساتھ متعدد سیمینارز میں بھی شرکت کی۔انہوں نے جامعہ پنجاب سے ابلاغ عامہ میں پی ایچ ڈی کیا تھا اور 1990 میں بولڈر کی یونیورسٹی آف کولوراڈو میں فلبرائٹ اسکالر تھے جس میں ان کی تحقیق کا موضوع ”امریکی ذرائع ابلاغ میں تیسری دنیا کے ممالک کی کوریج“ تھا، انہوں نے امریکا اور پاکستان میں کئی تحقیقی مقالے بھی شائع کیے۔ ان کا تدریسی کیریئر 50 سالوں پر محیط تھا۔انہوں نے شاندار کیریئر کے دوران انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن کے طور پر خدمات انجام دیں، وہ پاکستان کی ان ممتاز شخصیات میں سے ایک تھے جنہیں سیاسی تجزیے میں مہارت حاصل تھی اور وہ مختلف ٹی وی چینلز اور ریڈیو اسٹیشنز سے بھی بطور مبصر وابستہ رہے۔پنجاب یونیورسٹی کے بعد ایک نجی یونیورسٹی سے جرنلزم اور ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کے بانی ڈین کی حیثیت سے کئی برس کام کیا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے دو دفعہ چیئر پرسن منتخب ہوئے۔ پی ایف یو جے سے بھی مختلف حیثیتوں سے ان کی وابستگی رہی۔سابق وزیر خزانہ اور پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر مبشر حسن ان کے تایا زاد بھائی تھے۔ پیپلز پارٹی کن حالات میں قائم ہوئی اور اس نے کیسے مقبولیت حاصل کی وہ ان کے سامنے کی بات ہے۔ڈاکٹر مہدی حسن کی بامعنی اور باوقار زندگی ختم ہو گئی لیکن ان کے اس معاشرے کو بہتر بنانے کے خواب بکھر کر رہ گئے۔ وہ روادار، روشن خیال اور ترقی یافتہ معاشرے کے خواہاں تھے لیکن ان اعتبارات سے ہم نے معکوس سفر کیا۔وہ ہم سے بچھڑ تو گئے مگر اصول پسندی کا ایسا سبق دے گئے جو مجھ سمیت ہزاروں طلبہ کی زندگی میں پنپتا بھی رہے گا اور بڑھتا بھی رہے گا!دعا ہے اللہ تعالیٰ اُن کی اگلی منزلیں آسان کرے(آمین)