پی ایس ایل کا انعقادخوش آئند، مگر عوام پریشان!

ملک میں کھیلوں کی سرگرمیاں بحال نہیں ہوئی تھیں تو پورا ملک دعائیں مانگ رہا تھا کہ کسی طرح یہاں بین الاقوامی پلیئرز آئیں اور کھیلوں کی سرگرمیاں بحال ہوں، لیکن جیسے ہی سپورٹس کی سرگرمیاں بحال ہوئیں ناقص انتظامات کا پول کھل گیا،پورا شہر بند کر دیا گیا، عوام نے سب کچھ اپنے ملک کے لیے برداشت کیا ، یہاں تک بھی بات رہتی تو ٹھیک تھا، مگر آج سپورٹس سرگرمیاں خاص طور پر کرکٹ بحال ہوئے 6، 7سال ہوگئے مگر انتظامات میں بہتری تو دور کی بات اس حوالے سے عملی اقدامات سے بھی ہر کوئی گریزاں نظر آتا ہے۔ ان انتظامات میں سب سے بڑا مسئلہ بڑے بڑے شہروں میں ٹریفک کے مسائل ہیں۔ اور اتنے سال گزرنے کے باوجود سٹیڈیم کے گرد کھلاڑیوں کی رہائش کا بندوبست بھی نہیں کیا جا سکا۔ جبکہ پوری دنیا میں جہاں سٹیڈیم ہوں اُس کے قریب ترین ہی ہوٹلز بنائے جاتے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دنیا کے 150ممالک میں 50ہزار چھوٹے بڑے سٹیڈیم ہیں جہاں بین الاقوامی مقابلے منعقد کروائے جاتے ہیں، اور ان 50ہزار میں سے 48ہزار سٹیڈیم ایسے ہیں جن سے فائیو سٹار ہوٹلز کا فاصلہ واکنگ Distanceپر ہے۔یہ اس لیے ہے تاکہ کھیلیں اور عام زندگی ساتھ ساتھ چلتی رہے۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان میں تمام شہروں میں بنائے گئے سٹیڈیم اس انداز میں بنائے گئے ہیںکہ فائیو سٹار ہوٹلز کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی! اسی وجہ سے جب کھلاڑیوں کو سٹیڈیم تک لایا جاتا ہے تو پورا شہر بند کرنا پڑتا ہے۔ جس سے شہریوں کو کھیلوں کی سرگرمیاں بحال ہونے پر بجائے خوشی ہونے کے کوفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے آج کل پی ایس ایل کے ملک بھر میں چرچے ہیں، ہوں بھی کیوں ناں! پی ایس ایل دنیا بھر میں ایک برانڈ بن چکا ہے، جس میں شرکت کے لیے دنیا بھر کے کھلاڑی ہر سال بے تاب رہتے ہیں۔ یہ ٹورنامنٹ آج کل اپنے اختتامی مراحل کی جانب گامزن ہے، لیکن ٹریفک اور جگہ جگہ سڑکوں کی بندش نے 27جنوری سے لے کر آج تک کراچی اور لاہور کے شہریوں نے جس اذیت کا سامنا کیا وہ کسی عذاب سے کم نہیںہے۔ بلکہ اب تو یقین مانیں حالت ایسی ہو چکی ہے کہ جیسے ہی پی ایس ایل شروع ہوتا ہے یا کوئی ٹیم پاکستان آنے کا اعلان کرتی ہے توایک دھچکا سا لگ جاتا ہے،کہ اب ایک بار پھر خواری شروع ہونے والی ہے۔تبھی ہم سب سے پہلے ہم ”شیڈول“ چیک کرتے ہیں کہ کس کس دن کون کون سا شہر بند کیا جائے گا، مطلب کس کس دن کون کون سے شہر میں میچ ہوگا، تاکہ اپنا شیڈول بھی اُس کے مطابق رکھا جائے۔ اور پھر شہر بند کرنے کے حوالے سے یعنی ٹریفک جام کے حوالے سے اکیلا عام شہری ہی متاثر نہیں ہے بلکہ شہر کا ہر طبقہ متاثر ہو رہا ہے، حالانکہ سٹیڈیم کے اندر پی سی بی کا ایک ہوسٹل موجود ہے، جس کو اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے، پھر قذافی سٹیڈیم کے اندر اتنی جگہ ہے کہ وہاں ہوٹل بن سکتا ہے،اور پھر یہ ساتواں پی ایس ایل ہے، پہلا تو ہے نہیں کہ چیزیں بغیر کسی وجہ کے مس منیج ہو۔ اب تک پولیس ، وزارت داخلہ اور پی سی بی کی کوئی جوائنٹ کمیٹی نہیں بن سکی۔جو ان معاملات کو حل کرے، اور پھر اس حوالے سے بھی کوئی رحم نہیں کھا رہا کہ جن رہائشیوں کے قذافی سٹیڈیم کے قرب و جوار میں گھر ہیں ، اُن کے ساتھ ظلم ہورہا ہے، میچ کے شروع ہونے سے پہلے اور بعد میں جو لوگ اندر ہوں وہ باہر نہیں آسکتے، اور جو باہر ہوں وہ اندر نہیں آسکتے! پھرپی سی بی کو پولیس اہلکار عبدالمجید یاد نہیں ہوگا، جس کی قربانی کو ہی آج تک تسلیم نہیں کیا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان چیزوں کو صرف پیسہ کمانے کے لیے استعمال کرتے ہیں؟ جبکہ اس حوالے سے پی سی بی سے پوچھیں تو وہ وزارت داخلہ پر ملبہ ڈالتی ہے جبکہ وزارت داخلہ پی سی بی کی غلط منصوبہ بندی کو آڑے ہاتھوں لیتی نظر آتی ہے۔ ہمارے ہاں غلط منصوبہ بندی کا یہ عالم ہے کہ ایک میچ کے لیے سٹیڈیم کے باہر کم و بیش 20لاکھ افراد متاثر ہو رہے ہوتے ہیں،جہاں ٹیمیں ٹھہرتی ہیں اُس کے اطراف میں بھی اتنی ہی تعداد متاثر ہونے والوں کی نظر آتی ہے۔ حالانکہ دنیا بھر میں کوئی پولیس افسر سڑک بند کرکے اپنی کارکردگی ثابت نہیں کرتا۔ کوئی افسر یہ نہیں کہتا کہ ہم دس سڑکیں بند کرکے دس لوگوں کو مرنے سے بچا سکتے ہیں۔ یہ ایسا ہی ہے کہ آپ ڈکیتی کے خوف سے دکان ہی بند کر دیں یا پھر ٹریفک حادثے کے خوف سے گاڑی چلانا ہی چھوڑ دیں۔قارئین! حیرت ہوتی ہے کہ ہم جس چیز کی عادت بنا لیں اُسے اپنا حق سمجھنا شروع کر دیتے ہیں، جیسے پی سی بی کو یہ عادت پڑ گئی ہے کہ اُس نے جہاں بھی میچ کروانے ہیں وہاں کے سٹیڈیم سے ملحقہ تمام روڈز کو بلاک کر دیا جائے، اب اگر اگلے کئی سال کرکٹ ہونی ہے تو دیکھ لیجیے گا کہ یہی پریکٹس دہرائی جائے گی ! حالانکہ پاکستان میں کرکٹ بحال ہوئے6،7سال ہوگئے ہیں،اس عرصے میں پی سی بی نے پی ایس ایل سے ہی کروڑوںاربوں روپے کمائے ہیں، میرے خیال میں پی سی بی کو Manageکر لینا چاہیے۔کہ سٹیڈیم کے قریب فائیو سٹار ہوٹل بنا دیا جائے۔ بلکہ اب تو رمیز راجہ کی شکل میں قابل چیئرمین پی سی بی بھی اپنے جو ہر دکھا رہے ہیں ، اور شاید یہ اُنہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے کہ آسٹریلیا کی اے ٹیم پاکستان میں ایک لمبے عرصے بعد ٹیسٹ ، ون ڈے سیریز کھیلنے پاکستان آرہی ہے۔ لہٰذاوہ عوام کے بارے میں ضرور سوچتے ہوئے سٹیڈیم بنانے کا اعلان کریں! تاکہ عوام کو اس مشکل سے نکالا جائے اور پھر جیسا میں نے کہا کہ آسٹریلیا کی ٹیم پاکستان آرہی ہے تو حالات اس سے بھی زیادہ سخت ہو جائیں گے۔ حالانکہ اس کے برعکس اگر ہم ماضی پر نظر دوڑائیں تو ہمارے شہروں خصوصاََکراچی کی مہمان نوازی پوری دنیا میں مشہور تھی۔دنیائے کرکٹ کے عظیم کھلاڑی کراچی کے بازاروں میں شاپنگ کرتے نظر آتے تھے۔کراچی میں یہودی فیسٹیول بھی منعقد ہوتے تھے۔ 1982ءمیں نشاط سینما کے باہر لوگوں کا رش دیکھ کر دنیا حیران ہوتی تھی، یہ سینما2012ءمیں جلا دیا گیا تھا اور آج اس کے آثار دیکھ کر بھی دنیا حیران ہوتی ہے۔ پھر لاہور کی بات سن لیں ، لاہور کاٹریفک ہماری پولیس سے ویسے ہی نہیں سنبھالا جاتا اوپر سے قذافی اسٹیڈیم کے اردگرد کی تمام سڑکیں بند کردی جاتی ہیں۔ یہی نہیں ان سڑکوں کا ٹریفک دیگر سڑکوں اور چھوٹی چھوٹی گلیوں میں ”بے لگام “ چھوڑ دیا جاتا ہے۔ کہیں کوئی مناسب متبادل راستہ اوررہنمائی نہیں ملتی۔ سارا سارا دن عوام گاڑیوں کی طویل قطاروں میں شدید کرب اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ الغرض پاکستان میں اگر تفریح کا ماحول بن رہا ہے تو اُس میں اتنی زیادہ مس مینجمنٹ کیوں؟ کیا یہ تفریح ہے ؟ کیا کھیلوں کے بارے میں کسی حکومت نے سنجیدگی سے کبھی سوچا ہے؟ آپ مذکورہ بالا تینوں کرکٹ سٹیڈیم کے بارے میں سُن لیں کہ اُن کی معیاد بھی پوری ہو چکی ہے مگر ہم جدید سہولیات سے آراستہ نئے سٹیڈیم بنانے کے تیار نہیں ہیں۔ قذافی سٹیڈیم 1959ءیعنی آج سے 62 سال پہلے لاہور شہر سے باہر نہر کے قریب بنایا گیا تھا اس وقت اس کا نام لاہور سٹیڈیم تھا۔ 1974ئ میں اس کا نام بدل کر قذافی سٹیڈیم رکھا گیا کیونکہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس منعقدہ لاہور میں لیبیا کے صدر معمر قذافی نے پاکستان کے نیو کلیئر ٹیکنالوجی کے حصول کے حق کی بھرپور حمایت کی تھی۔ گزشتہ 62 سال میں لاہور نے جتنی تیز رفتاری سے ترقی کی ہے وہ سب کے سامنے ہے، اور قبضہ مافیا کا کردار بھی کبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا جس نے لاہور کے حقیقی حسن کو ہی برباد کر کے رکھ دیا اور تبھی آج ہم ٹریفک اور آلودگی کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جب قذافی سٹیڈیم میں کوئی میچ ہوتا ہے تو تماشائیوں کی پارکنگ کے لیے ایف سی کالج یونیورسٹی میں چھٹی کا اعلان کر دیا جاتا ہے صرف اس لیے کہ یونیورسٹی کو قذافی سٹیڈیم کے پارکنگ لاٹ کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔ویسے میرے خیال میں اگر یہ اقدام ٹھیک ہے تو ہمیں پنڈ کے چودھری کو سکول میں بھینس باندھنے سے نہیں روکنا چاہیے! خیر اب جبکہ قذافی سٹیڈیم لاہور کے وسط میں آچکا ہے توہم لاہور کے قذافی سٹیڈیم فیز2بنانے کی ضرورت ہے، جو شہر سے باہر کسی کھلی جگہ پر بنایا جائے اور 60 سال پرانے موجودہ سٹیڈیم کو کرکٹ اکیڈمی یا دیگر مقاصد کے لیے استعمال کیا جائے اس کے علاوہ اور کوئی حل نہیں۔ پھر کراچی کے نیشنل سٹیڈیم کی بات کر لیں یہ بھی 66سال پرانا ہے، یہ سٹیڈیم 1955ءمیں کرکٹ کی عالمی ٹیموں کی میزبانی شروع کر چکا تھا، یہاں پہلا ٹیسٹ کھیلنے بھارت کی ٹیم آئی تھی۔ نیشنل سٹیڈیم شہر کی آبادی سے باہر بنایا گیا تھا لیکن گلشن اقبال اور گلستان جوہر آباد ہونے کے بعد جب یونیورسٹی روڈ اور اطراف کے علاقے ویران سے گنجان ہو گئے تو نیشنل سٹیڈیم خود بخود شہر کے مرکز میں آگیا۔ جبکہ راولپنڈی سٹیڈیم کی تاریخ زیادہ پرانی تو نہیں مگر زیادہ نئی بھی نہیں ہے، اسے بنے ہوئے 37سال ہوگئے ہیںیہ سٹیڈیم بھی آہستہ آہستہ آبادیوں کے درمیان میں آچکا ہے۔اور اب تو حالیہ پاک آسٹریلیا سیریز میں راولپنڈی سٹیڈیم کو ایک ٹیسٹ تین ون ڈے اور ایک واحد ٹی ٹونٹی ملا ہے۔ جبکہ اس حوالے سے آپ خود دیکھ لیجیے گا کہ وہاں کیا حال ہوگا۔ بہرکیف اس مسئلے کا آسان حل ایک تو یہ ہے کہ سٹیڈیم کو شہری آبادی سے باہر لے جایا جائے ، اس کے قریب ہی غیر ملکی کھلاڑیوں کی رہائش کیلئے ہوٹل بھی تعمیر کیا جائے تاکہ کھلاڑیوں اورعوام کو کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، یا اگر فوری حل درکار ہے تو سٹیڈیم کے اندر یا ملحقہ اطراف میں ہی چالیس پچاس کمروں پر مشتمل گیسٹ ہاﺅس بنا لیں یا سٹیڈیم کے اندر ہی ہوسٹل کو اپ گریڈ کریں، یا پھر ٹیموں کو بذریعہ ہیلی کاپٹر سٹیڈیم میں لے کر جائیں تاکہ عوام اس ایونٹ کو انجوائے کریںاور کسی قسم کی پریشانی سے نہ گزریں۔ ہم رمیز راجہ صاحب سے اُمید کرتے ہیں کہ آئندہ کسی بڑے ٹورنامنٹ میں یا کسی بڑی سیریز میں ان بڑے شہروں میں یقینا کرفیو کا سما نہیں باندھا جائے گا اور شہریوں کو ریلیف دیا جائے گا تاکہ عالمی کرکٹ ٹیموں اور کھلاڑیوں کا ”استقبال“ کرتے کرتے عوام کو اس کھیل سے نفرت نہ ہو جائے!